ایک شخص ایک تحریک

ایک شخص، ایک تحریک

اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخِ زیبا لے کر

(از مفتی اہلسنّت شیخ الحدیث حضرت علامہ مفتی عبد العزیز حنفی صاحب مدظلہ)

______________________________________________________

 

یقین جانیئے میرے پاس وہ الفاظ نہیں جن سے میں قبلہ محترم شہبازِ خطابت مرد مومن علامہ سید شاہ تراب الحق قادری علیہ الرحمہ کی شخصیت کو خراج تحسین پیش کر سکوں۔ میرا قلم وہ الفاظ کشیدہ کرنے سے قاصر ہے کہ جن کو لکھ کر میں قبلہ شاہ صاحب کی زندگی کے پہلوؤ ں کو اجاگر کر سکوں میری سوچ میں وہ الفاظ کا ذخیرہ نہیں کہ جو آپ کی شخصیت کی خوشبو کو الفاظ کی شکل میں تحریر کر سکوں۔پیرطریقت رہبر شریعت شہباز خطابت شعلہ بیاں مقرر علامہ سید شاہ تراب الحق قادری نور اللہ مرقدہ کے ساتھ میری وابستگی تقریباً 68-1967سے تھی اور گذشتہ ۵۰برس کی رفاقت رہی، متعدد مواقعوں پر آپ کے ساتھ مختلف موضوعات اور مسائل پر گفت و شنید رہی یہ میرے لئے مشکل بھی ہے اور ایک اعزاز بھی کہ میں قبلہ محترم کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار مضمون کی صورت میں آپ احباب کے سامنے تحریری شکل میں پیش کر سکوں میری تحریر کا مطالعہ کرنے والوں پر ایک چھوٹا سا حق ضرور ہے کہ جب وہ حضرت اقدس پیر سید شاہ تراب الحق قادری علیہ الرحمہ کے لئے دست بدعا ہوں تو اس فقیر راقم بے بضاعت کو بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔

موتُ العالِم موتُ العالَم

            عالِم کی موت جو ہے وہ پورے ایک عالَم کی موت کہلاتی ہے ۔ قبلہ شاہ صاحب جیسی شخصیت روز روز پیدا نہیں ہوا کرتیں ہیں۔ آپ دین اسلام کے سچے پکے خادم،اسلام کے نڈر بہادر مجاہد مردِ حق اور نبی کریم ﷺ کے سچے عاشق صادق اور غلام تھے۔ جناب محترم و محتشم قبلہ شاہ صاحب کی خدمات جلیلہ بے انتہاءہیں۔ آپ نے پوری زندگی جہدِ  مسلسل کی طرح گزاری آپ ہر ہر لمحہ عوام اہلسنّت کی بہتری و بھلائی کے لئے گامزن رہے اور میرا یہ حُسنِ ظن گمان اغلب ہے کہ قبلہ شاہ تراب الحق علیہ الرحمہ کو ان تمام اہداف پر عبور اور مکمل ملکہ حاصل تھا۔ آپ کی خدمات جلیلہ عالمی سطح پر بھی قابل ستائش تھیں۔ آپ نے فکری نقطۂ نظر سے بین الاقوامی سطح پر کفر کا زور توڑا اور غلبہ اسلام کے لیئے ایک منظم تحریک اُٹھائی۔ اور دُنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کی خاطر دنیا بھر میں کام کرنے والی سُنی تنظیموں تحریکوں سے رابطہ رکھا۔ پوری دنیا سے مسائل و گذارشات کو سنتے اور پھر اس پر کام کرتے تھے۔ آپ نے حب رسول کی دعوت تمام انسانی حلقوں میں عام کرنے میں مثالی کردار ادا کیا۔ استحکام پاکستان اور نفاذ نظامِ مصطفی ﷺ کے لیئے منظم ذہن سازی کا فریضہ انجام دیا۔ آپ آخری عمر تک اتحادِ اہلسنّت کے لئے سرگرم رہے۔ سیاسی میدان میں بھی آپ نے اپنی خدمات کا لوہا منوایاآپ 1985میں اسی کھارادر کے علاقے سے ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور عوام کی خدمت اور بھلائی کے کاموں میں اپنا حصّہ بٹایا اور معاشرتی برائیوں کے خاتمے اور خدمت خلق کے فروغ کیلئے اپنی عمر کے آخری لمحات تک فکر مند رہے اور اپنی خدمات سے اندھیروں میں اجالے بکھیرتے رہے۔ آپ نے بد مذہبوں بے دینوں اور باطل طاغوتی قوتوں کے خلاف اپنی بھر پور صلاحیتوں سے جہاد کیا۔ وطن عزیز کے گاؤں گاؤں،قریہ قریہ،بستی بستی اور شہر شہر میں جماعت اہلسنت کی تنظیم سازی کرنا اور پاکستان بھر کی تمام سنی تنظیموں اور تحریکوں کا عملی اشتراک قائم کیا تاکہ مسلک اعلیٰ حضرت مضبوط ہوسکے۔ اور پھر باہمی محبت و الفت اعتماد و یقین کے ساتھ جماعت اہلسنت کی صورت میں آپ نے جو چراغ روشن کیا یہ آپ کی گہری فراست، عمیق بصیرت اور دور نظری کا بلند پایہ ثبوت ہے۔ جماعت اہلسنت آپکی جماعت ہے اور آخری وقت تک اس جماعت کے امیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ آپ کی شخصیت کا ایک پہلو جو نمایاں ہے وہ یہ کہ آپ رئیس التناظیم بھی تھے تمام تنظیمات کو یکجا جمع کرکے انکی سربراہی کرنا یہ آپ ہی کا خاصہ تھاغرض آپ اتحاد اہلسنت کے لیئے خدمات انجام دیتے رہے۔ ڈاکٹر اقبال نے انہی ہستیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے اس شعر میں فرمایا کہ،

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

میرا یہ ماننا ہے کہ انسانوں کا اصل وظیفۂحیات الفاظ و کلمات کا ورد نہیں بلکہ ان شخصیتوں کی جستجو ہے جن کی صحبتِ نظری، اطاعتِ عملی اور توجہ روحانی سے جادۂ حق کا سراغ مل جاتا ہے۔

            زندگی میں شاید سب سے مشکل مرحلہ یہی ہوتا ہے کہ کسی کیمیاءنظر، جوالہ نور، بیتابِ عشق، بندہ محبت، خوگر اخلاق، صاحب ادراک، معیارِ حق اوررشکِ بندگی شخص کی صحبت میسر آجائے کہ اﷲ والوں کی صحبت اور ان کے ذکر سے اﷲ تبارک وتعالیٰ کی رحمت نازل ہوتی ہے۔ یہ اﷲ والے وہ ہوتے ہیں  جو اپنے وجود کو اﷲ اور اس کے رسول کی محبت میں فنا کرلیتے ہیں۔ہر گز نمیر ندآنکہ دلش زندہ شد بعشق

