مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مولوی ہرگز نہ شدمولائے روم
حالاتِ زندگی: مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ
پیدائش: مولانا رومی 1207ء بمطابق 6 /ربیع الاول/ 604ھ میں پیدا ہوئے۔
آپکابچپن: مولانا جلال الدین رومی رحمتہ اللہ علیہ بہت بڑے صوفی ،عارف باللہ ، متکلم اسلام، اور تمام کمالات انسانیہ سے موصوف بھی۔ ان کو علماءو مشائخ دونوں میں بڑی مقبولیت حاصل رہی۔ مولانا کی عمر ابھی چھ برس کی تھی کہ ایک جمعہ کو بلخ میں شہر کے لڑکوں کے ساتھ چھت پر سیر کر رہے تھے کہ ایک لڑکے نے کہا آؤاس چھت سے دوسری چھت پر کودیں۔ مولانا رحمتہ اللہ علیہ نے ہنس کر جواب دیا کہ یہ تو کتے بلی اور دوسرے جانور بھی کر سکتے ہیں۔ اگر قوت روحانی ہے تو آسمان پر چلو اور منازلِ ملکوت کی سیر کرو یہ کہتے ہی نظروں سے غائب ہو گئے‘ لڑکے چلانے لگے آپ ظاہر ہو گئے اور فرمایا کہ جس وقت میں تم سے بات کر رہا تھا سبز قبا والوں کی ایک جماعت مجھے تمہارے درمیان سے اٹھا لے گئی بروجِ آسمان اور عجائب عالم روحانی کی سیر کرائی ۔جب تمہارے چلانے کی آواز پہنچی تو مجھے پھر یہاں پہنچا دیا۔ مولانا کے والد رحمتہ اللہ علیہ جب بلخ کو ترک کر کے بغداد میں آئے اور مدرستہ مصتنصریہ میں قیام فرما تھے تو آپ نصف شب میں پانی طلب کیا کرتے تھے مولانا اٹھ کر جاتے دروازہ از خود کھل جاتا اور دجلہ سے پانی لے آتے۔ واپس آتے تو دروازہ پھر بند ہو جاتا ۔ دربان نے جب بار بار یہ حالت دیکھی لوگوں سے ذکر کیا اور حضرت بہاؤالدین متفکر ہوئے اور دربان کو خاموشی کی نصیحت کی ۔
جلال الدین رومی،دنیا بھر میں مولانا روم کے نام سے مشہور ہوئے۔ ۶۱۰ ھ میں اُن کے والد گرامی شیخ بہاؤالدین نیشاپور ہجرت کر گئے۔ جلال الدین رومی کی عمر ۶ سال تھی جب ان کے والد انھیں ساتھ لے کر نیشاپور کے مشہور بزرگ شیخ فریدالدین عطار سے ملاقات کرنے گئے۔ فریدالدین نے ننھے محمد کو دیکھ کر شیخ بہاؤالدین سے فرمایا !"مولانا اس کی تربیت میں غفلت نہ برتنا، آگے چل کر یہ مسلمانوں کا بہت بڑا امام بنے گا اور اس کا نام رہتی دنیا تک قائم رہے گا"۔ جلال الدین رومی نے ابتدائی علوم کی منازل اپنے والد سے ہی طے کرلی تھیں۔ اس کے بعد اپنے اتالیق سید برہان الدین کی شاگردی اختیار کی۔ ۶۲۹ھ میں شام تشریف لے گئے۔ وہاں شیخ سعدی اور شیخ محی الدین ابن عربی کے حلقے کے صوفیوں سے کسب فیض کیا۔ پھر حلب کے مدرسے حلاویہ میں رہ کر مولانا کمال الدین کے سامنے زانوئے تلمذ (شاگردی) تہ کیا۔یہاں تک کہ ۶۰۴ھ میں پیدا ہونے والا یہ بچہ محض ۲۶ سال کی عمر میں مرجع خلائق بن گیا اور بڑے بڑے علما اس کی طرف رجوع کرنے لگے۔
یوں تو حسنِ خلق کا کوئی شعبہ ایسا نہ ہو گا جس کی بہترین مثال مولانا رحمتہ اللہ علیہ کی ذات میں موجود صفات میں نظر نہ آتی ہو مگر آشتی اور صلح پسندی کا وصف آپ کے تمام اوصاف میں سب سے زیادہ نمایاں وصف تھا۔ اس وصف کی وجہ آپ اکثر بڑے بڑے فتنوں کو ٹال دیتے تھے۔
تواضع کی کیفیت یہ تھی کہ ایک راہب مولانا رحمتہ اللہ علیہ کے علم و حلم کی شہرت سن کر قسطنطنیہ سے بغرض ملاقا ت آیا۔ اتفاقاً راستے میں ملاقات ہو گئی۔ اس نے پے در پے تیس مرتبہ مولانا کے سامنے سر جھکایا اور جب سر اٹھایا تو دیکھا کہ مولانا سر جھکائے ہوئے ہیں۔ اس نے پریشان ہو کر کہا آخر تواضع کی کوئی حد بھی ہے مولانا رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا جب ہمارے سلطانِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ” طُوبٰی لِمَن تَوَاضَعَ“۔تو میں کیونکر تواضع نہ کروں۔ وہ راہب مع اپنے رفقاءکے مسلمان و مرید ہو گیا۔ مدرسہ میں جب تشریف لائے تو فرمایا کہ آج ایک راہب چاہتا تھا کہ تواضع اور مسکنت میں بازی لے جائے ‘ الحمد للہ کہ میں ہی غالب رہا۔
عفو ودر گزر کا یہ عالم تھا کہ ایک روز مولانا اپنے حجرہ میں نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک شخص نے آ کر کہا کہ میں محتاج ہوں جب مولانا رحمتہ اللہ علیہ کو نہایت مستغرق دیکھا تو قالیچہ (قالین کا ٹکڑا)پاؤں کے نیچے سے نکال کر لے گیا۔ خواجہ فخر الدین مراغی نے دیکھ لیا اور اس کے پیچھے چلے وہ شخص بازار میں قالیچہ کو فروخت کر رہا تھا انہوں نے لعنت اورملامت کرنا شروع کی اور اسے مولانا رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں لائے ‘ مولانا نے فرمایا اس شخص نے انتہائی محتاج ہونے کی وجہ سے ایسا کیا ہے اسے معذور سمجھو بلکہ اس سے خرید لو۔
معرفت کی طرف رغبت: اتنی شہرت کے باوجود دل میں ایک کسک سی باقی تھی اور نامعلوم شے کی کمی محسوس ہوتی تھی۔ اُدھر ایک مردِخدا باباکمال الدین جندی کو جب مولانا کے تمام حالات کا علم ہوا تو انھوں نے اپنے مریدِخاص حضرت شاہ شمس تبریز کو حکم دیا کہ روم جاؤ اور ایک سوختہ دل کو گرما آؤ۔ سو وہ قونیہ پہنچے اور شکرفرشوں کی سرائے میں قیام فرمایا۔ ایک دن مولانا جلال الدین راستے سے گزر رہے تھے کہ حضرت شمس سے ملاقات ہوگئی۔ حضرت شمس نے سرِراہ دریافت فرمایا کہ مجاہدے اور ریاضت کا کیا مقصد ہے؟ مولانا نے جواب دیا ’’اِتباعِ شریعت۔‘‘شمس تبریز نے کہا، یہ تو سبھی جانتے ہیں لیکن اصل مقصد مجاہدے اور ریاضت کا یہ ہے کہ وہ انسان کو منزل تک پہنچا دے۔ پھر حکیم سنائی کا شعر پڑھا جس کا ترجمہ ہے ’’ایسا علم جو تجھے تجھ سے نہ لے لے، اس سے جہالت بہتر ہے‘‘۔ شمس تبریز سے مولانا کی ملاقات کے متعلق ایک دوسری حکایت بھی ملتی ہے، جس کے مطابق مولانا حوض کے کنارے بیٹھے درس و تدریس میں مشغول تھے کہ حضرت شمس تبریز وہاں پہنچے اور وہاں موجود کتب کی طرف اشار کرکے فرمایا ’’یہ کیا ہے؟‘‘۔ مولانا نے جواب دیا ’’یہ وہ علم ہے جس کا تجھے نہیں پتا (ایں علم است و تو نمی دانی)۔ حضرت شمس تبریز نے ساری کتابیں حوض میں پھینک دیں۔ مولانا نے فرمایا۔یہ تو نے کیا کردیا؟ ایسی قیمتی کتب تو بادشاہوں کے خزانوں میں بھی نہ ہوں گی۔ یہ سن کر حضرت شمس تبریز نے ہاتھ ڈال کر حوض میں سے ساری کتب ایک ایک کرکے خشک حالت میں نکال لیں اور ساتھ ساتھ کتابوں پر ہاتھ مار کر گرد جھاڑتے جاتے تھے۔ مولانا نے پوچھا، یہ کیا ہے؟ تو حضرت شمس تبریز نے جواب دیا کہ یہ وہ علم ہے جس کا تجھے نہیں پتا (ایں علم است و تو نمی دانی)۔اس کے بعد مولانا حضرت شمس کے مرید ہوگئے۔ مولانا خود فرماتے ہیں:
؏:مولوی ہرگز نہ شُد مولائے روم ۔تا غلامِ شمش تبریزی نہ شُد ۔
یعنی جب تک میں حضرت شمس تبریزی علیہ الرحمہ کا غلام نہیں بنا تھا،اس وقت تک میں ایک مولوی تھا۔ان کی غلامی کی بدولت مولائے روم بن گیا۔اس کے بعد مولانا روم نے درس و تدریس کی تمام مجالس ترک کردیں اور حضرت شمس کے ہی ہو کر رہ گئے ۔
ایک مغالطہ اور اس کا ازالہ:
شمس تبریزی جو مولائے روم کےپیر ہیں ان کی قبر کے بارے میں مختلف روایات ہیں لیکن یہ طے ہے کہ ہندوستان سے ان کی قبر کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایک مشہور قبر شمس تبریز (عوام میں یہ غلط مشہور کردیا گیا ہے در اصل اسکا نام شمس سبزواری ہے۔یہ اسماعیلی رافضی تھے)کے نام سے ملتان کے علاقہ میں موجود ہیں وہ یقیناً ان شمس تبریز کی نہیں ہے جو مولانائے روم کے پیر تھے اس لیے یہ بزرگ ساتویں صدی کے تھے اور ہندوستان میں جو صاحب مدفون ہیں یہ دسویں گیارھویں کے ہیں۔ اس سلسلہ میں ہم خواجہ حسن نظامی دہلوی مرحوم کی دہ عبارت نقل کرتے ہیں جو منشی محمد الدین فوق نے ‘‘حالاتِ شمس تبریز’’ نامی کتاب میں نظام المشائخ کے حوالے سے نقل کی ہے۔
"حضرت شمس (مولاناروم کے پیر) کےوالد کی نسبت بیان کیا گیا ہے کہ وہ فرقہ اسماعیلیہ سے تعلق رکھتے تھے اور حضرت شمس نے یہ مذہب ترک کردیا تھا مجھ کو اس دعوے کے قبول کرنے میں تامل ہے کیوں کہ اسماعیلی فرقہ سے تعلق رکھنے والے شمس دوسرے گذرے ہیں جن کا مزار ملتان میں ہے۔عوام ملتانی شمس تبریزی کوہی حضرت مولانائے روم کامرشد سمجھتے ہیں حالاں کہ یہ غلط ہے۔ یورپین مورخین کو غالباً اسی روایت کی وجہ سے غلط فہمی ہوئی ہے۔
ملتانی شمس تبریز کوتین ۳۰۰سو برس کا عرصہ گذرا ہے۔ یہ اسماعیلی فرقہ کے داعی بن کر ہندوستان میں آئے تھے۔ ان کے ہمراہ دو شخص اور تھے۔ ایک کانام پیر صدرالدین اور دوسرے کا نام پیر امام الدین تھا۔ صدر الدین نے اضلاع سندھ و بمبئی میں دعوت شروع کی اور امام الدین اور دوسرے کانام پیر امام الدین تھا۔ صدرالدین نے اضلاع سندھ بمبئی میں دعوت شروع کی اور امام الدین نے گجرات و کاٹھیاوار میں۔ شمس الدین سیدھے پنجاب چلے آئے اور یہاں اپنا مشن جاری کیا۔ سندھ اور بمبئی میں جس قدر آغا خانی، خوجے ہیں وہ سب صدر الدین کی کوشش سے آغاخانی (اسماعیلی) جماعت میں شامل ہوئے۔ امام الدین نے اول اول تو بحیثیت اسماعیلی داعی کےکام کیا مگر چند روز کے بعد وہ خود مختارہوکر اپنا علیحدہ طریقہ امام شاہی جاری کردیا۔امام شاہی طریقہ کے اصول بھی قریب قریب اسماعیلی تھے لیکن وہ خود اپنے تئیں نائبِ امام اور مظہرِ ذاتِ مولیٰ علی بیان کرتے تھے۔ امام الدین کا مزار مقام پیرانہ میں ہے جو احمد آباد گجرات کےقریب ایک قصبہ ہے۔ آج امام شاہی جماعت میں کم از کم پندرہ بیس لاکھ آدمی ہوں گے جن میں کچھ تو ظاہری طور پر مسلمان ہوگئے ہیں جن کا لقب مومن ہے باقی گپتی یعنی پوشیدہ ہیں اور ان کو اپنے عقائد ظاہر کرنے کا حکم نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اگر ایک گھر میں چار۴ ہندو رہتے ہیں اور ان میں سے تین امام شاہی ہیں تو چوتھے کو خبر نہ ہوگی۔ پیرانہ میں ان کی خانقاہیں بنی ہوئی ہیں اور گدی ہندو مہمنت کے اختیار ہے۔ جو بظاہر ہندو ہے اور بباطن امام شاہی۔ اس مہنت کے سینکڑوں داعی ہندوانہ لباس میں اپنے مشن کو پھیلانے اور جماعت سے عشر اور نذرو نیاز وصول کرنے کے لیے دورے کرتے رہتے ہیں۔ مہنت، پیر امام الدین کی اولاد میں اس عشر اور نذرو نیاز میں معقول حصہ تقسیم کرکے باقی خانقاہ کے اخراجات میں صرف کردیتا ہے۔ اسی خانقاہ میں جینؤ کی درگاہ بنی ہوئی ہے ۔ یعنی جو گپتی ظاہری طریق سے مسلمان ہونا چاہتے ہیں وہ اپنا جینؤ اس درگاہ میں چڑھا کر مسلمان ہوجاتے ہیں اور پھر ان کو مومن کالقب مل جاتا ہے۔
شمس الدین سبزواری جن کا مزار ملتان میں ہے پنجاب کے کمہاروں اور سناروں میں اپنا طریقہ رائج کیا اور لوگوں کو شمسی ہندو کا لقب دیا۔ شمسی ہندو براہِ راست آغا خاں کے معتقد بنائے گئے ہیں اور سالانہ نذر نیاز اب تک آغا خاں ہی کو دیتے ہیں۔ ان کی تعداد تیس لاکھ کے قریب صوبہ پنجاب میں ہے۔ ملتانی شمس تبریزی نے کن طریقوں سے اپنا عقیدہ پھیلایا اور کیسے کیسے عجیب و غریب واقعات عوام کی زبانوں پر ان کی نسبت مشہور ہیں ان کے لکھنے کو ایک علیحدہ مضمون کی ضرورت ہے۔ بالفعل یہ بتانا مقصود ہے کہ حضرت شمس تبریزی (مولانا روم کے پیر) کو اسماعیلی گروہ سے کوئی تعلق نہیں۔ اسماعیلی شمس تبریز ملتان میں اور مولانا والے شمس تبریز سے سینکڑوں برس بعد ہوئے ہیں۔(مقدمہ مثنوی)
مثنوی شریف:
مولائے روم اگر کسی وقت بولتے تو منہ سے خوبصورت اشعار نکلتے جو ان کے ایک مریدِخاص ساتھ ساتھ لکھتے جاتے۔ یہی اشعار آج ہمارے سامنے مثنوی کی صورت میں موجود ہیں۔ مثنوی یہی کتاب ہے جس نے مولانا کے نام کو آج تک زندہ رکھا ہوا ہے اور جس کی شہرت اور مقبولیت نے ایران کی تمام تصانیف کو دبا لیا ہے۔ اس کے اشعار کی مجموعی تعداد ، جیسا کہ کشف الظنون میں ہے 2666 ہے ۔ مشہور یہ ہے کہ مولانا نے چھٹا دفتر ناتمام چھوڑ تھا اور فرمایا تھا کہ
باقی ایں گفتہ آید بی گماں۔در دل ہر کس کہ باشد نور جاں
اس پیشن گوئی کے مصداق بننے کے لیے اکثروں نے کوششیں کیں اور مولانا سے جو حصہ رہ گیا تھا اسے پورا کیا ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مولانا نے بیماری سے نجات پا کر خود اس حصے کو پورا کیا تھا اور ساتواں دفتر لکھا تھا جس کا مطلع یہ ہے۔
اے ضیا الحق حسام الدیں سعید۔دولتت پائندہ عمرت بر مزید
مثنوی کی شہرت اور مقبولیت:
