حضرت سیدشاہ تراب الحق قادری اور تعلیمات رضا

حضرت سیدشاہ تراب الحق قادری اور تعلیماتِ رضا

تحریر: فیضان المصطفےٰ قادری النور انسٹی ٹیوٹ ہیوسٹن

Faizanulmustafa@yahoo.com

______________________________________________________

           

گزشتہ ۶ اکتوبر کو ہماری جماعت اپنے ایک عظیم سربراہ سے محروم ہوگئی۔ علامہ سید شاہ تراب الحق قادری اس رجل عظیم کا نام ہے جس نے طوفان کی زد پر محبت کے چراغ جلائے تھے اور اپنی رحلت سے پہلے اسے خوب روشن دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کی شخصیت ”زادہ بسطةً فی العلم والجسم “کی خوبصورت تفسیر تھی۔ انھوں نے زندگی کا جو سفر ۱۹۴۴ءمیں حیدرآباد دکن میں شروع کیا تھا وہ کراچی میں۲۰۱۶ءمیں مکمل ہوا، مگر اس سفر میں وہ کہاں کہاں گئے ؟کیا کیا خدمات انجام دیں؟کتنے پتھروں کو موم کیا ، کتنی خاردار وادیاں عبور کیں، کتنی کھائیاں پاٹ دیں، شاید اس کا ریکارڈ کسی کے پاس نہ ہو۔ وہ علم وتحقیق کا مخزن تھے،زبان وبیان کے بادشاہ تھے۔ شہرت وعزت خود ان کے در کے گدا تھے، حاضر جوابی کمال کی تھی، اور انداز بیان انوکھا تھا ۔ غیور باپ کی اولاد نے کبھی حمیت وغیرت کاسودا نہ کیا، مصلحت کوشی کے جراثیم دور دور تک نظر نہ آتے تھے۔ مگر پھر بھی سب کے دلوں کو موہ لیتے تھے۔

موصوف صرف پاکستان نہیں بلکہ پوری دنیا میں اہل سنت وجماعت کے قائدین اور سرکردہ علما ءمیں شمار ہوتے تھے، اور یہ قیادت صرف تقریر وخطابت کی حد تک محدود نہ تھی بلکہ مختلف محاذ پر آپ نے اہل سنت کی قیادت فرمائی ہے ، خصوصاً ، علمی وتحقیقی میدان میں، اہل باطل کے افکار ونظریات کے رد وابطال میں، صالح افکار کے ابلاغ وترسیل میں، بیعت وارشاد میں، اور حسب ضرورت سیاسی محاذ پر ۔ اور جس محاذ پر آپ نے کام کیا وہاں جماعت کو سرخرو کیاہے۔آپ کے علم وتحقیق، انداز بیان ،حق گوئی ، حاضر جوابی اور ظرافت نے مل کر آپ کی شخصیت کوایک انجمن بنادیا تھا۔ تاریخ میں بہت کم ایسے لوگ پیدا ہوئے ہیں جو عوام اور خواص سب میں یکساں مقبو ل ہوئے ہوں اور جن کے لیے سب کے دل دھڑکتے ہوں۔ اگر علم وتحقیق کی بنا پر اہل علم کسی کے قائل ہوتے ہیں تو عوام کے لیے ان کی باتیں سمجھ سے باہر ہوتی ہیں،اور جو اپنے خوبصورت انداز بیان سے عوام کا دل موہ لیتے ہیں کوئی ضروری نہیں کہ علما ءاور دانشور طبقہ ان سے متاثر ہو۔ مگر حضرت سید شاہ تراب الحق علیہ الرحمہ کی شخصیت اس لحاظ سے بڑی منفرد وممتاز تھی کہ آپ کے لیے عوام وخواص، این قدر تا آں قدر سبھی کے دل کے دروازے کھلے ہوئے تھے۔

 آپ کی شخصیت نے بڑے بڑوں کو مرعوب کیاہے لیکن خود کسی سے مرعوب نہ ہوتے تھے۔ بھرے بدن اور لمبے قد کے ساتھ وجیہ چہرے پر شاندار عمامہ آپ کی پہچان تھی ، لوگوں نے ہمیشہ یوں ہی دیکھا اور ایسا ہی ہمیشہ دیکھنا چاہتے تھے مگر رضائے الٰہی سے اب وہ ہمارے درمیان نہ رہے۔ اپنی پچاس سالہ دعوتی ،علمی اور تصنیفی خدمات انجام دے کر سرمدی رحمتوں کی آغوش میں جابسے ۔

مسلک اعلیٰ حضرت آپ کا مشن:

تاریخ میں بہت کم ایسا ہو ا ہے کہ کسی ایک شخصیت کو حق وباطل کے درمیان وجہ امتیاز اور خط فاصل کا درجہ دیاگیا ہو۔ جس ایک شخصیت کو اللہ تعالیٰ نے پوری ایک صدی سے حق وصداقت کا معیار قرار دیاہے وہ شخصیت امام احمدرضا کی ہے۔

ایسا نہیں کہ آپ سے بیعت وارشاد کا ایک سلسلہ چل نکلا تو مریدین ومتوسلین تو سب کچھ سمجھتے ہوں ‘لیکن باقی دنیا کو ان سے کچھ لینا دینا نہ ہو۔ نہیں، بلکہ انھیں بارگاہ رسالت سے وہ مرکزیت حاصل ہوئی کہ خواہ سلسلہ رضویہ ہو یا سلسلہ اشرفیہ ، سلسلہ قادریہ ہو یا سلسلہ چشتیہ یا سلسلہ سہروردیہ یا سلسلہ نقشبندیہ یا کوئی اور،سبھی امام احمدرضا کو اپنا امام تسلیم کرتے ہیں، بلکہ وہابی نجدی تو تمام سلاسل طریقت کو ہی ”بریلوی“ کے نام سے یادکرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اعلیٰ حضرت نے اپنی تصنیفات کے ذریعہ ان تمام عقائد ومسائل میں حق وصداقت کو آفتاب نیمروز کی طرح عیاں کردیا جن کی قوم کو ضرورت ہے۔ لہٰذا بعد کے اکابر علمائے کرام وقائدین ملت کا یہی طرز عمل رہا کہ امام احمدرضا کی تعلیمات کو من وعن اپنا لیاجائے۔ خصوصاً ہندوپاک کے اساطین کا یہی شیوہ رہا۔

حضرت سید شاہ تراب الحق صاحب قبلہ اس گروہ کے سرخیل تھے جو قوم کو امام احمدرضا کی تعلیمات پر گامزن دیکھنا چاہتا تھا۔ اور اس کے لیے ہمہ تن جد وجہد کرتے رہے۔ اس کے لیے آپ کی سرگرمیاں صرف تقریر تک محدود نہ رہیں ، بلکہ تنظیمی سطح پر اس کے لیے آپ نے بہت کام کیے۔ اپنوں میں اس کے لیے تنظیمیں بنائیں، تحریکیں چلائیں، جلسے کیے ، ملاقاتیں کیں، ذہن سازی کے لیے اپنی فکری وعملی قوتوں کو پورے طور پر بروئے کار لاتے رہے، اور غیروں سے اس کے لیے مناظرے کیے ، کھلے ماحول میں سوال وجواب کے سیشن کیے، ملاقاتیں کیں، ہر محاذ پر حق کا اس کے لیے کام کرتے رہے۔

اس کے لیے آپ کی خدمات نصف صدی سے زائد عرصے کو محیط ہیں۔ اس عرصے میں آپ نے دنیا کے بیشتر ملکوں کے دورے کیے، مراکز ومساجد کی بناڈالی، نوجوانوں کو تحریک دی، سمجھنے کا شعور دیا، بولنے کا سلیقہ دیا ، اور اعلیٰ حضرت کی تعلیمات کو دور دور تک پہنچایا۔ آپ اپنے بیان میں جب امام احمدرضا قدس سرہ العزیز کا حوالہ دیتے تو ان کا ذکر کچھ اس شان سے کرتے کہ سامعین پر ان کی عظمت کاسکہ بیٹھ جاتا۔ بیان مختصر ہو یا مفصل اعلیٰ حضرت کا نام اسی شان سے لیتے کہ القاب وآداب میں کوئی کمی نہ کرتے۔

امام احمدرضا قدس سرہ سے اختلاف:

علمی اختلاف تو کسی کا کسی سے بھی ہوسکتا ہے ، یہ فطری بات ہے کہ کسی کی سوچ اور فکر وہاں تک نہ پہنچے جہاں تک اعلیٰ حضرت کی پہنچی ہو، اورظاہر ہے کہ ہر شخص اپنے مبلغ علم کے مطابق ہی مکلف ہے۔ لیکن امام احمد رضا سے کسی قسم کے اختلاف کو ہمارے بزرگوں نے اچھی نظر سے نہ دیکھا نہ اس کی حوصلہ افزائی کی ، اس کی وجہ اولاً تو امام اہل سنت کی بارگاہِ الٰہی ورسالت پناہی میں مقبولیت ہے ، ثانیاً ان کا معیارِ تحقیق۔ فتاویٰ رضویہ کے مسائل ورسائل مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ اس کی کسی سطر پر سوالیہ نشان قائم کرنا تو دور کی بات ہے ٹھیک سے سمجھ لینا بھی آسان نہیں۔ جن علما ءنے چند باتوں میں اعلیٰ حضرت سے اختلاف کیا ان کے مشائخ واکابر نے امام احمدرضا قدس سرہ کو تمام علمی امور میں حرف آخر مانا ، اور کسی ایک نکتے پر بھی سر مو انحراف کی نہ سوچی ، بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ اللہ تعالیٰ نے امام احمدرضا کے قلم کو اپنی حفاظت میں لے لیاہے کہ اس سے کوئی غلط بات صادر ہو۔

حضرت سید شاہ تراب الحق علیہ الرحمہ بھی اعلیٰ حضرت سے کسی اختلاف کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ بلکہ ایسے اختلاف کے شوقین لوگوں کا تحریر وبیان کے ذریعہ رد بھی کرتے، اور ایسی تحریروں کی حوصلہ شکنی کرتے۔ یہ طرز عمل آپ نے اپنے اکابر سے سیکھا تھا ۔ مگر آپ کی وسعت فکر ونظر کا عالم یہ تھا کہ اس قسم کے حساس مسائل کو تقریر کا موضوع نہ بناتے، جیسا کہ آج کل تقریر کے لیے ایسے حساس مسائل کا ہی انتخاب کیاجاتاہے جو داخلی اختلافات کا نتیجہ ہوتے ہیں، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دوریاں بڑھتی جاتی ہیں اور خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی جاتی ہے ، پھر دوگروہ بن جاتے ہیں اور ہر گروہ اپنے موقف کو حق وباطل کے درمیان نشان امتیاز سمجھ کر خوش ہوتا رہتاہے۔ شاہ صاحب علیہ الرحمہ حساس مسائل کو وہیں حل کرنے کی کوشش کرتے جہاں سے وہ پیدا ہوئے ۔ اور عموماً آپ کی تقریر کاموضوع ایسا ہوتا جس سے گمراہ فرقوں کا رد ہو اور اہل سنت وجماعت کے نظریات ومعمولات کی حقانیت ثابت ہو۔

ان کی علمی خدمات میں اگر چہ ان کے ہزاروں خطابات اور سینکڑوں سوال وجواب کے سیشن آن ریکارڈ ہیں لیکن انھوں نے حسب ضرورت تصنیفی خدمات بھی انجام دی ہیں۔ ان میں کچھ تصنیفات خاصی مقبول بھی ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مرقد انور پر رحمت وانوار کی بارش فرمائے ۔ آمین بجاہ حبیبہ سید المرسلین علیہ الصلاة والتسلیم۔ (بشکریہ :ماہنامہ پیغام شریعت دہلی)


متعلقہ

تجویزوآراء