اعلیٰ حضرت علیہ رحمہ کے اخلاقِ کریمانہ

مولانا مولوی سید شاہ ابو سلیمان محمد عبدالمنان قادری چشتی فردوسی علیہ الرحمہ ایک خط بنام ملک العلماء محمد ظفر الدین بہاری علیہ الرحمہ میں لکھتے ہیں:۔


‘‘مجھ فقیر کو بھی ۱۳۳۹ھ کے موسم بہار میں بریلی شریف جانے کا اتفاق ہوا، جناب مولانا مولوی قاضی رحم الٰہی صاحب علیہ الرحمہ مدرس مدرسہ نے مجھے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت فیض درجت میں پہنچایا، آپ کی زیارت نے بتمام وکمال فقیر پر یہ ثابت کر دیا کہ جو کچھ بھی آپ کی تعریفیں ہوتی ہیں وہ کم ہیں، اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ علیہ الرحمہ کو جب معلوم ہوا کہ یہ فقیر سادات سے ہے تو آپ نے بڑی عزت بخشی پھر اخلاق کا یہ عالم کہ دودن مجھے آپ کے اخلاق کریمانہ نے روک رکھا اور ان دنوں میں اس فقیر نے بہت کچھ فیوض وبرکات حاصل کیے پھر رخصت ہوتے وقت خاص کرم فرمایا کہ کچھ نقد روپے جو الہ آباد کی آمد ورفت میں صرف ہوسکتے ہیں بلکہ کچھ زائد ہی تھے مرحمت فرمائے، فقیر نے پہلے تو انکار کیا لیکن اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ فرمایا کہ یہ تو آپ کے گھر کے عنایت کردہ ہیں، اسے لے لیجیے تو فقیر نے وہ رقم لے لی۔




بعد نماز جمعہ پھاٹک، میں (اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) تشریف فرما ہیں اور حاضرین کا مجمع ہے کہ شیخ امام علی صاحب قادری رضوی مالک ہوٹل رئیس کریم بمبئی کے برادر خورد مولوی نور محمد صاحب کی آواز جو بسلسلہ تعلیم مقیم آستانہ تھے، باہر سے قناعت علی قناعت علی پکارنے کی گوش گزار ہوئی، انہیں فوراً طلب فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ سید صاحب کو اس طرح پکارتے ہو، کبھی آپ نے مجھے بھی نام لیتے ہوئے سنا، مولوی نور محمد صاحب نے ندامت سے نظر نیچی کرلی، فرمایا تشریف لے جائیے اور آئندہ سے اس کا لحاظ رکھئیے’’۔

(امام احمد رضا علیہ رحمہ اور احترامِ سادات، مطبوعہ ضیائی دارالاشاعت، انجمن ضیائے طیبہ)


متعلقہ

تجویزوآراء