حضور تاج الشریعہ اور فروغ تعلیم

عالم اسلام کی عبقری شخصیت حضور تاج الشریعہ مدظلہ العالی کے ’’فروغ تعلیم‘‘ کو میں نے اپنا موضوع سخن بنایا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر علم و فن کے کن کن پہلوؤں کا جائزہ لوں اور کن کو نظر انداز کروں؟

شکار ماہ یا تسخیر آفتاب کروں
میں کس کو ترک کروں کس کا انتخاب کرو

باتیں زیادہ، صفحات کم ہیں۔ کائنات علم کو آخر مٹھی میں بند کون کرسکتا ہے اور وہ بھی اس وقت جب کہ ممدوح کے گھر کا بچہ بچہ علم و فن کا کوہ ہمالہ ہو، پورا کا پورا گھرانہ علم و فضل کے زیور سے آراستہ ہو، اَن پڑھوں سے ہمیں بحث نہیں۔ پڑھے لکھے لوگوں سے پوچھ لیجیے حضرت رضا علی خاں ہندوستان کے کس عظیم سیوت کا نام ہے۔ حضرت مفتی نقلی علی خاں کس متکلم زمانہ کو کہتے ہیں؟ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی علم و فن کی کس حجت و برہان کا نام ہے، مفتی اعظم حضرت علامہ مصطفےٰ رضا خاں ہندوستان کے کس متقی و مدبر اعظم کا نام ہے۔ غرض کہ خانوادہ رضویہ کے افراد و اشخاص کا آپ بہ نظر انصاف جائزہ لیتے ہیں تو حقیقت خود آپ کو بتاتی جائے گی کہ ابھی جو ایشیا و یورپ میں دین و سنیت کی بہاریں ہیں، مدارس اہل سنت کی قطاریں ہیں اور تیرہویں صدی سے لے کر آج تک وہ علماء جن کے وار نیارے ہیں۔ تقریبا سب کے سب اس خانوادے کے بالواسطہ یا بلاواسطہ سنوارے ہیں۔

آپ دنیا کا جائزہ لیں گے تو آپ کوبہت سی ایسی خانقاہیں مل جائیں گی جن کے آبا و اجداد اور بانی مبانی نے تو تعلیم و تعلم اور دین و سنیت میں کار ہائے نمایاں انجام دئیے مگر آج کی مسند پر بیٹھنے والوںکا حال یہ ہے کہ ارکان اسلام سے بھی نا آشنا ہیں، وہ دوسروں تک کیا اسلام کا پیغام پہنچائیں گے خود جب اسلام اور علوم دینیہ سے کوسوں دور ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہوا؟ کیا ان کے پاس تعلیم حاصل کرنے کی راہیںمسدود تھیں؟ کیا انہیں کسی شرعی مجبوری نے علوم اسلامیہ سے غافل رکھا؟ بلکہ ان میں ’’پدرم سلطان بود‘‘ کا نشہ تھا، جب دیکھا کہ بچپن ہی سے اپنے آباو اجداد کی نیک نامی کی بھیک مل رہی ہے تو پھر تعلیم حاصل کرنے کیا ضرورت؟ سفر کی تکالیف اور مدارس سے قید و بندانہ نہ زندگی گزارنے سے کیا فائدہ؟ بنابنایا فیلڈ ہے چمکی چکمائی دکان ہے، بس اِدھر مرشد گرامی کی آنکھ بند ہوئی اُدھر جانشینی ہاتھ آئی۔

مگر واہ رے تاج الشریعہ کی ذات! پورا کا پورا ایشیا بلکہ عالم اسلام آپ کے گھرانے کا معتقد ہے ایک اشارہ ابرو پرتن، من، دھن کی بازی لگادینے کو تیار ہے، فیض یا فتوں کی خاصی بھیڑ لگی ہوئی ہے، ہر طرف آؤ بھگت ہو رہی ہے مگر ان سب کو چھوڑ کر آپ علم کی طرف لپکے جا رہے ہیں۔ ہندوستان میں ایک رجال علم و فن سے علمی تشنگی بجھانے کی کوشش کی مگر تشنگی بڑھتی ہی رہی ہے، پڑھتے گئے بڑھتے گئے، جب خوب پر نکل آئے تو پرواز کے لیے پر تولنے لگے، جامعہ ازہر سے بڑی وقت کی کوئی دینی درس گاہ نظر نہ آئی۔ بس کیا تھا پرواز کی اور پھر عالم اسلام کی سب سے عظیم یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا، خوب پڑھا، وقت کا صحیح استعمال کیا، آنکھوں کا تیل جلایا، کتابوں میں دماغ کھپایا، رات کو رات نہ سمجھا، جب جامعہ ازہر کا نتیجہ نکلا تو سارے طلبہ بالخصوص طلبۂ مصر دیکھ کر حیران و ششدر رہ گئے کہ ایک ہند نژاد طالب علم نے اپنے درجے میں وہ نمایاں مقام حاصل کیا ہے کہ سارے رفیق درس جس مقام کو حاصل کرنےکے لیے ترستے رہتے ہیں۔ آخر ایک عجمی نے ہم عربوں کے ملک میں آکر اپنی شوکت و سطوت کا جھنڈا کیسے گاڑ دیا؟

اس طرح جہاں گئے دور طالب علمی ہی سے اپنی علمی دھاک بٹھاتے رہے اور ایک کامیاب طالب علم کی حیثیت سے جانے جاتے رہے۔ آج نہیں محنتوں اور مشقتوں کا ثمرہ ہے کہ ان کے ہم پلہ کوئی نظر نہیں آتا، مرجع العلماء ہیں، مرجع اصحاب فقہ و تحقیق ہیں۔ آئیے ذرا اب ان کی علمی میدان میں ان کی کار فرمائیاں ملاحظہ فرمائیں:

’’تاج الشریعہ اور فروغ تعلیم‘‘ کے تحت بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے کیونکہ یہ آپ کی زندگی کا ایک اٹوٹ حصہ ہے، سفر میں ہوں یا حضر میں ہر جگہ علم و فضل کے جوہر لٹاتے رہے، کبھی مسند تدریس پر بیٹھ کر تشنگان علوم نبویہ کو سیراب کرتے رہے، تو کبھی دار الافتاء کو زینت بخش کر حل المشکلات بنتے رہے، کبھی دنیا کے چپے چپے میں گھوم کر علوم رضا تقسیم فرماتے رہے، کبھی فقہی سیمینار میں علماء کی نمائندگی کر کے اُن کے علمی تسامحات پر مطلع فرماتے رہے۔

زبان کی بات آئی تو زبان سے اور جب سنان قلم کی بات نکلی تو پھر اپنے قلمی جواہر پارے بکھیر کر وقت کی ضرورت کو پورا کرنے میں لگے رہے۔ غرض کہ علم و فن کی تمام مروجہ شاخوں پر اپنا آشیانہ بنا کر موقع محل کی مناسبت سے نغمہ سنجی کرتے رہے۔

تدریس کے ذریعہ فروغ تعلیم:۔

جامعہ ازہر سے فراغت کے بعد ہندوستان واپس تشریف لا کر اپنے مادر علمی ’’دار العلوم منظر اسلام‘‘ میں تدریس کے ذریعہ علم و فضل کے گوہر لٹانے لگے۔ یہ ۱۹۶۷؁ء کا آغاز تھا، برادر اکبر حضرت علامہ ریحان رضا خاں رحمانی میاں علیہ الرحمہ نے جب آپ کی تدریس کا نرالا انداز دیکھا تو آپ کو ۱۹۷۹؁ء میں صدر المدرسین‘‘ کے اعلیٰ عہدے پر فائز فرما دیا۔ اس طرح آپ یہاں مسلسل ۱۲؍ سال تک خدمت دین و سنیت میں لگے رہے اور علمی غلغلہ میں اپنے بہت سے معاصرین کو پیچھے چھوڑ دیا۔

