حضرت مولانا مفتی عبد الحفیظ حقانی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی:مفتی عبدالحفیظ حقانی۔لقب:مفتیِ اعظم آگرہ۔ والد کااسمِ گرامی:مولانا عبدالمجیدآنولوی رحمۃ اللہ علیہ،آپ اپنے وقت کے جید عالمِ دین تھے۔سلسلہ نسب اسطرح ہے:مفتی عبدالحفیظ حقانی بن مولانا عبدالمجید آنولوی بن شیخ عبدالکریم بن شیخ عبداللہ۔(رحمۃ اللہ علیہم اجمعین)
تاریخِ ولادت: آپ رحمۃ اللہ علیہ 1318ھ،بمطابق 1900ء کو "محلہ مداری دروازہ" بریلی (انڈیا)میں پیداہوئے۔تاریخی نام "حفظ الرحمن"تجویزہوا۔
تحصیل ِ علم:ابتدائی تعلیم و تر بیت ان کے وطن آنولہ میں اپنے میں ہوئی ۔ قرآن پاک کی تعلیم استاذ الحفاظ مولانا حافظ محمد عوض مرحوم سے حاصل کی، بعد ازاں والد ماجد سے فارسی اور عربی کی تعلیم شروع ہوئی۔ 1913ء میں والد ماجد کے ہمراہ ٹانڈہ چلے آئے۔ والد ماجد اس قدر محنت سے پڑھاتے کہ ریل کے سفر کے دوران بھی سبق جاری رہتا ۔ مولانا مفتی عبد الحفیظ حقانی قدس سرہ بے حد ذہین اور محنتی تھے۔ 17سال کی عمر میں اکثر و بیشتر علوم و فنون کی تحصیل کرلی ، کچھ عرصہ لکھنؤ میں حضرت مولانا عبد الباری فرنگی محلی قدس سرہ کی خدمت میں رہ کر سراجی ، شرح چغمینی اورمنطق و فلسفہ کی بعض کتابیں پڑھیں ۔
بیعت وخلافت: آپ شیخ المشائخ شبیہِ غوث الاعظم حضرت شاہ علی حسین ا شرفی رحمۃ اللہ علیہ کے دستِ حق پرست پر بیعت ااور خلافت سے مشرف ہوئے۔
سیرت وخصائص: استاذالعلماء والفضلاء،ماہرِ علومِ نقلیہ وعقلیہ،وحیدالعصر،مفتیِ اعظم آگرہ حضرت علامہ مولانا مفتی عبدالحفیظ حقانی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ علیہ الرحمہ اپنے وقت کے جید عالمِ دین تھے۔آپ کے والدِ گرامی مولانا عبدالمجید آنولوی علیہ الرحمہ بھی ایک علمی شخصیت تھے۔مفتی صاحب نے اپنے والد کے مشن کو بڑے احسن اندازمیں نئی نسل تک منتقل کیا۔اس وقت کی علوم و فنون کے اعتبار سے عظیم دینی درسگاہوں میں تدریس فرماتے رہے،اور اپنے علوم وفنون سے ایک جہاں کو مستفید ومستفیض فرمایا۔
قبلہ مفتی صاحب عام مدرسین کی طرح صرف مدرسے کی حدود تک محدود نہ رہے، بلکہ تدریس کے ساتھ ساتھ تحریر وتقریر کے میدان میں بھی شاہسوارتھے۔جب آپ امرتسر تشریف لے گئے تووہاں مرزائیوں اور وہابیوں کی سرگرمیاں عروج پرتھیں۔آپ نے ان کے خلاف لسانی وقلمی جہاد فرمایا،اور ان کوشکست سے دوچار کیا الحمد للہ جس سے عوامِ اہلسنت کے عقائد محفوظ ہوئے۔اسی زمانہ میں مولوی ثناء اللہ امر تسری غیر مقلد سے آپ کا مناظرہ ہوا جس میں آ پ کو نمایاں کامیابی ہوئی، اسی دوران ملتان میں شیر بیشہ اہل سنت مولانا حشمت علی خاں رحمہ اللہ تعالیٰ کا مناظرہ مولوی ابو الوفاء شاہجہانپوری سے ہوا۔اہل سنت کی طرف سے مولانا محمد عبد الحفیظ رحمہ اللہ تعالیٰ اور دیوبندیوں کی طرف سے مولوی عطاء اللہ شاہ بخاری صدر تھے۔اس مناظرہ میں بھی مخالفین کو شکست ہوئی ، اس کامیابی پر مخدوم صدر الدین سجادہ شین درگاہ حضرت حافظ جمال الدین موسیٰ پاک شہید قدس سرہ ّ(ملتان ) نے آپ کو ایک قیمتی تحفہ عطا فرمایا۔آپ کو قدرت نے بے شمار خوبیوں سے نوازا تھا، تقریر فرماتے تو دلائل کے انبار لگادیتے تدریس کے وقت علم و فضل کے در یا بہادیتے ۔
حکیم عبد الغفور مؤلف سوانحات المتاخرین ، آنولہ لکھتے ہیں:" مولوی عبد الحفیظ مولوی عبد المجید صاحب مرحوم کے بڑے صاحبزادے ہیں اور ہر بات میں باپ میں با پ پر سبقت ہے ، علم میں ، وعظ گوئی یں ، جسم کی زینت میں ، خوبصورتی میں ، غرضیکہ ہر بات میں باپ پر فو قیت حاصل ہے ۔"
مفتیٔ اعظم پاکستان حضرت مولانا سید ابو البرکات رحمۃ اللہ علیہ نے تعزیتی مکتوب میں تحریر فرمایا:"حضرت مولانا مولوی عبد الحفیظ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کی وفات حسرت آیات کی خبرو حشت اثر سے بے حد رنج و ملال لاحق ہوا ، مولیٰ تعالیٰ مرحوم کو غریق رحمت فرمائے۔ اس پر فتن اور پر آشوب زمانہ میں مولانا کا ہم سے ہمیشہ کے لئے جدا ہو جانا نا قابل تلافی نقصان ہے ۔آہ مولوی عبد الحفیظ آپ کی ایمان افروز او ر ضلالت سوز تقریریں یاد آکر دل کو بے چین کرتی ہیں ، آ پ کا سالہا سال کی محبت بھری صحبتیں یاد آکر دل کو تڑپاتی ہیں۔"
حضرت مفتی صاحب نے تدریس ، خطابت اور مناظرہ کی گونا گوں مصروفیات کے باوجودتصانیف کا قابل قدر ذخیرہ بھی یاگار چھوڑا ہے ۔
وصال: 5/ذوالحجہ1377ھ،بمطابق 23جون/1958ء کو مفتی ِ اعظم آگرہ حضرت مولانامفتی عبدالحفیظ قدس سرہ کا وصال ہوا۔ ملتان میں "حسن پروانہ قبرستان"نزڈیرہ اڈا (ملتان)میں دفن ہوئے ۔حضرت مولانا محمد حسن حقانی رحمۃ اللہ علیہ آپ ہی کے فرزند اجمند اور اہل سنت کے مایۂ ناز عالم دین تھے ۔
ماخذومراجع: تذکرہ اکابرِ اہلسنت۔