خواجہ عبیداللہ ملتانی الچِشتی القادری
حالاتِ مبارکہ
حضور اعلیٰ، عمدۃ الاصفیاء، زبدۃ الاتقیاء سلطانُ الاولیاء، فانی فی اللہ، باقی باللہ، حضرتِ مولانا، مولوی خواجۂ خواجگان
حضرتِ خواجہ عبیداللہ الملتانی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ
مصنّف: خواجہ عبیداللہ ملتانی الچِشتی القادری
نام و نسب:
حضورِ اعلیٰ، حضرتِ خواجہ مولانا عبیداللہ ملتانی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ کی ولادتِ با سعادت ۱۲۱۹ھ میں ہوئی۔
آپ کا نام نامی اسمِ گرامی ’’عبیداللہ‘‘ ہے اور آپ کا لقب ’’مظہر کلماتِ حق‘‘ مشہور و معروف ہے۔
آپ کا سلسلۂ نسب یوں ہے:
مولانا عبیداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ بن مولانا محمد قدرۃ اللہ بن مولانا محمد صالح بن مولانا محمد داؤد بن مولانا یار محمد بن مولانا گل محمد بن مولانا محمد عبدالقدوس بن مولانا محمد عبدالحق بن مولانا خدا بخش بن مولانا محمد عبدالغفور رحمہم اللہ تعالٰی اجمعین۔
مولانا محمد قدرۃ اللہ علیہ الرحمۃ کی بیعت بعض حضرات نے حضرت محبّ اللہ المتعال، حضرت خواجہ حافظ محمد جمال ملتانی چشتی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ سے نقل کی ہے۔
حضورِ اعلیٰ، حضرت خواجہ مولانا عبیداللہ ملتانی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ کے آباد ؤ اجداد سب علماء، صلحاء اور مقتدائے زمانہ گزرے ہیں، آپ کے آباء و اجداد کے فضل و کمال کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ حضرتِ محبّ المساکین، فخر العاشقین، محبوب اللہ، حضرت خواجہ خدا بخش ملتانی ثم الخیر پوری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ اپنی مجالس میں ان کے فضائل بیان فرمایا کرتے تھے۔
حضورِ اعلیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ کی قومیت ’’فقیر قادری‘‘ مشہور و معروف ہے، حضور سیّدی قبلہ مفتی محمد عبدالشکور ملتانی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ نقل فرماتے ہیں کہ: حضورِ اعلیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ فرمایا کرتے تھے:
’’میری قوم ’’فقیر‘‘ اور اس کے ساتھ ’’قادری‘‘ کا اضافہ صرف اور صرف حضرت غوث پاک، پیر پیراں، محبوبِ سجانی، قطبِ ربانی، حضرت الشیخ محی الدین ابو محمد عبدالقادر جیلانی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ سے محبت اور ان سے نسبت قائم کرنے کی وجہ سے کرتا ہوں‘‘۔
حضورِ اعلیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ فرماتے ہیں:
من غلامِ شیخ عبدالقادرم
واز توجہ ہائے اومن بافرم
(میں صدق دل سے) حضرت الشیخ ابو محمد عبدالقادر جیلانی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ کا غلام ہوں اور میری تمام شان و شوکت انہی کی تو جہاتِ روحانیہ کی مرہونِ منت ہے۔
ابتدائی حالات و کسبِ علم:
ابھی آپ چند دنوں ہی کے تھے کہ حضرت قبلہ عالم و عالمیان، حضرت خواجہ نور محمد مہاروی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ کے ہم عصر اور سلسلۂ اویسیہ کے باکرامت بزرگ جناب صاحب السّیر حضرت الشیخ خواجہ محکم الدین سیرانی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ ملتان تشریف لائے تو آپ کے والدِ بزرگوار نے ان کی دعوت کا اہتمام کیا اور اپنے نو مولود فرزند دِلبند کو اٹھا کر بغرض دُعا حضرت صاحب السّیر کی خدمت میں لے جا کر ان کے دامن مبارک میں ان کی نظر فیض اثر کے سامنے رکھ دیا۔
اس پر حضرت صاحب السّیر علی الرحمہ نے ارشاد فرمایا:
’’مولانا قدرۃ اللہ مبارک ہو بچہ بہت سعاد تمند ہے، اسکی مبارک پیشانی سے علم و فضل کا جو نور (میں) درخشان دیکھتا ہوں، اس کا اثر انشاء اللہ العزیز سات پشتوں تک رہے گا‘‘۔ (آپ کی یہ بات حرف بحرف صحیح ثابت ہوئی چنانچہ آج آپ کی ساتویں بشت ہماری نگاہوں کے سامنے ہے، اور حسبِ سابق علم کا فیضان جاری ہے جس سے تشنگانِ علوم سیراب ہو رہے ہیں اور امید ہے یہ سلسلہ آگے بھی جاری و ساری رہے گا)
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ چوں کہ ایک علمی خاندان کے چشم و چراغ تھےا س لئے جب آپ نے ہوش سنبھالا تو آپ کے والدِ ماجد نے اپنی زیر نگرانی تعلیم و تربیت شروع فرمائی۔
بچپن ہی میں آپ حفظِ کلام اللہ شریف سے مشرف ہوئے، پھر ابتدائی علوم اپنے پدرِ بزرگوار سے حاصل فرمائے۔
پدرِ بزرگوار کے انتقال کے بعد آپ ملتان شریف ہی میں مسجد ’’درس والی‘‘ واقعہ النگ دولت گیٹ میں استاذُ العصر، خواجہ خواجگان، فخرُ العاشقین، حضرت مولانا خواجہ خدا بخش صاحب ملتانی ثم الخیر پوری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ کی خدمتِ بابرکت میں حاضر ہو کر تحصیل علم کرنے لگے، عرصہ دراز یہاں آپ اپنے بردارِ بزرگ کے ہمراہ زیر تعلیم رہے۔
پھر جب ملتان شریف پر سکھوں کا غلبہ ہوا تو آپ کے استادِ محترم خیر پور شریف ہجرت فرما گئے اور آپ کو ابھی علمِ حدیث و دیگر چند علوم میں کمال حاصل کرنا باقی تھا، چنانچہ آپ پور میں حضرت خواجہ گل محمداحمد پوری علیہ الرحمۃ کی خدمتِ بابرکت میں حاضر ہوئے اور کچھ عرصہ تک ان سے علمِ حدیث پڑھتے رہے۔
یہاں آپ نے کچھ دن حضرت مولانا علی مردان اویسی رحمہ اللہ سے بھی استفادہ فرمایا کہ آپ نے کتاب ہذا المسمّٰی بہ ’’سردلبراں‘‘ میں تحریر فرمایا ہے۔
مشرف بہ بیعت ہونا:
انہی دنوں میں حضرت محبوب اللہ خیر پوری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ کسی سلسلہ میں احمد پور تشریف لائے تو حضرتِ خواجہ گل محمد صاحب احمد پوری سے بھی ملاقات فرمائی۔
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ نے خبر سنی تو اپنے استاذ مکرم کی زیارتِ فیضِ بشارت کے لئے آپ کی بارگاہ میں حاضری دی۔ ان دنوں میں حضرتِ محبوب اللہ خیر پوری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ کے کمالات و کرامات کا چرچا چہار دانگِ علام میں پھیلا ہوا تھا، مشائخِ زمانہ میں آپ کو خصوصی اور منفرد مقام حاصل تھا۔ علم و عمل میں لاثانی مانے جاتے تھے، لہٰذا آپ رجٰ اللہ تعالٰی عنہ اسی ملاقات میں حضرتِ محبّ المساکین، فخر العاشقین، محبوب اللہ حضرت خواجہ خدا بخش ملتانی ثم الخیر پوری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ کے حلقۂ ارادت میں شامل ہو گئے اور مشرف بہ بیعت ہو کر سلسلہ عالیہ چشتیہ بہشتیہ مرضیہ سے منسلک ہو گئے۔۔۔
خیر پور شریف روانگی:
حضرت محبوب اللہ خیر پوری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ حضرت فانی فی اللہ، باقی باللہ حضورِ اعلیٰ خواجہ عبیداللہ ملتانی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ کو مشرف بہ بیعت فرمانے کے بعد اپنے ساتھ ہی احمد پور سے خیر پور شریف ساتھ لے گئے۔
