حضرت مولانا ظفر الدین بہاری
حضرت ملک العلماء مولانا محمد ظفر الدین بہاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
میجرہ ضلع عظیم آباد پٹنہ کے ساکن،حضرت سید محمد ابراہیم ملک بیوطہاری سے نسلی علاقہ،والد کا نام عبد الرزاق،۱۴؍محرم ۱۳۰۳ھ پیداہوئے، غلام حیدر تاریخی نام ہوا،جس سے سنہ فصلی کے ۱۲۹۱ھ بر آمد ہوتے ہیں، ابتدائی کتابیں والد ماجد سے پڑھیں،جو فارسی کے دبیر تھے،دس برس کی عمر میں اپنی نانہال موضع بین کے مدرسہ غوثیہ حنفیہ میں داخل ہوکر مولانا معین الدین اشرف،مولانا بدر ا ارین اشرف،مولانا معین الدین ازہر سے درس نظامی کی متوسطات تک تعلیم پائی،
۱۳۲۰ھ میں حضرت مولانا قاضی عبد الوحید رئیس لودی کٹرہ کے مدرسہ حنفیہ بخشی محلہ پٹنہ میں حضرت مولانا شاہ وصی احمد محدث سورتی کے درس میں شریک ہوئے،محدث سورتی کے چلے جانے کے بعد ۱۳۲۱ھ میں آپ کانپور پہونچے، اور در العلوم میں اُستاذر من حضرت مولانا شاہ احمد حسن کانپوری سے منطق کی کابیں پڑھیں،اور مولانا احمد حسن کے شاگرد رشید مولانا عبید اللہ سے ہدایہ اخیرین ختم کی،مولانا قاضی عبد الرزاق کانپوری تلمیذ رشید اُستاذ زمن سےبھی علمی استفادہ کیا کچھ دنوں پیلی بھیت میں حضرت محدث سورتی کے درس میں شریک ہوکر حدیث پاک کی سماعت وقرأت کی۔۔۔۔یہاں سے بریلی پہونچے،اس وقت وہاں مولوی غلام یٰسین خام سرائی نے اہل سنت کے روپ میں فاضل بریلوی کی حمایت و تائید سے مصباح التہذیب کے نام سے مدرسہ قائم کر کے درس کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا،اس لیے آپ اُن کے درس میں شریک ہوگئے اور اعلیٰ حضرت کی خدمت میں بھی حاضر ہوتے رہے،آپ کےہی ذریعہ سے یہ بات ظاہر ہوئی کہ مولوی یٰسین صاحب در پردہ وہابی ہیں۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آپ ہی کی کوششوں سے مدرسہ منظر اسلام قائم ہوا جسکی تفصیل یوں ہے،کہ آپ نے حضرت مولانا حسن رضا بریلوی ومولانا حامد رضا خاں کو ہم خیال کر کے حضرت مولانا حکیم سید محمد امیر اللہ شاہ بریلوی کو ان کی سیادت کےپیش نظر منتخب کیا، کہ اعلیٰ حضرت سید ہونےکی وجہ سے ان کی بات نہ ٹالیں گے،۔۔۔۔۔۔حکیم صاحب اعلیٰ حضرت کےپاس پہونچے اور سب کی طرف سے مدرسہ قائم کرنے کی درخواست پیش کی، اعلیٰ حضرت نے اپنی تصنیفی مصروفیات کی بناء پر اتکار فرمایا،تب حکیم صاحب نے کہا،قیامت کے دن اگر پوچھا گیا کہ بریلی میں دیوبندیت کو کس نے فروغ دیا، تو میں آپ کا نام لوں گا،۔ اعلیٰ حضرت نے دریافت فرمایا یہ کیوں؟ حکیم صاحب نے کہا،آپ مدرسہ نہیں قائم کرتے، اس لیے، ۔۔۔۔۔۔ اعلیٰ حضرت نے فرمایا، میں اپنی تصنیفی مصروفیات کی بنا پر چندہ فراہمی اور انتظامی امور گی دیکھ بھال نہیں کر سکتا، حکیم صاحب نےفوراً کہا، ہم لوگ مدرسہ قائم کرتے ہیں، آپ تائید فرمادیں، ۔۔۔رحیم یارخاں کے مکان پر مولانا ظفر الدین صاحب اور مولانا عبد الرشید صاحب عظیم آبادی دو طلبہ سے مدرسہ کا افتتاح ہوا، اور اعلیٰ حضرت نے جاکر بخاری کا سبق شروع کرایا، ‘‘منظر اسلام’’ مدرسہ کا تاریخی نام حضرت مولانا حسن رضابرادر خورد اعلیٰ حضرت نے تجویز فرمایا، اور حضرت حسن رضا ہی مدرسہ کے پہلے مقیم مقرر ہوئے [1] اسی مدرسہ میں مولانا ظفر الدین صاحب نےمولانا حکیم محمد امیر اللہ شاہ بریلوی تلمیذ والد ماجد فاضل بریلوی، ومولانا حامد حسن رام پوری شاگر خاص مولانا شاہ ارشاد حسین رام پوری، ومولانا بشیر احمد علی گڑھی شاگرد مولانا لطف اللہ علی گڑھی سے درسیات کا تکملہ کیا، اور فاضل بریلوی سے بخاری شریف، اقلیدس کےچھ مقالے، تصریح تشریح الافلاک، شرح چغمنی تمام کرکے علم توقیت وجفر ویکسر حاصل کیا، تصوف کی کتاب عوارف المعارف، رسالہ قتبریہ پڑھا، شعبان ۱۳۲۵ھ میں کثیر مجمع علماء میں بروز محواست فاضل بریلوی حضرت مخدوم شاہ حیات احمد قدس سرہٗ سجادہ نشین رودولی شریف نے دستار فضیلت باندھی اور سند مرحمت فرمائی۔
مدرسی کی ابتداء مدرسہ منظر اسلام سےہوئی، ۱۳۲۹ھ تک یہاں درس دیا، اسی سنہ میں شملہ کی جامع مسجد کے خطیب ہوکر گئے پھر مولانا حکیم عبد الوہاب الہ آبادی کے مدرسہ حنفیہ آرہ میں صدر مدرس ہوئے،اس کے بعد جب جامعہ شمس الہدیٰ پٹنہ ۱۹۱۳ھ میں قائم ہوا تو یہ حیثیت مدرس حدیث آپ کا تقرر ہوا،اس کے بعد ررس فقہ وتفسیر ہوئے،مدرس اول کے منصب پر فائز تھے،کہ ۱۹۱۶ھ میں حضرت سید شاہ ملیح الدین احمد سجادہ نشین خانقاہ کبیریہ سہسرام کےمدرسہ میں مدرس اول ہوکر گئے، ۱۳۲۸ھ ۱۹۲۱ء میں جب شمس الہدی گورنمنٹ کے زیر انتظام آیا تو سینیر مدرس ہوکر واپس آئے ۱۳۶۵ھ ۱۹۴۸ء میں جامعہ کےپرنسپل ہوئے،۲۲؍نومبر ۱۹۴۹ھ سے رخصت لے کر آرام کیا، ۱۹۵۰ھ میں پرنسپل کےعہدے سے سبکدوش ہوئے، ۱۳۶۷ھ تک خضر منزل شاہ گنج پٹنہ مقیم رہے،حضرت سید شاہ شاہد حسین سجادہ نشین تکیہ حضرت شاہ رکن الدین عشق پٹنہ المتوفی ۱۲۰۳ھ قدس سرہٗ کی استدعاء پر ۲۱؍شوال المکرم ۱۳۲۱ھ میں کیٹھہار م یں جامعہ لطیفیہ بحر العلومکا افتتاح کیا،اور صدر مدرس کے عہدہ کو رونق بخشی،۔۔۔۔۔۔۔ربیع الاوّل ۱۳۸۰ھ میں علالت کی وجہ سے ظفر منزل پٹنہ آگئے، ۱۹؍جمادی الاخریٰ ۱۳۸۲ھ مطابق ۱۸؍نومبر ۱۹۶۲ھ شب دو شنبہ سپیدۂ سحر نمود ہونے سے پہلے ذکر جہر اللہ اللہ کرتے جان جاں آفریں کےسپرد کر کےواصل الی اللہ ہوئے،حضرت شاہ ایوب ابدالی شاہدی رشیدی اسلام پوری نے جنازہ کی نماز پڑھائی،راقم سطور نے ‘‘فاضل بہار’’ تاریخی فقرہ کہا۔
محرم الحرام ۱۳۲۱ھ میں اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا بریلوی سے مرید ہوئےاور بعد فراغت تمام سلاسل میں مجاز مطلق ہوئے،آپ نےدرجنوں کتابیں تالیف وتصنیف کیں،احناف کی مؤید حدیثوں کا مجموعہ چوبیس جزو اور چھ جلدوں میں بنام جامع الرضوی المعروف بصحیح البھادی مشہور و معروف ہے، فاضل بریلوی نے ‘‘ملک العلماء’’ لاخطاب دیا،
علی گڑھ مسلم یونورسٹی کے صدر شعبۂع ربی پروفیسر ڈاکٹر مختار الدین احمد آرزو آپ کی تنہا یادگار اور فرزند ہیں۔
[1] ۔ قیام مدرسہ کے یہ واقعات حضرت مفتئ اعظم ہند مدظلہٗ العالی نے راقم مطور کو مکہ معظمہ میں ۱۳۹۰ بہ ماہ ذی الحجہ میں بتائے۔