مولائے روم محمد جلال الدین رومی

 

اسم گرامی بہاءالدین محمد قدس سرہٗ تھا۔ مولا اپنے والد سے بیعت تھے فقر میں بلند مقام کے مالک تھے آپ نے اپنا دارالعلوم جاری کیا تو اس میں ہرروز چار سو (۴۰۰) طلباء درس لیتے تھے آپ کے اشعار مضامین معرفت اور توحید سے پُر تھے ولی مادر زاد تھے چھ سال کی عمر میں تین دن کے بعد روزہ افطار فرماتے۔

نفحات الانس میں لکھا ہے کہ آپ کی عمر ابھی چھ سال ہی تی کہ جمعہ کے دن چند ہم عمر بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے یہ لڑکے کوٹھے کی چھت پر تھے ایک لڑکے نے کہا۔ آؤ ہمسایوں کی چھت پر چھلانگ لگائیں حضرت رومی نے کہا یار یہ عادت تو کتوں اور بلیوں کی ہے آؤ آسمان کی طرف چھلانگ لگائیں یہ کہہ کر آپ نے آسمانوں کی طرف پروانہ کی بچّوں کی نظروں سے غائب ہوگئے بچوں نے شور مچایا مگر چند ملحوں بعد آپ واپس آگئے اور اپنے ساتھیوں کو کہا جب میں نے تم سے بات کی تو میں نے دیکھا کہ سبز پوشوں کی ایک جماعت اڑتی آئی مجھے اٹھایا اور آسمانی بلندیوں میں لے گئے جب تمہاری آواز بلند ہوئی تو مجھے واپس چھوڑ گئے۔

مولٰینا سراج الدّین قونیوی اگرچہ صاحب علم شریعت تھے اور طریقت میں بھی یکتائے روزگار تھے مگر مولٰینا روم سے خوش نہیں تھے جب انہوں نے سنا کہ مولانا رومی نے کہا ہے کہ میں تہتر (۷۳) فرقوں میں سے ایک ہوں تو انہوں نے فیصلہ کیا  کہ مولانا کو دکھ دے کر بے عزت کیا  جائے آپ نے اپنی مجلس میں بیٹھنے والے ایک شخص کو کہا تم جاؤ اور مولانا سے یہ سوال کرو کہ کیا واقعی انہوں نے یہ بات کہی ہے اگر وہ مان جائیں تو گالیاں دینا وہ شخص گیا مولٰینا سے پوچھا آپ نے کہا ہے کہ میں تہتر مذہبوں میں سے ایک ہوں آپ نے فرمایا ہاں اس نے گالیاں دینا شروع کردیں آپ نے بڑے حوصلے سے برداشت کیا اور کہا اس کے باوجود جو تم کہہ رہے ہو اُن میں سے ایک ہوں وہ شخص شرمندہ ہوا اور آپ کے پاؤں میں گر پڑا۔

عمر کے آخرین حصہ میں آپ اپنے دوستوں کو کہا کرتے تھے کہ میرے انتقال کرنے پر غم زدہ نہ ہونا میں ہر وقت اور ہرن آن تمہارے ساتھ ہی ہوں گا میرے روح کے دوتعلق ہیں ایک جسم کے ساتھ اور ایک تمہارے ساتھ جب میں جسم کی قید سے آزاد ہوگیا تو میرے دونوں تعلقات تمہارے ساتھ ہوجائیں گے یاد رکھو حضرت منصور حلّاج کے نور نے ڈیڑھ سو سال کے بعد شیخ فرید الدین عطار پر تجلی کی اور ان کے مرشد بن گئے میرا نور ہر وقت تم پر جلوہ افگن رہے گا۔

حضرت مولٰینا روم مکہ مکرمہ میں تشریف لے گئے راستہ میں نیشا پور میں قیام فرمایا اور حضرت خواجہ فریدالدین عطار سے ملاقات ہوئی انہوں نے آپ کو کتاب اسرارنامہ دی آپ ہمیشہ اس کا مطالعہ کرتے رہتے[۱]۔

[۱۔شیخ حسام الدین چلپی شیخ صلاح الدین زر کوب کے انتقال کے بعد حضرت مولانا کی مجالس میں شریک ہوئے اور حضرت کے مزاج کو متاثر کر کے مثنوی کی تکمیل کا ذریعہ بنے آپ کی تحریک پر مولانا کی یہ کتاب مکمل ہوئی حضرت مولانا روم نے بھی آپ کو بڑا سراہا اور جابجا آپ اس جذبہ کا تذکرہ کیا۔

اے حسام الدین حسام الحق بیا                    یا            اے حسام الدین تو دیدی حال او

آپ مولانا روم کے رفیق مجالس ہی نہ تھے مزاج شناس رومی بھی تھے جامی لکھتے ہیں ایک دن حسام الدین نے مولانا کو بتایا حضرت جس مجلس میں اہل دل آپ کی مثنوی پڑھتے ہیں تو میں دیکھتا ہوں کہ اس مجلس پر انوار کی بارشیں ہوتی ہیں فرشتوں کی ایک جماعت حلقہ بناکر بڑے اثرات کو اس مجلس سے دور رکھتی ہے جو شخص مثنوی کو خلوص و محبت سے نہیں سنتا۔ رجال الغیب اسے ہٹا دیتے ہیں مولانا نے سن کر فرمایا یہ بات بالکل سچی ہے۔ ]

حضرت مولٰینا روم کی ولادت بتاریخ ششم ماہ ربیع الاوّل ۶۰۴ھ میں ہوئی وفات بوقت غروب آفتاب پنجم جمادی آلاخریٰ ۶۷۲ھ کو ہوئی آپ کا مزار گوہر بار قونیہ میں ہے۔

جلال الدّین رومی اہل دل پیر
بگو قطب کمال عار فان است
۶۰۴ھ
وصالش شاہ دین نور الٰہی
۶۷۴ھ

 

کہ روشن بود از نورِ تجلیٰ
پے تولید آن شاہ معلّی

جلال متقی محبوب فرما
۶۷۴ھ

(خزینۃ الاصفیاء)


متعلقہ

تجویزوآراء