حضورِ اعلیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ تحریر فرماتے ہیں:
جب میں پہلی بار اپنے پیر روشن ضمیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ کی زیارت کے لئے خیر پور شریف پہنچا تو مغرب کا وقت تھا، حضرتِ شیخ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ ایک پرانی چار پائی گھر سے اٹھا کر لے آئے، پھر پہلی چار پائی کی طرح دوسری بھی لے آئے، شاید اس وقت آپ کے پاس ایس ہی (پرانی) چار پائیاں تھیں اور خشک شلغم پختہ یا کوئی اور سبزی روٹی کے ساتھ بطورِ سالن بھی ساتھ لائے۔۔۔
خدمتِ مرشد میں انہماک:
خیر پور شریف میں علوم ظاہری کی تکمیل کے بعد متصل ہی باطنی علوم کی تحصیل کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔
شب و روز، سفر و حضر میں آپ اپنے مرشدِ کریم حضرت خواجہ خدا بخش صاحب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ کے ساتھ رہے اور ان ک خدمت میں دن دیکھا نہ رات بلکہ ان کی خدمت ہی میں دونوں جہان کی سرخروئی سمجھی، طرفہ تر یہ کہ اس وقت آپ کم سن تھے لیکن خدا دا صلاحتیں اور خدمات دیکھ کر حاضرین دنگ رہ جاتے۔
آپ بارہ سال کا طویل عرصہ آستانہ، عالیہ پر ریاضت و مجاہدات و خدمتِ مرشدِ کریم میں مصروف رہے اور پچیس سال کی عمر میں منصبِ خلافت سے ممتاز ہوئے، اس حساب سے جب آپ خیر پور شریف تشریف لائے ہوں گے تو آپ کی عمر صرف تیرہ برس ہوگی۔
یہ عمر ہی کیا ہے کہ اس میں علوم شرعیہ پر کافی دسترس حاصل کر لینے کے بعد منازلِ سلوک بھی طے کرنا شروع کر دیئے تھے۔
ان بارہ سالوں کا طویل عرصہ اس طرح گزارا کہ آپ کبھی بازار تک بھی اپنی مرضی سے نہ گئے، اگر حضرتِ محبوب اللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ کی خدمت سے فرصت ملتی تو ریاضت و مجاہدہ و دیگر ظائف میں مصروف ہوتے گویا
فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ وَاِلٰی رَبِّکَ فَارْغَب
(جب آپ فارغ ہوں تو ریاضت میں لگ جائیں اور اپنے رب کی طرف راغب ہوجائیں) کی مثال بنے رہے۔
نقل ہے کہ:
خیر پور شریف میں اقامت کا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد ایک مرتبہ حضرت محبوب اللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ نے اپنے منظورِ مرید کو بازار کسی کام کے لئے بھیجا۔
آپ نے اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود بازار کا راستہ بھی نہ دیکھا تھا، مگر حسبِ ارشاد روانہ ہوئے، جب ’’چوک مچھلی کڑا‘‘ پر پہنچے تو آستانہ، عالیہ کا راستہ بھول گئے، حیران و پریشان ہر جانب دیکھنے لگے کہ اچانک ایک ہاتھ آپ کے شانہ مبارک پر آلگا، دیکھا تو خود حضرت محبوب اللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ تھے، راہنمائی فرمائی اور غائب ہو گئے، جب آپ حاضرِ خدمت ہوئے تو ارشاد فرمایا:
عبیداللہ راستہ بھول گئے تھے؟
عرض کی حضور افداک رُوحی و قلبی مجھے خیر پور شریف میں آپ کے مصلّٰی شریف، آفتابہ مبارک و دیگر ضروری سامان اور پھر آپ کی ذاتِ گرامی کے علاوہ کسی چیز کا علم نہیں، مرشد کریم نے آپ کی اس مخلصانہ خدمت کو دیکھ کر اظہارِ مسرت فرمایا اور اپنی خصوصی توجہات سے نوازا۔
