2015-09-09
علمائے اسلام
متفرق
6993
| سال | مہینہ | تاریخ |
یوم پیدائش | 0604 | ربيع الأول | 06 |
یوم وصال | 0672 | جمادى الآخر | 05 |
مولائے روم شیخ جلال الدین رومی رحمتہ اللہ علیہ
نام ونسب:اصل نام محمد،لقب جلال الدین اورمولائے روم تھا ۔جواہر مضیہ میں سلسلہ نسب اس طرح بیان کیا ہے ! محمد جلال الدین بن محمدبہاؤالدین بن محمد بن حسین بلخی بن احمد بن قاسم بن مسیب بن عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابوبکرصدیق۔ (رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین)
تاریخ ِولادت: مولائے روم۔ ۶۰۴ھ مطابق ۱۲۰۷ءمیں پیدا ہوئے۔
تعلیم وتربیت:ابتدائی تعلیم اپنے والدِ ماجد شیخ بہاؤ الدین سے حاصل کی پھر انہوں نے اپنے مرید سید برہان الدین کو مولاناکا معلم اور اتالیق بنادیا۔ اکثر علوم مولانا کو انہی سے حاصل ہوئے۔ ۶۳۹ھ میں حلب کے مدرسہ حلاویہ میں فقہ اور مذاہب کے بہت بڑے عالم مولاناکمال الدین سے شرف تلمذ حاصل کیا۔ان کے علاوہ عالمِ اسلام کی عظیم ہستیوں شیخ سعدالدین حموی ، شیخ محی الدین ابن عربی ،شیخ شہاب الدین سہروردی،شیخ عثمان رومی ،شیخ اوحدالدین کرمانی ،شیخ صدرالدین قونوی (علیہم الرحمۃ والرضوان)سے اکتساب فیض کیا۔ یہاں تک کہ ۶۰۴ھ میں پیدا ہونے والا یہ مولودِ مسعود ۲۶ سال کی عمر میں مرجع خلائق بن گیا اور بڑے بڑے علما انکی طرف رجوع کرنے لگے۔
بیعت وخلافت: اپنے والد صاحب کے وصال کے بعد مولانا نے اپنا روحانی تعلق سید برہان الدین سے قائم کرلیا تھا۔ چنانچہ مثنوی میں مولانا نے ان کا تذکرہ اپنے پیر کی حیثیت سے کیا ہے۔جواہر مضیہ کی روایت کیمطابق شیخ شمس الدین کو ان کے مرشد بابا کمال الدین جندی نے یہ کہہ کر مولانا کے پاس بھیجا تھا کہ روم جاؤ وہاں ایک سوختہ دل ہے اس کو گرماؤ۔مولائے روم آپکی شخصیت وتعلیمات سے ایسے متأثر ہوئے کہ آپکے دست حق پرست پر بیعت ہوگئے۔
سیرت وتعلیمات:مولانا پر بچپن ہی سے سعادت مندی کے آثار نمایاں تھے۔جب خواجہ فرید الدین عطار مولائے روم کے والدشیخ بہاؤ الدین سے نیشاپور میں ملے اس وقت مولائے روم کی عمرتقریباً ۶ سال تھی۔ خواجہ صاحب نے آپکو دیکھ کر شیخ بہاؤ الدین سے فرمایا!‘‘اس صاحبزادے کے جوہر ِقابل سے غفلت نہ برتیے گا یہ مستقبل میں آفتاب ِ شریعت اور ماہتابِ طریقت ہوگا’’۔واقعی ایسا ہوا جیسے خواجہ صاحب نے فرمایا تھا ۔مولائے روم ،دانائے مغرب ،میں تواضع اور انکساری اس حد تک تھی کہ ایک راہب نے آپکی انکساری دیکھ کر اپنے رفقاء سمیت اسلام قبول کرلیا ۔ انتقال سے قبل مولانا نے اپنے اصحاب کو وصیت فرمائی !کہ سرًاو علانیۃًً اللہ سے ڈرتے رہنا، کھانے، سونے اور گفتگو میں کمی کرنا،گناہوں سے دور رہنا، روزے برابر رکھنا، رات کے قیام میں ہمیشگی اختیار کرنا، شہوتوں کو ہمیشہ کیلئے چھوڑ دینا، ہر طرح کے لوگوں کی جفاؤں کو برداشت کرنا،غافلوں اورجاہلوں کی ہم نشینی سے بچنا ، نیکوں اور بزرگوں سے مصاحبت رکھنا، بہترین انسان وہ ہے جو لوگوں کو نفع پہنچائے، اور بہترین کلام وہ ہے جو قلیل اور مکمل ہو۔تمام تعریف و توصیف اللہ جل شانہ کیلئے ہے جو عظمت والا ہے اور اس کےمحبوب حضرت محمد ﷺ پر سلام ہو۔
وصال:تقریباً ۶۶سال کی عمر میں یک شنبہ ۵/ جمادی الثانی/۶۷۲ھ،مطابق۱۷،دسمبر ۱۲۷۳ء کو مغرب کے وقت مولائے روم عالمِ آخرت کی طرف روانہ ہوگئے اور قونیہ کی پاک سرزمین آج بھی عقیدت مندوں کا مرکز ہے۔
//php } ?>