حضرت عبد اللہ بن عباس بن عبد المطلب
حضرت عبد اللہ بن عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ
قبول اسلام
آپ کے والد محترم حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اگرچہ فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کیا، لیکن آپ کی والدہ حضرت ام الفضل رضی اللہ عنہا نے ابتدا میں ہی داعی توحید کو لبیک کہا تھا۔ اس لئے آپ کی پرورش توحید کے سائےمیںہوئی۔
ہجرت
حضرت عباس رضی اللہ عنہ 8 ہجری میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے۔ اس وقت آپ کی عمر تقریباً 11 سال تھی۔ آپ اپنے والد کے حکم سے بیشتر اوقات بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوتے تھے۔
آپ کے حق میں حضور علیہ السلام کی دعا
اسی طرح ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نماز کے لۓ بیدار ہوۓ تو آپ رضی اللہ عنہ نے وضو کے لۓ پانی لا کر رکھ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وضو سے فراغت کے بعد پوچھا کے پانی کون لایا تھا۔ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے حضرت عبداللہ بن عباس کا نام لیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خوش ہو کر یہ دعا دی۔
اللَّهُمَّ فَقِّهْهُ فِي الدِّينِ وَعَلِّمْهُ التَّأْوِيلَ
یعنی اے اللہ اس کو مذہب کا فقیہ بنا اور تاویل کا طریقہ سکھا
ذکاوت وذہانت
عمر کا ابن عباس کو گورنری سے دور رکھنا مسعودی نے ابن عباس سے نقل کیا کہ عمر نے مجھے بلایا اور کہا:حمص کا گورنر فوت ہوگیا ہے وہ نیکوکار تھا اور نیکوکار کم ہيں اور مجھے امید ہے کہ تو ان میں سے ہو لیکن میرا تیرے بارے میں میرے دل میں ایک خدشہ ہے، تمہارا کیا خیال ہے؟
ابن عباس:میں ہرگز گورنری قبول نہیں کروں گا جب تک مجھے اپنے خدشے کے بارےمیں نہ بتاو۔
عمر: تجھے اس سے کیا غرض ہے؟
ابن عباس:میں اس کو جاننا چاہتا ہوں،اگر وہ خطرناک ہو تو مجھے بھی اس کے خطرے کی طرف متوجہ ہونا چاہیے جیسے آپ میرے بارے میں فکر مند ہوئے ہيں اور آکر میں اس سے بری ہوں اور مجھے یقین ہوجاتا ہے کہ مجھ میں وہ برائي نہيں تو اس کام کو قبول کروں گا،میں نے آپ کو کم دیکھا کہ جس چيز کے بارے میں فکر مند ہوں اس کی کوئی وجہ ہوتی ہے۔
عمر:اے ابن عباس!میں اس چيز سے خوف زدہ ہوں کہ تیری گورنری میں کوئی حادثہ پیش آئے کہ تمہاری حکومت میں اس کو ہونا ہے کہ تو لوگوں سے کہنے لگے:ہماری طرف آؤ،اور تم اپنے بنی ہاشم کے سوا کسی کو قبول نہيں کرو گے،لیکن میں نے نبی اکرمﷺ کو دیکھا تھا کہ تمہیں دور رکھا اور دوسروں کو کام پہ لگایا۔
ابن عباس:تجھے خدا کی قسم!اگر ایسا ہے تو گورنری کیوں دیتے ہو؟
عمر:خدا کی قسم!معلوم نہيں کیا تم گورنری کے لیے مناسب تھے اور تم سے حسد و بدبینی کی وجہ سے تمہيں دور رکھا یا وہ ڈر گئے کہ تمہاری بیعت کریں تو معاملہ مشکل ہوجائے کہ ایسا ہی ہوا،بہرحال تمہاری رائے کیا ہے؟
ابن عباس:میرا خیال ہےکہ میں تمہارے لیے کام نہ کروں؟
عمر:کیوں؟
ابن عباس:اگر میں اس حالت میں تمہارے لیے کام کروں کہ تم میرے بارےمیں مطمئن نہیں ہو تو ہمیشہ میں تمہاری آنکھوں کا کانٹا بنا رہوں گا ۔
عمر: پس اس معاملے میں کوئی مشورہ دو۔
ابن عباس:کسی ایسے شخص کو کام پر لگاو جو تمہاری نظر میں اور تمہارے لیے زیادہ صالح ہو ۔
سیاسی کارنامے
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مشیر تھے۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی شہادت والے سال ان کو امیر حج بنا کر بھیجا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کو بصرہ کا گورنر بنایا۔
مروی احادیث کی تعداد
حضرت عبداﷲ بن عباس سے 1660 احادیث روایت کی گئی ہیں
وصال
آپ سن چونسٹھ 64ھ میں فوت ہوئے۔ دفن کرنے کے بعد لوگ اپنے گھروں کو آنے لگے تو غیب سے آواز آئی۔
یَا اَیُّھَا النَّفس الْمُطْمَئنّۃ ارْجِعِیْ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیۃ