منظومات  

تجلی نور قِدَم غوث اعظم

کرو ہم پہ یٰسٓ دم غوث اعظم تجلی نور قِدَم غوث اعظمضیائے سراج الظلم غوث اعظم ترا حِل ہے تیرا حرم غوث اعظمعرب تیرا تیرا عجم غوث اعظم کرم آپ کا ہے اعم غوث اعظمعنایت تمہاری اتم غوث اعظم مخالف ہوں گو سو پَدم غوث اعظمہمیں کچھ نہیں اس کا غم غوث اعظم چلا ایسی تیغ دو دم غوث اعظمکہ اعدا کے سر ہوں قلم غوث اعظم وہ اک وار کا بھی نہ ہوگا تمہارےکہاں ہے مخالف میں دم غوث اعظم ترے ہوتے ہم پر ستم ڈھائیں دشمنستم ہے ستم ہے ستم غوث اعظم کہاں تک سنیں ہم مخالف...

کھلا میرے دل کی کلی غوث اعظم

ترے گھر سے دنیا غوث اعظم کھلا میرے دل کی کلی غوث اعظممٹا قلب کے بے کلی غوث اعظم مرے چاند میں صدقے آجا ادھر بھیچمک اٹھے دل کی گلی غوث ترے رب نے مالک کیا تیرے جد کوترے گھر سے دنیا پلی غوث اعظم وہ ہے کون ایسا نہیں جس نے پایاترے در پہ دنیا ڈھلی غوث اعظم کہا جس نے یا غوث اغثنی تو دم میںہر آئی مصیبت ٹلی غوث اعظم نہیں کوئی بھی ایسا فریادی آقاخبر جس کی تم نے نہ لی غوث اعظم مری روزی مجھ کو عطا کردے آقاترے در سے دنیا نے لی غوث اعظم نہ مانگوں میں ...

ترا جلوہ نور خدا غوث اعظم

آئینۂ حق نما درِ منقبت حضور پر نور پیران پیر دستگیر غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ترا جلوہ نور خدا غوث اعظمترا چہرہ ایماں فزا غوث اعظم مجھے بے گماں دے گما غوث اعظمنہ پاؤں میں اپنا پتا غوث اعظم خودی کو مٹا دے خدا سے ملا دےدے ایسی فنا و بقا غوث اعظم خودی کو گماؤں تو میں حق کو پاؤںمجھے جام عرفاں پلا غوث اعظم خدا ساز آئینۂ حق نما ہےترا چہرۂ پر ضیا غوث اعظم خدا تو نہیں ہے مگر تو خدا سےجدا بھی نہیں ہے ذرا غوث اعظم نہ تو خود خدا ہے نہ حق سے جدا...

دو جہاں میں کوئی تم سا دوسرا ملتا نہیں

سایۂ خیر الوریٰ ملتا نہیں دو جہاں میں کوئی تم سا دوسرا ملتا نہیںڈھونڈتے پھرتے ہیں مہرومہ پتا ملتا نہیں ہے رگ گردن سے اقرب نفس کے اندر رہے وہیوں گلے سے مل کے بھی ہے وہ جدا ملتا نہیں آب بحر عشق جاناں سینہ میں ہے موجزنکون کہتا ہے ہمیں آب بقا ملتا نہیں آب تیغ عشق پی کر زندۂ جاوید ہوغم نہ کر جو چشمۂ آب بقا ملتا نہیں ڈوب تو بحر فنا میں پھر بقا پائے گا توقبل از بحر فنا بحر بقا ملتا نہیں دنیا ہے اور اپنا مطلب بے غرض مطلب کوئیآشنا ملتا نہیں نا آشن...

رسل انہیں کا تو مژدہ سنانے آئے ہیں

حق سے ملانے آئے ہیں رسل انہیں کا تو مژدہ سنانے آئے ہیںانہیں کے آنے کی خوشیان منانے آئے ہیں فرشتے آج جو دھومیں مچانے آئے ہیںانہیں کے آنے کی شادی رچانے آئے ہیں فلک کے حور و ملک گیت گانے آئے ہیںکہ دہ جہاں میں یہ ڈنکے بجانے آئے ہیں یہ سیدھا راستہ حق کا بتانے آئے ہیںیہ حق کے بندوں کو حق سے ملانے آئے ہیں یہ بھولے بچھڑوں کو رستے پہ لانے آئے ہیںیہ بھولے بھٹکوں کو ہادی بنانے آئے ہیں خدائے پاک کے جلوے دکھانے آئے ہیںدلوں کو نور کے بقعے بنانے آئے ہیں...

یہ کس شہنشہِ والا کی آمد آمد ہے

موسم بہار آیا یہ کس شہنشہِ والا کی آمد آمد ہےیہ کون سے شہِ بالا کی آمد آمد ہے یہ آج تارے زمیں کی طرف ہیں کیوں مائلیہ آسماں سے پیہم ہے نور کیوں نازل یہ آج کیا ہے زمانے نے رنگ بدلا ہےیہ آج کیا ہے کہ عالم کا ڈھنگ بدلا ہے یہ آج کا ہے کی شادی ہے عرش کیوں جھومالب زمیں کو لب آسماں نے کیوں چوما سما وہ ڈوبا ہوا اور ساوا خشک ہواخزاں کا دور گیا موسم بہار کا آیا یہ آج کیا ہے کہ بت اوندھے ہوگئے سارےیہ آج کیوں ہیں شیاطیں بندھے ہوئے سارے یہ انبیا و رسل...

ہم اپنی حسرت دل کو مٹانے آئے ہیں

گناہگاروں کی بخشش کرانے آئے ہیں ہم اپنی حسرت دل کو مٹانے آئے ہیںہم اپنی دل کی لگی کو بجھانے آئے ہیں دل حزیں کو تسلی دلانے آئے ہیںغم فراق کو دل سے مٹانے آئے ہیں کریم ہیں وہ نگاہ کرم سے دیکھیں گےہے داغ داغ دل اپنا دکھانے آئے ہیں غم و الم یہ مٹادیں گے شاد کر دیں گےہم اپنے غم کا قضیہ چکانے آئے ہیں حضور بہر خدا داستان غم سن لیںغم فراق کا قصہ سنانے آئے ہیں نگاہ لطف و کرم ہوگی اور پھر ہوگیکہ زخم دل پہ یہ مرہم لگانے آئے ہیں فقیر آپ کے در کے ہیں ...

کچھ ایسا کردے مرے کردگار آنکھوں میں

یہ کیا سوال ہے مجھ سے کہ کس کا بندہ ہے؟ کچھ ایسا کردے مرے کردگار آنکھوں میںہمیشہ نقش رہے روئے یار آنکھوں میں نہ کیسے یہ گل و غنچے ہوں خوار آنکھوں میںبسے ہوئے ہیں مدینے کے خار آنکھوں میں بسا ہوا ہے کوئی گل عذار آنکھوں میںکھلا ہے چار طرف لالہ زار آنکھوں میں ہوا ہے جلوہ نما گل عذار آنکھوں میںخزاں کے دور میں پھولی بہار آنکھوں میں سرور و نور ہو دل میں بہار آنکھوں میںجو خواب میں کبھی آئے نگار آنکھوں میں وہ نور دے مرے پروردگار آنکھوں میںکہ جلوہ ...

جو خواب میں کبھی آئیں حضور آنکھوں میں

شراب طہور آنکھوں میں جو خواب میں کبھی آئیں حضور آنکھوں میںسرور دل میں ہو پیدا تو نور آنکھوں میں ہٹادیں آپ اگر رخ سے اک ذرا پردہچمک نہ جائے ابھی برق طور آنکھوں میں نظر کو حسرت پا بوس ہے مرے سرورکرم حضور کریں پر ضرور آنکھوں میں کھلے ہیں دیدۂ عشاق قبر میں یوں ہیہے انتظار کسی کا ضرور آنکھوں میں خدا ہے تو نہ خدا سے جدا ہے اے مولیٰ!ترے ظہور سے رب کا ظہور آنکھوں میں وجود شمس کی برہاں ہے خود وجود اس کانہ مانے کوئی اگر ہے قصور آنکھوں میں خدا سے ت...

حبیب خدا کا نظارا کروں میں

حبیب خدا نظارا کروں میںدل و جان ان پر نثار کروں میں تری کفش پا یوں سنوارا کروں میںکہ پلکوں سے اس کو بہارا کروں میں تری رحمتیں عام ہیں پھر بھی پیارےیہ صدمات فرقت سہارا کروں میں مجھے اپنی رحمت سے تو اپنا کر لےسوا تیرے سب سے کنارا کروں میں میں کیوں غیر کی ٹھوکریں کھانے جاؤںترے در سے اپنا گزارا کروں میں سلاسل مصائب کے ابرو سے کاٹوکہاں تک مصائب گوارا کروں میں خدا را اب آؤ کہ دم ہے لبوں پردم واپسیں تو نظارا کروں میں ترے نام پر سر کو قربان کر ک...