عظیم ہستی دنیا سے چلی گئی

عظیم ہستی دنیا سے چلی گئی

جانشین غزالی زمان حضرت علامہ پروفیسر مظہر سعید کاظمی

امیر جماعت اہلسنت پاکستان

قبلہ شاہ صاحب علیہ الرحمہ کے وصال کے اگلے دن ، مورخہ ۷ اکتوبر ۲۰۱۶ءجانشین غزالی زمان حضرت علامہ پروفیسر مظہر سعید کاظمی صاحب نےمیمن مصلح الدین گارڈن میں جمعہ کا خطبہ ارشاد فرمایا، آپ کے خطبے کو کیسٹ سے سن کر ادارہ کے مولانا مفتی عبد الرحمٰن قادری نے تحریر کیا ۔قارئین کی معلومات کےلیے پیش ِ خدمت ہے۔(ادارہ)

 

الحمد للہ کفی وسلم علی عبادہ الدین اصطفی نحمد اللہ العلی الاکبر و نصلی علی رسولہ النبی الانور وعلی الہ واصحابہ الغرر اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَئِذٍۭ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِینَ oصدق اللہ العظیم و صدق رسولہ النبی الکریم، ونحن علی ذلک لمن الشا ہدین والشاکرین والحمد للہ رب العلمین۔

ان اللہ وملئکتہ یصلون علی النبی یا ایھا الذین امنوا صلو ا علیہ وسلموا تسلیما اللھم صل علی سیدنا محمد والہ واصحابہ وبارک وسلم ۔

واجب الاحترام علماء کرام مشائخ عظام بالخصوص شہزادۂ مخدوم ملت حضرت صاحبزادہ شاہ عبد الحق صاحب  سلمہ اللہ تعالیٰ وزیدمجدہ، عمائد قوم وزعمائے  ملت معزز حاضرین پیارے دوستوں بھائیوں!

                آج کا دن کچھ کہنے کا دن نہیں ہے۔ ۔۔۔۔ کیسی ہستی دنیا سے چلی گئی ۔ حضرت علامہ سید شاہ تراب الحق قادری رحمۃ اللہ علیہ ۔ یہ ایک شخص کا نام نہیں ہے ، یہ ایک ادارے کا نام ہے۔ ایک فرد کا نام نہیں ہے ۔ ایک جماعت کا نام ہے۔یہ ایک انسان کا نام نہیں ۔ ایک تحریک ایک جذبے کا نام ہے ۔ کیا ہستی تھی !! حضرت شاہ صاحب کی۔ مجھ جیسے سیاہ کار سے اتنی محبت میرا جواں سال بیٹا دنیا سے گیا تو علماء میں سب سے پہلے شاہ صاحب تشریف لائے اور میرے غم میں شریک ہوئے او رمیرے زخمی دل پر اپنے تعزیتی الفاظ سے مرہم رکھا۔

                میرے دوستوں۔

فلک کی چرخ زنی صدیوں ہوتو کوئی ایسا ہو

                ایسے لوگ روز پیدا نہیں ہوتے۔ حضرت شاہ تراب الحق علیہ الرحمہ ایسی عظیم المرتبت شخصیت تھیں۔ ایسی نابغہ روزگار ہستی تھی کہ ان کی تعریف میں الفاظ ڈھونڈنا بہت مشکل ہے۔ زندگی کا ایک ایک لمحہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کے  مطابق گزارا۔ مسلک کا درد جتنا ان کے دل میں تھا میں نے کہیں نہیں دیکھا۔ وہ ہر وقت اہلسنّت کے لیے سینہ سپر رہتے تھے۔ کوئی موقع اہلسنّت پر ایسا نہیں آیا جس میں حضرت شاہ تراب الحق صاحب نے اپنا مرکزی کردار ادا نہ کیا ہو۔ انہوں نے کوئی جاگیریں اور جائیدادیں نہیں بنائیں۔ انہوں نے مساجد بنائی ہیں۔ اداروں کی سرپرستی کی اور اہلسنّت کے لیے ہمیشہ وہ ایک ڈھال بن گئے۔ مجھے میرے بڑے محترم محسن اہلسنّت حاجی حنیف طیب صاحب نے یہ بات رات میں بتائی کہ جب میں آستانہ پر حاضر ہوا کہ شدید علالت اور انتہائی ضعف میں بھی ایک صاحب ملنے آئے وہ جب گئے تو خادم سے پوچھا کہ یہ کسی مسجد کا معاملہ تو نہیں تھا۔ اس وقت بھی جب کہ انسان کوئی اور فکر اور سوچ نہیں رکھتا صرف اپنے رب کی طرف لو ہوتی ہے اس وقت بھی انہیں مسلک کا ایسا درد تھا ۔ یہ انہی کی خصوصیت تھی ۔ یہ انہی کا امتیاز تھا۔

                اب میں کیا عرض کروں!! شاہ تراب الحق صاحب کو اللہ نے کیا کیا خصوصیات عطا فرمائی تھیں۔میں جب بھی کراچی آتا تو ملتان سے نیت کرکے آتا کہ ہمیں شاہ صاحب کی زیارت کرنی ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ میں کبھی ملتان سے کراچی آیا ہوں اور حضرت شاہ صاحب سے میں نے ملاقات نہ کی ہو اور ان کے اور میرے جو پیارے محبت کے رشتے تھے وہ اب بھی ہیں اور قیامت تک قائم رہیں گے۔ وہ مصلحتوں کا شکار نہیں ہوتے تھے۔ وہ بڑے دبنگ اور بے باک انسان تھے ۔ انہوں نے کبھی کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا جس میں بعد میں انہیں شرمندگی اٹھانی پڑی ہو۔ وہ شیر اہلسنّت تھے۔ کیا ہستی تھی!! میں کیا عرض کروں کہ ہم نے کیا کھودیا ؟؟کیسی شخصیت اس دنیا سے چلی گئی ۔

اب ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے

                حضرات گرامی !الحمد للہ ان کے شہزادے ہمارے درمیان موجود ہیں اور ان کو دیکھ کر ان کی خوشبوئیں آتی ہیں اور ان کی یاد دل میں تازہ رہے گی ان کو دیکھ کر ۔ یہ الحمد للہ ان کے نقش قدم پر ہیں اور جیسے وہ سرپرستی کرتے تھے یہ بھی سرپرستی کریں گے اور جیسے آپ سب حضرت شاہ صاحب کے ساتھ تعاون کرتے تھے ان کے ساتھ بھی آپ کا ایساہی تعاون رہنا چاہیے اور رہے گا۔

                اچھوں کی صحبت بڑی اہم چیز ہے میں نے قرآن مجید کی ایک آیت کریمہ پڑھی اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے۔اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَئِذٍۭ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِینَ o

                یہاں اس مجمع میں بلا مبالغہ سینکڑوں علماء موجود ہیں اور جید علمائے کرام موجود ہیں میں ایک بے علم اور بے عمل انسان ہوں ٹوٹے پھوٹے لفظ میں بات کرتا ہوں کوئی علمی بات پیش نہیں کرسکتا ۔ لیکن اللہ اور اس کے رسول اور ان کے محبوبوں کا ذکر مجھ جیسا ناکارہ بھی کرے گا تو ایمان تازہ ہوگا۔

                میدان محشر میں قیامت کے دن اس دنیا کے جوگہرےدوست جگری یار ہونگے وہ وہاں قیامت کے دن بدترین دشمن ہونگے۔ یہ قرآن کا فرمان ہے الا المتقین لیکن اگر متقین سے تعلق کیا ہے۔ ان سے ناطہ جوڑا ہے ان سے نیاز مندی اور دوستی کا رشتہ استوار کیا ہے وہ دشمن نہیں وہ سجن ہونگے۔

                اس لئے کہ ہم اس دنیا میں جب کسی سے دوستی کرتے ہیں تو ہمارے پیش نظر دنیاوی مفاد ہوتا ہے۔ فلاں شخص اس منصب پر فائز ہے۔ اس کے ہاتھ میں اختیار ہے۔ اس سے تعلقات بنالو ہمارا یہ کام نکل جائے گا ۔ ہماری یہ مشکل آسان ہوجائے گی۔ ہم یہ نہیں سوچتے کہ اس دوستی کا آخری انجام کیا ہوگا ۔ میرے دوستو! اگر آپ نے کسی سود خور سے دوستی کی ہے تو عین ممکن ہے کہ آپ بھی سود خور بن جائیں ۔ اگر آپ نے کسی شرابی سے دوستی کی ہے تو عین ممکن ہے کہ آپ شرابی بن جائیں۔ اگر آپ نے کسی بد کردار سے دوستی کی ہے تو عین ممکن ہے آپ بھی اسی راہ پر چل پڑیں۔ یہ دوستی بڑی اہم چیز ہے۔ اس لئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا المرء علی دین خلیلہ فلینظر احدکم لمن یخاللہ۔

                انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے ، یعنی جو اس کا عقیدہ ہے وہی تمہارا عقیدہ ہوگا۔ دوست کے خیالات تمہارے خیالات ہونگے اس لئے تم میں سے ہر ایک غور کرے دیکھ بھال لے کہ کس سے دوستی کررہے ہو یہ نہ ہو کہ دوستی نقصان کا سودا ہو۔ ایسی دوستی کا ذکر قرآن میں ہے۔ میرے دوستوں حضور سید عالم ﷺ جب مکہ میں تھے اور آپ کی مکی زندگی بڑی Toughتھی۔ آپ نے بڑی تکلیفیں اٹھائیں، ہم غلاموں کو دین اور دنیا کی نعمتیں دینے کے لیے، مکہ میں ایک شخص تھا عقبہ بن ابی معیط ، مکہ کے سرداروں میں سے تھا، پیسے والا تھا۔ دنیاوی طور پر عظمت والا تھا ۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس آتا جاتا تھا۔ کچھ نہ کچھ حضور سے متاثر تھا۔ اس کی ایک بات یہ تھی کہ جب وہ سفر کرکے واپس آتا تو اپنے دوستوں کی پرتکلف دعوت کیا کرتا تھا ، سخی تھا ۔ایک دن وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس آیا اور کہنے لگا۔ اے محمد (ﷺ)! آپ خاندان بنو ہاشم کے بطل جلیل ہیں۔ چشم و چراغ ہیں اور خاندان بنو ہاشم مکہ میں بڑی عظمتوں والا خاندان ہے۔ ظاہر ہے کعبہ کی تولیت سے تو بڑا کوئی اعزاز  تھا ہی نہیں اور وہ بنی ہاشم کے پاس تھا۔ کہنے لگا کہ آپ میری عزت افزائی کریں۔ آپ میری دعوت قبول کریں۔ آپ میرے گھر چلیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا میں تیری دعوت قبول نہیں کرسکتاجب تک تو ایمان نہ لائے ۔ اس نے کہا میں ایمان لے آتا ہوں اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد انک رسول اللہ۔ وہ مومن ہوگیا بلکہ صحابی ہوگیا۔ حضور نے اس کی دعوت قبول فرمالی۔ مگر بدستور اس کی دوستی و رابطہ کفار اور مشرکین مکہ سے تھا مکہ کے کافروں کو پتا چلا کہ اس نے دین اسلام قبول کرلیا۔انہیں بڑی تکلیف ہوئی۔ امیہ بن خلف انتہائی کمینہ شخص تھا۔ وہ عقبہ کا گہر ادوست تھا۔ اس نے عقبہ کو بلا یا اے عقبہ میں نے سنا ہے کہ تم نے باپ دادا کے دین کو چھوڑ دیا ہے  اورمحمد عربی کے دین کو قبول کرلیا ہے؟اگر یہ بات ہے تو پھر تمہارا ہمارا کوئی تعلق نہیں ۔ کوئی واسطہ نہیں۔ اب وہ شخص جسے ایمان کی دولت مل گئی تھی اور جو مومن نہیں صحابی ہوگیا تھا۔ اس سنگت و رفاقت اور دوستی کی بنیاد پر ایمان پر قائم نہ رہ سکا۔ کہنے لگا میں تو تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا ۔تو امیہ نے کہا پھر تو انھیں چھوڑنا پڑے گا۔ ان کے ساتھ ہو تو ہمارے ساتھ نہیں ہو۔ عقبہ نے کہا میں دین اسلام کو چھوڑ دیتا ہوں۔ امیہ بڑا کمینہ شخص تھا اس نے کہا ایسے نہیں مانوں گا۔ ان کے پاس جاؤ اور کہو میں نے دین اسلام کو چھوڑ دیا میں اس سے دستبردار ہوتا ہوں۔ میں اپنے باپ دادا کے دین پر ہوں اور فقط یہی نہیں۔ بلکہ عقبہ تم جاؤ اور ان کے منہ پر تھوک کر آؤ (معاذ اللہ)اتنی کمینگی تھی امیہ میں ۔ عقبہ نے اسے منظور کیا اور اس دوستی اور رفاقت کی بنیاد پر چلا گیا۔ میں نے دین اسلام چھوڑدیا میں اپنے باپ دادا کے دین پر ہوں۔ اس نے سید عالم ﷺ کے چہرہ انور کی طرف تھوکا۔ جب اس نے تھوکا تو رب کائنات نے تھوک آگ کے انگارے بنا کر اس کے چہرے پہ لوٹا دیا۔ اس کا چہرہ جل گیا سیاہ ہوگیا۔

                یہ رفاقت اور سنگت کا نتیجہ ہے ۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ یَوْمَ یَعُضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْہِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا یعنی میدان محشر میں اس دن ظالم اپنے دانتوں سے اپنے ہاتھ کاٹے گا اور کہے گا کاش میں نے رسول کا راستہ اختیار کیا ہوتا۔

                                                یٰوَیْلَتٰی لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا

                ہائے افسوس کاش میں نے اپنے دوست امیہ بن خلف کی بات نہ مانی ہوتی۔

                میرے دوستوں۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ عقبہ بن ابی معیط میدان محشر میں اپنے دانتوں سے اپنے ہاتھ کاٹے گا اور کہنیوں تک اپنے ہاتھ کھائے گا اور پھر اللہ تعالیٰ وہ ہاتھ ٹھیک کردے گا اور وہ پھر کھائے گا اور پھر وہ کہنی تک کھائے گا اور پھراللہ تعالیٰ اس کا ہاتھ ٹھیک کردے گا وہ مسلسل اس میں مبتلا رہے گا ۔ یہ  بری دوستی اور رفاقت کا انجام ہے۔

                میرے دوستوں !  اگر اللہ کے محبوب بندوں سے دوستی کی ہے پھر انجام بہت اچھا ہوگا ورنہ ظاہر ہے جو شخص سود خور نہیں تھا وہ سود خور کی دوستی کی وجہ سے سود خور بن جائے گا۔ میدان محشر میں وہ یہ کہے گا کہ میں سود خور نہیں تھا تم نے سود خور بنادیا۔ آج اس عذاب میں تمہاری وجہ سے مبتلا ہوں۔ وہ کہے گا کہ میری وجہ سے مبتلا نہیں ہوئے کیا تم میں عقل نہیں تھی۔ اس طرح آپس میں لڑیں گے لیکن اگر ہم نے حضرت شاہ تراب الحق علیہ الرحمہ جیسے شخص سے ناطہ جوڑاہے تو پہلے نمازی نہیں تھا تو نمازی بن گیا پہلے اگر برائی میں مبتلا تھا برائی کو چھوڑ دیا پھر وہ میدان محشر میں کہے گا ۔ حضرت میں آپ کاممنون ہوں آج جو بھی یہ سکون و اطمینان ہے جو اللہ کی نعمتوں کا حقدار ہوں یہ آپ کی صحبت کی وجہ سے ہے۔

تو جو متقین ہیں ان کے ساتھ اگردوستی ہوگی تو میرے دوستوں وہی دوستی کارگر ہوگی اسی کا انجام خیر ہے۔

حضور علیہ الصلوٰۃ نے اچھی اور بری دوستی کا معیار مقرر کیا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فرمان کا مفہوم کہ یہی دوستی تو عطار کی دوکان کی طرح ہے۔ عطار سے اگر دوستی کروگے، اس کی دکان پر جاؤ گے وہ تمہیں خوشبو تحفے میں دے دے گا ۔ محبت کے ناطے اور اگر  نہ دے تو تم اس سے خرید لوگے ۔ وہ نہ دے اور تم نہ خریدو تو کم از کم اس کے پاس بیٹھ کر خوشبو تو آئے گی۔ جو لوگ حضرت شاہ تراب الحق علیہ الرحمہ کی صحبت میں بیٹھے ہیں ان کا دل گواہی دے گا کہ آپ کی صحبت میں بیٹھ کر خوشبو آتی تھی۔ وہ اللہ کے ولی کامل تھے۔ وہ اللہ کے ولی کامل تھے۔ (دو بار آپ نے کہا)حضور نے فرمایا بری دوستی تو لوہار کی بھٹی کی طرح کہ جب لوہار کی بھٹی میں جاؤ گے تو اس کی چنگاریوں سے تمہارے کپڑے جل جائیں گے اور کپڑے نہ بھی جلیں وہاں کی بدبو تو آئے گی۔

