ملک العلماء قاضی شہاب الدین دولت آبادی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی: قاضی شہاب الدین احمد۔لقب:ملک العلماء،زاولی۔تخلص: سلسلہ ٔ نسب اس طرح ہے:ملک العلماء قاضی شہاب الدین احمد بن شمس الدین بن عمر دولت آبادی علیہم الرحمۃ۔مختلف تذکروں کی کتب میں آپ کانام ’’احمد بن عمر‘‘بھی آیا ہے۔لیکن قاضی شہاب الدین دولت آبادی کےنام سے معروف ہیں۔(حاجی خلیفہ:ج2)۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت ساتویں سن ہجری کودولت آباد ہندوستان میں ہوئی۔(مقدمہ شرح قصیدہ بردہ:10)
تحصیلِ علم: قاضی عبدالمقتدر دہلوی(قاضی صاحباپنےزمانےکےفاضل اجل تھے،آپ کےعلو مرتبت کادوردور تک شُہرہ تھا۔حضرت شیخ الاسلام شیخ نصیر الدین محمود دہلویکےمرید وخلیفہ تھے،خواجہ صاحب آپ کی نہایت ہی قدراور تعظیم فرماتے تھے،’’قصیدہ لامیہ‘‘معروف تصنیف ہے)اور مولانا خواجگی دہلوی کالپوی(مریدوخلیفہ حضرت شیخ الاسلام چراغ دہلوی)سےعلوم کی تحصیل کی۔آپنےاپنے ہم عصروں میں سب سےزیادہ ممتاز تھے۔اس وقت بڑےبڑے علماء کرام موجودتھے لیکن جوشہروت وقبولیت اللہ جل شانہ نےآپ کوعطاء فرمائی وہ کسی اور کے نصیب میں نہیں آئی۔(اخبار الاخیار:457)
بیعت وخلافت: آپ کےبیعت وخلافت کی صراحت کسی کتاب میں نہیں ملی،لیکن غالب گمان یہ ہے کہ مولانا خواجگی کالپویکےمریدتھے۔
سیرت وخصائص: ملک العلماء،استاذالفضلاء،مرجع الاولیاء،جامع علوم عقلیہ ونقلیہ،خادم دینِ محمدیہ،عارف اسرار ربانیہ حضرت علامہ قاضی شہاب الدین دولت آبادی۔آپ علیہ الرحمہ اپنے وقت کےفاضل کامل،اور عالم ِمتبحّر تھے۔زندگی میں اکنافِ عالم میں شہرت وقبولیت حاصل کرلی تھی۔آپنےدین متین کی خوب خدمت واشاعت فرمائی۔فارسی وعربی زبان میں مفید ونافع کتب تصنیف فرمائیں۔اپنی افادیت کےپیش نظر تمام کتب عرب وعجم میں قبول عام ہوئیں۔
صاحبِ حدائق الحنفیہ فرماتے ہیں:قاضی شہاب الدین دولت آبادی ملکِ العلماء لقب تھا۔ فقیہ،مفسر،نحوی،لغوی،ادیب،بلیغ،بیان،وحید العصر،فرید الدہر،صاحبِ تصانیفِ عالیہ تھے،علوم قاضی عبد المقتدر سے حاصل کیےجو شہرت و قبولیت خدا نے آپ کو دی،کسی کو اہلِ زمانہ سے حاصل نہیں ہوئی۔آپ کے حق میں قاضی عبد المقتدرفرمایا کرتے تھے:’’ کہ یہ ہمارے پاس ایسے شاگرد آئے ہیں جن کا پوست ولحم و عظم سب علم ہے،(یعنی رگ رگ میں علم سمایا ہواہے)۔آپ کی تصنیفات سےایک شرح کا فیہ ہےجو لطافت و متانت میں بے عدیل اور ان کی حیات ہی میں مشہور عالم ہوگئی تھی،دوسرے ارشاد جو ایک متن لطیف و بے نظیر نحو میں ہے،تیسرے بدیع البیان جو علمِ بلاغت میں ایک لاثانی متن ہے۔(حدائق الحنفیہ:345/مآثرالکرام:216)
مولانا خواجگی دہلوی آپ کےاستاذمحترم اور ایک عالم وعارف تھے،شیخ الاسلام حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی کےمرید وخلیفہ تھے۔جس وقت امیر تیمورلنگ نےدہلی پر حملہ کا اردا کیاتوحضرت میر سید گیسودرازنےخواب میں امیر تیمور کی افواج کےہاتھوں دہلی کوتاراج ہوتےدیکھا،آپ نےتمام متعلقین ومتوسلین کواور عوام کو اپنےخواب سےآگاہ کیا۔مولانا خواجگیحضرت سید قدس سرہ کاخواب سن کرمولانا خواجگی اور مولانا قاضی شہاب الدیندہلی سےہجرت کرکےروانہ ہوگئے،مولانا خواجگی تو ’’کالپی‘‘پہنچ کرمستقل قیام پذیر ہوگئے۔لیکن قاضی شہاب الدینجون پور کی طرف روانہ ہوگئے،اس وقت جون پور میں سلطان ابراہیم شرقی کی حکومت تھی،یہ سلطان نہایت عادل وعابد تھا،شریعت اسلامیہ پر سختی سےعمل پیرا،اور علماء کرام کا نہایت قدر داں تھا۔