مولائے روم محمد جلال الدین رومی

نام و نسب:

محمد نام ،لقب جلال الدین اور شہرت مولائے روم کے عنوان سے ہے۔ نسب کا سلسلہ حضرتِ ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جاملتا ہے۔ محمد صرف مولانا ہی کانام نہیں ہے بلکہ مولانا کے والد اور دادا بھی مولانا کے ہمنام ہیں۔مولانا کے والد کا لقب بہاؤ الدین اور وطن بلخ ہے۔ شیخ بہاؤالدین بڑے صاحبِ علم و فضل بزرگ تھے اور پورے خراسان میں مرجعِ خلائق تھے۔ محمد خوارزم شاہ کا دورِ سلطنت تھا وہ خود شیخ بہاؤ الدین کے حلقہ بگوشوں میں تھا اور امام فخر الدین رازی کی معیت میں شیخ کے حلقہ میں حاضر ہوا کرتا تھا۔ شیخ کی مقبولیت عامہ جب حد سے بڑھی تو اسپر اور امام فخر الدین رازی کی طبیعتوں پر وہ بار بن گئی شیخ نے اس کو محسوس کیا اور ۶۱۰ھ میں شیخ وطن ترک کر کےنیشاپور چلے گئے۔ خواجہ فرید الدین عطار شیخ بہاؤ الدین سے نیشاپور میں ملے اس وقت مولانائے روم کی تقریباً ۶ سال کی عمر تھی۔ مولانا پر بچپن ہی سے سعادت مندی کے آثار نمایاں تھے۔ خواجہ صاحب نے مولانا کو دیکھ کر شیخ بہاؤ الدین سے فرمایا۔ ‘‘ان صاحبزادے کے جوہر قابل سے غفلت نہ برتیے گا’’۔ اور اپنی مثنوی اصرار نامہ مولانا کو پڑھنے کے لیے عنایت کی۔ شیخ نیشاپور سے بغداد پہنچے وہاں کچھ دن قیام کرکے حجاز اور شام ہوتے ہوئے زنجان پہنچے اور وہاں سے لارندہ کا رخ کیا لارندہ کے دورانِ قیام میں شیخ نے جبکہ مولانا کی عمر ۱۸ برس کی تھی مولانا کی شادی کردی اور یہیں مولانا کے فرزندِ رشید سلطان ولد پیدا ہوئے۔ بغداد کے دورانِ قیام میں مولانا کی شہرت روم علاؤ الدین کیقباد تک پہنچ چکی تھی۔ لارندہ کے قیام کے دوران میں علاؤ الدین کیقباد نے درخواس کی تو شیخ، قونیہ میں اس کے پاس تشریف لے آئے اور اپنی بقیہ زندگی قونیہ ہی میں گذار کر جمعہ کے دن ۱۸/ ربیع الثانی/۶۲۸ھ میں واصل بحق ہوگئے۔ مولانا رو م کی ولادت ۶۰۴ھ میں بلخ میں ہوئی تھی۔ تعلیم کے ابتدائی مراحل شیخ بہاؤ الدین نے طے کرادئیے تھے اور پھر اپنے مرید سید برہان الدین محقق کو جو اپنے زمانے کے بہت بڑے افاضل علماء میں سے تھے مولانا کا معلم اور اتالیق بنا دیا تھا۔ مولانا نے اکثر علوم و فنون انہی سے حاصل  کیے اور اپنے والد کی حیات تک اپنے والد ہی کی خدمت میں حاضر رہے۔ والد کے انتقال کے بعد ۶۲۹ھ میں شام کا قصد کیا۔ ابتداء حلب کے مدرسہ حلاویہ میں رہ کر مولانا کمال الدین مصنف تاریخ حلبی سے تلمذ کیا۔

مولانائے روم رحمۃ اللہ علیہ اپنے دور کے اکابر علماء میں سے تھے۔ فقہ اور مذاہب کے بہت بڑے عالم تھے۔ دیگر علوم میں بھی مولاناکو پوری دستگاہ حاصل تھی۔ دورانِ طالبعلمی ہی میں پیچیدہ مسائل میں علماءِ وقت مولانا کی طرف رجوع کرتے تھے۔ اپنے والد صاحب کے وصال کے بعد مولانا نے اپنا روحانی تعلق سید برہان الدین سے قائم کرلیا تھا۔ چناں چہ مثنوی میں مولانا نے ان کا تذکرہ اپنے پیر ہی کی حیثیت سے کیا ہے۔ مولانا کا یہ وہ دور ہے جس میں ظاہری علوم ہی کا غلبہ تھا۔ سماع سے احتراز کرتے تھے۔ درس و تدریس اور فتویٰ نویسی میں مشغول رہتے تھے۔

مولانا اور شمس تبریز:

مولانا کی زندگی کا دوسرا دور شمس کی ملاقات کے بعد سے شروع ہوتا ہے۔ مولانا کی  زندگی میں شمس تبریز کی ملاقات کا واقعہ جس قدر اہم ہے اسی قدر یہ واقعہ معرضِ خفا میں ہے۔ جواہر مضیۂ کے بیان کے مطابق تو واقعہ کی صورت یہ ہے کہ مولانا ایک روز اپنے شاگردوں کے حقلہ میں رونق افروز تھے ۔ چاروں طرف کتابوں کے ڈھیر تھے کہ اچانک شمس تبریز قلندرانہ انداز سے آپہنچے اور کتابوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مولانا سے دریافت کیا کہ یہ کیا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ یہ وہ چیز ہے جس سے تم واقف نہیں ہو۔ مولانا کا یہ فرمانا تھا کہ اچانک کتابوں میں آگ لگ گئی۔ مولانا نے شمس تبریز سے کہا کہ یہ کیا ہے توانہوں نے جواب دیا کہ یہ وہ چیز ہے جس سے تم واقف نہیں ہو اور یہ کہہ کر مجلس سے روانہ ہوگئے۔ اس واقعہ سے مولانا کی حالت دگرگوں ہوگئی، تمام گھربار اور شان و شوکت کو خیر باد کہا اور صحرا نوردی شروع کردی ملک کے گوشوں میں شمس تبریز کو تلاش کرتے پھر سے لیکن ان کا کہیں پتہ نہ چلا۔ مولانا کے مرید چوں کہ مولانا کی اس کیفیت سے سخت پریشان تھے کہتے ہیں کہ مولانا کے کسی مرید نے شمس تبریز کو مارڈالا۔

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ شمس تبریز کو ان کے پیر بابا کمال الدین جندی نے یہ کہہ کر مولانا کے پاس بھیجا تھا کہ روم جاؤ دہاں ایک سوختہ دل ہے اس کو گرماآؤ۔ شمس تبریز قونیہ پہنچے شکر فروشوں  کی سرائے میں مقیم ہوئے اور ایک دن جبکہ مولانا نہایت تزک و احتشام سے ایک راستہ سے گذر رہے تھے۔ شمس تبریز نے مولانا سے سرِ راہ دریافت کیا کہ مجاہد اور ریاضت کا کیا مقصد ہے؟ مولانا نے فرمایا اتباعِ شریعت۔ شمس تبریز نے کہا یہ تو سب ہی جانتے ہیں لیکن اصل مقصد علم و مجاہدے کا یہ ہے کہ وہ انسان کو منزل تک پہنچادے اور پھر حکیم سنائی کا یہ شعر پڑھا؎

علم کز تو ترانہ بستاند   
جو علم تجھے تجھ سے نہ لےلے

جہل زاں علم بہ بود بسیار
اس علم سے جہل بہتر ہے

ان جملوں سے مولانا اس قدر متاثر ہوئے کہ فوراً  شمس تبریز کے ہاتھ پر بیعت ہوگئے۔ ایک ورایت یہ بھی ہے کہ مولانا کسی حوض کے کنارے کتب بینی میں مصروف تھے وہاں شمس تبریز آگئے اور مولانا سے دریافت کیا کہ یہ کیا کتابیں ہیں؟ مولانانے فرمایا کہ تمہیں ان کتابوں سے غرض۔ اس پر شمس تبریز نے وہ کتابیں حوض میں پھینک دیں۔ مولانا کو سخت رنج ہوا اور فرمایا کہ میاں درویش تم نے ایسی چیزیں ضائع کردیں جن میں نادر نکتے تھے اور اب ان کا ملنا محال ہے۔ اس پر شمس تبریز نے وہ کتابیں خشک حالت میں حوض سے نکال کر مولانا کے سامنے رکھ دیں۔ مولانا حیران ہوئے تو شمس تبریز نے کہا یہ حال کی باتیں ہیں تم ساحبِ قالِ ان کو کیا جانو۔ اس کےبعد مولانا، شمس تبریز کے ارادتمندوں میں داخل ہوگئے۔