دمِ عارف نسیم صبحدم ہے               اسی سے ریشۂ معنی میں نم ہے

اگر کوئی شعیب آئے میسر           شبانی سے کلیمی دو قدم ہے

            میرے عزیزو انسانی معاشرت کے لئے بطورِ معیار ہمہ دم ایسے زندہ اور عظیم کرداروں کی ضرورت رہتی ہے جن میں عبودیت کا شعور نہایت گہرا ہو ایسے افراد معاشروں کی جان ہوتے ہیں جن کے ہاں ہر قول اور ہر عمل پر حبِ رسول ﷺ کی چھاپ لگی ہوتی ہے یہی وہ لائق تکریم ہستیاں ہوتی ہیں جو انسانی قافلوں کے حقیقی راہنما ہونے کا استحقاق رکھتے ہیں۔ انہیں اگر ڈھونڈا جائے تو یہ علم کی مسندوں پر، اس کے مرکزوں پر، کیف و حال کے زاویوں میں قلم و قرطاس کے جہانوں میں ہر جگہ مل سکتے ہیں۔ انہی سے زندہ افکار کی روشنی پھوٹتی ہے۔ یہی تعمیر حیات کی خوشبوئیں بکھیرتے ہیں۔ انہی سے جنت بداماں ماحول جنم لیتے ہیں۔ یہ خود بھی مہر درخشاں کی طرح چمکتے ہیں۔ اور ان کی باتیں بھی ستاروں کی طرح جگمگاتی ہیں۔ یہ جب انسانی قافلوں کے دوش بدوش چل رہے ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے انسانی دُنیا پر چاند اور سوج محو گردش ہیں اور جب یہ پردہ فرمالیتے ہیں تو زمین آسمان بن جاتی ہے ان کی قبریں اور آرام گاہیں کبھی فیض بانٹتی ہیں پھر لوگ انہیں یاد کرتے ہیں ان کی عظمتوں کی خوشبوؤں کے موتی بکھیرے جاتے ہیں۔ یہ نایاب لوگ بار بار معاشرے کو میسر نہیں آتے۔

ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

            میرے عزیز دوستوں ! اس جہانِ رنگ و بو میں سچی بات ہے کہ جینا اسی کا جینا ہے جو دولت و دنیا، مال و منال، رشتہ ناتوں کو اپنے پائے استغناءتلے روند کر حسن ازل کے شاہکار رحمت عالم رسول اﷲ ﷺ کے بن جاتے ہیں۔ اور یہی وہ جینا ہے جو میرے مربی دوست شاہ تراب الحق قادری اپنے چاہنے والوں کو سکھا گئے۔ وہ انسان بڑا عظیم ہوتا ہے جو حسن کی روشنیوں تک رسائی حاصل کرلیتا ہے۔ شاہ صاحب بھی انہی عظیم انسانوں میں شمار ہوتے ہیں۔ یہ شہِ لولاک کے وہ عاشق تھے کہ جن کی رگ رگ اورروواں روواں میں محبت رسول ﷺ نے ڈیرہ جمالیا تھا۔ وہ لوگ جنہوں نے برصغیر پاک و ہند میں عشق رسول ﷺ اور محبت رسول ﷺ کی دھوم مچائی ان میں سے اکثر مولانا الشاہ احمد رضا  خاں محدث بریلوی کے تلمیذ ہیں، آپ کے ماننے والے ہیں اور ان سے عشق رسول ﷺ سیکھنے والے ہیں۔ انہی قافلہ مستفیدین میں قبلہ شاہ تراب الحق قادری کا شمار بھی ہوتا ہے۔ آپ نے مفتی اعظم ہند جگرگوشۂ اعلیٰ حضرت مولانا مصطفی رضا خاں علیہ الرحمہ کے دست حق پرست پر بیعت کی اور اعلیٰ حضرت کے گھرانے سے روحانی تعلق قائم کیا۔ شاہ صاحب کا مسلک مسلکِ عشق تھا۔ وہ ذکر رسول کو عبادت تصور کرتے تھے۔ بڑے عظیم آدمی تھے۔ ان میں باعثِ کشش بڑی باتیں تھیں۔ وہ رسیلے تھے، سجیلے تھے، دبدبہ دار تھے، طرحدار تھے، سخن فہم تھے، سخن شناس تھے، ادیب بھی تھے اور شہبازِ خطابت خطیب بھی بلکہ خطیب گر تھے۔ متین و فہیم تھے علامہ و فہامہ تھے۔ سامعین کے اتار چڑھاؤ کو دیکھ کر گفتگو فرماتے تھے۔ لیکن ان کے یہ سارے رنگ پھیکے ہوتے اگروہ حضور نبی کریم ﷺ کے عاشق صادق نہ ہوتے۔

 بات عشق کی چل نکلی ہے تو ذہن میں رہے کہ عشق میں نسبتِ محبوب بڑی چیز ہوتی ہے اس حوالہ سے شاہ صاحب کے سید ہونے اور آلِ رسول ہونے کا بھی بڑا خیال آیا۔ الحمد ﷲ قبلہ شاہ صاحب نے اپنے آباءو اجداد کی فکر و عشق میں ڈوبی ہوئی روایات کو اپنے زاویہ میں زندہ رکھا۔ شاہ صاحب کسی سے متاثر نہیں ہوئے۔ ہاں البتہ اپنی تابعدار خاندانی مذہبی اور روحانی اقدار وروایات سے دوسروں کو اپنی شخصیت کے سحر میں گرفتار کرلیتے تھے۔ آج جب میری آنکھوں کے سامنے سے انکی شخصیت محو ہوگئی ہے تو میں سوچتا ہوں اور اپنے دل میں یہ کہتا ہوں کہ شاہ صاحب تسلی رکھیں کہ مذہب عشق خلا میں معلق رہنے والی چیز نہیں۔ اس کا اعتراف وقت کی آواز قبر کا نور اور آخرت کی عزت ہوتی ہے۔ شاہ صاحب کا یہ خاصہ تھا کہ جب بولتے تو مجمع پر سکوت طاری ہوجاتا تھا لوگ آپ کے الفاظوں کو اپنے ذہنوں میں محفوظ کرتے تھے۔ آپ مقرر ہونے کے ساتھ مصنف بھی تھے۔ آپ کی تصانیف آپ کے ایمانی جذبوں کا اعتراف ہیں۔ عظیم تربات یہ ہے کہ شاہ صاحب نے اپنی تحریروں میں اپنے قلم و زبان کے بجائے قرآن اور صاحب قرآن و اصحابِ رسول ﷺ کی زبان پر اعتماد کیا اور آپ کی تصانیف کی اصل عظمت یہی ہے۔ آپ کی کتب ضیاءالحدیث، تصوف و طریقت اور فلاح دارین کو عوام اہلسنّت میں بڑی پزیرائی ملی لیکن آپ کی تصنیف جمالِ مصطفی کو ایک منفرد مقام حاصل ہوا۔ اس کتاب کا مطالعہ کرنے والے قاری کو قبلہ شاہ صاحب نے ایک خاکی بدن انسان کو دہلیز جنت پر جابٹھایا ۔ جہاں اسے کتاب و سنت کے آئینے میں حضور ﷺ کی زیارت ہونے لگتی ہے اور پھر شاہ صاحب حسن حق کی جستجو میں اعلیٰ حضرت کی نعتیہ شاعری کے رکوع اور سجدے کتاب پڑھنے والے کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ بحیثیت مصنف شاہ تراب الحق قادری یہاں پہنچ کر خود ہی اپنے سرپر کرامتوں کا تاج رکھ لیتے ہیں جو یقینا دیر تک لوگوں کے اشہب ذوق کو مہمیز لگاتا رہے گا۔

            ممکن ہے کہ شاہ تراب الحق قادری سے بعض حلقوں کو شدت مزاجی کا شکوہ بھی ہو لیکن انہیں جاننا چایئے کہ کلمہ طیبہ بھی الا اﷲ کے اثبات سے پہلے لاالہ کی نفی سے شروع ہوتا ہے۔ نفرت محبت کا دوسرا عکس ہوتی ہے۔ جس کو محبوب کے دشمن سے دشمنی کرنی نہیں آتی وہ اپنی ہی محبت میں کھوٹا ہوا کرتا ہے۔ تراب الحق سچے تھے، کوئی حلقہ اگر ان کا یہ قصور سمجھتا ہے کہ وہ دودھ میں مکھیاں ڈالنے والوں کو طہارت کی سند کیوں نہیں دیتے۔ آفتاب کے سامنے بدبودار ہاتھ رکھ کر اسے بے نوری کا الزام دینے والوں کو ماہِ کامل کا لقب کیوں نہیں دیتے۔ ذہنی گندگی والے کیڑوں کو رشک جگنو کیوں نہیں مانتے تو انہیں یاد رکھنا چاہیئے کہ قبلہ شاہ صاحب کی مجبوری ہے کہ وہ سچے ہیں۔ ان سے ہو نہیں سکتا تھا کہ وہ جھوٹوں کے بحر ظلمات میں اپنے آپ کو شامل کریں۔ تاریخ کو یہ کڑواگھونٹ کسی وقت اپنے گلے سے اتارنا ہی پڑے گا کہ تسلیمہ نسرین اور رشدی سے محبت کا مطلب صدیق اکبر، عمر فاروق، عثمان غنی و علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہم سے نفرت ہوا کرتی ہے۔ تراب الحق بہت بہت میٹھے اور اونچے بندے تھے کہ انہوں نے رسول اکرم ﷺ کے حضور گستاخی کرنے والوں کو کبھی معافی کے قابل نہیں جانا۔ دین کا مسلمہ اصول ہے کہ تکبر کرنے والے سے تکبر صدقہ ہوا کرتا ہے۔ الجھنے والوں سے الجھنا یہ بزدلی ہوا کرتی ہے ۔ اور پھر خود سوچئے جو جانِ کائنات سے الجھے اُسے اِس دورِ جدید کا لبرل ازم ممکن ہے معاف کردے لیکن شاہ تراب الحق کی غیرت و حمیت نے یہ گوارا نہیں کیا کہ ایسے دین کے دشمنوں گستاخوں کو معاف کریں انہوں نے ان سامراج کے ٹھیکے داروں سے ڈالر اور پونڈ نہیں لئے تھے ان کا جرم صرف اتنا تھا کہ انکا محکم عقیدہ یہ تھا کہ جسے میں امام احمد رضا محدث بریلوی کے الفاظ میں بیان کروں کہ

کروں مدحِ اہل دُوَل رضا پڑے اس بلا میں مری بلا

میں گدا ہوں اپنے کریم کا میرا دین پارۂ ناں نہیں

میرے سنی مسلمانوں!  یاد رکھو کہ شاہ تراب الحق کے دشمنوں کے لئے بھی تراب الحق کو بھولنا دین کے حکم میں بہتر نہ ہوگا اور رہا معاملہ دوستوں کا انہیں یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ ان کا تراب الحق کتنا عظیم تھا کہ اس نے انہیں اپنی یاد کا درس نہ دیا بلکہ اپنی ذات کو اپنے محبوب کے حرم میں اس قدر بے وقعت پیش کیا کہ ذہنوں پر تراب الحق کے محبوب محمد مصطفی ﷺ چھاگئے۔ مصطفی ﷺ کی محبت جسے دل اور روح کی تمام تر گہرائیوں اور پاکیزگیوں کے ساتھ چاہا جائے اصل میں وہی سچی اور بلند محبت ہوتی ہے۔

 

اﷲ اﷲ موت کو یہ کس نے مسیحا کردیا

زندہ ہوجاتے ہیں جو مرتے ہیں تیرے نام پر

 

اور ایک مقام پر یوں ہے کہ

 

ہر شخص کے نصیب میں دارو رسن کہاں

یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا

 

بھائیوں ہمیشہ یاد رکھو کہ ہر بڑے کام کی قیمت اپنے آپ کو چھوٹا کرلینا ہے اکثر لوگ اپنے آپ کو چھوٹا کرنے پر رضا مند نہیں ہوتے اس لئے وہ کوئی بڑا کام بھی نہیں کرپاتے۔ مگر شاہ تراب الحق نے یہ کرکے دکھادیا کہ کس طرح آدمی بڑا کام کرتا ہے۔

یہ قدرت کا قانون اور فیصلہ ہے کہ ہر جاندار کو اس دارِ فانی سے جانا ہے اور قرآن مجید میں آیہ مبارکہ اس کے ثبوت میں موجود ہے کہکل نفس ذائقة الموت کہ ہر ذی نفس جاندار کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور اس دارِ فانی سے نکل کر آگے کی منزلوں کے لئے سفر طے کرنا ہے۔ تو 27رمضان المبارک 1944ء کو طلوع ہونے والا علامہ سید شاہ تراب الحق قادری علیہ الرحمہ کی زندگی کا سورج اس عالم کو منور کرتے ہوئے ظلم و بدمذہبیت کے طوفانوں سے لڑتے ہوئے سیاہ اندھیری رات میں صبح نور کے اُجالے بکھیرتے ہوئے بالآخر ۴ محرم الحرام 1438ھ، 6اکتوبر2016ءکو غروب ہوگیا۔

انا ﷲوانا الیہ راجعون

سورج ہوں زندگی کی رمق چھوڑ جاؤں گا

میں ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑ جاؤں گا

            اور آخر میں سید شاہ تراب الحق قادری کی دعوت پر لبیک کہنے والوں آج تم شاہ صاحب کے مشن کو جاری رکھنے کے لئے اپنے دلوں سے عہدِ وفا باندھو آج اگرچہ تم ایک کثیر تعداد میں موجود ہو لیکن کل تراب الحق اکیلا وتنہا اپنے کاندھوں پر یہ مشن لے کر چلا تھا۔ وہ مردِ مومن تنہا ان بدمذہب حاکموں، اعداءالرسول اور ریاکار مبتدعین کے خلاف سینہ سپر تھا۔ اس مردِ حق نے پیمان وفا صرف تہذیب مدینہ سے باندھا۔ اس عاشق رسول ﷺ نے دست رفاقت صرف حضور نبی کریم ﷺ کے غلاموں کی طرف بڑھایا آج یہ اس مردِ مومن مردِ حق کے خلوص کا ثمر ہے کہ رسولی نسبتوں کے خادمین نگہت فروز لفظوں سے شاہ تراب الحق قادری کو تعظیم و توقیر کی سلامیاں دیتے ہیں۔ آج گلی گلی مفکرین ، خود ساختہ مجددین اور شہرت کے مارے قائدین اور جاہل مشائخ نے جوطوفانِ بدتمیزی اٹھا رکھا ہے تو ایسے میں شاہ صاحب کے مریدوں و جانثاروں کا فرض ہے کہ وہ بالبصیرت اور عشق رسول ﷺ سے سرشار ہو کر رضویت کی جنگ ایسے بدحال لوگوں کے خلاف تیزتر کردیں فتح بالآخرحق کی ہی ہوتی ہے۔

            بس میں سلام کہتا ہوں، سلام لکھتا ہوں شاہ تراب الحق قادری علیہ الرحمہ کے نام اور انکے آفاق گیر کام کے نام کہ اے میرے مربی محسن، اہلسنّت کے رہبر، مسلک اعلیٰ حضرت کے لاثانی بے تاج بادشاہ دلوں کے چین شاہ تراب الحق قادری کائنات کی زندہ حقیقتیں تیرے محبوب اور تیرے عشق کا اعتراف کرتی ہیں۔ کہ تیرے علم کا استاد عشقِ رسول ﷺ ٹھہرا۔ تیری کتابوں میں نامِ محمد ﷺ کی روشنیوں نے تمہیں وہ دوام عطا کردیا ہے کہ وہ رہتی دنیا تک عاشقانِ مصطفی ﷺ کو دعوتِ انقلاب دیتی رہیں گی۔    اور آخر میں امام اہلسنّت مولانا احمد رضا خاں محدث بریلوی کے ان اشعار پر اپنی تحریر ختم کرتا ہوں کہ         

 

یوں نہ فرمائیں تیرے شاہد کہ وہ فاجر گیا

واسطہ پیارے کا ایسا ہو کہ جو سنی مرے

 

فرش سے ماتم اٹھے وہ طیب و طاہر گیا

عرش پر دھومیں مچیں وہ مومن صالح ملا


متعلقہ

تجویزوآراء