جون پور میں سلطان نےبڑےپرتپاک طریقےسےان کاستقبال کیا،اور ان کی تشریف آوری کوغنیمت جان کرآپ کی بےحد قدر ومنزلت کی۔آپ کو’’ملک العلماء‘‘کاخطاب دےکرعزت بخشی۔مولانا کےلئے ایک عالی شان گھرتعمیرکرایا۔علاوہ ازیں ہر قسم کی سہولیات بہم پہنچائیں۔دربار میں کھڑےہوکر استقبال کرتاتھا۔آپ دربارمیں ’’چاندی کی کرسی‘‘پرتشریف فرماہوتے۔ریاست جون پور کے’’قاضی القضاۃ‘‘(چیف جسٹس) کےعہدےپرفائزرہے۔اسی طرح امور مملکت میں بھی آپ سےمشورےلےکرعمل کرتاتھا۔
ایک مرتبہ مولانا قاضی شہاب الدینسخت بیمار ہوگئے،سلطان ان کی مزاج پرسی کےلئےپہنچا۔جب اس نےمولانا کی حالت نازک پائی توپانی کاایک پیالہ منگوایا اور اس کومولانا کےسرکےگرد پھراکریہ کہتےہوئے پی لیا کہ’’اے خدایا! جوبیماری انہیں ہے وہ مجھے لگ جائے،اور ان کوشفاء دیدے‘‘۔مشہور ہے کہ مولانا اس واقعہ کےبعد صحت مند ہوگئے،لیکن سلطان ابراہیم بیمار ہوکرفوت ہوگئے۔’’تاریخِ فرشتہ‘‘ کےمصنف لکھتےہیں:کہ اس واقعہ کےدو سال بعد قاضی صاحب بھی سلطان کےغم میں گھل گھل کرچل بسے۔ایک سلطان ِ وقت کی عالم سےمحبت وعقیدت کی اس قدر اعلیٰ مثال شاید ہی کوئی اور ملے۔قاضی صاحب کوبھی ان کی علم دوستی ومذہب شناسی کابڑاپاس تھا۔چنانچہ آپ نےبھی کتب وفتاویٰ ان کےنام منسوب کیے۔’’اصول ابراہیم شاہی،فتاویٰ ابراہیم شاہی‘‘ان کےنام سےمعنون ہیں۔(تذکرہ علمائے ہند:218/مآثر الکرام:216/تذکرہ مشائخ جون پور139)۔اُس وقت سلطان ِ اسلام،بادشاہان ِ وقت علماء اسلام کی کس قدرتعظیم وتکریم کرتےتھے۔جب تک یہ سلسلہ رہامسلمانوں کی دنیا پر دھاک وہیبت رہی۔ایک مرتبہ مولانا غلام محمدترنمکسی شخص کےساتھ پیدل جارہےتھے،اتنےمیں ایک عیسائی پادری کی کارفراٹےبھرتی اور دھول اڑاتی ہوئی پاس سےگزرگئی۔اس شخص نےپوچھامولانا کیا وجہ ہےکہ آپ پیدل جارہےہیں،اورپادری شیورلیٹ گاڑی پر؟مولانا نےبرجستہ فرمایا:’’وہ زندہ قوم کامولوی ہےاورمیں مردہ قوم کامولوی ہوں‘‘۔(نور نورچہرے:51)یہی وجہ ہےکہ جب اس قوم نےعلماء کی قدر کرنا چھوڑی توذلت ورسوائی اس قوم کامقدر بن گئی۔فی زمانہ میراثی،ڈوم،درباری،طوائف،اور خوشامدی قسم کےافراد کی درباروں میں عزت ہے،علماء کرام کونفرت کی نگاہ سےدیکھاجاتا ہے۔لیکن اللہ جل شانہ نےایسےبےدین وفساق امراء کودنیاء میں ہی ذلیل کردیا۔ کئی مثالیں ہمارے سامنےموجود ہیں۔مرنےکےبعد ان کا قصہ ختم ہوگیا،جن سلاطین نےعلماء ومشائخ سےعقیدت رکھی ان کانام صدیاں گزرنےکےباوجودبھی زندہ ہے،اور ان کاذکر خیر سےہوتاہے۔تونسویؔ غفرلہ۔۔
تصانیف: آپ کی شہرت آپ کی عمدہ تصانیف کی بدولت ہوئی۔1۔حاشیہ کافیہ۔یہ کتاب آپ کی زندگی میں ہی مشہور ہوگئی تھی۔2۔ارشاد۔یہ فنِ نحو پر اپنی مثال آپ۔3۔بدیع المیزان۔فن بلاغت پر۔4۔بحر مواج۔قرآن کی فارسی کی عمدہ تفسیر جس میں آیاتِ قرآنیہ کاآپ میں ربط وشان نزول بیان کیےگئے ہیں۔5۔شرح بزدوی۔6۔شرح قصیدہ بانت سعاد(حضرت کعب)7۔فتاویٰ ابراہیم شاہی۔8۔مناقب السادات
تاریخِ وصال: آپ کاوصال 25/رجب المرجب 849ھ مطابق 25/اکتوبر1445ء بروز ہفتہ ہوا۔آپ کامزار پرانوارجون پور میں ’’مسجد اٹالہ‘‘کےقریب میں ہے۔تاریخ جونپورمیں ہے ان کامقبرہ ’’راج کالج میں ہے‘‘۔
ماخذ ومراجع: اخبار الاخیار۔حدائق الحنفیہ۔ تذکرہ علمائے ہند۔نزہۃ الخواطر۔مآثر الکرام۔تذکرہ مشائخ شیراز جون پور۔مقدمہ شرح قصیدہ بردہ۔
//php } ?>