مثنوی کو جس قدر شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی ، فارسی کی کسی کتاب کو آج تک نہیں ہوئی۔ صاحب مجمع الفصحاء نے لکھا ہے کہ ایران میں چار کتابیں جس قدر مقبول ہوئیں ، کوئی نہیں ہوئی۔شاہ نامہ۔گلستانِ سعدی۔مثنوی مولاناروم۔دیوانِ حافظ۔ان چاروں کتابوں کا موازنہ کیا جائے تو مقبولیت کے لحاظ سے مثنوی کو ترجیح ہوگی۔ مقبولیت کی ایک بڑی دلیل یہ ہے کہ علماء و فضلا نے مثنوی کے ساتھ جس قدر اعتنا کی اور کسی کتاب کے ساتھ نہیں کی ہے۔ مثنوی روم مولانا جلال الدین رومی کی اور بھی کئی تصانیف ہیں ،لیکن جو شہرت دوام ’’مثنوی‘‘ کو ملی، دوسری کتب اس سے محروم ہی رہیں۔ آج بھی جہاں جہاں مسلمان اور فارسی زبان سے واقفیت رکھنے والے موجود ہیں، ان کی یہ کتاب نہ صرف پڑھی اور سمجھی جاتی ہے بلکہ مختلف زبانوں میں اس کے تراجم بھی ہو چکے ہیں۔ اپنی اس کتاب میں آپ نے حکایات کا سہارا لے کر تصوف کے دقیق سے دقیق مسائل کو بھی انتہائی آسان طریقے سے قاری کو ذہن نشین کروایا ہے جیسے وہ کوئی عام سا مسئلہ ہو۔اس کا ہر ایک شعر سوزوگداز میں گْندھا ہوا اور پڑھنے والے کے دل میں اترتا جاتا ہے۔ اپنی شاعری میں مولانا جگہ جگہ انسانیت سے محبت کا درس دیتے نظر آتے ہیں۔ انھوں نے لوگوں کو بتایا کہ بدکار سے بدکار شخص سے بھی محبت کریں نہ کہ نفرت۔ نفرت کے لائق تو اس کا عمل ہے نہ کہ وہ خود۔ آپ فرماتے ہیں کہ کسی انسان کے ظاہر کو دیکھ کر اْسے بْرا نہیں سمجھنا چاہیے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ اللہ کا مقبول ترین بندہ ہو۔ اس سلسلے میں ۲ حکایات پیشِ خدمت ہیں:
حکایت نمبر ۔1
حضرت عمرفاروقؓ کے زمانے میں ایک سارنگی بجانے والا گوّیا تھا۔ اتنا خوشنوا کہ بلبل بھی اس کی آواز سے مست ہو جائے۔ اس کی آواز گویا مردوں میں جان ڈال دیتی۔ اس کی ساری عمر سارنگی بجاتے گزر گئی۔ یہاں تک کہ ۷۰ سال کا ہوگیا۔ خوشنوائی رخصت ہوگئی، آواز بھدی ہوگئی، ہاتھ کانپنے لگے اور دو وقت کی روٹی سے تنگ آگیا۔ اسے ایک دن خیال آیا کہ ساری عمر لوگوں کے لیے سارنگی بجائی۔ چند کوڑیوں کے لیے لوگوں کو خوش کرتا رہا۔ کیوں نہ آج خالقِ حقیقی کو راضی کرلوں ۔ یہ سوچ کر وہ مدینہ کے قبرستان چلا گیا اور رونےلگا۔ اس حالت میں اسے نیند آگئی اور وہ سو گیا۔اللہ رب العزت کو اس کی یہ ادا اتنی زیادہ پسند آئی کہ حضرت عمرؓ کو باحالتِ نیند الہام کیا کہ میرا ایک بندہ قبرستان میں پڑا ہے۔ بیت المال سے ۷۰۰ درہم لے کر اسے دے آئو۔ عمرفاروقؓ ۷۰۰ درہم لے کر وہاں پہنچے۔ سارنگی والے کو دیکھ کر اسے فاسق و فاجر سمجھ کر کسی اور بندے کو تلاش کرنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے دوبارہ انھیں الہام کیا کہ یہی میر اوہ بندہ ہے۔ آپ نے اسے جگایا تو وہ آپ کو سامنے دیکھ کر ڈر گیا کہ گناہگار بندہ ہوں اور محتسب سر پر آگیا ہے، لیکن آپ اسے کوئی سزا دینے کے بجائے ۷۰۰ درہم دیتے اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ نے تمھارے لیے بھیجے ہیں۔ وہ بڑا شرمندہ ہوتا ہے اور خدا کے حضور عرض کرتا ہے کہ اے مولیٰ…! تو کتنا رحمان و رحیم ہے۔ میں نے ۷۰ سال تک تیری نافرمانی میں زندگی گزاری اور تو نے پھر بھی مجھے یاد رکھا۔ وہ پھر تائب ہوگیا اور سارنگی توڑ دی۔ قارئین کرام! غور فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ کتنا دیالو ہے۔ ایک بندہ جو ۷۰ سال اللہ کی نافرمانی کرتا رہا محض سارنگی بجانے پر اس کو یہ انعام دیا کہ امیرالمومنین کو اس کے پاس بھیجا۔ ۷۰۰ دینار دے کر اس کے ضمیر کو ایسا کچوکا لگایا کہ وہ خودبخود تائب ہوگیا۔ لہٰذا بندہ چاہے جتنا بھی گناہگار ہو جب اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے تو وہ جو اسے ۷۰ مائوں سے زیادہ پیار کرنے والا ہے، اس کی پکار کو ضرور سنتا ہے۔
حکایت نمبر 2۔
ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ کسی ملک کا ایک بادشاہ تھا۔ اس نے ایک نہایت خوبصورت باز پال رکھا تھا جس سے وہ شکار کا کام لیتا تھا۔ باز اس کا وفادار اور اس کے اشاروں پر چلنے والا تھا۔ ایک دن وہ گم ہوگیا۔ تلاش کے باوجود بھی نہ ملا۔ بادشاہ نے ملک بھر میں ڈھنڈورا پٹوا دیا۔ باز کی تلاش شروع ہوگئی۔ اْدھر باز ایک بْڑھیا کی جھونپڑی میں چلا گیا۔ بْڑھیا ناسمجھ اور جاہل تھی۔ اس نے باز کو دیکھا تو کہا، تو کِن ناسمجھ لوگوں کے ہتھے چڑھ گیا ہے؟ جنھوں نے تیرے پروں کی تراش خراش کی نہ تیرے ناخن کاٹے اور نہ تیری ٹیڑھی چونچ کو سیدھا کیا۔ سو اس نے باز کی چونچ، پروں اور ناخن کو کاٹ دیا اور اسے بالکل بے کار کردیا۔ بادشاہ کے کارندے باز کو ڈھونڈتے ہوئے بْڑھیا کی جھونپڑی تک پہنچے اور باز کو لے کر بادشاہ کی خدمت میں پیش کرکے سارا ماجرا بیان کیا۔بادشاہ بہت رویا اور باز سے کہنے لگا تیرا یہی علاج تھا جو بْڑھیا نے کردیا۔ تو نے اپنے مالک سے جو تیری ہر ضرورت کو بہتر سمجھتا اور تیرا خیال رکھتا تھا دغا دیا اور ایسی جگہ گیا جہاں نہ تو کوئی تیری ضرورت کو سمجھتا تھا اور نہ تیرا خیال رکھ سکتا تھا۔ پس ذلت تو تیرا مقدر ہونی ہی تھی سو وہ ہوئی۔ سبق: باز سے مراد انسان اور بڑھیا سے مراد دنیا ہے۔
وصال: آپ کے جنازے میں ہر طبقہ اور ہر مذہب کے افراد کثیر تعداد میں شریک ہوئے لوگ دھاڑیں مار مار کر رورہے تھے۔یہاں تک یہودی اور عیسائی اپنی مذہبی کتب کی تلاوت کرتے ہوئے جنازے کے آگے آگے جارہے تھے بادشاہِ وقت نے انہیں روک کر پوچھ لیا کہ تم ایسا کیوں کر رہے ہو؟انہوں نے جواب دیا !کہ جسطرح تمہارے لیے یہ محمدہیں (کیونکہ آپکا نام محمد تھا)ہمارے لیے عیسی ٰ اور موسی ٰ ہیں۔آپکی نمازِ جنازہ پڑھانے کیلئے شیخ صدرالدین قونوی آگے بڑھے لیکن چیخ مار کر گر پڑے اور بیہوش ہوگئے ،بالآخر قاضی سراج الدین آپکی نمازِ جنازہ پڑھائی ۔سالہا سال تک بنجر دِلوں کو آباد کرنے والے یہ عظیم انسان ۵ جمادی الثانی ۶۷۲ھ بمطابق ۱۷ دسمبر ۱۲۷۳ء کو اس دارِفانی سے کوچ کر گئے۔ قونیہ میں ان کا مزار آج بھی اہلِ دل کے لیے حرم ہے۔
ماخذ ومراجع:
مقدمہ مثنوی معنوی
حیات مولائے روم
اردو دائرہ معارف ِ اسلامیہ