صدرالشریعہ ایک باکمال مشفق استاذ
صدرالشریعہ ایک باکمال مشفق استاذ
مفتی محبوب رضا خاں بریلوی علیہ الرحمۃ
حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمۃ کی خدمت میں ۱۹۳۹ء میں مدرسۂ حافظیّہ سعیدیّہ دادوں ضلع علی گڑھ میں حاضر ہوا؛ چوں کہ درمیانِ سال تھا، حضرت نے فرمایا:
’’بندۂ خدا! بغیر پیشگی خط و کتابت کے آگئے، تین پیسے کا خط لکھ کر پہلے مجھ سے پہلے پوچھ تو لیا ہوتا، یہاں درمیانِ سال میں داخلہ ممنوع ہے۔ یہ ریاست ہے اور نواب صاحب کی اجازت کے بغیر درمیانِ سال میں داخلہ نہیں ہو سکتا۔‘‘
میں نے عرض کی کہ حضور اب تو میں آ گیا واپس نہیں جاؤں گا، داخلہ نہیں ہوتا تو نہ ہو۔ میں بستی میں کرائے پر مکان لے لوں گا۔ آپ پرائیوٹ طور پر کوئی ایک سبق مجھے شروع کرادیں۔ فرمایا: ’’میرے پاس وقت کہاں ہے۔‘‘ عرض کی کہ عصر مغرب کے درمیان وقت ہے۔ فرمایا: ’’اس وقت میں اخبار دیکھتا ہوں۔‘‘ عرض کی کہ حضور دس منٹ مجھے عنایت فرما دیں۔ فرمایا: ’’بچوں کی سی باتیں کرتے ہو، دس منٹ پڑھایا جا سکتا؟‘‘ عرض کی کہ حضور میرے لئے دس منٹ بہت ہیں۔ فرمایا: ’’کیا پڑھنا چاہتے ہو؟‘‘ عرض کی جو حضور پڑھائیں۔ ہنس پڑے، پھر فرمایا: ’’منطق کہاں تک پڑھی ہے؟‘‘ عرض کی ’’قطبی‘‘ پڑھی ہے۔ فرمایا: ’’مُلّاجلال شروع کر دو۔‘‘ عرض کیا جو حکم ہو۔ پھر کچھ تامّل کے بعد دریافت فرمایا: ’’میر زاہد رسالہ پڑھا ہے؟‘‘ عرض کیا نہیں فرمایا: ’’پھر پہلے رسالہ پڑھو‘‘ عرض کی جو حکم ۔ فرمایا: ’’کل سے ’میر زاہد‘ شروع کر دو۔‘‘ چناں چہ دوسرے روز عصر کی نماز کے بعد مدرسہ کے چبوترے پر چار پائی پر بیٹھ کر ’’میر زاہد‘‘ شروع کرایا تو اساتذۂ مدرسہ بھی شریکِ درس ہو گئے اور اکثر طلبہ بھی۔ یعنی ’’میر زاہد‘‘ رسالے میں میرے شریک طلبہ کی تعداد سب اسباق کی جماعتوں سے بڑی ہو گئی، نیز چھٹی جماعت میں شریک ہو کر اَسباق کی سماعت کی اجازت بھی مل گئی۔ مطبخ کے باورچی کو بلا کر حکم فرمایا کہ قاری صاحب کا کھانا دونوں وقت کا تم دینا اور پیسے ان سے طے کر لینا ۔چناں چہ میں کئی مہینے اس طرح ہوسٹل میں رہا، پھر ایک روز نواب غلام محمد خاں صاحب مرحوم متولّیِ مدرسہ ہوسٹل میں تشریف لائے، میری طلبی ہوئی اور مجھ کو باقاعدہ داخلہ مل گیا۔
میرے عزیز مفتی اعجاز ولی خاں صاحب مرحوم ومغفور حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمۃسے بہت قریب تھے، مجھے ان کے ساتھ قیام کی اجازت مل گئی؛ اس طرح میں حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمۃ کا خادمِ خاص بن گیا، سودا سلف کی خریداری اور دیگر امورِ خانہ میں مفتی اعجاز ولی خاں صاحب مرحوم کے بعد میں دخیل ہوا۔ دھوبی کو حضرت کے گھر کے کپڑے دینا، ان کا حساب لکھنا اور اندراج کے مطابق وصول کرنا میری ذمّے داری تھی، سبزی وغیرہ بھی میں خرید کر لاتا، کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ بعض چیزیں بغیر اجازت اپنی مرضی سے خرید لاتا جو کچھ منگوایا گیا اس میں اپنی مرضی سے رد و بدل کرلیتا حتیٰ کہ بعد میں اکثر ایسا بھی ہوتا کہ گھر سے کوئی بچہ پوچھنے کے لئے آتا کہ آج کیا پکایا جائے تو حضرت فرمادیتے کہ قاری صاحب سے پوچھو، کشیدنی تمباکو میں اپنی مرضی سے خرید لاتا،جتنی منگوائی جاتی اس سے بہت زیادہ خرید لاتا، فرماتے کہ اتنی کیوں خریدی میں نے تو اتنی کہی تھی۔ عرض کر دیتا کہ حضور یہ تمباکو بہت اچھا ہے، دیسی ہے اور خوب تیز ہے کام آئے گا، روز ایسا نہیں ملے گا؛ ہنس کر خاموش ہو جاتے، میں بربنائے خلوص و عقیدت اس قسم کے تصرفات کرتا تھا اور موصوف خلوص کے قدر دان تھے۔
عاداتِ کریمہ:
نہایت نفاست پسند تھے، طلبا سے بہت خلوص و محبّت فرماتے اور اولاد کی طرح سمجھتے تھے؛ چناں چہ ہم لوگ آپس میں ان کے لئے ابّا کا لفظ استعمال کرتے، چوں کہ حضرت کے بچے ان کو ابّا کہتے تھے۔ نہایت چشم پوش اور کریم النفس تھے، مگر اصول میں سخت گیر اور بہترین قسم کے منتظم تھے ، میں نے ان سے زیادہ متبع ِسنّت کسی کو نہیں دیکھا، صاف گو اور سادہ لوح نہایت معاملہ فہم خوش مزاج و حلیم البطع تھے، لباس بالکل سادہ پہنتے تھے، دیسی کھدر کا کرتہ، عرض کا پاجامہ، کھدر ہی کی بنڈی اور کھدر ہی کا جبّہ سفید یا ہرے رنگ کا مگر ٹوپی دو پلّی چپ عمدہ ململ یا دائل کی، رنگین عمامہ، جاڑوں میں، اونی ٹوپا، اونی یا روئی کی مرزئی دہلی والی سرخ نری کی ایک کنٹھے والی پاپوش استعمال فرماتے تھے نہایت وجیہہ شخصیت کے مالک تھے۔
پسندیدہ خوراک:
بھنا ہوا گوشت روٹی اور ترکاریوں میں تلے ہوئے کریلے شوق سے تناول فرماتے تھے، دار جینگ کی عمدہ چائے پیتے اور اس معاملے میں نہایت نفاست پسند واقع ہوئے تھے ایک مرتبہ والدہ صاحبہ گھوسی تشریف لے گئیں تھیں، حضرت دادوں میں موجود تھے، ایک میواتی فلک شیر خاں کی بھینس بیمار ہو گئی، مفتی اعجاز ولی خاں مرحوم نے اس کو تعویذ لکھ دیا کہ گھر کی ڈاہی میں لٹکا دے ، اللہ کے حکم سے وہ بھینس تندرست ہو گئی، اس نے تقریباً پانچ سیر دودھ مفتی صاحب کی نذر کیا، پروگرام بنا کہ چاول اور شکر حضرت کے یہاں سے حاصل کیے جائیں؛ میں نے خدمتِ اقدس میں عرض کی چاول اور شکر چاہیے۔ فرمایا: ’’کیا کرو گے؟‘‘ عرض کی کھیر پکائیں گے۔ فرمایا: ’’تو دودھ کہاں سے لو گے؟‘‘ عرض کی کہ دودھ اس طرح مل گیا ہے مسکرائے اور فرمایا: ’’ہم کو تعویذ کا معاوضہ کوئی نہیں دیتا، اعجاز میاں ہم سے زیادہ کامیاب ہیں۔‘‘ غرض کہ کھیر پکی مگر اس میں شکر زیادہ ہو گئی، میرے متعلّق طلباء نے مشہور کر رکھا تھا کہ میں میٹھا بہت زیادہ کھاتا ہوں؛ جب حضرت نے تناول فرمائی تو دوچار چمچے لے کر چھوڑ دی اور ہنس کر فرمایا:
’’اعجاز میاں! قاری صاحب نے اپنے مطلب کی پکائی ہے تاکہ اور کوئی نہ کھا سکے اب یہی اس کو ختم کریں گے۔‘‘
ہلکا میٹھا پسند فرماتے تھے، ہاں زیادہ کھاتے تھے اور کشیدنی تمباکو میں غازی پور ، گورکھ پور اور لکھنؤ کا عمدہ خمیرہ استعمال کرتے تھے، تمباکو کو بنانے ، خرید کر لانے اور اس میں خمیرہ ملانے کی خدمت میں انجام دیتا تھا۔
عصر کے بعد میں نے چہل قدمی کے لئے مشورہ دیا، پسند فرمایا۔ چناں چہ بعدِ نمازِ عصر روزانہ تقریباً ایک میل ٹہلنے کو جاتے، اکثر مولانا حافظ مبین الدین صاحب بھی ہمراہ ہوتے، راستہ بھر ہم لوگ مسائل پوچھتے جاتے اور حضرت جوابات ارشاد فرماتے جاتے۔ ایک مرتبہ ۱۲؍ ربیع الاوّل شریف کو صبحِ صادق کے وقت اپنے گھر میں محفلِ میلادسے فارغ ہو کر، نماز ادا کی اور حسن پور کے جلسے میں شرکت کے واسطے تشریف لے چلے،حضرت محدث صاحب کچھوچھوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ بھی وہاں تشریف لائے ہوئے تھے؛ دونوں بزرگوں کی چار پائیاں صحن میں برابر برابر پڑی تھیں ؛ ہم لوگ حضرت کے پاؤں دباتے جاتے اور مسائل پوچھتے جاتے، حضرت آنکھیں بند کیے ہوئے ہم کو جوابات ارشاد فرماتے جاتے۔ محدث صاحب علیہ الرحمۃنے کچھ دیر تو خاموشی اختیار فرمائی مگر جب سوالات و جوابات اور جوابات پر اعتراضات اور پھر اعتراضات کے جوابات کا سلسلہ ختم ہوتا نظر نہیں آیا تو اپنے مخصوص انداز میں ارشاد فرمایا کہ حضرت آپ کے تلامذہ معاملات میں بہت صفائی پسند واقع ہوئے ہیں۔ حضرت نے دریافت فرمایا کہ وہ کیسے؟ محدث صاحب علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ حضرت میں دیکھ رہا ہوں کہ ایک گھنٹہ ہوا کہ یہ حضرات آپ سے اپنی محنت کی قیمت نقد وصول فرماتے جا رہے ہیں؛ یہ لوگ ادھار کے قائل نہیں۔ حضرت نے ہنس کر فرمایا کہ میں عادی ہو چکا ہوں، اس سے میرے آرام میں خلل نہیں پڑتا ہے۔ اس کے بعد حضرت نےفرمایا کہ بس بھائی آپ لوگ بھی آرام فرمائیں اور محدث صاحب کو بھی آرام کرنے دیں، ان کو نیند آرہی ہے۔
انتظامی معاملات میں بہت با اصول واقع ہوئے تھے۔ ایک مرتبہ غالباً ۱۹۴۳ء کا واقعہ ہے، حضرت مفتیِ اعظمِ ہند قبلہ دَامَتْ مَعَالِیْہِ اور حضرت محدثِ پاکستان مولانا سردار احمد صاحب علیہ الرحمۃ نے حج و زیارت کا ارادہ فرمایا اور طے یہ ہوا کہ حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمۃ کو مدرسۂ مظہرِ اسلام اور دارالافتاء بریلی شریف کا کام، اہتمام و انتظام سونپا جائے، چناں چہ حضرت کو گھوسی سے بریلی شریف بلایا گیا اور سب کام حضرت کے سپرد کر کے دونوں حضرات حجازِ مقدس کے لئے روانہ ہو گئے۔ حضرت نے طلبا کی حاضری اور مطالعہ کے معاملات میں اپنی عادت کے مطابق سختی برتی، طلبا میں اکثریت بنگالیوں کی تھی ان کو یہ بات کھلی۔ چوں کہ حضرت مولانا سردار احمد علیہ الرحمۃ نرم پالیسی اختیار فرماتے تھے، انھوں نے احتجاجاً ایک روز غیر حاضری کی؛ حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمۃ بہت ناراض ہوئے اور سب غیر حاضر طلبا کو مدرسہ سے خارج فرما دیا اور فرمایا کہ میں مدرسہ بند کرنا پسند کروں مگر بدانتظامی اور بے اصولی کو برداشت نہیں کروں گا، طلبا کا خیال تھا کہ ایک دو روز میں حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمۃ نرم پڑجائیں گے مگر معاملہ ان کی امیدوں کے بالکل بر عکس ہوا؛ جو طلبا تھے ان کے اسباق بدستور جاری رہے اور حضرت کی طرف سے غیر حاضر طلبا سے مفاہمت کی کوئی پیش (رفت) نہ ہوئی، اب وہ لوگ گھبرائے، چناں چہ بریلی شریف کے بعض معزّزین کے پاس شکایت لے کر گئے اور اس سلسلے میں ان کی مدد چاہی، انھوں نے کانوں پر ہاتھ دھرے کہ نہ بابا اس معاملے میں ہم تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتے، تم نے بہت بڑی غلطی کی ہے اور حضرت کو غلط سمجھا ہے وہ طلبا کے بہت ہمدرد ہیں، مگر انتظامی معاملات میں بہت سخت گیر ہیں، بریلی شریف میں کسی کی مجال نہیں ہے جو اُن کے معاملے میں دخل دے۔ یہ مولانا سردار احمد صاحب نہیں ہیں، تمہارے لئے بہتر یہی ہے کہ تم سب حضرات بلا تاخیر حاضر ہو کر حضرت سے معافی مانگ لو، ہمیں امید ہے کہ معاف کر دیں گے۔ اس صورت میں ہم لوگ بھی تمہاری سفارش کے لئے تیار ہیں، جب طلبا ہر طرف سے مایوس ہو گئے تو ایک روز سب نے آ کر حضرت سے معافی مانگی، کچھ مقامی حضرات بھی سفارشی ہوئے؛ حضرت نے فرمایا کہ تمہارا یہ خیال تھا کہ مولوی سردار احمد آکر تم کو دوبارہ داخلِ مدرسہ کر لیں گے، ایسا ہر گز نہیں ہو سکے گا، جس کو میں مدرسہ سے نکال دوں اس کو مولوی سردار احمد نہیں داخل کر سکتے؛ آخر کار سب نے معافی مانگی اور آئندہ کے لئے پابندیِ احکام کا عہد کیا، معزّزینِ شہر نے سفارش کی، تب ان کو داخلہ دوبارہ ملا۔
اس سلسلے میں ایک واقعہ مجھے یاد آ رہا ہے کہ ہمارے بزرگ اپنے بزرگوں کا کس قدر احترام کرتے تھے اور ان سے کتنی عقیدت رکھتے تھے۔ حضرت مفتیِ اعظم ہند دامت برکاتہم العالیۃ اور مولانا سردار احمد صاحب علیہ الرحمۃجب سفرِ حج کے لئے سودا گری محلّے سے چلے تو اسٹیشن تک پیدل تشریف لے گئے، ہزار ہا آدمی جلوس میں شامل تھے، ایک بوگی ریلوے ریزرو کروائی گئی تھی؛ جب اسٹیشن پر گاڑی میں سوار ہوئے تو میں ایک برتھ پر حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمۃکے برابر بیٹھ گیا، سامنے کی برتھ پر حضرت مفتیِ اعظم ہند اور حضرت مولانا سردار احمد صاحب علیہ الرحمۃ تشریف فرما تھے، گاڑی چلنے والی تھی کہ مولانا سردار احمد صاحب علیہ الرحمۃ اپنی جگہ سے اٹھ کر میرے برابر آ بیٹھے اور چپکے سے میرے کان میں کہنے لگے کہ قاری صاحب میرا ایک کام کر دیں بڑی مہربانی ہو گی۔ میں نے کہا بسرد چشم؛ ارشاد فرمائیے فرمانے لگے کہ حضرت کی ٹوپی مجھے چاہیے، آپ مانگ کر مجھے عنایت فرمادیں۔ میں نے کہا آپ خود کیوں نہیں مانگتے؟ میرا عرض کرنا آپ سے زیادہ تھوڑا ہی مؤثّر ہوگا۔ فرمایا: نہیں، آپ مانگیے! میں نے کہا: میں تو نہیں کہوں گا، آپ خود مانگیں۔ مولانا نے فرمایا: نہیں آپ مانگیے، بندۂ خدا! گاڑی چلنے والی ہے، جلدی کیجیے! آخر میں نے حضرت سے عرض کی کہ مولانا آپ کی ٹوپی تبرکاً مانگ رہے ہیں۔ حضرت بہت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ میں گھر تک ننگے سر جاؤں اور ٹوپی ان کو دے دوں؛ گھر پر انہوں نے کیوں نہیں کہا! میں کوئی نئی ٹوپی دے دیتا، یہ بالکل پرانی ہے؛ اب مولانا علیہ الرحمۃ بولے: حضرت! میرے لئے یہی بہت ہے۔ میں نے اپنا رومال ۔۔۔؟ کا حضرت کی خدمت میں پیش کیا کہ حضرت یہ سر پر باندھ لیں اور یہ ٹوپی مولانا کو عنایت فرما دیں، گاڑی چلنے والی ہے؛ چناں چہ حضرت نے ٹوپی عنایت فرما ئی، گارڈ نے سیٹی بجائی، ہم لوگ گاڑی سے اتر آئے اور ٹرین چل دی؛ مولانا سردار احمد صاحب علیہ الرحمۃحضرت کے نہایت چہیتے شاگرد تھے، وہ خود بھی مانگ سکتے تھے؛ مگر ہمت نہ پڑی، ادب مانع ہوا، اور مجھے اپنا سفارشی بنا کر بات کی۔
ایک مرتبی بریلی شریف میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کے عرس کے موقع پر میں حضرت صدر الشریعہ کے پیر داب رہا تھا کوئی ۹ بجے رات کا وقت تھا اور حضرت آنکھیں بند کیے آرام فرمارہے تھے کہ مولانا سردار احمد صاحب علیہ الرحمۃ دبے پیروں آئے اور مجھے اشارہ کیا کہ میں ان کو بیٹھنے کے لئے جگہ دوں، چناں چہ میں تھوڑا سا اوپر کی طرف ہٹ گیا اور وہ بھی حضرت کے پیر دابنے لگے؛ حضرت نے آنکھیں بند کیے کیے دریافت فرمایا کہ کون ہے؟ مولانا خاموش رہے، میں نے عرض کی مولانا سردار احمد صاحب ہیں۔
’’حضرت نے فرمایا کہ مولوی سردار احمد! تم رہنے دو، قاری صاحب جو داب رہے ہیں، اب تم ماشاء اللہ مہتمم ہو، طلبا دیکھیں گے تو ہنسیں گے۔‘‘
مولانا نے عرض کی کہ حضور برسوں کے بعد تو یہ سعادت نصیب ہوئی ہے، میں تو آج بھی اپنے آپ کو ایک طالبِ علم سمجھتا ہوں، یہ سب حضور کا صدقہ ہے۔
حضرت خاموش ہو گئے۔ چند منٹ کے بعد حضرت حافظ الملت حافظ عبد العزیز صاحب علیہ الرحمۃ آئے اور مجھے اشارہ کیا کہ میں ہٹ جاؤں اور ان کو بیٹھنے کی جگہ دوں، چناں چہ میں ہٹ گیا اور وہ بھی حضرت کی کمر دابنے لگے۔ حضرت نے دریافت فرمایا کون ہے؟ میں نے عرض کی کہ حافظ عبد العزیز صاحب ہیں۔ حضرت نے فرمایا: ارے بھائی! آپ کیوں تکلیف کرتے ہیں؟ حافظ صاحب علیہ الرحمۃ نے عرض کی کہ حضور یہ تو ہمارے لئے عین راحت ہے۔ چناں چہ میں اٹھ کر پان بنانے چلا گیا، پان بنا کر لایا۔ ان دونوں حضرات کو پان پیش کیے۔ اتنے میں حضرت بھی اٹھ بیٹھے اور دیر تک باتیں ہوتی رہیں، دیگر علما بھی تشریف لے آئے اور محفل گرم ہو گئی۔ آج ان بزرگوں کو یاد کر کے آنکھیں بھر آتی ہیں کیسی نورانی شکلیں تھیں۔ ؎
زمیں میں کیسے کیسے حُسن والے دفن ہیں مضطر
قیامت ہو گی جب یہ سب کے سب مدفن سے نکلیں گے
طحاوی شریف پر حاشیہ:
