"حضور تاج الشریعہ خانوادۂ رضویہ کا ’’مرد حق آگاہ
یہ سحر جو کبھی فردا ہے، کبھی ہے امروز
نہیں معلوم کہ ہوتی ہے کہاں سے پیدا
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستان وجود
ہوتی ہے بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا
مجھے یہ جان کر بے حد مسرت ہوئی کہ ہند و پاک کے صحافتی ادارے اور جامعات کے ارباب عالم و دانش وارث علوم امام احمد رضا، جانشین حضور مفتی اعظم ہند، تاج الشریعہ حضرت علامہ مفتی اختر رضا خاں صاحب قبلہ ازہری نور اللہ مرقدہ ادام المولی فضلہ کے ایوان علم و عمل اور ان کی تابناک زندگی کے مختلف گوشوں کو اپنی عقیدتوں کا خراج پیش کرنے کے لیے ملک و بیرون ملک کے ارباب قلم کے جامع و وقیع مقالات پر مشتمل ایک عظیم کتاب شائع کرنے جارہے ہیں۔
ہر چند کے ایجاد معانی ہے خدا داد
کوشش سے کہاں مرد ہنر مند ہے آزاد
خون رگِ معمارگی گرمی سے بے تعمیر
مئے خانۂ حافظ ہوکے بت خانۂ بہزاد
حضور تاج الشریعہ علامہ مفتی اختر رضا خاں صاحب قبلہ ازہری مرکز اہلسنت بریلی شریف اور عالم اسلام کی ان قد آور شخصیاب میں تھے جنہیں مبدأ فیاض نے ماضی و حال کے بے پناہ علم و فضل اور تقویٰ و طہارت کی دولت لازوال سے نوازا تھا۔ ان کی سب سے بڑی دینی و مسلکی خدمت خود ان کی تابناک اور قابل عمل زندگی کا نمونہ تھی۔ وہ چودہویں صدی ہجری کے مجدد اعظم سیدی امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی کے علوم و فنون کے حقیقی وارث تھے۔ انہوں نے عہد حاضر کے فتنہ پرور ماحول میں تحریری و تقریری طور پر حالات کا صحیح مقابلہ کرنے کے لیے اپنی با وقار شخصیت میں اعلیٰ نصب العینی، الوالعزمی، اور ملت اسلامیہ کی نا قابل تسخیر قدروں کو اپنی حیات ظاہری کا عنوان بنایا تھا۔ ان کی پر کشش شخصیت کے نہا خانوں میں علم و فن کا بحرنا پیدا کنار ہر لمحہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ ان کے پیکر جمال میں ٹھہراؤ بھی تھا اور رجولانی بھی۔ استحکام کا سکون بھی تھا اور انقلابی شرارے بھی۔ غیرت جلال بھی تھی اور جمال مروت بھی۔ دعوت و عزیمت کی صحر انوردی اور دینی فیصلوں کے نفاذ میں ان کی پر شکوہ اور مبسوط شخصیت جب ایک بار اپنی رائے پیش کر دیتی تھی تو پھر وہ کج کلا بان زمانہ کے تنقیدات اور تبصروں کی پرواہ نہیں کرتی۔ ان کی فکر و نظر کی اصابت، علم و فن کا تبحر، فضل و کمال کی انفرادیت اور دین و سنت کے ارتقاء کی راہوں میں ان کے جذبۂ ایثار کی عظمت کو عرب و عجم کے علماء نے تسلیم کیا ہے ؎
شمع کی طرح جئیں بزم گہے عالم میں
خود جلیں، دیدۂ اغیار کو بینا کر دیں
عصر حاضر کے معاصر علماء میں مجھے کوئی دور دور تک علمی، اور فقہی صلاحتیوں کے اعتبار سے حضور تاج الشریعہ کا ہم پلہ نظر نہیں آتا۔ انتہا درجہ ذہانت، استحضار علمی، معاملہ فہمی اور حاضر دماغی انہیں اپنے جد امجد سیدی امام احمد رضا سے میسر آئی تھی۔ انہیں علوم متداولہ میں ید طولیٰ حاصل تھا۔ فقہ حنفی کے جزئیات پر ان کی بلا خیز وقت نظر دیکھ کر سند نشان درس و افتاء کو خوشگوار حیرت ہوتی ہے۔ وہ قرآن، حدیث، تفسیر، ادب، تاریخ، فلسفہ، منطق اور کلام کا گہرا مطالعہ رکھتے تھے۔ ان کی عربی تصانیف اور شہ پاروں کو پڑھ کر ان پر عربائے عرب کا شائبہ گزرتا ہے۔ کہیں سے بھی عجمیت کا احساس نہیں ہوتا۔ صحت کلام سے بعض مقامات پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عربی زبان و ادب کی ذاتی میراث بن چکی ہو۔ جس کا اظہار ان کی انشاء پر دازی اور عربی خطابت و محادثت میں مقتضائے حال مقولے، مقفیٰ و مسجع عبارت اور موضوع اشعار کے فی البدیہہ استعمال سے طاہر ہوتا ہے۔
’’الفردۃ فی شرح البردۃ‘‘ عربی زبان و ادب میں حضور تاج الشریعہ کی ایسی شاہکار تصنیف ہے جسے پڑھ کر ان کی عالمانہ ندرت، تبحر علمی، کاروان شوق کی کیف و مستی، اور انداز کلام کا بانکپن ظاہر ہوتا ہے۔ ساتھ ہی ان کے اعلیٰ ذہن و دماغ کے نقش و نگار، زبان و بیان کی سلاست، عربی جملوں کی ترتیب و تہذیب میں فصاحت و بلاغت اور معنی خیز استعارے، تخیل و خاکات کی فراوانی جذبۂ دل کے انکشافات، جبرئیلی عشق کا فیضان اور درد مندوں کا الہام قاری کو ایک لمحے کے لیے ورطۂ حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔ اور ان تمام مرحلۂ لوح و قلم سے گزرتے ہوئے ان کی معقولیت پسند دلنوازی اجتہاد فکر، جرأت رندانہ اور کون و مکاں کے تاجدار کے قدم ناز سے ان کے قلب و جگر اور ہوش و خرد کی وابستگی ہر ہر لفظ سے نمایاں ہو رہی ہے۔ عشق رسالت کے جاذب کی منزل یقینی طور پر ایک دشوار تر منزل ہے اس سے سرخ رو ہوکر گزرنا اتنا آسان نہیں جنتا کے عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ بعض اوقات عاشق راز کے محسوسات و جذبات اس درجہ لطیف اور نازک ہوتے ہیں کہ الفاظ ان کا بار اٹھا ہی نہیں سکتے۔ ایسے عالم میں ان کے وجدان و خیالات اور علم و فکر کی ہیبت و ضاعی اپنے ایجاد معانی میں عالم غیب کے تصرفات و عنایات کامر ہون رہتی ہے۔ ’’الفردۃ فی شرح البردۃ‘‘ کو آپ پڑھتے جائیے۔ قدم قدم پر آپ کو عشق بے نیاز کا پہرہ نظر آئے گا۔ اور یہی حضور تاج الشریعہ کی داخل زندگی کا حسن اور نمایاں کمال ہے۔
مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصل حیات موت ہے اس پر حرام
عشق دم جبرئیل، عشق دم مصطفےٰ
عشق خدا کا رسول عشق خدا کا خلام
عشق کے مضراب سے نغمۂ تار حیات
عشق سے نور حیات عشق سے نار حیات
حضور تاج الشریعہ نے اپنی مصروف ترین زندگی کے باوجود عملی دنیا کو تشنہ نہیں چھوڑا۔ ان کی تمام تر تصنیفات نے اپنے دامن سیماب میں معلومات و حقائق کے جتنے آفاق تلاش کیے ہیں یہ انہیں کا اعجاز ہنر ہے۔ ان کی تمام تحریروں میں تعمیر خودی کا جوہر اور متعلقہ مباحث سے مظاہرات فن کا عکس دور دور تک پھیلا نظر آتا ہے۔ وہ بستان رضا کے نہایت ہی پُر جوش معتبر اور بلند پایہ شاعر بھی تھے۔ ان کا ایک ایک لفظ ادب لطیف کے عرق دو آتشہ میں ڈوبا ہوا ہے۔ وہ جس جذبۂ بے خودی اور سوز در ونی سے اپنے محبوب حقیقی کو آواز دیتے ہیں اس میں بظاہر کسی اور ترفع کی گنجائش نظر نہیں آتی۔ عالم نور کے پیکر لطیف اور عرش الٰہی کے مسند نشین کی بارگاہ ناز میں ان کی اجابت کا یہ حال تھا کہ مدیح نبوی کہتے وقت وہ افکار و تخیلات کی مشاطگی کے بجائے اپنے عشق لازوال تک براہ راست رسائی حاصل کر کے اپنے اعجاز ہنر سے اضاف سخن کے ماہرین کو دیدۂ حیرت بنا دیتے ہیں۔ فن شاعری میں زبان و بیان کی اہمیت کیا ہے۔ ترسیل و ابلاغ کی راہوں میں کس قدر دشواریاں در پیش ہوتی ہیں۔ ایک سخن ور کو زندگی کی تزئین و تعمیر اور اس کے بقائے دوام میں کیا کر دار ادا کرنا چاہیے حضور تاج الشریعہ کا بافیض اور سیال قلم فطرت کی حنا بندیوں سے واقف کار ہے۔
وہ غیر مرئی سے مرئی کی صورت پذیری کا ہنر جانتے ہیں۔ گویا کہ فن شاعری کا محرک اول خود ان کی داخلیت اور پر کشش جاہ وہ جلال ہے۔
میری مشاطگی کی کیا ضرورت حسن معنیٰ کو
کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالہ کی حنا بندی [1]
حضور تاج الشریعہ کی گرانقدر تصنیفات کی ایک لمبی فہرست ہے، عربی فارسی، اردو اور انگریزی زبان و ادب پر انہیں مکمل دسترس حاصل تھا۔ ان کی جامع اور وقیع تحریروں سےہر صنف سخن پر ان کے گہرے مطالعہ اندازہ ہوتا ہے۔ تحقیق و تدقیق کے حوالے سے ان کا رنگ و آہنگ حد درجہ منفرد اور اثر پذیر ہے۔ قحط الرجال کے نامساعد حالات میں اب ہماری ہاں کی درسگاہوں میں اس طرح کے حساس موضوعات پر طبع آزمائی کی روایت اتھتی جارہی ہے۔ حضور تاج الشریعہ نے اپنی مؤثرین اور لازوال نگارشات کے ذریعہ سے ملک و بیرون ملک کے عصری جامعات کا رشتہ ایک بار پھر خانقاہوں سے جوڑ دیا تھا۔
خاص کر ان کی عربی تصنیفات نے عالم عرب میں اپنی شہرت و پذیرائی کے جتنے آفاق فتح کئے ہیں اس سے حقیقی معنوں میں اہلسنت و جماعت کا وقار بلند ہوا ہے۔ انہوں نے معمولات اہلسنت کو استدلال کی زبان عطا فرمائی ہے۔ حضور تاج الشریعہ کی مندرجہ ذیل کتابیں اپنے عناوین کے لحاظ حد درجہ معلومات افزا اور معارف و حقائق سے پر ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:
(۱) الدفاع عن کنز الایمان فی جزأین۔ (۲) حکم التصویر۔ (۳) الحق المبین۔ (۴) مراۃ النجدیہ۔ (۵) تحقیق ابا ابراھیم تارح لیس آزر۔ (۶) تعریب رسالۃ شمول الاسلام لاصول الرسول الکرام للعلامۃ احمد رضا خاں رحمہ اللہ۔ (۷) رسالۃ سد المشارع علی من یقول ان الدین یستغنی عن الشارع۔ (۸) رسالۃ الصحابۃ نجوم الاھتداء۔ (۹) تعریب رسالۃ ’’الھاد الکاف فی حکم الضعاف‘‘ للامام احمد رضا۔ (۱۰) تعریب رسالۃ ’’قوارع القھار علی المجسجۃ الفجار‘‘ للامام احمد رضا۔ (۱۱) تعریب رسالۃ ’’الامن والعلیٰ لناعتی المصطفیٰ بدافع البلآء‘‘ للامام احمد رضا۔ (۱۲) تعریب رسالۃ ’’سبحٰن السبوع عن عیب کذب مقبوح ’’للامام احمد رضا۔ (۱۳) الفردۃ فی شرح البردۃ۔ (عربی شرح)
مذکورہ بالا تمام کتابوں میں ’’الفردہ‘‘ جو قصیدہ بردہ شریف (للشیخ علامہ شرف الدین محمد بن سعید البوصیری رحمۃ اللہ علیہ۔ المتوفی ۶۹۷ ھ ) کی شرح ہے۔ اس کے ایک ایک لفظ سے کوثر و تسنیم کے چشمے پھوٹتے ہیں۔ حضور تاج الشریعہ نے عالم عرب کی خانقاہوں میں قصیدہ بردہ کی عربی شرح لکھ کر حضرت امام بوصیری کے جذب و مستی، فکر و فن، عشقِ بے پناہ اور ذوق تصوف کو دوبارہ زندہ کر دیا ہے۔
