خاندان ِصدیق اکبر رضی اللہ عنہ
ازواج کی تعداد:
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ازواج کی تعداد چار ہے آپ نے دو ۲ نکاح مکۂ مکرمہ میں کیے اور دو ۲ مدینہ منورہ میں۔
پہلا نکاح اور اس سے اولاد:
پہلا نکا ح قریش کے مشہور شخص عبد العزی کی بیٹی امّ قتیلہ سے ہوا بعض کے نزدیک اس کا نام امّ قتلہ ہے، یہ قریش کے قبیلہ بنو عامر بن لوی سے تعلق رکھتی تھیں۔اس سے آپ کے ایک بڑے بیٹے حضرت سیدنا عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ایک بیٹی حضرت سیدتنا اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا پیدا ہوئیں۔
دوسرا نکاح اور ا س سے اولاد:
دوسرا نکاح امّ رومان (زینب)بنت عامر بن عویمر سے ہوا یہ قبیلہ فراش بن غنم بن کنانہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ان سے ایک بیٹے حضرت سیدنا عبد الرحمٰن رضی اللہ تعالیٰ عنہاور ایک بیٹی امّ المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاپیدا ہوئیں۔ حجۃ الوداع کے موقع پر ازواج مطہرات کو عمرہ کے لیے لے کر جانے والے یہی حضرت سیدنا عبد الرحمٰن بن ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی تھے۔
جوحورِ عین کو دیکھنا چاہے۔۔۔!
حضرت سیدتنا امّ رومان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا وصال ۶سن ہجری میں ہوا۔جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا انتقال ہوا تو اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم تدفین میں شریک تھے، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی قبر انور میں داخل ہوئے اور ان کے بار ے میں ارشاد فرمایا:‘‘جو حورعین میں سے کسی عورت کو دیکھنا چاہے وہ اسے دیکھ لے’’بعض علماء کرام فرماتے ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہا نے حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے دور میں انتقال فرمایا، تذکرۃ القاری میں ہے کہ پہلا قو ل اصح ہے یعنی آپ رضی اللہ عنہا نے سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دور میں ہی انتقال فرمایا۔
تیسرا نکاح اور اس سے اولاد:
تیسرا نکاح حبیبہ بنت خارجہ بن زید سے ہوا، ان سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سب سے چھوٹی بیٹی حضرت سیدتنا امّ کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا پیدا ہوئیں۔
چوتھا نکاح اور اس سے اولاد:
چوتھا نکاح سیدتنا اسماء بنت عمیس سے ہوا یہ حضرت سیدنا جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجہ تھیں، جنگ موتہ میں شام کے اندر حضرت سیدنا جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت ہوگئی تو ان سے حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نکاح کرلیا۔ جب یہ نبی کریم رؤف رحیم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے ساتھ حج کا سفر کرتے ہوئے ۲۵ ذوالقعدہ کو ذوالحلیفہ میں پہنچیں تو آپ کے بیٹے محمد کی ولادت ہوگئی۔حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ساتھ ہی تھے، اللہ عزوجل کے محبوب ، دانائے غیوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ارشاد فرمایا:‘‘غسل کر کے حج کے ارکان ادا کرتی رہو، ہاں کعبے کا طواف نہ کرنا(کیونکہ طواف کے لیے یقیناً مسجد حرام میں داخل ہونا پڑے گا اور نفاس والی عورت کا مسجد میں داخلہ ممنوع ہے)آپ وہ پہلی خاتون ہیں جنہیں اسلام میں یہ شرعی مسئلہ در پیش آیا یوں قیامت تک یہ مسئلہ آپ کے سبب سے نافذ ہوا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پاک دامنی کی شہادت خود حُسنِ اخلاق کے پیکر۔ محبوب رب اکبرصلی اللہ تعالیٰ علیہ الہ وسلم نے دی۔جب حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دنیاسے پردہ فرمایا تو حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم نے آپ سے نکاح کرلیا، اس طرح آپ کے بیٹے محمد کی پرورش حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم نے فرمائی ۔(الریاض النفرۃ، ج ۱، ص ۲۶۶)
اولاد کا تذکرہ فضیلت سے خالی نہیں:
اولاد کا تذکرہ اگرچہ سیرت کے لوازمات میں سے نہیں، مگر جب کسی کا نسب بیان کیا جائے تو اولاد کی طرف ذہن مائل ہوہی جاتا ہے کہ اولاد کا تذکرہ بھی فضیلت سے خالی نہیں ، کیونکہ اولاد کا نیک ہونا بھی والدین کی سرفرازی ، عزت و عظمت اور فخر کا باعث ہوتا ہے۔ جبکہ حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد اور خود آپ کے خصائص میں سے یہ بھی ہے کہ آپ کی چار پشتیں متواتر سرکارِ دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی صحبت سے فیض یافتہ ہیں اور انہیں شرف صحابیت حاصل ہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد کی تعداد چھ ہے تین بیٹیاں اور تین بیٹے۔ تفصیل درج ذیل ہے:
پہلے بیٹے، سیدنا عبد اللہ بن ابی بکر:
یہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سب سےبڑے بیٹے ہیں، قدیم الاسلام اور صحابیٔ رسول بھی ہیں۔ مکہ ،حنین اور طائف کی فتوحات میں سرکارِدو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ ساتھ رہے ہیں۔ ہجرت نبوی میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قریش کی دن بھر کی خبریں رات کو غار ثور پہنچاتے تھےغار میں رات گزار کر صبح ہی صبح اندھیرے میں مکہ آجاتے ۔ سفر ہجرت کا رہبر عبد اللہ بن اریقط جب نبی اکرم نور مجسم صلی تعالیٰ علیہ والہ وسلم اور حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ عیال صدیقی کو لے کر مدینہ منورہ پہنچ گئے ۔ اور اپنے والد حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کے دور خلافت میں دنیائے فانی سے دار آخرت تشریف لے گئے۔غزوہ طائف میں ایک تیر لگنے سے زخمی ہوئے جسے اَبُو محجَنْ ثَقْفِی نے چلایا تھا۔ وہ زخم ٹھیک ہوگیا لیکن بعد میں پھر ہرا ہوگیا اسی سبب سے آپ کی شہادت ہوئی۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتقال شوال المکرم سن ۱۱ ہجری میں ہوا اور تر کے میں صرف سات دینار چھوڑے ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اولاد کا سلسلہ نہیں چلا۔(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، باب عبد اللہ بن ابی بکر، ج ۳ ۔ ص۱۱،الاصابۃ فی معرفۃ الصاحبۃ ،عبد اللہ بن ابی بکر، ج ۴ ص۲۴)
دوسرے بیٹے، سیدنا عبد الرحمٰن بن ابی بکر:
ان کی کنیت ابو عبد اللہ ہے، صلح حدیبیہ کے موقع پر ایمان لائے، ہجرت مدینہ کی سعادت بھی حاصل کی، کاتب وحی مقرر ہوئے، بہت ہی بہادر تھے۔ دور جاہلیت اور دور اسلام دونوں مین ان کی بہادری کے واقعات بہت مشہور ہیں اور خصوصاً فتوحات شام میں ان کی جنگی مہارت اور جذبۂ جہاد قابلِ ستائش ہے، عراق کا مشہور شہر بصرہ آپ ہی کے ہاتھوں فتح ہوا۔ جنگ بدر میں کفار کے ساتھ تھے۔ پھر اللہ نے ان پر اور ان کی والدہ سیدتنا امّ رومان بنتِ عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر اپنا خصوصی فضل وکرم فرمایا کہ دونوں اسلام کی سعادت سے مشرف ہوئے آپ کی والدہ نے بھی ہجرت کی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفات ۵۳ سن ہجری میں مکۂ مکرمہ کے ایک پہاڑ کے قریب ہوئی۔ آپ کی ہمشیرہ امّ المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاآپکے جسد خا کی کو حرمِ کعبہ میں لائیں اور آپ کو وہیں دفن کیا گیا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کےبیٹےمحمد بن عبد الرحمٰن نے بھی اللہ عزوجل کے محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی زیارت کی اور ایمان سے مشرف ہوئے۔
سیدنا عبد الرحمٰن بن ابی بکر کی سعادت مندی:
اللہ کے حبیب صلی تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے اپنی علالت کے آخری ایام میں تر مسواک استعمال فرمائی۔ آپ رضی اللہ تعالی ٰ عنہ کی یہ سعادت مندی ہے کہ جو مسواک سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے استعمال فرمائی وہ آپ ہی کے پاس تھی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے وہ مسوا ک حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اشارہ نبوی کےمطابق لی اسے اپنے دانتوں سے نرم کیا اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کی آپ نے خوب مسواک فرمائی اور اس سے زائد فرمائی جتنی عادت شریفہ تھی۔ اس کے بعد وہ دوبارہ حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دے دی، حضرت سیدتنا اُمّ المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ دنیا کے کا اس آخری دن میں اللہ عزوجل نے میرے لعاب دہن کو حضرت اکرم نورِ مجسم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے لعاب دہن سے ملادیا جو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی آخرت کا پہلا دن تھا۔(سیرت سید الانبیاء،ص ۶۰۲،مدارج النبوۃ ، ج۲ ، ص۴۲۶)
تیسرے بیٹے، سیدنا محمد بن ابی بکر:
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کنیت ابو القاسم ہے ، اور قریش کے بڑے پارسالوگوں میں شمار ہوتا ہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت حجۃ الوداع کے موقع پرہوئی۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پرورش امیر المؤمنین حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمائی۔حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کو مصر کا گورنر بنایا تھا مگر وہاں کا چارج سنبھالنے سے قبل حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وصال ہوگیا۔حضرت سیدنا علی المرتضٰی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےبھی انہیں عامل مصر بنایا تھا۔
پہلی بیٹی، سیدتنا عائشہ صدیقہ بنت ابی بکر:
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت سیدنا عبد الرحمٰن بن ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سگی بہن ہیں، آپ کی ولادت بعثت نبوی کے چوتھےسال ہوئی نیز سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے دس بعثت نبوی میں نکاح فرمایا یعنی نکاح کے وقت آپکی عمر چھ سال تھی۔ آپ ام المؤمنین یعنی تمام مسلمانوں کی ماں ہیں اور حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےلیے یہ بھی ایک عظیم شرف ہےکہ آپ کی یہ بیٹی اُم المؤمنین ہیں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضور نبی پاک، صاحب لولاک صلی اللہ علیہ وسلم کی دیگر تمام ازواج کے مقابلے میں بہت لاڈلی تھیں اور سرکار دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم آپ سے بہت محبت فرمایا کرتے تھے۔(سیر ت سید الانبیاء ، ص۱۲۰، ۹۴)
حق مہر صدیق اکبر نے پیش کیا:
اللہ عزوجل کے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی اور اسی سال سید تنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی کا شانۂ نبوت میں رخصتی ہوئی اور بارگاہ رسالت میں آپ کے والد حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بطور حق مہر ساڑھے بار ہ اوقیہ یعنی کم و بیش پانچ سود رہم نذرکیے۔۔حضرت نبی پاک، صاحب لولاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ایک پیالہ دودھ سے صحابہ کرام علیہم الرضوان کی دعوت ولیمہ فرمائی۔
(المستدرک علی الصحیحین، کتاب معفۃ الصحابۃ ، ذکر اداء الصداق ، الحدیث :۶۷۷۳،ج۵،ص۶،مدارج النبوۃ ، ج۲، ص۶۹۔۷۰ ملخصاً)
علم و فضل میں سب سے بڑھ کر:
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی زوجہ ہونے کےباعث آپ رضی ا للہ تعالیٰ عنہا نے علمی حوالے سے بھی بارگاہ رسالت سے کثیر فیض حاصل کیا۔صحابیات میں سب سے بڑھ کر علم و فضل والی تھیں اور بڑےبڑے جید صحابہ کرام علیھم الرضوان بھی کئی مسائل میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی طرف رجوع کرتے تھے۔ خصوصاً اسلامی بہنوں کے مسائل کو بیان کرنے کے حوالے سے تمام عالم اسلام پر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بہت بڑا احسان ہے۔
آپ سے مروی احادیث مبارکہ:
آپ سے مروی احادیث کی تعداد کم و بیش ۲۲۱۰ ہے ان میں تقریبا ۱۱۷۴،احادیث بخاری و مسلم کے درمیان متفق علیہ ہیں۔ جبکہ فقط صحیح بخاری میں ۵۴ اور صحیح مسلم میں ۱۶۹ احادیث ان کے علاوہ ہیں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ۶۳ سال اور چند ماہ کی عمر میں سن ۵۷ ہجری میں انتقال فرماگئیں۔
اعتماد اور راز داری کی اعلیٰ مثال:
حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رسول اللہ صی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی لاڈلی زوجہ ہونے کے ساتھ ساتھ رازدار بھی تھیں۔اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے راز وہ اپنے والدین سےبھی پوشیدہ رکھتی تھیں۔ چنانچہ ، ایک بار حضرت سیدناابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے پاس تشریف لائے۔ آپ فتح مکہ کےلیے روانگی کی غرض سے گیہوں چھان رہیں تھیں۔اور نبی کریم رؤف رحیم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے آپ کو یہ معاملہ مخفی رکھنے کا حکم دیا تھا۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے دریافت کیا:‘‘یَا بُنَیَّۃُ! لِمَتَصْنَعِیْنَ ھٰذا الطَّعَام’’؟ یعنی اے بیٹی! تم یہ کھانے کا سامان کیوں تیار کررہی ہو؟آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے سکوت فرمایا اور کوئی جواب نہ دیا۔پھر آپ نے پوچھا:‘‘اَیُرِیْدُ رَسوْل اللہِ صَلّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اَنْ یَّغْزُو؟ یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم غزوے کا ارادہ رکھتے ہیں؟’’اس سوال پر بھی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا خاموش رہیں۔ اسی طرح صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کئی سوالات پوچھے لیکن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا خاموش بیٹھی رہیں۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی بیٹی کی مسلسل خاموشی دیکھی تو سمجھ گئے کہ یہ تربیت یافتہ بیٹی اللہ عزوجل کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا راز کبھی افشا ں نہیں کرسکتی چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ سےمطلوبہ معلومات حاصل کرلیں۔(البدایۃ و النھایۃ ، ج ۳ ، ص۴۷۵)
سیدنا عائشہ صدیقہ کی برکت:
ایک سفر سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ہار مدینہ طیبہ کے قریب کسی منزل میں گم ہوگیا، سرکار مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے اس منزل پر پڑاؤ ڈالا تاکہ ہا رمل جائے، نہ منزل میں پانی تھا نہ ہی لوگوں کے پاس ،لوگ حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سیدتنا عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تشریف لائے، دیکھا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی آغوش میں اپنا سر مبارک رکھ کر آرام فرمارہے ہیں۔ حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےسیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر سختی کا اظہار کیا لیکن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے آپ کو جنبش سے باز رکھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دو عالم کے مالک و مختار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی چشمانِ مبارکہ خواب سے بیدار ہوجائیں چنانچہ صبح ہوگئی اور نماز کےلیے پانی عدم دستیاب ، اس وقت اللہ عزجل نے اپنے لطف و کرم سے آیت تیمم نازل فرمائی اور لشکر اسلام نے صبح کی نماز تیمم کے ساتھ ادا کی حضرت سید بن حضیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا :‘‘مَاھِیَ بِاَوَّلِ بَرَکَتِکُمْ یَا اٰلَ اَبِیْ بَکْرٍ’’یعنی اے اولاد ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا یہ تمہاری پہلی برکت نہیں ہے۔(مطلب یہ کہ مسلمانون کو تمہاری بہت سی برکتیں پہنچی ہیں)سیدتنا عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ اس کے بعد جب اونٹ اٹھایاگیا تو ہار اونٹ کے نیچے سے مل گیا۔ (گویا حکمت الہٰی یہی تھی کہ سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی ا للہ تعالیٰ عنہا کےہار گم ہوجانے کے سبب مسلمان ایسی جگہ ٹھہر جائیں جہاں پانی نہ ہو اور پھر رب کی طرف سے حکم تیمم نازل ہو اور تا قیامت مسلمانوں کےلیے آسانی اور سہولت مہیا کی جائے۔)(صحیح البخاری، کتاب التیمم ، الحدیث:۳۳۴، ج۱ ، ص۱۳۳ملخصا)
دوسری بیٹی ،سیدتنا اسماء بنت ابی بکر:
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضیا للہ تعالیٰ عنہ کے سب سے بڑے بیٹے حضرت سید ناعبد اللہ بن ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سگی بہن ہیں اور آپ ہی حضرت سیدنا حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سب سے بڑی بیٹی ہیں، ہجرت کے موقع پر زاد سفر باندھنے کےلیے کوئی کپڑا نہ تھا آپ نے ہی اپنے کمر بند کے دو ٹکڑے کر کے باندھا تھا اس وقت سے آپ ذَاتُ النَطَاقَیْن کےلقب سے مشہور ہوگئیں۔حضرت سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے مکہ مکرمہ میں نکاح کیا جس سے متعدد اولاد ہوئی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے سو سال عمر پائی آخری عمر میں بینائی جاتی رہی اور مکہ مکر مہ میں وصال ہوا۔ آپ کےبیٹے حضرت سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شہنشاہ ِ مدینہ ،قرار قلب و سینہ صلی اللہ وسلم کی زیارت کی اور مقام صحابیت پر فائز ہوئے۔
تیسری بیٹی:سیدنا اُ م کلثوم:
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سب سے چھوٹی بیٹی ہیں، آپ اپنی والدہ حبیبہ بنت خارجہ بن زید کے پیٹ میں تھیں کہ حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وصال ہوگیا اور بوقتِ وصال آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہی کی پیدائش کی بشارت اور وراثت کی وصیت فرمائی تھی اور یوں صدیق اکبر کی وفات کے بعد ام کلثوم پیدا ہوئیں۔ حضرت سیدتنا ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے حضرت سیدنا طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نکاح کیا۔
نسل درنسل صحابی:
حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر انے کو ایک ایسا شرف حاصل ہوا جو اس گھرانے کے علاوہ کسی اور مسلمان گھرانے کو حاصل نہیں ہوا۔ ان کا شرف یہ تھا کہ وہ خود بھی صحابی ، ان کے والد بھی صحابی، ان کےبیٹے بھی صحابی اور پھر ان کے پوتے بھی صحابی، ان کی بیٹیاں بھی صحابیات ، ان کے نوا سے بھی صحابی۔
والد اور اولاد دونوں صحابی:
حضرت سیدنا موسیٰ بن عقبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم صرف چار ایسے افراد کو جانتےہیں جو خود بھی مشرف بہ اسلام ہوئے اور شرف صحابیت پایا اور ان کے بیٹوں نے بھی اسلام قبول ل کر کے شرف صحابیت حاصل کیا۔ ان چاروں کے نام یہ ہیں:(۱)ابو قحافہ عثمان بن عمر(۲)ابو بکر عبد اللہ بن عثمان(۳)عبد الرحمٰن بن ابی بکر(۴)اور محمد بن عبد الرحمٰن رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔(المعجم الکبیر ، نسبۃ ابی بکر الصدیق واسمہ ، الحدیث:۱، ج۱ ، ص۵۴)
صدیق اکبر کے بھائی:
کتب سیر و احادیث میں حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صرف دو بھائیوں کا اجمالاً تعارف ملتا ہے۔چنانچہ حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا گیا:‘‘آپ کے والد ابو بکر کا نام ہے؟’انہوں نے کہا:‘‘عبد اللہ ’’عرض کیا:‘‘لوگ تو آپ کو عتیق کہتے ہیں ؟‘‘ فرمایا: ’’ میرے دادا ابو قحافہ کے تین بیٹے تھے ۔ آپ نے ان کے نام عتیق ، معتیق اور معتق رکھے۔‘‘
صدیق اکبر کی بہنیں
پہلی بہن، سیدتنا اُمّ فروہ بنت ابی قحافہ:
یہ حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پہلی سوتیلی بہن ہیں اور ان کی والدہ کا نام ہند بنت نقید بن بحیر بن عبد بن قُصَی ہے۔ ان سے تین بیٹے محمد، اسحاق اور اسماعیل اور دو بیٹیاں حبابہ اور قریبہ پیدا ہوئیں۔
دوسری بہن، سیدتنا قریبہ بنت ابی قحافہ:
یہ بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سوتیلی بہن تھیں اور ان کی والدہ بھی نام ہند بنت نقید بن بحیر بن عبد بن قُصَی ہیں۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کا نکاح حضرت سیدنا قیس بن سعد بن عبادہ بن ولیم الساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کیا لیکن ان سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔
تیسری بہن ، سیدتنا اُمّ عامر بنت ابی قحافہ:
یہ بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سو تیلی بہن تھیں اور ان کی والدہ بھی ہند بنت نقید بن بحیر بن عبد بن قُصَی ہیں، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کا نکاح حضرت سیدنا عامر بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کیا جن سے صرف ایک بیٹی ضعیفہ پیدا ہوئی۔
(الطبقات الکبری، تسمیۃ النساء المسلمات المبایعات من قریش ، ج ۸، ص۱۹۶)