حضرت کے قیامِ دادوں کے دوران حضرت مولانا حافظ مبین الدین صاحب امروہوی، حضرت مولانا سیّد ظہیر احمد صاحب زیدی نلینوی، حضرت مولانا محمد خلیل خاں صاحب مارہروی اور خاکسار نے صلاح کی کہ درسی کتب پر ہمارے علما کے حواشی کم ہیں، کیوں نہ حضرت سے کسی کتاب پر حاشیہ لکھوایا جائے۔ چناں چہ طے پایا کہ تفاسیر میں مدارک شریف اور کتبِ احادیث میں طحاوی شریف حنفیوں کی کتابیں ہیں اور معراء ہیں اور معقولات میں شرحِ ہدایۃ الحکمۃ معراء ہے، ان میں سے کسی پر لکھوایا جائے۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ حضرت سے فرمائش کون کرے۔ طے یہ ہوا کہ سب چلو اور قاری صاحب تجویز پیش کریں اور دوسرے احباب تائید کریں؛ چناں چہ کئی روز کے صلاح و مشورہ کے بعد ایک روز بخاری شریف کا سبق ختم کر کے میں نے عرض کی کہ حضور یہ تین کتابیں معراء میں مدرّسین اور طلبا دونوں کو ان کے پڑھنے پڑھانے میں دشواری پیش آتی ہے اور شرحِ ہدایۃ الحکمۃ آپ کی خاندانی کتاب ہے اور اس کی تقاریر بھی آپ کے سوا کوئی اور، مصنّف علیہ الرحمۃ کے منشاء اور مراد کے مطابق نہیں کر سکتا ہے، اس لئے پہلے شرحِ ہدایۃ الحکمۃ کا حاشیہ ہم کو لکھوادیں پھر ان دونوں کتابوں میں سے کسی ایک پر، جس کو آپ چاہیں، کام شروع کریں۔ حضرت یہ سن کر بہت ہنسے اور فرمایا کہ
’’تم لوگوں نے اس کام کو بہت آسان سمجھ لیا ہے یہ بہت ذمّے داری کا کام ہے؛ ابھی بہارِ شریعت ہی کا کچھ کام باقی ہے، میں بوڑھا ہو چکا ہوں قُویٰ میں اضحلال پیدا ہو گیا، اب میری صحت اس کی اجازت نہیں دیتی کہ میں یہ کام کروں۔‘‘
عرض کی کہ حضور کم از کم شرحِ ہدایۃ الحکمۃ ہم کو شروع کرادیں اور ذرا ٹھہر ٹھہر کر تقریر فرمائیں کہ ہم اس کو لکھ لیں۔ اس طرح یہ کتاب محشّٰی ہو جائے گی۔ فرمایا: ’’اتنا وقت کہاں ہے!‘‘ عرض کی کہ رات کو آدھا گھنٹہ کافی ہو گا؛ جب شروع ہو جائے گی تو اِنْ شَآءَ اللہ ختم بھی ہو جائے گی۔ کوئی جلدی نہیں ہے، مگر حضرت نے انکار فرمایا۔ دوسرے روز ہم نے صلاح کی تقاضا جاری رکھو؛ کب تک انکار کریں گے، آخر مان ہی جائیں گے! چناں چہ ہر روز کسی وقت ہم حاضرِ خدمت ہو کر عرض کر دیتے اور بعض مرتبہ ڈانٹ بھی سنتے؛ کئی مرتبہ فرمایا کہ تم لوگوں کو کئی دفعہ اپنی مجبوری بتا چکا ہوں پھر بھی ضد کیے جاتے ہو۔ اس وقت تو ہم خاموش اٹھ کرچلے آتے، مگر اگلے دن کسی نہ کسی بہانے سے پھر مسئلہ چھیڑ دیتے۔ چوں کہ سوال میں کرتا تھا، دوسرے احباب خاموش رہتے یا میری آواز میں تائید کرتے؛ لہٰذا، جھاڑ میرے اوپر پڑتی۔ بہر حال ہم نے ہمت نہیں ہاری۔ آخر ایک روز حضرت نے فرمایا کہ تم لوگ باز نہیں آؤ گے۔ ہم نے عرض کی کہ حضور بڑا کرم ہوگا، زیادہ نہیں تو دس منٹ روزانہ ہم کو عنایت فرما دیں۔ ہنس کر فرمایا کہ
یہ سب کہنے کی باتیں ہیں؛ کہیں دس منٹ میں بھی یہ کام ہو سکتاہے؛ میں اسباق پرھانے کے بعد تھک جاتا ہوں، بیٹھنا کھلتا ہے۔
میں نے عرض کی کہ حضور لیٹ جایا کریں میں پیر دابا کروں گا اور یہ لوگ لکھتے رہیں گے صرف زبانی تقریر فرمایا کریں۔ بہت ہنسے اور فرمایا قاری صاحب ضد بیجا کرتے ہو۔ میں نے عرض کی کہ حضور یہ کام کرنا ہی ہو گا۔مولوی سیّد ظہیر احمد صاحب زیدی بولے جی بے شک۔ حضرت نے فرمایا چپ رہ بے وقوف۔ سب لوگ ہنس پڑے، پھر ادھر ادھر کی باتیں ہونے لگیں جب مجلس برخاست ہوئی تو میں نے عرض کی کہ حضور پھر کل کس وقت شروع کرائیں گے؟ فرمایا:
’’ہتھیلی پرسرسوں مت جماؤ، یہاں کتابیں بھی نہیں ہیں، میرا حافظہ اب کمزور ہو گیا، حبیب گنج جاؤ اور نواب صدر یار جنگ بہادر مولانا حبیب الرحمن خاں صاحب شروانی کے کتب خانے سے افق المبین تصنیفِ میر باقر داماد اور شرح اشارات (اور بعض دیگر کتابیں بتائیں جن کا نام اِس وقت مجھے یاد نہیں ہے) لاؤ، پھر شروع کرنا۔‘‘
چناں چہ اگلے روز ظہر کی نماز کے بعد جب میں حبیب گنج جانے لگا تو ایک طالبِ علم کو میرے پاس بھیجا کہ قاری صاحب کو روکو، میں ٹھہر گیا؛ حضرت نے مسجد سے باہر آ کر فرمایا کہ
میرا خیال ہے جب خدمت ہی کرنی ہے تو دین کی خدمت کرو۔ ہدایۃ الحکمہ کو چھوڑو، مدارک شریف اور طحاوی شریف میں سے کسی ایک کا انتخاب کرو۔
ہم لوگ بہت خوش ہوئے اور عرض کی کہ حضور منتخب فرمائیں۔کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد ارشاد فرمایا کہ
حدیث کی خدمت کرو۔
ہم نے عرض کی کہ نہایت خوب! چناں چہ کتبِ معقولات کی فہرست مجھ سے لے لی اور شُروحِ حدیث کی بعض کتابیں لکھ کر دیں اور ایک خط نواب صاحب مرحوم کو لکھ کر مجھے دیا، جس میں کتابوں کا مطالبہ تھا۔
میں حبیب گنج نواب صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا، حضرت کا خط دیا۔ نو اب صاحب مرحوم نے محافظِ کتب خانہ کو بلا کر فرما دیا کہ کتابیں ان کو دے دو، اور ان سے دستخظ لے لو۔ چناں چہ وہ کتابیں لے کر میں فوراً واپس آیا اور اسی روز بعد نمازِ عشا، تحشیہ کا کام شروع کیا گیا۔ پہلے روز تو صرف بسم اللہ شریف لکھی گئی، باقی وقت باتوں میں گذر گیا، اگلے روز سے پابندی سے کام شروع ہوا۔ مولوی سیّدظہیر احمد صاحب اور مولوی خلیل خاں صاحب کتابت فرماتے تھے، چوں کہ خوش خط تھے۔ میں کتابیں نکال کر دیتا اور حافظ مبین الدین صاحب اور میں کتابوں میں سے متعلقہ حدیث ڈھونڈ کر نکالتے اور حضرت حاشیہ لکھاتے جاتے۔ رات کے دو ڈھائی بجے تک روزانہ بعدِ نمازِ عشا سے کام کرتے۔ ہم لوگ تھک جاتے، مگر حضرت مسلسل لکھواتے رہتے۔ درمیان میں ایک مرتبہ چائے چلتی۔ اس طرح بہت جلد طحاوی شریف کی کتاب الصلاۃ تک تحشیہ کا کام ہو چکا تھا کہ ہمارے امتحانات ختم ہوئے؛ اس کے بعد، حضرت نے مدرسۂ حافظیّہ سعیدیّہ دادوں سے استعفا دے دیا اور گھوسی تشریف لے گئے؛ وہاں جا کر حضرت کی بینائی کمزور ہو گئی اور تحشیہ کا کام رک گیا میری دعا ہے کہ حضرت کی اولاد یا تلامذہ میں سے کوئی صاحب اس کی تکمیل فرما دیں۔ والدہ صاحبہ کے پاس اس کا مسوّدہ موجود ہے۔