آپ کی تدریسی دھمک ہندوستان کے کونے کونے میں محسوس کی جانے لگی، اور تشنگان علوم و معرفت آپ کی جانب رخت سفر باندھنے لگے اس طرح منظر اسلام آپ کے عہد تدریس میں شہرت و مقبولیت کے بام عروج کو پہنچ گیا۔ چنانچہ آپ کی درس گاہ سے ایسے ایسے علم و فضل کے بادشاہ نکلے کہ آج دنیا انہیں سر آنکھوں پر سجا رہی ہے اور دلوں میں جگہ دے رہی ہے۔ جب دعوتی اور مذہبی مصروفیات بڑھ گئیں، تبلیغی اسفار کے بغیر چارہ کار نہ رہا تو آپ دار العلوم منظر اسلام سے علیحدہ ہوگئے۔ مگر آپ کے عالمانہ اور رضویانہ ذہن نے اس بات کو قبول نہ کیا کہ صرف تبلیغی اسفار میں لگے رہیں اور طالبان علوم نبویہ کو یک سر نظر انداز کر دیں چنانچہ آپ نے ایک بار پھر اپنے کاشانۂ اقدس میں مسند تدریس کو شرف بخشا۔ درس قرآن و درس بخاری کے ذریعہ مذہب اسلام کی نشر و اشاعت کرنے لگے۔ جس میں طلبہ منظر اسلام، مظہر اسلام اور جامعہ نوریہ کثرت سے شریک ہوکر مستفید ہوئے۔

جب ’’جامعۃ الرضا‘‘ قائم ہوا تو وہاں جا کر آپ نے طلبہ کو بخاری شریف کا درس دینا شروع کیا اور ایک زمانے تک طلبہ جامعۃ الرضا کو اپنے کاشانہ اقدس ہی پر درس دیا کرتے تھے۔ جس میں فضیلت تخصص فی الفقہ اور افتاء کے بچوں کی حاضری لازمی ہوا کرتی تھی اس طرح آپ اپنی پیرانہ سالی اور ضعف و نقاہت کے باوجود فروغ تعلیم دین میں لگے رہے۔

فتاویٰ نویسی کے ذریعہ فروغ تعلیم:۔

۱۹۶۷؁ء ہی سے جب آپ نے تدریسی دنیا میں قدم رکھا تھا اس وقت سے لے کر اخیر تک فتویٰ نویسی کا اہم فریضہ انجام دیتے رہے، بقول مولانا محمد شہاب الدین رضوی ایک اندازے کے مطابق حضور تاج الشریعہ کے فتاویٰ کے رجسٹروں کی تعداد اکتیس سے متجاوز ہوگئی ہے۔ [1]

جو اپنے آپ میں ایک بہت بڑا علمی کارنامہ ہے۔ اس کے علاوہ اپنے مدرسے سے (جامعۃ الرضا) میں مشق افتا کے طلبہ کو درس دیا کرتے تھے اور انہیں دار الافتاء کے اسرار و رموز سکھا کر فتاویٰ نویسی کے لائق بناتے۔ اس طرح فروغ تعلیم اور اشاعت سنیت کا کام جاری و ساری رہا۔

تقریر کے ذریعہ فروغ تعلیم:۔

درس گاہوں میں تو آپ کی خالص علمی و تحقیقی تقاریر ہوتی ہی رہتی تھیں، جب جلسہ گاہوں میں آپ پہنچتے تھے تو وہاں بھی آپ اسلام کا حقیقی چہرہ پیش کرتے کیونکہ جلسہ گاہ مدارس سے جدا نہیں۔ اگر مدارس طلبہ کے پڑھنے کی جگہ ہیں تو جلسے عوام کے لیے بہترین درس گاہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چنانچہ آپ ابتدا ہی سےاپنی تقاریر کے ذریعہ عوام کو کچھ سکھانے کے در پے رہے اور قرآن و حدیث کی صحیح تعلیمات سے روشناس کرایا۔

تحریر کے ذریعہ فروغ تعلیم:۔

حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ قلم و قرطاس کی اہمیت کے پیش نظر وقتا فوقتا کتابیں تحریر فرماتے رہے اور شریعت مطہرہ کی حقیقی تعلیمات پیش کرتے رہے۔ حتی کہ کثرت اسفار، کثیر دینی مشاغل بلکہ آنکھوں سے معذور ہونے کے باوجود ان کی نئی نئی کتابیں اہل علم کو ذوق تسکین فراہم کرتی رہیں تو اہل علم مزید ورطہ میں ڈوبتے رہے کہ آخر اتنی مصروفیات کے باوجود کتابی کام کے لیے کہاں سے وقت نکال لیتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ ؎

ایں سعادت بزور بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ

آپ کی کتابیں کتابوں کے ڈھیر میں اضافے کا سبب نہیں بنتیں بلکہ وقت کی ضرورت کو پورا کیا کرتی ہیں اور اسلام کا اجالا لے کر آتی ہیں۔ حواشی، تعاریب، تراجم اور تصانیف کی مختلف شکلوں میں آپ کی کتابوں کی تعداد ۷۵؍ سے زائد ہے۔

جامعۃ الرضا:۔

حضور تاج الشریعہ نے فروغ تعلیم کے سلسلے میں اپنے طور پر علمی جد و جہد کرنے کے ساتھ ہی ساتھ سب سے بڑا کام یہ کیا کہ ایک علمی کار خانہ ’’جامعۃ الرضا‘‘ کھول کر تعلیم کی راہیں ہموار کردی ہیں جس میں ہر طرف سے تشنگان علوم و فنون جوق در جوق آکر اپنی علمی تشنگی بجھا رہے ہیں۔ اس میں محض روایتی تعلیم شامل نصاب نہیں ہے بلکہ اس کا نصاب قدیم نافع اور جدید صالح کا حسین سنگم ہے۔

شرعی کونسل آف انڈیا:۔

امت کو در پیش جدید مسائل کے حل کے لیے آپ نے شرعی کونسل آف انڈیا قائم کی جس کے تحت اپنے آغاز ہی سے اب تک بارہ سیمینار کا انعقاد ہوچکا ہے۔ اب تک (تقریبا ۳۶) نو پید مسائل کا حل تلاش کیا جا چکا ہے۔ یہ کام آپ کی سر پرستی میں ہر سال بحسن و خوبی انجام پاتا رہا۔ اس طرح آپ کی اس تحریک کے ذریعے چیلنجز کے اس دور میں مسلمانوں کو جدید فقہی مسائل سے آگاہ کیا جا رہا ہے۔

اداروں کی سر پرستی:۔

آپ کی علمی و فقہی دل چسپی اور بہترین قائدانہ صلاحیتوں کے پیش نظر ہر شخص نے آپ کو سرمہ نگاہ بنائے رکھا اور آپ کے سایہ کرم میں رہنے کو اپنے لیے باعث افتخار سمجھا۔ یہی وجہ ہے کہ سینکڑوں تعلیمی اور تنظیمی ادارے آپ کی سر پرستی میں چلتے رہے اور تعلیم و تبلیغ کا یہ سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا رہا۔

پیش ہے چند تعلیمی اداروں کی ایک فہرست:۔

۱۔ جامعہ مدینۃ الاسلام، ہالینڈ۔

۲۔ مرکز الدراسات الاسلامیہ جامعۃ الرضا، بریلی شریف۔

۳۔ الجامعۃ النوریہ، بہرائچ۔

۴۔ الجامعۃ الرضویہ، پٹنہ۔

۵۔ مدرسہ عربیہ غوثیہ حبیبیہ، برہان پور۔

۶۔ مدرسہ اہل سنت گلشن رضا، دھنباد۔

۷۔ مدرسہ غوثیہ چشن رضا، گجرات۔

۸۔ دار العلوم قریشیہ رضویہ، آسام۔

۹۔ مدرسہ رضاء العلوم ممبئی۔

۱۰۔ مدرسہ تنظیم المسلمین، پورنیہ۔

اس طرح حضرت کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کو تعلیم سے یا تعلیم کو آپ سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔



[1] ۔ حیات تاج الشریعہ، ص: ۲۰ ۔


متعلقہ

تجویزوآراء