قاضی شہاب الدین دولت آبادی قدس سرہ

آپ قاضی عبدالمقتدر کے عظیم شاگرد تھے اور حضرت مولانا محمد خواجگی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید خاص تھے حضرت میر اشرف سمنانی قدس السرۃ السامی کی مجالس سے بھی استفادہ کیا تھا۔ آپ ظاہری علوم میں یکتائے زمانہ تھے اور باطنی اسرار میں کامل دسترس رکھتے تھے ہماری قلم میں وہ طاقت نہیں کہ آپ کے کمالات علمیہ کو ضبط تحریر میں لایا جا سکے اور ہماری زبان میں وہ قوت گویائی نہیں کہ آپ کے اسرار کو بیان کیا جاسکے۔ آپ نے اپنی علمی شہرت سے ایک زمانے کو متاثر کیا۔ کافیہ کی شرح ایسی زبان میں لکھی کہ علماء عش عش کر اٹھے۔ علم نحو میں کتاب الارشاد بے مثال کتاب تحریر کی۔ علم بلاغت میں بدیع البیان آپ کی مشہور کتاب ہے اسی طرح قرآن پاک کی تفسیر بحر مواج ہے۔ جو زبان فارسی میں مقبول ہوئی۔ آپ نے ایک رسالہ تقسیم علوم میں لکھا اور ایک رسالہ تقسیم فصاحت میں سپرد قلم کیا تھا۔ آپ کو شعر و شاعری میں بھی کمال حاصل تھا۔ چنانچہ آپ کا ایک شعر تو زبان زد عام ہو گیا تھا۔ جو آپ نے بادشاہ وقت کی خدمت میں ایک خوبرو کنیز لینے کی سفارش میں لکھا تھا۔

ایں نفس خاکسار کہ آتش سزائے اوست
بر باد گشت لائق بے آب کردن است
شخصے چناں فرست کہ پا برسرم نہد
ریز دہم منی و تکبّر کہ درمن است[۱]

[۱۔ اے بادشاہ آپ جانتے ہیں یہ نفس پلید جس کی سزا آگ ہے یہ تباہ ہوگیا ہے اسے بے آب (ختم) کر دینا ضروری ہے آپ کوئی ایسی شخصیت بھیجیں جو میرے سر پر پاؤں رکھ کر اس نفس شریر کا تکبر اور خودی کو توڑ کر رکھ دے۔]

بادشاہ اس ادا کو سمجھ گیا اور کنیز آپ کے پاس بھیج دی۔

آپ نے ایک اور کتاب مناقب السادات لکھی تھی۔ جس میں اہل بیت کی محبت کو بڑے عمدہ پہرائے میں بیان کیا تھا۔ اس میں بے نظیر انداز میں سادات کرام کی عزت و منزلت کو بیان کیاگیا ہے۔ اس کتاب کے لکھنے کی وجہ یہ بنی کہ بادشاہ کے دربار میں اجمل نامی ایک سید زادہ تھا چنانچہ آپ نے علوم دینیہ کی عظمت کی بنا پر سید زادہ سے اپنی برتری ظاہر کرتے ہوئے۔ ایک زبر دست کتاب لکھی۔ اور بادشاہ کی خدمت میں پیش کر کے اپنی مسند قریب تر کرالی رات کو خواب میں سید الانبیاء کی زیارت نصیب ہوئی تو آپ نے قاضی شہاب الدین کے اس فعل کو بُرا منایا۔ صبح اٹھے تو اس کتاب کو دریا برد کر دیا۔ سید زادے سے معافی مانگی اپنی مسند کو آپ کے بعد رکھوایا اور ساتھ ہی سادات کی عظمت اور عصمت پر ایک زبردست کتاب لکھی جو بڑی پسند کی گئی۔

اخبار الاخیار میں آپ کا سال وصال ۸۴۸ھ لکھا ہے۔

شہاب الدین چو رفت از عالم دہر
بجنت گشت روشن آں علم
وصالش کن رقم توقیر اسلام
۸۴۸ھ
دگر فرما شہاب الدین مہ علم
۸۴۸ھ

تجویزوآراء