                دوستو ! جو بد کردار برے اور گناہ گار لوگ ہوتے ہیں ان کے اندر ایک بدبو ہوتی ہے وہ بدبو ایمان والا محسوس کرتا ہے ان کے قریب اسی لئے لوگ نہیں جاتے، جن کا باطن صاف ہوتا ہے وہ ان کے پاس  بیٹھ  نہیں سکتے، اس لئے کہ اہل ایمان ہی اس بدبو کو محسوس کرسکتے ہیں۔ ہمیں اچھوں کی صحبت اختیار کرنی چاہیے اور بروں کی صحبت اختیار نہیں کرنی چاہیے ۔ یہی میرے دوستوں ہمارا وطیرہ ہونا چاہیے۔ شیخ سعدی علیہ الرحمہ وہ تو حکمت اور دانائی کے موتی پڑوتے ہیں۔ ان کی وہ بات مجھے یاد آئی کہ سعدی زمین پر تشریف فرما ہیں مٹی سے خوشبو آرہی ہے۔ شیخ سعدی فرمانے لگے تجھ سے خوشبو آرہی ہے؟ تو تو حقیر اور ذلیل ہے ، گندی ہے، بڑی عجیب بات ہے۔ تجھ سے خوشبو کیسی؟مٹی نے جواب دیا۔

بگفتا  من  گل نا چیز  بودم                           ولیکن  مدتی   باگل  نشتم

کمال ہم نشین درمن اثر کرد                      وگرنہ من ھماں خاکم کہ ھستم

                مٹی نے کہامیں واقعی ذلیل حقیر مٹی، میری کوئی حیثیت نہیں ، لیکن میں کچھ عرصہ پھولوں کے ساتھ رہی ہوں آپ کو مجھ سے خوشبو آرہی ہے ۔یہ میرے ہمنشین پھولوں کی خوشبو ہے جو مجھ پر اثر کر گئی ہے اور میرے اندر وہ تاثر پیدا کرگئی ہے ۔ ورنہ میں وہی ذلیل حقیر مٹی ہوں۔

                میرے دوستوں! اچھے لوگوں کے ساتھ بیٹھیں گے ان کی خوشبوئیں ہمارے اندر بس جائیں گی اور برے لوگوں میں بیٹھیں گے تو اگر ہمارے اندر جو پہلے خوشبو ہے وہ بھی ختم ہوجائیگی اور ان کی بدبو ہمارے اندر آجائیگی۔      مجھے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک حدیث یاد آتی ہے۔ وہ سنا کر گفتگو ختم کروں۔

                حضور علیہ الصلوٰ ۃوالسلام نے فرمایا کہ آسمان سے فرشتے اترے اور زمین پر پھیل گئے اور تلاش کرنے لگے کہ کہاں ذکر و فکر کی محفل ہورہی ہے۔ کہاں اللہ اور اس کے رسول کا نام لیا جارہا ہے جب کسی فرشتے کو ایسی محفل نظر آگئی کہ یہ محفل بھی وہی محفل ہے۔ تو وہ اپنے ساتھیوں کو آواز دیتا ہے آجاؤ کام ہوگیا ہے توسارے فرشتے فوراً آجاتے ہیں ۔ اور اس محفل پر اپنی رحمتوں کے پر اتار دیتے ہیں اور محفل ہوتی رہتی ہے جب محفل ختم ہوجاتی ہے تو وہ فرشتے رب کی بارگاہ میں حاضر ہوتے ہیں رب فرماتا ہے اے فرشتوں تم نے میرے بندوں کو کس حال میں پایا ؟ اللہ تعالیٰ فرشتوں سے پوچھ رہا ہے۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جب معراج کی رات تشریف لے گئے اور مختلف منازل سے گزرے تو انہوں نے جبریل امین سے پوچھا یہ کیا ہے؟جبریل امین نے حضور کو بتایا تو جو لوگ حضور کے علم کا انکار کرتے ہیں وہ کہتے ہیں دیکھیں حضور کو پتا ہوتا تو کیوں پوچھتے؟ان کو پتا نہیں تھا۔ میں ان سے کہتا ہوں یہاں تو رب تبارک و تعالیٰ فرشتوں سے پوچھ رہا ہے اے میرے فرشتوں تم نے بندوں کو کس حال میں پایا ؟کیا رب کو پتا  نہیں ہے وہ تو عالم الغیب والشھادۃ ہے اس سے تو کوئی چیز پوشیدہ رہ ہی نہیں سکتی۔ تو کیوں پوچھ رہا ہے ۔ معلوم ہوا بعض دفعہ پوچھنا لا علمی کی وجہ سے نہیں حکمت کی وجہ سے ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے میرے فرشتوں تم نے میرے بندوں کو کس حال میں پایا؟تو فرشتے کہتے ہیں وہ تو بڑے پیارے لوگ تھے وہ تو بڑے اچھے لوگ تھے انہوں نے تیرے اور تیرے حبیب کی محفل سجائی تھی۔ ذکرو فکر میں مصروف تھے اللہ تعالیٰ فخرو مباہات فرماتا ہے۔ اے فرشتوں وہ مجھ سے کچھ مانگ بھی رہے تھے؟فرشتوں نے عرض کیا یا اللہ وہ تجھ سے تیری رحمت کے طلبگار تھے وہ تجھ سے جنت مانگ رہے تھے ۔ اللہ ارشاد فرماتا ہے وہ کسی چیز سے بچنا بھی چاہتے تھے؟یا اللہ وہ تیرے عذاب سے بچنا چاہتے تھے تیرے قہر اور ترے غضب سے بچنا چاہتے تھے وہ جہنم سے بچنا چاہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ۔ اے فرشتو گواہ ہوجاؤ میرے بندوں نے جو مجھ سے مانگا میں نے دے دیا اور میرے بندوں نے جس سے بچنا چاہا میں نے بچالیا۔ جب یہ بات ہوگئی تو فرشتوں نے بارگاہ رب العزت میں عرض کی یارب فیھم فلان عبد خطاء۔ یا اللہ اس محفل میں ان لوگوں میں ایک انتہائی گناہ گار سیاہ کار معصیت کار بندہ بھی بیٹھا تھا۔ ’’خاطی‘‘ گناہ گار کو کہتے ہیں اور ’’خطاء‘‘ کہتے ہیں بہت بڑے گناہ گار کو۔ جس نے کبیرہ گناہ کیے ہوں۔ حدیث شریف میں خطاء کے لفظ ہیں۔ فرشتے کہتے ہیں اس محفل میں انتہائی گناہ گار بد کار معصیت کار بندہ بھی بیٹھا تھا۔یا اللہ کیا تو نے اسے بھی بخش دیا ہے تو رب کائنات نے فرمایاولہ غفرت ’’میں نے اسے بھی بخش دیا ‘‘اب یہاں اہل علم موجود ہیں عربی زبان کے اعتبار سے ہونا چاہیے تھا وغفرت لہ میں نے اسے بخش دیا لیکن زور دینے کے لئے ضمیر پہلے آئی ولہ غفرت ہم نے اس کو بھی بخش دیا ہے کیوں ؟رب کائنات فرماتا ہے ھم القوم لا یشقی بھم جلیسھم ۔ یہ میرے ذکر اور فکر کی محفل سجانے والے ۔ یہ میرے اور میرے حبیب کا نام لینے والے وہ لوگ ہیں جن کے پاس بیٹھنے والا محروم القسمت نہیں ہوسکتا ۔ جن کے پاس بیٹھنے والا بدبخت نہیں ہوسکتا۔میرے دوستوں ذرا غور کرو وہ شخص جس کے بارے میں ہے خطاء تھا بلکہ روایت میں یہ الفاظ ہیں۔

                وانما مرفجلس معھم وہ شخص اس محفل میں شرکت کے لیے گھر سے نہیں نکلا تھا اس کا ارادہ محفل کا نہیں تھا وہ تو گھر کے کسی کام سے نکلا تھا۔ راستے میں مجلس ہورہی تھی اس نے کہا میں جاؤں۔ اس کی نیت ہی نہیں تھی۔ تو وہ شخص جو اس نیت سے نہیں نکلا تھا اللہ کے محبوبوں کی محفل میں آکر بیٹھ گیا ہے تو میرے دوستوں غور کرو اس پر کیسا کرم ہوا ہے اس نے کتنے گناہ کبیرہ کئے ۔انتہائی معصیت کار ۔ لیکن رب کائنات کی رحمت نے اسے اپنے غفران و رضوان میں لے لیا ہے ۔ یہ اللہ کے محبوبوں کی شان ہے ان کی صحبت بڑی اہم چیز ہے۔ مجھے تو وہ ایک حدیث یاد آتی ہے ہوسکتا ہے بعض علماء اس کے متعلق کچھ اور رائے رکھیں بحرحال حدیث تو وہ ہے۔ جب میدان محشر برپا ہوجائے گا جنتی جنت میں، دوزخی دوزخ میں چلے جائیں گے تو کچھ لوگ جنت میں ہونگے وہ اللہ رب العزت سے مباحثہ کریں گے۔ وہ ایسی بحث کریں  گےجس طرح دنیا میں کوئی اپنی جائیداد و مال پر بھی نہیں کرتا ہوگا۔ وہ جھگڑا پیار اور لاڈ کا جھگڑا ہوگا وہ کہیں گے یا اللہ ہم دنیا میں تھے فلاں فلاں شخص ہمارے ساتھ رہتے تھے۔ ہم اکٹھے رہتے تھے کھاتے تھے پیتے تھے اٹھتے تھے بیٹھتے تھے روزے رکھتے تھے نمازیں پڑھتے تھے۔ یا اللہ ان سے کوتاہیاں ہوگئیں ان سے گناہ سرزد ہوگئے تو نے انہیں جہنم میں ڈال دیا ہمیں جنت میں لے آیا۔ ان کے بغیر ہمیں جنت میں مزہ نہیں آرہا۔ یا اللہ انہیں جنت میں داخل فرما۔ اب اللہ تبارک و تعالیٰ یہ نہیں فرمائے گا کہ یہاں کوئی مطالبے نہیں ہوتے۔ جو ہم نے فیصلہ فرمادیا وہی ہے۔ بخشنے والا وہی ہے۔ چھوڑنے والا بھی وہی ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ نہیں فرمائے گا اور یہ بھی نہیں فرمائے گا کہ یہ دیکھا جائے انہوں نے کتنے گناہ کئے ہیں ؟کس معیار کے کئے ہیں؟ اتنوں میں چھوٹ ہے اور اتنوں میں چھوٹ نہیں ہے۔

                اللہ تعالیٰ فرمائے گا تم جاؤ جہنم میں جاؤ جس جس کو پہنچانتے ہو اس کو لے کر آؤ۔ آپ غور کریں۔ یہ حدیث پڑھی  میری بڑی عجیب کیفیت ہوئی۔ دیکھئے بخشنے والا وہی ہے مگر اسے اپنے محبوبوں کی عظمت و شان اجاگر کرنی تھی فرمایا کہ جاؤ جس جس کو پہنچانتے ہو اس کو پکڑ کر لے آؤ اور جنت میں لے آؤ۔ چنانچہ وہ  جہنم جس کی سینکڑوں ہزاروں میل تو آنچ ہوتی ہے۔ وہ جائیں گے جہنم کی آگ انہیں کچھ نہیں کرسکے گی۔ وہ جائیں گے اور اپنے ان ساتھیوں کو لے کر آجائیں گے اور پھر کہیں گے رب یہ تو تیرا کرم ہوگیا کچھ اور بھی کرم ہوجائے۔

                اللہ رب العزت فرمائے گا جس کے دل میں ایک دینار برابر ایمان ہے اسے بھی لے آؤ۔ چنانچہ وہ جائیں گے اور ان لوگوں کو لے کر آجائیں گے۔ جس کے دل میں دینار برابر ایمان ہے پھر رب کی رحمت پر اورجری ہوں گے اور کہیں گے اے رب تبارک و تعالیٰ تیرا بڑا کرم ، تو رحمن رحیم غفور رحیم ہے یا اللہ کچھ اور کرم فرمادے۔

                جاؤ جس کے دل میں ذرہ برابر ایمان ہے اسے نکال کر آؤ وہ جائیں گے انہیں لے کر آجائیں گے ۔ بخشنے والا وہ ہے چھوڑنے والا وہ ہے مگر اپنے محبوبوں کے ذریعے چھڑا رہا ہے اور یہی ہمارا عقیدہ ہے ہم نے اللہ کے محبوبوں  کا دامن اسی لیے پکڑا ہے کہ ان کی بات اللہ تبارک و تعالیٰ نہیں ٹالتا۔

                الحمد للہ حضرت شاہ تراب الحق رحمۃ اللہ علیہ وہ ہستی تھے جو اسی زمرے میں آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور اللہ تعالی ٰان کے فیوض و برکات قیامت تک جاری و ساری فرمائے۔ آمین۔

 


متعلقہ

تجویزوآراء