ساتھ ہی امام احمد رضا فاضل بریلوی کے تتبع میں آپ کا نعتیہ دیوان ’’سفینۂ بخشش‘‘ (۱۹۸۶ء) جو آپ کی عربی و اردو نعت، قصائد، رباعیات اور مناقب پر مبنی ہے شعر و سخن کی دنیا میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ اشعار کی بندش اور صنعت کلام سے بے شمار مقامات پر فاضل بریلوی کا رنگ و آہنگ وارفتگی شوق اور فکری تجلیات کا عکس دور دور تک نکھرا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ میرے نزدیک جذبات کی حرارت جب فکر و خیال کی روشنیوں کے رنگ نکھارتی ہے تو الفاظ الہام کی آئینہ بندی کر کے ذہینی حجابوں سے اُدھر پوشیدہ حقیقتوں کا سراغ لگاتے اور محسوسات کے آفاق سے پرے اسرار و رموز کا پتہ لگاتے ہیں۔ دراصل شعری معنویت اپنے مقاصد بیان میں لفظیات کا سہارا چاہتی ہے۔ جب تک کے صاحب نطق و بیان لفظوں کے مزاج سے مکمل طور پر واقف کار نہ ہو وہ جذب و خیال کے آفاق کو مسخر نہیں کرسکتا۔ لفظیات پر باضابطہ گرفت کے بغیر نثر و نظم کی دنیا نا تمام رہتی ہے۔ میں ہمیشہ سے الفاظ کے حسیاتی اور علمی اثر و نفوذ کا قائل رہا ہوں۔ لفظیات کا صحیح اور برمحل انتخاب معانی ترسیل و ابلاغ کے لیے ازبس ضروری ہے۔ لفظ انسانی زندگی کا سرمایہ۔ تہذیب و تمدن کا عنوان، فکری نظریات پہچان اور احساس خودی کا استعارہ ہے۔ لفظ ہماری کائنات بیکراں، ہماری ذات کے ادراک کا مؤثر ذریعہ اور ہمارے محسوسات کے اظہار کا توانا تر وسیلہ ہے۔
دریا متلاطم ہوں تری موج گہر سے
شرمندہ ہو فطرت ترے اعجاز ہنر سے
خورشید کرے کسب ضیا تیرے شرر سے
ظاہر تیری تقدیر ہو سیمائے قمر سے [2]
میرے ممدوح گرانی حضور تاج الشریعہ سیدی علامہ اختر رضا خاں قادری الازھری دام ظلہ العالی علی الامۃ المسلمۃ بعد الوصال رحمۃ اللہ علیہ کی ہمہ جہت شخصیت عالم اسلام میں مرجع فتاویٰ تھی اور مرکز علم و فن بھی، وہ مفتی بھی ہیں قاضی بھی، مفسر بھی ہیں محدث بھی، فلسفی بھی ہیں اور مایہ ناز مفکر بھی، دانشور بھی ہیں اور کہنہ مشق شاعر و ادیب بھی، دعوت و عزیمت اور جرأت و استقامت کی تمام تر خوبیوں سے مرصع ان کی زندگی کی داخلی خوبیوں پر ہندو پاک کے ارباب قلم نے اب تک بہت کچھ لکھا ہے تاہم ہندو پاک کے جامعات کے زیر اہتمام حضور تاج الشریعہ کی حیات و خدمات پر شائع ہونے والی کتاب اپنی نوعیت کی منفرد ہوگی جس میں ان کے طغرا ہائے جمال کی دلکش خدو خال کو لوح و قلم کے دامن سیماب میں اتارنےکے لیے ملک و بیرون ملک کے مشاہیر ارباب علم و دانش کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ جس کے لیے میں ارباب حل و عقد اور ان کے تمام رفقائے کار کو اپنی جانب سے ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہوں بلاشبہ پوری علمی دنیا اور عشاقان تاج الشریعہ کی طرف سے بے شمار خواہشات اور دعاؤں کے مستحق ہیں رب قدیر و جباران کی کاوشوں کو قبول فرمائے۔ آمین۔
جہان تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود
کے سنگ وخشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا