تاج الشریعہ کی عوام میں مقبولیت
قارئین کرام! اس دنیائے ہست و بود میں موت و زیست کا سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے جاری و ساری ہے، اب تک نہ جانے کتنے لوگ پیدا ہوئے اور نہ جانے کتنےموت کی آغوش میں چلے گئے تاریخ میں ان کا تذکرہ نہیں ہے۔ لیکن کچھ ایسے لوگ بھی پیدا ہوئے کہ ان کے نام تاریخ کے اوراق میں آسمان کے ستاروں کی طرح چمک دمک رہے ہیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کون لوگ ہیں جنہیں تاریخ کے اوراق میں جگہ ملتی ہے۔ اور دنیا انہیں کبھی فراموش نہیں کرپاتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں فرمان رسول پر عمل کیا اور اپنی زندگی کو اسلاف کا نمونہ بنایا۔ علم وعمل کے زیور سے اپنے آپ کو آراستہ اور پیراستہ کیا۔ پھر اعلاء کلمۃ الحق کے لیے اپنی زندگی کو راہ خدا میں وقف کر دیا۔
ایسی با کمال ہستیوں اور اوصاف حمیدہ کی حامل شخصیتوں کو تاریخ کے اوراق میں جگہ ملتی ہے۔ اور دنیا انہیں کبھی فراموش نہیں کر پاتی ہے۔ اس جہت سے جب ہم حضرت تاج الشریعہ مفتی اختر رضا خاں ازہری میاں علیہ الرحمہ کی ذات ستودہ صفات پر طائرانہ نظر ڈالتے ہیں تو وہ بھی اس کسوٹی پر کھڑے اترتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس دعوے کا مکمل ثبوت آپ حضرات کو عرس چہلم کے موقع پر تاج الشریعہ نمبروں سے مل جائے گا۔
نمبر نکالنے کے لیے ذمہ داران نے تاج الشریعہ کی حیات و خدمات کو صفحۂ قرطاس پر اتارنے کے لیے پچاس سے زائد عناوین کا انتخاب کیا ہے۔ اگر ساری عناوین پر قلم کاروں نے اپنی اپنی کاویشیں پیش کیں تو وہ نمبر نہیں بلکہ تاج الشریعہ کی شخصیت پر ایک عظیم انسائیکلو پیڈیا ثابت ہوگا۔ خدا کرے وہ عظیم نمبروں کا انسائیکلو پیڈیا عرس چہلم کے موقع پر پوری آب و تاب کے ساتھ منظر عام پر آجائے۔ آمین۔
مختلف ماہناموں کے مدیروں نے مجھ کم علم اور عدیم الفرصت انسان سے کسی عنوان پر مضمون نویسی کی فرمائش کی ہے۔ فرمائش بھی تاریخ کی پابندی کے ساتھ مطلوبہ تاریخ کے پیش نظر اتنے کم ٹائم میں ایسی ہمہ جہت شخصیت پر بغیر مواد کے قلم برداشتہ مضمون لکھ دینا ہم جیسے کم علم کےلیے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
بہر کیف حسب ارشاد چند جملے تاج الشریعہ کی بارگاہ میں خراج عقیدت کے طور پر پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔ ؎
گر قبول افتدز ہے عز و شرف
جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ مختلف ماہناموں کے مدیر حضرات نے حضرت تاج الشریعہ کی حیات و خدمات کو تاریخی دستاویز بنانے کے لیے پچاس سے زائد عناوین قائم کر کے مزید عنوان قلم کاروں کی صوابدید پر چھوڑ دیا ہے۔ اس وقت میری تحریر کا عنوان ہے۔
’’تاج الشریعہ کی عوام میں مقبولیت‘‘
تاج الشریعہ کی عوام میں بے پناہ مقبولیت تھی مقبولیت کی ہی وجہ تھی کہ آپ کی کوئی تاریخ خالی نہیں رہتی تھی۔ سال کے اکثر ایام آپ بیرون ملک رہا کرتے تھے، جب آپ ہندوستان میں ہوتے تھے تو اکثر صوبہ جات کے عقیدت مند و ارادت مند صرف تاریخ لینے کے لیے حضرت کے قریبی لوگوں سے سفارشیں کر واتے تھے تب جا کے تاریخ ملتی تھی۔ مولانا غلام جابر شمس مصباحی صاحب سمانچل اور اس کے قرب و جوار کے لیے کئی بار صردف تاریخ لینے کے لیے بریلی شریف تشریف لائے حتی الامکان کوشش بھی کی لیکن انہیں تاریخ نہیں مل سکی۔ اس طرح کے واقعات بہت سے لوگوں کے ساتھ پیش آئیے بہت سے علاقوں کے لوگ آپ سے مرید ہونے کے لیے ترستے اور تڑپتے رہ گئے۔ کٹیہار، پورنیہ، اور بنگال کے کچھ سربرآور دہ لوگوں نے مجھ سے کئی بار تاریخ لینے کی بات کہی اور میں نے حضرت کی تاریخ لینے کی کوشش بھی کی۔ لیکن میں نا کام ہی رہا۔ انتطار بسیار کے بعد بہت سے افراد وہاں سے بریلی شریف آکر مرید ہوئے۔ یہ میری معلومات کی بات ہے اس طرح سے اور بھی حضرات ایسے ہوں گے جن کو حضرت کی تاریخ نہیں ملی ہوگی اس مقام پر مجھے وہ مقولہ یاد آتا ہے کہ ’’ایک انار سو بیمار‘‘ حضرت کی ذات ایک تھی اور چاہنے والوں کی تعداد لاکھوں میں نہیں بلکہ کروڑوں میں تھی۔ اس لیے سب کو حضرت وقت نہیں دے پاتے تھے۔
وقت وصال کا واقعہ میرے نظروں کے سامنے ابتک گردش کر رہا ہے قارئین کو شاید یقین نہیں ہوگا۔ لیکن جنہوں نے یہ منظروں دیکھا ہوگا انہیں یقین ہی نہیں بلکہ عین الیقین ہے۔
جمعہ کے دن مغرب کے وقت تاج الشریعہ کاوصال ہوا۔ تقریبا ایک گھنٹہ بعد راقم الحروف اپنے مکان سے درگاہ حاضر ہوا عقیدت مند و ارادت مند کی اس قدر بھیڑ تھی کہ حضرت کے در دولت پر پہنچنا مشکل ہوگیا۔ حسن اتفاق کہئے کہ اس وقت راستے میں جامعہ رضویہ منظر اسلام کے پرنسپل حضرت مولانا محمد عاقل رضوی صاحب اور جامعہ کے مدرس حضرت مولانا افروز صاحب دونوں حضرات ساتھ ہوگئے۔ ہم تینوں لوگ کسی طرح سے تاج الشریعہ کے دروازے تک پہنچے کہ حضرت کا دیدار ہوجائے گا لیکن بھیڑ کی وجہ سے دھکا مکی ہونے لگی۔ چارو نا چار نا کام واپس ہوگئے۔ اب ذرا سوچئے کہ ایک گھنٹے کے اندر کہاں سے اتنی بھیڑ جمع ہوگئی۔ یہ ان کی مقبولیت ہی کی بات تھی کہ انتقال پر ملال کی خبر سنتے ہی لوگ سیل رواں کی طرح امنڈ پڑے۔ دوسرے دن صبح کو دوبارہ آخری دیدار کے لیے راقم الحروف حاضر ہوا۔ دیکھا کہ ملوکپور چوکی سے عقیدت مندوں کی لائن لگی ہوئی ہے۔ اس وقت ہمارے جامعہ کے مدرس حضرت مولانا محمدسلیم نوری صاحب بھی وہاں موجود تھے۔ ہم دونوں لوگ ہٹو بچو کر کے کسی طرح سے در دولت پر حاضر ہوئے۔ لوگ لائن سے یکے بعد دیگرے حضرت کا دیدار کر رہے تھے۔ لائن میں لگنے سے گھنٹوں کے بعد ہم دونوں کا نمبر آتا۔ اتفاق سے انتظامیہ کے لوگوں نے ہم دونوں کو دیکھ لیا۔ ان لوگوں نے اپنی نگرانی میں حضرت کا آخری دیدار کرایا۔ کیا عورت اور کیا مرد سبھی حضرت کے دیدار کےلیے پریشان تھے بھیڑ کا عالم یہ تھا کہ سوداگران میں تل رکھنے کی جگہ نہیں تھی۔
دوسرے دن بروز اتوار دس بجے دن نماز جنازہ کا اعلان ہوا۔ اس وقفے میں ملک و بیرون ملک کے اتنے لوگ جمع ہوگئے کہ کسی کو اس کا اندازہ نہیں تھا۔ اسلامیہ انٹر کالج کے میدان میں نماز جنازہ پڑھنے کا اعلان ہوا تھا۔ لوگ وقت سے پہلے وہاں پہنچ چکے تھے۔ بلکہ بعض لوگوں نے یہ بھی بتایا کہ لوگ رات ہی سے جمع ہونا شروع ہوگئے تھے اتوار کے دن صبح تقریباً ساڑھے آٹھ بجے راقم الحروف اپنے گھر سے اسلامیہ کےلیے روانہ ہوا۔ صالح نگر ہی سے اس قدر بھیڑ تھی کہ نہ کوئی رکشا تھا نہ کوئی ٹیمپو۔ پیدل وہاں تک پہنچنا میرے لیے بہت مشکل امر تھا۔ اتفاق سے محلے کا ایک شخص موٹر سائیکل سے جا رہا تھا انہوں نے اپنی گاڑی پر بیٹھا لیا بھیڑ کی وجہ سے عام راستے سے موٹر سائیکل بھی نہیں جا سکتی تھی۔ اس لیے انہوں نے محلے کی گلی کوچے سے کتب خانہ جو شہر بریلی کا قلب ہے اور میں چوراہا ہے۔ وہاں تک پہنچا۔ پیدل پیدل ہم دونوں کچھ دور آگے بڑھے۔ اسی اثنا میں اعلان ہونے لگا کہ صف بندی کرلو وقت ہوگیا ہے یعنی دس بجے گئے۔ جو جہاں تھا وہیں رک گیا۔
کتب خانہ سے چوپلہ تک ادھر چوکی چوراہا تک کہیں تل رکھنے کی جگہ نہیں تھی نتیجہ یہ ہوا کہ میں اسلامیہ نہیں پہنچ سکا۔ چار و نا چار کو توالی کے پاس لوگوں کے ساتھ صف میں کھڑا ہوگیا۔ نماز جنازہ کے بعد میں کوتوالی میں جا کر بیٹھ گیا پولیس والے بھیڑ دیکھ کر حواس باختہ تھے۔ بھیڑ کی وجہ سے میں دو بجے دن تک کوتوالی میں بیٹھا رہا، بھیڑ تھی کہ چھٹنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ وہیں پر اخباری نمائندوں سے ملاقات ہوئی میں نے عقیدت مندوں کی تعداد و شمار کے بارے میں پوچھا تو ان لوگوں نے بھی اعداد و شمار کا کوئی اندازہ نہیں بتایا۔ دوسرے دن کسی اخبار نے لاکھوں اور کسی نے کروڑوں کی تعداد تحریر کی۔ کانگریس پارٹی کے صدر جناب راہل گاندھی نے اپنے بیان میں کہا کہ اب تک میں نے کسی جگہ اتنی بھیڑ نہیں دیکھی۔ آناً فاناً اتنی بھیڑ کا جمع ہونا حضرت تاج الشریعہ کی عوام میں مقبولیت کا بین ثبوت ہے۔ خدائے پاک سے میری دعاء ہے کہ تاج الشریعہ کی قبر انور پر ہمہ وقت رحمت و نور کی بارش ہو۔ اور ہم پسماندگان کو صبر جمیل عطا ہو۔ آمین یا رب العالمین۔