شہباز خطابت

علامہ سید شاہ تراب الحق قا دری رحمۃ اﷲ علیہ

ازقلم :حاجی محمدحنیف طیب

______________________________________________________

 

پیر طریقت علامہ سیدشاہ تراب الحق قادری رحمۃ اللہ علیہ سے میری نیازمندی 67-1966سے تھی۔ انجمن طلبائے اسلام کے قیام سے پہلے مشورے کے لئے میں اُن کے پاس کورنگی حاضر ہو اتھا اور جب انجمن طلبا ئے اسلام قائم ہوئی تو تعاون کے حصول کے خاطر بھی حاضر ہوتارہا اُس وقت سے تا دم اخیر الحمد ﷲاُن کے ساتھ نیاز مندانہ تعلقات قائم دائم رہے ۔

حضرت مولا نا سید شاہ تراب الحق قادری رحمۃ اللہ علیہ پیر طریقت ،رہبر شریعت اور جما عت اہل سنت پاکستان کے کراچی کے امیراور اوورسیز پاکستان کے انچارج بھی رہے۔ آپ نے فن خطابت میں بھی اپنا لوہا منوایا ۔ آج تک پاکستان کے جن گنے چنے خطباء کی تقاریر کیلئے ہر جگہ لوگ سننے کو بے تابی کا مظاہرہ کرتے ہیں ،اُن میں ایک نمایا ں نام مولاناشاہ تراب الحق قادری علیہ الرحمہ کا ہے۔

طریقت کے اعتبار سے آپ حضرت مفتی اعظم ہند مولا نا مصطفی رضا خان نوری رحمۃُاﷲتعالیٰ علیہ سے شرف بیعت رکھتے ہیں۔ اور آپ نے اپنے گھر کے تمام افراد کو بھی مفتی اعظم ہند سے بیعت کروایا۔اُن سے آپکو خلا فت و اجازت کا بھی شر ف حاصل تھا۔ آپ کو قطب مدینہ حضرت مولاناضیا ء الدین مدنی رحمۃُ اﷲتعالیٰ علیہ ، قاری محمد مصلح الدین صدیقی قادری رضوی رحمۃُ اﷲتعالیٰ علیہ اورتاج الشریعہ مولانا اختر رضا خان ازہری صاحب سے بھی قادری رضوی سلسلے میں اجازت حاصل تھی۔ حضرت مولاناسید شاہ تراب الحق قادری صاحب کی خطابت کے علاوہ اُن کی تحریری میدان میں بھی بڑی نمایاں خدمات رہیں ۔جن میں چند نمایاں کتب انوار القرآن، ضیاءُ الحدیث ، جمال مصطفی، فضائل صحابہ و اہل بیت ،مزارات اولیاء اور توسل ،تصوف و طریقت ،رسول خدا کی نماز،تخلیق پاکستان میں علماء اہلسنت کا کردار ، امام اعظم ابو حنیفہ، دعوت و تنظیم ،دینی تعلیم سمیت تقریبا 21تصانیف شامل ہیں جبکہ چھوٹے رسائل اور مضامین تو آپ نے لا تعداد لکھے۔یہ ہمارے لئے بہت بڑاقیمتی سرمایہ اور اثاثہ ہیں، خاص طور پر اُن کی کتاب دعوت و تنظیم جوتنظیمی لوگوں کی تربیت کیلئے ہے، وہ ایک ایسی کتاب ہے جس کا ہر لیڈر کواور ہر کارکن کو مطالعہ ضرور کرنا چاہیے اور ہر عہدیدار کو اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے سلسلے میں اِس کتاب سے ضرور رہنمائی حاصل کرنی چاہئے۔ امام اعظم ابوحنیفہ کےبارے میں بھی آپ کی کتاب اہمیت کی حامل ہے ۔600احادیث کا مجموعہ ضیاء الحدیث بھی آپ کے ہر معتقدکے گھرمیں ہونی چاہے۔یہ کتاب گھر کے ہر فرد کیلئے رہنمائی کا ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ سینکڑوں سوالات کے جوابات پر مشتمل آپ کی سی ڈیزاور DVD's بھی دستیاب ہیں، جس میں عام زندگی سے متعلق اہم سوالات، جو لوگوں کے ذہن میں آتے ہیں اور جو لوگوں نے آپ سے پوچھے ہیں۔آپ نے اُن کابڑا تسلی بخش جواب وضاحت کے ساتھ دیا ۔ اس کوبھی سننے سے دین کے بارے میں انسان کو بڑی اہم دینی معلومات میسر آجاتی ہیں۔ جو لوگ علامہ شاہ تراب الحق قادری کے مشن کے فروغ کیلئے سرگرم عمل ہیں وہ اگر ان سوالات و جوابات کو پڑھا کریں تو انہیں کام میں آسانی رہے گی ۔

الحمدﷲجب1985ءمیں غیر جماعتی انتخابات ہونے والے تھے تو میں نے حضرت سے ملاقات کی  اورگذارش کی کہ وہ کراچی سے اولڈ ٹاؤن ، کھارادر اور گارڈن تک کی جو سیٹ ہے، اُس سے قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑیں۔ حضرت نے بہت زیادہ معذرت پیش کی لیکن خاکسار پر کرم فرماتے ہوئے اور میرے اصرار اور وقت کے تقاضے کو پیش نظر رکھتے ہوئے آپ نے الیکشن لڑنے پر آمادگی کااظہار فرمایا اور الحمدﷲ کراچی کے اہم ترین الیکشنوں میں سے ایک الیکشن آپ کا تھا اور آپ نے بہت بھاری اکثریت سے اس الیکشن میں کامیابی حاصل کی اور قومی اسمبلی میں بھی اپنی حاضر جوابی کا اور اپنے فن خطابت کا بھرپور مظاہرہ کیا۔

مرحوم محمد خان جو نیجوسابق وزیر اعظم پاکستان ،پوری کابینہ اور پوری اسمبلی آپ کے فن خطابت حاضر جو ابی کے حوالے سے آپ کی صلاحیتوں کے معترف تھے۔مولانا سیدشاہ تراب الحق قادری صاحب نے بڑی سادگی کے ساتھ زندگی گزاری ،اسمبلی کے ممبر بہت سارے لوگ بن جاتے ہیں اگر وہ دوسال ،ڈھائی تین ،پانچ سال بھی رہے تو ایک دفعہ بھی ایک لفظ بولنے کیلئے کھڑے نہیں ہوتے لیکن حضرت مولانا سید شاہ تراب الحق صاحب بہت فعال ممبر تھے اور بہت زیادہ گفتگو میں برجستگی اور حاضر جوابی تھی او ر یہی صورتحال شیخ الحدیث حضرت علامہ عبد المصطفیٰ الازہری صاحب کی بھی تھی۔میں جب بھی کبھی اسلام آباد عوامی کاموں کے سلسلے میں جاتاتو سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو(مرحوم)،سابق وزیراعظم سیدیوسف رضا گیلانی،کئیر ٹیکر وزیر اعظم چوہدری شجاعت حسین ،سابق اسپیکر سید فخر امام صاحب ،حامدناصرچٹھہ صاحب ،الٰہی بخش سومروصاحب،کیپٹن گوہرایو ب صاحب،چوہدری امیر حسین صاحب اور اسی طرح کئی اہم ملکی سطح پر عہدوں پرفائز رہنے والے لوگوں میں جب ملاقات ہوتی تو وہ شیخ الحدیث علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری اور خصوصاً مولانا سید شاہ تراب الحق قادری کی خیریت ضرور پوچھتے۔

۱۹۸۵ء میں نظام مصطفی گروپ کی طرف سے کراچی سے شیخ الحدیث علامہ عبد المصطفیٰ الازہری رحمۃ اللہ علیہ ، علامہ سید شاہ تراب الحق قادری رحمۃُ اللہ علیہ ، بیگم قمر النساء قمر ، محمد عثمان خان نوری اور یہ خادم قومی اسمبلی کے ارکان منتخب ہوئے علاوہ ازیں زین نورانی مرحوم،میر نواز مروت ، غلام محمد چشتی مرحوم، کنور قطب الدین خان بھی نظام مصطفی گروپ کی تائیدوحمایت سے ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے ۔وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے جب مجھ سے کہا کہ میں کراچی آؤں تو نظام مصطفی گروپ کے پانچ چھ ارکان قومی اسمبلی سے ملاقات کا اہتمام کرلیں گے؟ تو میں نے کہا انشاءَاللہ ضرور ملاقات ہوجائے گی۔وزیر اعظم کے کراچی آنے پر علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری کی قیادت میں قومی اسمبلی کے 9،ارکان نے ان سے ملاقات کی۔وزیر اعظم نے علامہ ازہری صاحب سے پوچھا کہ کراچی سے وفاقی وزیر کے لئے آپ کونسا نام تجویز کرتے ہیں تو علامہ ازہری صاحب نے اور مولانا شاہ تراب الحق صاحب کے مشورے سے میرا نام پیش کیا جسکی باقی تمام ارکان نے تائید کی۔جب وزیر اعظم نے کابینہ بنائی تو مجھے اس میں وفاقی وزیر محنت و افرادی قوت و سمندر پار پاکستانیزکے وزیر کے طور پر کابینہ میں شامل کیا ۔بعد ازاں پیٹرولیم و قدرتی وسائل اور وزارت ہاؤسنگ و تعمیرات کا وزیر رہا ۔یہ اللہ کا کرم ہے کہ تین سال سے زائد عرصے تک قائم رہنے والی وزارت میں ایک منٹ کے لئے بھی ہمارے درمیان کوئی تلخی یا اختلاف نہیں ہوا۔یہ صرف برکت ہے باہمی مشاورت کی اور مشائخ و علما ء اور احبا ب کے ساتھ ادب اور احترام سے پیش آنے کی ۔اس کے علاوہ حضرت شاہ صاحب کیساتھ مجھے بیرون ملک جا نے کابھی اتفاق ہوا، ایک طویل دورہ امریکہ کا بھی ہوا۔ امریکہ کی مختلف ریاستوں میں عید میلا د النبی ﷺو گیارہویں شریف کے جلسوں میں خطاب کے مواقع بھی میسر آئے۔ مولانا کے سوالات وجوابات کی نشست جس میں وہاں مقیم مسلمان آپ سے سوالات پوچھتے تھے ۔ان کو بھی بڑی توجہ کیساتھ سننے کا اور بہت کچھ ایسے سفر کے دوران سیکھنے کو ملا ۔اکثر و بیشتر علامہ شاہ تراب الحق قادری کی اردو تقریر کے بعد ۱۵منٹ کا انگریزی میں خلاصہ پیش کرنا میری ذمہ داری ہوا کرتی تھی ۔

مجھے حضرت کے ساتھ الحمد ﷲحج وعمرہ کی سعادت بھی حاصل ہو ئی۔بغداد شریف میں سرکار غوث اعظم،امام ابو حنیفہ ،حضرت جنید بغدادی ،حضر ت معروف کرخی ،حضرت بہلول دانا،حضرت سری سقطی،حضرت امام غزالی ،کربلائے معلیٰ ودیگر بزرگان دین ،شہد ائے کرام علیہم الرحمہ اور انبیاء کرام  علیہم السلام کے مزار پر حضرت کی قیادت میں حاضری کا شرف حاصل ہو ااور اس سفر کے دورا ن روحانیت اور شریعت کے حوالے سے بھی بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ میں حضرت کے ہمراہ ایک مرتبہ ساؤتھ افریقہ کے دورے پر بھی گیا، الحمدﷲوہاں حافظ محمد تقی شہیداور الحاج محمد صدیق اسماعیل بھی دورے میں ہما رے ساتھ شامل تھے ۔ وہاں بھی الحمدﷲحضرت کی تقریر کے بعد اُنکی تقریر کا انگریزی میں خلاصہ بیان کرنے کا مجھے شرف حاصل ہو ااور یہ دورے بھی ایسے تھے کہ مجھے دینی حوالے سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ۔

حضرت مولاناسید شاہ تراب الحق قادری رحمۃ اللہ علیہ نے کراچی میں جما عت اہل سنت کے سلسلے میں جو کام کیا ہے، اس کو جب جما عت اہل سنت کے مرکزی رہنما آکر دیکھتے یاکسی اور صوبے کے صوبائی رہنما آکر دیکھتے تو وہ حیران ہو جاتے ۔میں نے خصوصاً حضرت علامہ سیدمظہر سعید شاہ کاظمی صاحب سے ایک مرتبہ خود سناکہ جس انداز میں جماعت اہل سنت کا کام کراچی میں ہو رہا ہے، کاش کہ اس طرح پورے ملک میں ہوتا۔ بہرحال جما عت اہل سنت کی قیادت کو چاہیے کہ وہ کراچی میں جماعت اہل سنت کے کام کا جائزہ لینے کیلئے اور اس کا م کی تفصیلا ت کو دیکھنے اوراُس سے سیکھنے کیلئے وفودکو یہا ں کراچی بھیجا کریں، تاکہ آئیں دیکھیں اور تربیت حاصل کریں اور اسی طرح سے وہ دیگر علاقوں میں بھی جما عت اہل سنت کے کام کو منظم کریں، علاوہ ازیں علامہ سید شاہ تراب الحق قادری صاحب کی نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ مذہبی مسائل کے علاوہ جو دیگر مسائل، جیسے مساجد کے تحفظ کے معاملات ہیں ، مدارس کے نظم کو بہتر بنانے کامعاملہ ہے یا اس کے علاوہ یونیورسٹیز میں درپیش مسائل ہیں ،نئی آبادیوں میں مساجد کے پلاٹ پر نظر رکھنے کا معاملہ ہے ،یہ وہ ایشوزہیں کہ جس سے یقیناًعہدیداران تربیت حاصل کریں تو وہ جما عت اہل سنت کے لئے بہترین کام کرسکتے ہیں۔

اس کے علاوہ حضرت مو لا نا سید شاہ تراب الحق قادری رحمۃ اللہ علیہ کی منفرد نمایاں خوبی یہ تھی کہ وہ حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے کی بے مثال جرأت رکھتے تھے اور اس کو بیان کرنے کی نمایاں صلاحیت بھی رکھتے تھے ۔اس بات کا مشاہدہ میں نے کیا کہ کوئی بھی وزیر اعظم ہو، صدر ہو ،کوئی گورنر ہو ،کوئی بھی چیف منسٹر ہو،چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ہی کیوں نہ ہو ان کے سامنے حق اور سچ بات کو ڈنکے کی چوٹ پر مؤثر اند از میں بیان کرنا، اس میں بھی حضرت سید مولانا شاہ تراب الحق قادری رحمۃ اللہ علیہ کویدِ طولیٰ حاصل تھا۔

حضرت مولانا سید شاہ تراب الحق قادری کی زندگی کا ایک اہم پہلو توجہ طلب ہے آپ MNAکادورانیہ گزارنے کے بعد بھی cc70کی موٹر سائیکل پرسفر کرتے تھے اور موٹر سائیکل پرگھر سے نکل کرپہلے دارالعلوم امجدیہ میں جاتے تھے اُس کے انتظامات کے لئے کچھ ٹائم دیتے تھے،اس کے بعد میمن مسجد مصلح الدین گارڈن میں ظہرپڑھاتے تھے پھر اُس موٹر سائیکل میں بیٹھ کر دفتر آتے تھے جماعت اہل سنت کے دفتر میں روزانہ دوڈھائی گھنٹے بیٹھتے تھے پھر عصر،مغرب،عشاء کیلئے مسجد پہنچ جاتے ،اس دوران عوام سے ملاقات بھی جاری رہتی تھی اور روحانی علاج ومعالجے کاسلسلہ جاری ہوتاتھااور رات کی بھی کوئی نہ کوئی مصروفیات کسی درس کی صورت میں کسی جلسے کی صورت میں،نکاح پڑھانے کے حوالے سے مصروفیات انکی رہتی تھیں ۔

بعض لوگ یہ تاثر دیتے ہیں کہ مڈل کلا س کی قیادت اُن لوگوں نے اُبھاری ہے لیکن یہ خلاف حقیقت ہے۔میں حضرت مولانا شاہ تراب الحق قادری صاحب سے پچاس سال پہلے کورنگی کے کوارٹر میں ملا ہوں بعد ازاں یہاں اولڈ ٹاؤن کھارادرکی مساجد میں امامت اور خطابت سنبھالی تو جوڑیا بازارکے ایک چھوٹے سے فلیٹ میں اوپر رہتے تھے جہاں چڑھنا ،اُترنا ایک دشوار کام تھالیکن اُنہوں نے ساری چیزیں قبول کیں اور سادگی سے وقت گزارا۔اسی طرح حضرت مولانا شاہ احمدنورانی MNAبننے کے بعد بھی طویل عرصے تک صدرمیں کچھی میمن مسجد کے ساتھ والے فلیٹ میں رہتے تھے وہ بہت چھوٹا فلیٹ تھا۔ شیخ الحدیث علامہ عبد المصطفیٰ الازہری رحمۃُ اﷲعلیہ صدرُ الشریعہ علامہ مولانا امجدعلی اعظمی کے صاحبزادے ہیں جن کے پانچ  بھائی محدث کبیر مولانا ضیاءُ المصطفیٰ اعظمی ،مولانا ثنا ءُ المصطفیٰ اعظمی ، مولانا بہاءُ المصطفیٰ اعظمی ،مولانا فدا ءُ المصطفیٰ اعظمی اور استاد القراء مولانا قاری رضا ءُ المصطفیٰ اعظمی ہندوستان ،پاکستان میں شیخ الحدیث کے فرائض سر انجام دے چکے ہیں ۔علامہ ازہری ایم این اے بننے کے بعد ویگن میں کھڑے ہوکر سفر کرتے تھے اگر کسی کوخیال آجائے تو کوئی سیٹ اُن کیلئے خالی کردیتا تھا وہ دارالعلوم امجدیہ میں حدیث شریف کاسبق پڑھانے آیاکرتے تھے ،اسی طرح پروفیسرشاہ فرید الحق صاحب بھی سعود آباد میں ایک فلیٹ میں رہتے تھے۔ظہورالحسن بھوپالی جو بنیادی طور پرسیدنافاروق اعظم رضی اﷲتعالیٰ عنہ کی اولادمیں سے ہیں وہ جھگی نشین تھے لائنزایریامیں رہتے تھے جب اُن کی شہادت ہوئی وہ PECHSبلاک ۲کے مکان کے ایک حصے میں وہ کرائے کے مکان میں رہتے تھے ،جب وہاں سابق گورنرصوبہ سرحدسینیٹر فدامحمدخان آئے تو اُن کے ساتھ کچھ تاجرحضرات بھی آئے تو اُن تاجروں نے مجھ سے پوچھا یہ فلیٹ ظہورالحسن بھوپالی صاحب کا ہے میں نے کہاکہ نہیں یہ کرائے کاہے تو اُس میں سے ایک تاجر نے بارباراپنے کان پکڑنے شروع کئے اورکہاکہ میں اﷲسے توبہ مانگتاہوں ،استغفارپڑھتا ہوں ،میں نے انکے بارے میں لوگوں سے غلط اطلاعات شیئر کیں۔ مجھے بہت زیادہ دکھ ہواکہ بغیر معلومات کے میں نے بلاوجہ الزام تراشی سے کام لیا۔

حیدرآبا دکے مولاناسیدمحمد علی رضوی صاحب مسجد کے حجرے میں رہتے تھے تادم آخر حجرے میں رہے ،سکھر کے مفتی محمد حسین قادری ایم پی اے منتخب ہوئے تھے۔ وہ مدرسہ کے اوپر ایک ڈیڑھ کمرے کے مکان میں رہتے تھے۔ الحمدﷲمیں اب بھی ایک فلیٹ میں رہتاہوں اﷲکا شکر اداکرتا ہوں کہ اتنی اہم وزارتوں میں مجھے وقت گزارنے کاموقع ملا ،کیوں کہ اس میں والدین کی تربیت بھی تھی ،غزالی دوراں حضرت علامہ احمد سعید کاظمی رحمۃُ اﷲعلیہ کا میں مرید ہوں جو شخص شب و روزعلامہ عبد المصطفیٰ الازہری رحمۃ اﷲعلیہ اور مولانا شاہ تراب الحق قاری رحمۃُ اﷲعلیہ کے ساتھ رہے ،اور جس نے انجمن طلباء اسلام میں تربیت حاصل کی ہو تواس سے اسی کردار کی توقع رکھنی چاہیے ۔ الحمد ﷲایک پھوٹی کوڑی کی بھی کوئی کرپشن ثابت نہیں کرسکتا ۔اسی طرح باقی سارے ارکان جن میں مولانا محمد حسن حقانی ،محمد عثمان خان نوری و دیگر نے بھی بڑی سادگی سے زندگی گزاری۔


متعلقہ

تجویزوآراء