ابن بطوطہ کا بیان ہے کہ ایک حلوہ فروش مولانا کی درسگاہ میں آیا۔ مولانا نے بھی اس سے حلوہ کی ایک قاش خرید کر کھائی جس سے مولانا کے احوال یکسر بدل گئے۔ بے اختیار اٹھے اور گھر بار چھوڑ کر نکل گئے ایک عرصہ تک گم رہے۔ واپس ائے تو بالکل خاموش تھے جذبہ میں کسی وقت بولتے تو زبان پر اشعار جاری ہوجاتے۔ یہی اشعار  ہیں جو خوبصورت مثنوی آج ہمارے سامنے موجود ہیں۔ ان تمام واقعات سے وہ واقعہ قرینِ عقل ہے جو سپہ سالار نے قلمبند کیا ہے۔ سپہ سالار مولانا کے خاص مرید ہیں اور تقریباً چالیس ۴۰ سال تک مولانا کے فیضِ صحبت سے مستفیض ہوتے رہے ہیں ، لکھتے ہیں ۔ شمس تبریز ولد علاؤ الدین کیا بزرگ کے خاندان سے تھے جو کہ اسمٰعیلیہ فرقہ کا امام تھالیکن انہوں نے آبائی مذہب ترک کردیا تھا۔ علومِ ظاہری حاصل کرنے کے بعد بابا کمال الدین کے مرید ہوگئے تھے۔ تاجرانہ حیثیت سے زندگی بسر کرتے تھے، کمر بند بن کر اپنا گذارہ کرتے تھے۔ ایک روز انہوں نے دعا کی کہ خدا کوئی ایسا شخص عطا فرمائے جو میری صحبت کا متحمل ہوسکے غیبی اشارہ ہوا کہ روم جاؤ وہاں ایک شخص مل جائے گا، شمس تبریز قونیہ پہنچ کر برنج فروشوں کی سرائے میں مقیم ہوگئے وہاں ایک اونچا چبوترہ تھا جہاں شہر کے عمائد اور اُمراء کا مجمع ہوجایاکرتا تھا۔ شمس تبریز بھی اس مجمع میں جابیٹھتے تھے۔ مولانا کو شمس تبریز کی آمد کا حال معلوم ہوا تو ملاقات کے لیے پہنچے، شمس تبریز کی آنکھیں چار ہوئیں تو ایک دوسرے کو سمجھا۔ شمس تبریز نے پورچھا کہ مولانا، بایزید بسطامی کے بارے میں مشہور ہے کہ تمام عمر انہوں نے خربوزہ نہیں کھایا کیوں کہ ان کو یہ معلوم نہیں ہوسکا تھا کہ آں حضورﷺ نے خربوزہ کس طریقہ سے کھایا ہے۔ یہ تو تھا ان کا اتّباع سنت کا جذبہ، دوسری طرف مشہور ہے کہ بایزید فرماتے تھے ‘‘سُبْحَانِیْ مَا اَعْظَمَ شَاْنِی’’ اللہ اکبر میری شان کس قدر بڑی ہے، حالاں کہ آں حضورﷺ باوجود اپنی جلالتِ شان کے فرماتے ہیں میں ہر دن میں ستر مرتبہ اپنی مغفرت کی دعا مانگتا ہوں۔ اب ان دونوں باتوں کو کس طرح منطبق کیا جاسکتا ہے؟ مولانا نے فرمایا کہ بایزید بسطامی اگر چہ بہت بڑے بزرگ تھے لیکن وہ منازل تقریب میں ایک مقام پر ٹھہر گئے تھے اور اس مرتبہ کی عظمت کے اثر سے ان کی زبان سے اس طرح کے الفاظ نکل جاتے تھے اور آں حضورﷺ برابر منازل طے کرتے جاتے تھے اور جب اونچی منزل پہنچتے تو نیچے کی منزل اس قدر پست نظر آتی تھی کہ اس پر استغفار کرتے تھے۔

سپہ سالار کے بیان کے مطابق اس کے بعد مولانا اور شمس تبریز دونوں، صلاح الدین زرکوب کے حجرے میں چالیس ۴۰ روز تک چلہ کش رہے۔ اس عرصہ میں کھانا پینا بالکل ترک کردیا تھا اور صلاح الدین زرکوب کے علاوہ حجرے میں کوئی داخل نہ ہوسکتا تھا۔ اس کے بعد مولانا کے احوال بالکل بدل گئے۔ پہلے سماع سے محترز تھے اب اس کے بغیر کو چین نہ آتا تھا۔ مسندِ تدریس اور فتویٰ نویسی بالکل ترک کردی اور ایک لمحہ کے لیے بھی شمس تبریز سے جدا ہونا گوارا نہ کرتے تھے۔ اس سے اہلِ شہر میں شمس تبریز کے خلاف شورش بپا ہوئی اور شمس تبریز قونیہ چھوڑ کر دمشق کر چل دئیے۔ مولانا شمس تبریز کی جدائی سے بے چین ہوئے اور مولانا نے اس جدائی میں نہایت رقت آمیز اشعار کہنے شروع کردیئے اس پر اہل شہر اور مولانا کے مریدوں کو ندامت ہوئی اور طے کیا گیا کہ شمس تبریز کو واپس لایا جائے۔ چناں چہ مولانا کے بڑے صاحبزادے سلطان ولد کی قیادت میں ایک قافلہ دمشق کو روانہ ہوا اور سلطان ولد نے مولانا ایک منظوم خط شمس تبریز کی خدمت میں پیش کیا۔ شمس تبریز متاثر ہوئے اور قافلہ کے ساتھ قونیہ واپس آگئے اور تقریباًً دو۲ سال قونیہ میں رہے اس کےبعد شمس تبریز کا انجام کیا ہوا؟ اس میں مختلف روایات ہیں کچھ صاحبان کہتے ہیں کہ مولانا کے صاحبزادے علاؤ الدین چلپی سے آزردہ خاطر ہوکر غائب ہوگئے اور پھر کچھ پتہ نہ چلا کچھ صاحبان کا بیان ہے کہ علاؤ الدین کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔

ایک مغالطہ اور اس کا ازالہ:

شمس تبریزی جو مولانائے روم کی پیر ہیں ان کے کچھ حالات ہم نے سپردِ قلم کردئیے ہیں۔ ان کا انجام کیا ہوا، خود وفات پوئی یاشہید کئے گئے اس بارے میں ہم مختلف باتیں تحریر کر چکے ہیں۔ ان کی قبر کے بارے میں مختلف روایات ہیں لیکن یہ طے ہے کہ ہندوستان سے ان کی قبر کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایک مشہور قبر شمس تبریز کے نام سے ملتان کے علاقہ میں موجود ہیں وہ یقیناً ان شمس تبریز کی نہیں ہے جو مولانائے روم کے پیر تھے اس لیے یہ بزرگ ساتویں صدی کے تھے اور ہندوستان میں جو صاحب مدفون ہیں یہ دسویں گیارھویں کے ہیں۔ اس سلسلہ میں ہم خواجہ حسن نظامی دہلوی مرحوم کی دہ عبارت نقل کرتے ہیں جو منشی محمد الدین فوق نے  ‘‘حالاتِ شمس تبریز’’ نامی کتاب میں نظام المشائخ کے حوالے سے نقل کی ہے۔

حضرت شمس (مولاناروم کے پیر) کےوالد کی نسبت بیان کیا گیا ہے کہ وہ فرقہ اسماعیلیہ سے تعلق رکھتے تھے اور حضرت شمس نے یہ مذہب ترک کردیا تھا مجھ کو اس دعوے کے قبول کرنے میں تامل ہے کیوں کہ اسماعیلی فرقہ سے تعلق رکھنے والے شمس دوسرے گذرے ہیں جن کا مزار ملتان میں ہے۔عوام ملتانی شمس تبریزی کوہی حضرت مولانائے روم کامرشد سمجھتے ہیں حالاں کہ یہ غلط ہے۔ یورپین مورخین کو غالباً اسی روایت کی وجہ سے غلط فہمی ہوئی ہے۔

ملتانی شمس تبریز کوتین ۳۰۰سو برس کا عرصہ گذرا ہے۔ یہ اسماعیلی فرقہ کے داعی بن کر ہندوستان میں آئے تھے۔ ان کے ہمراہ دو شخص اور تھے۔ ایک کانام پیر صدرالدین اور دوسرے کا نام پیر امام الدین تھا۔ صدر الدین نے اضلاع سندھ و بمبئی میں دعوت شروع کی اور امام الدین اور دوسرے کانام پیر امام الدین تھا۔ صدرالدین نے اضلاع سندھ بمبئی میں دعوت شروع کی اور امام الدین نے گجرات و کاٹھیاوار میں۔ شمس الدین سیدھے پنجاب چلے آئے اور یہاں اپنا مشن جاری کیا۔ سندھ اور بمبئی میں جس قدر آغا خانی خوجے ہیں وہ سب صدر الدین کی کوشش سے مسلمان ہوکر آغاخانی (اسماعیلی) جماعت میں شامل ہوئے۔  امام الدین نے اول اول تو بحیثیت اسماعیلی داعی کےکام کیا مگر چند روز کے بعد وہ خود مختارہوکر اپنا علیحدہ طریقہ امام شاہی جاری کردیا۔امام شاہی طریقہ کے اصول بھی قریب قریب اسماعیلی تھے لیکن وہ خود اپنے تئیں نائبِ امام اور مظہرِ ذاتِ مولیٰ علی بیان کرتے تھے۔ امام الدین کا مزار مقام پیرانہ میں ہے جو احمد آباد گجرات کےقریب ایک قصبہ ہے۔ آج امام شاہی جماعت میں کم از کم پندرہ بیس لاکھ آدمی ہوں گے جن میں کچھ تو ظاہری طور پر مسلمان ہوگئے ہیں جن کا لقب مومن ہے باقی گپتی یعنی پوشیدہ ہیں اور ان کو اپنے عقائد ظاہر کرنے کا حکم نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اگر ایک گرھ میں چار۴ ہندو رہتے ہیں اور ان میں سے تین امام شاہی ہیں تو چوتھے کو خبر نہ ہوگی۔ پیرانہ میں ان کی خانقاہیں بنی ہوئی ہیں اور گدی ہندو مہمنت کے اختیار ہے۔ جو بظاہر ہندو ہے اور بباطن امام شاہی۔ اس مہنت کے سینکڑوں داعی ہندوانہ لباس میں اپنے مشن کو پھیلانے اور جماعت سے عشر اور نذرو نیاز وصول کرنے کے لیے دورے کرتے رہتے ہیں۔ مہنت، پیر امام الدین کی اولاد میں اس عشر اور نذرو نیاز میں معقول حصہ تقسیم کرکے باقی خانقاہ کے اخراجات میں صرف کردیتا ہے۔ اسی خانقاہ میں جینؤ کی درگاہ بنی ہوئی ہے ۔ یعنی جو گپتی ظاہری طریق سے مسلمان ہونا چاہتے ہیں وہ اپنا جینؤ اس درگاہ میں چڑھا کر مسلمان ہوجاتے ہیں اور پھر ان کو مومن کالقب مل جاتا ہے۔

شمس الدین تبریزی نے جن کا مزار ملتان میں ہے پنجاب کے کمہاروں اور سناروں میں اپنا طریقہ رائج کیا اور لوگوں کو شمسی ہندو کا لقب دیا۔ شمسی ہندو براہِ راست آغا خاں کے متقد بنائے گئے ہیں اور سالانہ نذر نیاز اب تک آغا خاں ہی کو دیتے ہیں۔ ان کی تعداد تیس لاکھ کے قریب صوبہ پنجاب میں ہے۔ ملتانی شمس تبریزی نے کن طریقوں سے اپنا عقیدہ پھیلایا اور کیسے کیسے عجیب و غریب واقعات عوام کی زبانوں پر ان کی نسبت مشہور ہیں ان کے لکھنے کو ایک علیحدہ مضمون کی ضرورت ہے۔ بالفعل یہ بتانا مقصود ہے کہ حضرت شمس تبریزی (مولانا روم کے پیر) کو اسماعیلی گروہ سے کوئی تعلق نہیں۔ اسماعیلی شمس تبریز ملتان میں اور مولانا والے شمس تبریز سے سینکڑوں برس بعد ہوئے ہیں۔

صلاح الدین زرکوب:

شمس تبریز کی جدائی کے بعد مولانا پر سکر کی کیفیت طاری رہنے لگی۔ اس اضطراب میں پابجولاں رہتے تھے۔ ایک دن صلاح الدین زرکوب کی دوکان کے سامنے سے گذر رہے تھے اور وہ چاندی کے ورق کوٹ رہے تھے۔ مولانا پر ان کے ہتھوڑے کی آواز نے سماع کا اثر پیدا کردیا وہیں کھڑے ہوگئے اور وجد کی حالت طاری ہوگئی۔ تھوڑی دیر بعد صلاح الدین بھی زرکوبی کا شغل چھوڑ کر مولانا سے بغلگیر ہوگئے۔ مولانا یہ شعر پڑھ رہے تھے؎

یکے گنجے پدیدآمد ازیں دکان زرکوبی

زہے صورت زہے معنیٰ زہے خوبی زہے خوبی

اس زرکوبی کی دوکان سے ایک خزانہ مل گیا

عجب صورت عجب معنیٰ خوبی جب خوبی

دونوں بزرگ جوش ومستی کی حالت میں ظہر سے عصر تک اسی وجدی کیفیت میں مبتلا رہے۔ اس کے بعد صلاح الدین نے اپنی ساری دکان لٹادی اورمولانا کے ساتھ ہولئے۔ صلاح الدین پہلے بھی صاحب حال بزرگ تھے سید  برہان الدین محقق سے بیعت تھے اور اس طرح پر مولانا کے ہم استاد تھے۔ اب مولانا کو صلاح الدین کی صحبت میں سکون میسر آنے لگا اور مولانا کی اور صلاح الدین کی صحبتیں گرم ہونے لگیں۔ نو ۹برس تک ان صحبتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ ۶۶۲ھ میں جب صلاح الدین کا انتقال ہوگیا تو مولانا نے اپنے مریدِ خاص حضرت حسام الدین چلپی کو اپنا ہمدم اور ہمراز بنا لیا اور مولانا کو ان سے اس درجہ تعلقِ خاطر پیدا ہوا کہ ان کا ذکر ایسے الفاظ سے کرنے لگے جیسا کہ کوئی اپنے مرشد و پیر کا کرتا ہے پھر بھی حسام الدین مولانا کا اس قدر احترام کرتے تھے کہ مولانا کے وضو خانہ میں وضو کرنا بھی گستاخی تصویر کرتے تھے اور برف باری کے وقت بھی اپنے گھر جاکر وضو کرکے آتے تھے۔ یہی حسام الدین ہیں جو مولانا کے مثنوی لکھنے کا باعث ہوئے ہیں اورمولانا نے ہر دفتر میں کہیں مطلعِ میں کہیں دوسری جگہ نہایت عزت و احترام سے ان کا ذکر کیا ہے۔ ۶۷۲ھ میں قونیہ میں بہت شدت کا زلزلہ آیا ۔ تقریباً چالیس روز تک اس کے جھٹکے محسوس ہوتے رہے۔ اہلِ شہر نے مولانا سے اس پریشانی کا ذکر کیا تو مولانا نے فرمایا زمین بھوکی ہے کوئی تر لقمہ چاہتی ہے اور انشاء اللہ کامیاب ہوگی۔ چند روز بعد مولانا کا مزاج ناساز ہوا چند اطباء نے معالجہ کی تدبیریں کیں لیکن کوئی سود مند نہ ہوئی۔ مولانا مرض کی طرف بالکل متوجہ نہ ہوتے تھے۔ بیماری کی شہرت عام ہوئی تو شیخ صدر الدین جو شیخ محی الدین ابن عربی کے ترتیب یافتہ تھے اور روم و شام میں مرجع انام تھے، مزاج پرسی کے لیے تشریف لائے۔ مولانا کے مرض کی کیفیت دیکھ کر بیقرار ہوگئے اور مولانا کی شفا کے لیے دعا کرنے لگے ۔ مولانا نے سنا تو فرمایا شفا آپ کو مبارک ہو۔ محب اور محبوب میں صرف ایک پیرہن کا پردہ رہ گیا ہے کیا آپ نہیں چاہتے کہ وہ اٹھ جائے اور نور نور میں مل جائے۔ اس پر شیخ روتے ہوئے اٹھ کر چلے گئے اور سمجھ گئے کہ اب مولانا کا دم واپسیں ہے چناں چہ یک شنبہ کے دن ۵/ جمادی الثانی/۶۷۲ھ کو مغرب کے وقت مولانا ہر مذہب و ملت کے لاکھوں انسانوں کو روتا ہوا چھوڑ کر عالمِ آخرت کی طرف روانہ ہوگئے اور قونیہ کی پاک سرزمین میں ہمیشہ کے لیے روپوش ہوگئے۔

مولانا اور فرقہ مولویہ:

مولانا اپنی زندگی میں بکثرت مجاہدہ اور ریاضت کرتے تھے دس دس (۱۰،۱۰)اور بیس بیس (۲۰،۲۰) دن روزہ رکھتے تھے اور مطلقاً کچھ نہ کھاتے تھے، نماز کا وقت آتا تو فوراً قبلہ رخ ہوجاتے اور چہرے کا رنگ بدل جاتا۔ نماز میں اس درجہ استفراق ہوتا تھا کہ بقول سپہ سالار اکثر عشاء کے بعد دو۲ رکعت نفل کی نیت باندھتے تھے اور ان ہی دو ۲ رکعتوں میں صبح کردیتے تھے خود مولانا  نے اپنی ایک غزل کے مقطع میں اپنی نماز کی اِستغفراقی کیفیت کو بیان کیا ہے ؎

بخدا خبر ندارم چو نماز گذارم

کہ تمام شد رکوعے کہ امام شد فلانے

جب میں نماز پڑھتا ہوں خدا کی قسم مجھے

یہ نہیں معلوم رہتا کہ رکوع پورا ہوگیا ہے، اما کون ہے

ایک روز نماز میں اس قدر روئے کہ تمام چہرہ اور داڑھی آنسوؤں سے تر ہوگئی اور سرمائی شدت کی وجہ سے آنسو جم کریخ ہوگئے۔ بسااوقات مولانا پر سکر کی کیفیت طاری ہوتی تھی تو اس حالت میں شریعت کے ظاہری احکام کا ہوش نہ رہتا تھا، بیٹھے بیٹھے یکبارگی اٹھ کھڑے ہوتے تھے اور رقص کرنے لگتے تھے، کبھی خاموشی سے کسی ویرانے کی طرف نکل کھڑے ہوتے تھے اور ہفتوں کی تلاش کے بعد مریدوں کو ملتے تھے۔ سماع کی مجلس میں کئی کئی دن مد ہوشی کی حالت میں گذر جاتے تھے۔ راستہ چلتے کوئی آواز کان میں پڑتی تھی توبسا اوقات وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ سماع کی مجلسوں میں اکثراپنے کپڑے اتار قوالوں کی نذر اوقات وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔  سماع کی مجلسوں میں اکثر اپنے کپڑے اتار کرقوالوں کی نذر کردیتے تھے۔

یہ ظاہر ہے کہ کسی بزرگ کی سُکری حالت کے افعال عام مریدوں کے لیے شمع راہ نہیں بنتے ہیں اور نہ وہ قابلِ اتباع ہوتے ہیں لیکن آج مولانا کے نام پر جو فرقہ مولو یہ یا جلالیہ کہلاتا ہے اور شام، مصر اور قسطنطنیہ وغیرہ میں ان کی خانقاہیں ہیں۔مولانا کی صرف سکری حالت کا اتباع کرتے ہیں، خاص قسم کا لباس پہنتے ہیں اور خاص قسم کار قص ان کے حلقوں میں ہوتا ہے۔ شریعت اور اس کے احکام سے دور اور ان سے نابلد رہتے ہیں۔ شاہ بو علی قلندر پانی پتی رحمہ اللہ علیہ بھی ایک عرصۂ دراز تک مولانا کی صحبت میں رہے اور ہندوستان کا فرقہ قلندر یہ بھی ایک درجہ میں مولانا کی طرف منسوب ہوتا ہے۔

مولاناکی  تصانیف:

فیہ مافیہ۔ یہ مولانا کے ان خطوط کا مجموعہ ہے جو مولانا نے وقتاً فوقتاً معین الدین پروانہ کو لکھتے ہیں۔ معین الدین پروانہ، رکن الدین قلیج ارسلان شاہِ قونیہ کے حاجب تھے اور دربار کے سیاہ سید کے مالک تھے۔ ان کومولانا سے بہت عقدی تھی اور اکثر و بیشتر مولانا کی خدمت میں نیاز مندانہ حاضر ہوا کرتے تھے۔ ایک بار چند اُمراء کے ساتھ مولانا کے یہاں پہنچے تو اُمراء سے طبعی نفرت کی بناپر مولانا چھپ گئے۔ معین الدین کے دل میں خیال آیا کہ اُمراء اسلام تو اولو الامر ہیں اور قرآن مجید کے محکم کے اعتبار سے ان کی اطاعت فرض ہے۔ تھوڑی دیر بعد مولانا باہر تشریف لے آئے اور گفتگو کے اثناء میں فرمانے لگے۔ ایک دفعہ سلطان محمود غزنوی، شیخ ابو الحسن خرقانی کی ملاقات کوگیا۔ درباریوں نے بڑھ کر شیخ کو سلطان کو آمد کی خبر دی لیکن شیخ متوجہ نہ ہوئے۔ حسن میمندی جو سلطان کا وزیر تھا۔ اس نے شیخ سے کہا کہ حضرت قرآن مجید میں اَطِیْعُوا اللہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ آیا ہے اور سلطان تو الوالامر ہونے کے ساتھ عادل اور نیک بھی ہے۔ شیخ نے فرمایا کہ مجھے تو ابھی اَطِیْعُوا اللہَ سے ہی فرصت نہیں ملی کہ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ میں مشغول ہوں اور اولو الامر کا تو ذکر ہی کیا ہے۔ یہ سن کر معین الدین اور تمام امراء روتے ہوئے اٹھ کرچلے گئے۔

مولانا کی یہ کتاب بالکل نایا ب تھی لیکن گذشتہ سالوں میں مولانا عبدالماجد دریا بادی مدظلہ نے اس کو دریافت کیا اور اس کی ترتیب و تہذیب کرکے ۱۹۲۸ء میں شائع کردیا ہے۔ مولانا نے اس کتاب کے دیباچہ میں تحریر فرمایا ہے رضا لائبریری رامپور میں ۱۹۲۰ء میں ان کی نظر سے اس کتاب کا ایک بوسیدہ اورکرم خوردہ نسخہ گذرا پھر ۱۹۲۳ء میں حیدر آباد دکن میں انہیں دو نسخے ملے جن میں سے ایک کتب خانہ آصفیہ کا تھا۔ مقابلہ کرنے پر کتب خانہ آصفیہ کا نسخہ زیادہ صحیح ثابت ہوا۔ پھر انہوں نے پروفیسر نکلسن کی طرف رجوع کیا۔ نکلسن صاحب نے یہ نسخہ قسطنطنیہ بھیجا وہاں اس پر تحقیق ہوئی اور ۱۹۲۴ء میں ایک صاف نقل مولانا یا دربادی کو مل گئی جس کی انہوں نے اشاعت کی۔ اس کے بعد پھر اس کتاب کا ایرانی اڈیشن بھی بھی منظر عام پر آگیا۔

دیوان:

عوام اس کوشمس تبریزکا دیوان سمجھتے ہیں حتیّٰ کہ لوح پر دیوان شمس تبریز لکھ دیتے ہیں۔ مغالطہ کی بنیاد یہ ہے کہ مولانا نے اکثر غزلوں کے مقطع میں شمس تبریز کا نام ڈال دیا ہےلیکن دراصل یہ خود مولانا کا دیوان ہے اس میں پچاس ہزار اشعار ہیں۔ محققین نے تصریح کی ہے کہ مولانا نے یہ دیوان خود شمس تبریز کے نام سے لکھا ہے۔ چناں چہ اکثر شعراء نے اس دیوان کی غزلوں پر غزلیں لکھی ہیں اور مقطع میں تصریح کی ہے کہ یہ غزل مولانا کی غزل کے جواب میں ہے علی حزیں کہتے ہیں:۔

ایں جوابِ غزلِ مرشد روم ست کہ گفت

من ببوئے تو خوشم نافۂ تاتارمیگر

 دوسرا مصرع مولانا کا ہے۔ پورا شعر اس دیوان میں موجود ہے۔

من بکوئے تو خوشم خانۂ من ویراں کن

من ببوئے تو خوشم نافۂ تاتار مگیر

مثنوی:

مولانا کی اسی کتاب نے مولانا کو حیاتِ جاوداں عطا کی ہے۔ اس کتاب کی مقبولیت اور ہر دلعزیزی اس قدر بڑھی کہ تمام ایرانی تصانیف اس کے مقابلہ میں ہیچ ہوکر رہ گئیں۔ اس مثنوی کے کل اشعار کی تعداد ۲۶۶۶ ہے مشہوریہ ہے کہ مولانا نے چھٹا دفترنا تمام  چھوڑ دیا تھا اور فرمایا تھا۔

باقیِ ایں گفتہ اید بے زباں

دردلِ ہرکس کہ دارد نورِ جاں

جس شخص کی جان میں نور ہوگا

اس مثنوی کا بقیہ حصہ اس کے دل میں خود بخود آجائیگا

چناں چہ اس پیشین گوئی کا مِصداق بننے کے لیے ہندوستان کے ارباب علم و فضل نے بھی مثنوی کے طرز پر دفتر ہفتم لکھا ہے۔ ہمارے علم میں مفتی الہٰی بخش  کا ندھلوی رحمۃ اللہ علیہ کا دفتر ہفتم اور جو اِسی بحر اور طرز میں منظوم کیا گیا ہے لیکن تحقیق یہ ہے کہ خود مولانا ہی نے کچھ عرصہ بعد دفتر بششم مکمل کرکے دفتر ہفتم تحریر فرمایا ہے۔

مثنوی کے لغوی معنیٰ تو دو ۲ والا ہیں، اصطلاح میں اس نظم کو مثنوی کہا جاتا ہے جس کے ہر شعر میں دو ۲ قافیہ ہوں ایک پہلے مصرع میں ایک دوسرے مصرع میں۔ مولانا کی اس مثنوی کی مثنوی معنوی بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ اس میں عالمِ معنیٰ اور احوالِ باطن کے اسرار و معارف کا تذکرہ ہے۔ مسائلِ تصوف اور سرار و معارف کے بیان میں سلطان ابو سعید ابو الخیر کی رباعیات بھی مشہور ہیں۔ حکیم سنائی رحمۃ اللہ علیہ نے حدیقہ لکھا جو تصوف کی پہلی منظوم کتاب ہے۔ خواجہ فرید الدین عطار نے تصوف کے موضوع پر مختلف مثنویاں تحریر فرمائیں جن میں منطق الطیر کو زیادہ شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ لیکن اب اس موضوع پر سب سے زیادہ اہمیت مولانا روم کی مثنوی ہی کو حاصل ہے۔ اس مثنوی کی تصنیف کا سبب مولانا کے مرید حسام الدین چلپی بنے ہیں۔ چناں چہ مولانا نے دفترِ اول کے علاوہ ہر دفتر میں ان کا ذکر کیا ہے۔ دفتر ختم ہوا تو حسام الدین کی بیوی کا انتقال ہوگیا۔ اس حادثہ سے حسام الدین اس درجہ متاثر ہوئے کہ دو برس تک افسردہ خاطراور پریشان رہے۔ مولانا بھی اس عرصہ میں خاموش رہے اور مثنوی کا کام رک گیا۔ پھر جب خود حسام الدین نے استدعا کی مولانا نے مثنوی کے دوسرے دفتر کی ابتدا کی اور فرمایا۔

مثنوی کی شہرت اور مقبولیت:

ایران کی چار کتابوں کو جس قدر شہرت حاصل ہوئی وہ ایرانی کتب میں سے کسی کو حاصل نہ ہوسکی۔ شاہ نامہ فردوسی، گلستانِ سعدی، دیوانِ حافظ، مثنوی مولانا رروم۔ ان میں سے بھی مثنوی کو جو قبول عام حاصل ہوا بقیہ تین کتابوں کو حاصل نہ ہوسکا۔ اس کی بڑی دلیل یہ ہے کہ افاضل علماء نے جس قدر مثنوی کی طرف توجہ کی اور کسی کتاب کی طرف نہ کی۔ اس مثنوی کی بڑی بڑی ضخیم شرحیں لکھیں گئیں کشف الظنون میں جن کا ذکر ہے۔ ان کے علاوہ مولانا شبلی نے اپنی کتاب سوانح مولانا روم میں محمد افضل الہ آبادی، ولی محمد، مولانا عبدالعلیٰ سجر العلوم اور محمد رضا کی شرحوں کا ذکر کیا ہے۔

 

 


متعلقہ

تجویزوآراء