ملک العلماء حضرت مولانا محمد ظفر الدین بہاری رضوی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب:کنیت ابولبرکات،لقب ملک العلما،نام محمد ظفرالدین بن عبد الرزاق، آپکے مورثِ اعلیٰ سید ابراہیم بن سید ابو بکر غزنوی ملقب بہ مدار الملک ہیں۔ ان کا نسب ساتویں پشت میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچتا ہے۔
تاریخِ ولادت:آپ رسول پور میجر اضلع پٹنہ(اب ضلع نالندہ) صوبہ بہار میں ۱۰؍ محرم الحرام ۱۳۰۳ھ؍مطابق ۱۹؍اکتوبر ۱۸۸۰ء کو صبح صادق کے وقت پیدا ہوئے۔
تحصیلِ علم:چار سال کی عمر میں رسم بسم اللہ حضرت شاہ چاند صاحب کے مبارک ہاتھوں سے انجام پائی۔ ابتدائی تعلیم والد ماجد سے حاصل کی، ابتدائی فارسی کتب حافظ مخدوم اشرف، مولانا کبیر الدین اور مولانا عبداللطیف سے پڑھیں۔ پھر مدرسہ"حنفیہ "میں مولانا شاہ وصی احمد محدث سورتی سے مسند امام اعظم، مشکوٰۃ شریف اور ملا جلال پڑھی۔ پھر منڈی کان پور میں مولانا قاضی عبدالرزاق اورمولانا احمد حسن کانپوری اور مولانا شاہ عبید اللہ پنجابی کانپوری سے تعلیم حاصل کی ۔اس کے بعد خوب سے خوب ترکی تلاش انھیں بریلی شریف لے گئی ۔بریلی میں مولانا حکیم محمد امیر اللہ شاہ بریلوی، مولانا حامد حسن رام پوری، مولانا سید بشیر احمد علی گڑھی اور اعلیٰ حضرت امام اہل سنّت مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہم الرحمہ سے علومِ نقلیہ وعقلیہ کی تکمیل ہوئی۔
بیعت وخلافت:محرم الحرام ۱۳۲۱ھ میں اعلیٰ حضرت سے مرید ہوئے اور تمام سلاسل میں اجازت ِ عام عطافرمائی ۔
سیرت وخصائص:اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنت نے خلیفہ تاج الدین احمد ،ناظم انجمن نعمانیہ لاہور کو اپنی رحلت سے بارہ سال پہلے ۵؍شعبان المکرّم ۱۳۲۸ھ کو آپکی ذات کے بارے میں ایک مکتوب تحریر کیا تھا:اس مکتوب شریف سےبطورِ تبرک وہی الفاظ نقل کرتاہوں!"مولانا مولوی محمد ظفر الدین صاحب قادری سلمہ فقیر کے یہاں کے اعز طلبہ سے ہیں اور میرے بجان عزیز۔ ابتدائی کتب کے بعد یہیں تحصیل علوم کی اور اب کئی سال سے میرے مدرسہ میں مدرس اور اس کے علاوہ کار افتا میں میرے معین ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ جتنی درخواستیں آئی ہوں سب سے یہ زائد ہیں مگر اتنا ضرور کہوں گا:سنی خالص مخلص نہایت صحیح العقیدہ ہادی مہدی ہیں۔ عام درسیات میں بفضلہٖ تعالیٰ عاجز نہیں، مفتی ہیں،مصنف ہیں، واعظ ہیں،مناظرہ بعونہ تعالیٰ کر سکتے ہیں۔ علمائے زمانہ میں علم توقیت سے تنہا آگاہ ہیں۔
امام ابن حجر مکی نے زواجر میں اس علم کو فرض کفایہ لکھا ہے اور اب ہند بلکہ عام بلاد میں یہ علم علما، بلکہ عام مسلمین سے اٹھ گیا۔ فقیر نے بتوفیق قدیر اس کا احیاء کیا اور سات صاحب بنانا چاہے جن میں بعض نے انتقال کیا، اکثر اس کی صعوبت سے چھوڑ کر بیٹھے۔ انھوں نے بقدر کفایت اخذ کیا اور اب میرے یہاں کے اوقات طلوع و غروب و نصف النہار ہر روز و تاریخ کے لیے اور جملہ اوقات ماہ مبارک رمضان شریف کے بھی بناتے ہیں۔فقیر آپ کے مدرسے کو اپنے نفس پر ایثار کر کے انھیں آپ کے لیے پیش کرتا ہے۔"
وفات:شب دو شنبہ ۱۹؍جمادی الثانی ۱۳۸۲ھ؍ ۱۸؍نومبر ۱۹۶۲ء کو ذکرِجہر کرتے ہوئے واصل بحق ہوئے۔
میرے ظفر کو اپنی ظفر دے
اس سے شکستیں کھاتے یہ ہیں
//php } ?>