حضرت کا طریقۂ تدریس:
دوسرے مدرّسین سے حضرت کا طریقۂ تدریس مختلف پایا۔ دوسرے اساتذہ کے اسباق میں طلبا قراءَت کے لئے آپس میں جھگڑتے تھے مگر حضرت کے سبق میں ایک دوسرے کے کہنیاں مارتے تھے کہ تم قراءَت کرو۔ حضرت ایک مرتبہ ’’ہوں‘‘ فرماتے، یہ اشارہ ہوتا قراءَت شروع کرنے کا مگر طلبا آپس میں کہنیاں مارنا شروع کر دیتے، حضرت دوبارہ ’’ہوں‘‘ فرماتے، مگر کسی کی ہمت نہ پڑتی شروع کرنے کی، پھر جب تیسری مرتبہ ’’ہوں‘‘ فرماتے تو کوئی نہ کوئی گھبرا کر قراءَت شروع کر دیتا؛ اکثر و بیشتر میں اور حافظ مبین الدین قراءَت کرتے، کبھی کبھی دوسرے ساتھی بھی قرأت کرتے۔ اگر عبارت پڑھنے میں کوئی غلطی ہو جاتی تو پڑھنے والے کی شامت آجاتی، حضرت بہت ناراض ہوتے۔ ترجمہ لفظی پسند فرماتے تھے، اگر ترجمے میں کوئی لفظ اپنی طرف سے طالبِ علم بڑھا دیتا تو فوراً پوچھتے کہ یہ کس لفظ کا ترجمہ ہے۔ ترجمے کے بعد دریافت فرماتے کہ کیا سمجھے، بیان کرو۔ چناں چہ اگر مطلب صحیح بیان کر دیا جاتا تو خود تقریر فرمانے لگتے اور اگر مطلب صحیح بیان نہ ہوا تو ناراض ہوتے اور فرماتے کہ میرے پاس بغیر مطالعہ کیے مت آیا کرو۔ صدرا، شمسِ بازغہ، قاضی مبارک اور امور عامّہ جیسی مشکل کتابوں کی تقریر حفظ سے فرماتے جاتے، تقریر کے بعد پھر کتاب پر نظر ڈالتے اور فرماتے کہ اب حافظہ کمزور ہو گیا ہے، اس لئے دیکھ لیتا ہوں کہ کوئی جملہ رہ تو نہیں گیا؛ جوانی میں کتاب دیکھے بغیر پڑھاتا تھا۔ جہاں طالبِ علم نے بس کی، حضرت نے کتاب بند کر دی؛ کبھی یہ نہیں فرمایا کہ تھوڑا اور پڑھ لو بخلاف دوسرے مدرّسین کے کہ ان کے یہاں جب طالبِ علم نے بس کی تو انھوں نے فرمایا تھوڑا اور پڑھ لو۔ اس کے باوجود سب سے پہلے حضرت کی کتاب ختم ہوتی تھی اور سبق کی تقریر دوبار فرماتے تھے۔ میں تو اس کو حضرت کی کرامت ہی مانتا ہوں۔ بخاری شریف کے گویا حافظ تھے اور جن احادیث پر شُروحِ احادیث میں قیل و قال ہے ان کے متعلق ایسی تقریر فرماتے کہ طالبِ علم کو اعتراض کی گنجائش نہ رہ پاتی۔ ایک واقعہ مجھے خوب یاد ہے کہ بخاری شریف کی ایک حدیث جس میں حضور نبیِّ اکرم صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم نے قرطاس طلب فرمایا تھا اور حضرت سیّدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بایں خیال کہ بخار کی شدّت میں حضور علیہ الصّلاۃ والسّلام کو تکلیف دینا مناسب نہیں ہے قرطاس لانے کی مخالفت کی تھی، شروحِ احادیث میں بہت قیل و قال کی گئی ہے؛ چناں چہ میں نے فتح الباری، اور حافظ مبین الدین صاحب نے عینی شرحِ بخاری کا خوب مطالعہ کیا۔
(ماہ نامہ ’’اشرفیہ‘‘، مبارک پور، انڈیا (صدر الشریعہ نمبر)، اکتوبر/ نومبر ۱۹۹۵ء، ص ۲۵ تا ۳۰، بقیہ ص ۲۱)