اَسبابِ شہادت حضرت عمر فاروقِ اعظم
امام زہری رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا طریقۂ کار یہ تھا کہ وہ کسی نا بالغ لڑکے کو مدینہ منورہ میں باہر سے داخل نہیں ہو نے دیتے تھے۔ ایک بار حاکم ِکوفہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کوفہ سے آپ کو لکھا کہ یہاں ایک بہت ہی ہو شیار اور کا ریگر لڑکا موجود ہے، اس کو بہت سے ہنر آتے ہیں لوہار اور بڑھئ کا کام اچھی طرح جانتا ہے۔ نقّاشی بھی بہت عمدہ کرتا ہے، اگر آپ اس کو مدینے میں داخلے کی اجازت دے دیں تو میں اس کو وہاں سے روانہ کردوں تا کہ وہاں پہنچ کے اہلِ مدینہ کے کام آسکے! آپ نے مدینے میں داخلے کی اجازت دے دی اور لکھ دیا کہ یہاں بھیج دیا جائے۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ نے کوفہ میں اس پر سو درہم کا خراج (ٹیکس) عا ئد کر رکھا تھا۔ یہاں مدینہ آ کر اس نے حضرتِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضرت مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شکایت کی کہ انھوں نے مجھ پر بہت ٹیکس لگا دیاہے۔ آپ نے فرمایا یہ ٹیکس زیادہ نہیں ہے۔ حضرتِ عمر رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کا جواب اس کو بہت نا گوار گزرا اور غصّے سے تلملاتا ہوا واپس آ گیا۔ چند روز کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے پھر بلایا اور فرمایا کہ تو کہتا تھا کہ اگر آپ کہیں گے تو میں ایسی چکی تیار کردوں گا جو ہوا سے چلے گی ۔" اس نے کڑوے تیوروں کے ساتھ جواب دیا کہ میں آپ کے لیے ایسی چکی تیار کردوں گا جس کا لوگ ہمیشہ ذکر کیا کریں گے، جب وہ چلا گیا تو حضرتِ عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ یہ لڑکا مجھے قتل کی دھمکی دے کر گیا ہے۔
آپ کی شہادت:
یہ لڑکا ابو لولو نامی ایک دو دھارا خنجر (جس کا قبضہ بیچ میں تھا) آستین میں چھپا کر مسجد میں ایک گو شے میں چھپ کر بیٹھ گیا ، ابھی پو نہیں پھٹی تھی،۔ حضرتِ عمر رضی اللہ تعالیٰ لوگوں کو نماز کے لیے جگاتے ہوئے گشت کر رہے تھے جب مسجد میں اس کے قریب سے گزرے تو اس نے آپ کے جسم پر پے درپے تین وار کیے۔ (ابن سعد)
عمروبن میمون انصاری رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ابو لو لو مغیرہ کے غلام نے حضرتِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دو دھارے خنجر سے شہید کیا آپ کے علاوہ بارہ اور افراد کو زخمی کیا ، ان مجروحین میں چھ افراد کا انتقال ہو گیا۔ اس حال میں جب کہ وہ لوگوں کو زخمی کر رہا تھا ایک عراقی نے اس پر کپڑا ڈال دیا (تا کہ وہ الجھ جائے اور اس کو پکڑ لیا جائے) جب ابو لولو اس کپڑے میں الجھ گیا تو اس نے اسی وقت خودکشی کرلی۔
ابو رافع کہتے ہیں کہ ابو لولو مغیرہ کا غلام چکیاں بنایا کرتا تھا اور حضرت مغیرہ اس سے چار درہم روزانہ وصول کیا کرتے تھے جس وقت وہ حضرتِ عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے ملا تو اس نے شکایت کی کہ اے امیرالمومنین مغیرہ رضی اللہ تعالی عنہ مجھ پر زیادتی کرتے ہیں آپ ان کو تنبیہ کر دیجیے،آپ نے جواب میں فرمایا کہ تجھے اپنے آقا کے ساتھ اچھی طرح پیش آنا چا ہیے، آپ کا منشا تو تھا کہ آپ اس کے بارے میں حضرت مغیرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے سفارش کریں گے،لیکن چوں کہ آپ نے واضح طور پر نہیں کہا تھا اس لیے ابو لو لوہ کو آپ کا جواب ناگوار گزرا اور کہنے لگا کہ امیرالمومنین آپ میرے سوا ہر ایک کے ساتھ انصاف کرتے ہیں! اس نے آپ کے قتل کا ارادہ کرلیا تھا اور ایک خنجر پر دھار رکھی اور اس کو زہر میں بجھا کر اپنے پاس رکھ لیا۔ حضرتِ عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا معمول تھا کہ آپ تکبیر سے پہلے فرمایا کرتے تھے کہ صفیں سیدھی کرلو! یہ سن کر ابو لولو صف میں آپ کے بالکل مقابل آ کھڑا ہوا اور فوراً ہی آپ کے شانے اور پہلو پر خنجر سے دو وار کیے، جس سے آپ گر پڑے اس کے بعد اس نے نمازیوں پر حملہ کیا اور تیرہ افراد کو زخمی کردیا (جن سے بعد میں چھ افراد حضرات وفات پاگئے)۔ چوں کہ آفتاب طلوع ہوا چاہتا تھااس لیے حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے دو بہت چھوٹی سورتوں کے ساتھ نماز پڑھائی اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ کے مکان لائے اور اولاً نبیذ پلائی، لیکن وہ آپ کے زخموں کے راستےباہر نکلی گئی، پھر آپ کو دودھ پلایا گیا وہ بھی زخموں سے باہر نکل گیا۔لوگوں نے آپ کی تسلی کی خاطر کے لیے کہا کہ آپ فکر نہ کیجیے(اگر دودھ اور نبیذنکل گیا تو کچھ ہرج نہیں) یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ اگر قتل میں کچھ ہرج بھی ہے تو بھی میں قتل ہو چکا۔(تاریخِ خلفا، اردو، ص ۳۰۵تا ۳۰۶)