پیر و مرشد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ کے ساتھ مشق و محبت کا یہ رشتہ اتنا مضبوط تھا کہ حضرت فانی فی اللہ خواجہ عبید اللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ اپنے منظوم کلام میں اکثر مقامات پر اپنے تخلص ’’عبید‘‘ کے ساتھ حضرت محبوب اللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ کا نامِ نامی ’’خدا بخش‘‘ بھی ذکر فرماتے تھے۔ جیسا کہ ’’دیوانِ چراغ عبیدیہ‘‘ میں ایک غزل کے آخری دو شعر ہیں۔
مرایک جرعہ از خود یا خدا بخش |
اگرچہ بندہ مستِ ایں شراب است |
عبیدت جز تو مأ وائے ندارد |
جگر بریاں ز ہجرت چوں کباب است |
ترجمہ: اے خدا! (یا میرے مرشدِ کریم خدا بخش) مجھے اپنے عشق و محبت کی شراب کا ایک گھونٹ مزید عطا فرمائیے، اگرچہ آپ کا غلام اسی شراب نوشی کی وجہ سے پہلے ہی سے مست ہے۔ آپ کا ’’عبید‘‘ آپ کے بغیر کوئی جائے پناہ نہیں رکھتا اور آپ کے فراق میں اس کا جگر کباب کی مثل بھن چکا ہے۔
مرشدِ کریم کی کمال شفقت:
حضرت محبوب اللہ خیر پوری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ فرمایا کرتے تھے کہ:
لوگ کہتے ہیں میری اولاد نہیں ہے حالاں کہ میں حق تعالٰی جل شانہ‘ کا شکر بجا لاتا ہوں کہ اس ذاتِ پاک نے مجھے گیارہ اور ایک رویت کے مطابق فرمایا سات (روحانی) لڑکے عطا فرمائے ہیں۔
پھر آپ اپنے خلفائے کرام کے نام ذکر فرماتے، بعد ازاں خصوصی طور پر حضرت محبوب اللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ ارشاد فرماتے میرے سب خلفا میرے بدن کی مثل ہیں اور یہ مولوی صاحب ملتانی (حضور اعلیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ) میری روح کی مثل ہیں۔
حصولِ خلافتِ عظمیٰ:
حضرت فانی فی اللہ باقی باللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ کے پیر بھائی خواجگان، زبدۃ العاشقین، حضرت مولانا امام بخش مہاروی علیہ الرحمۃ نے اپنی مایہ ناز تصنیف ’’گلشن ابرار‘‘ میں آپ کے بارے میں فرمایا ہے کہ:
’’برسوں پیر کی صحبت سے مستفید رہے، علومِ ظاہری و باطنی دونوں کی تکمیل کی، جب حضرت محبوب اللہ خیر پوری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ نے عشق و محبت کا غلبہ اوار اپنی تاشیرِ صحبت کا جذبہ ان میں بدرجہ کمال پایا تو خرقہ خلافت سے ممتاز فرمایا‘‘۔
بعض تذکرہ نگاروں نے حضرت فانی فی اللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ کو حضور محبوب اللہ خیر پوری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ کا ’’خلیفہ اعظم‘‘ اور ’’خلیفہ اول‘‘ شمار کیا ہے، لیکن آپ کا خلیفہ اول ہونا کچھ صحیح معلوم نہیں ہوتا۔ کیوں کہ آپ تقریباً ۲۵ سال کی عمر (۱۲۴۴ھ) میں مشرف بہ خلافت ہوئے اور اس وقت حضور محبوب اللہ خیر پوری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ کی عمر مبارک ۹۳ سال تھی۔
آپ کے متعدد خلفا اس سے پہلے موجود تھے البتہ اتنا ضرور ہے کہ جب حضرت محبوب اللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ نے آپ کو ماذون بہ بیعت کیا تو اپنی نیابتِ کاملہ اور خلافتِ عظمیٰ سے بھی نواز دیا کہ اس کے بعد حضرت محبوب اللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ نے آپ کی موجودگی میں سلسلۂ بیعت بند کر دیا تھا جیسا کہ’’خاتمہ گلزار جمالیہ‘‘ میں ہے، مزید تفصٰل اسی کتاب ’’سردلبراں‘‘ میں ہے۔
مخفی نہ رہے کہ حضور اعلیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ اگرچہ ہر چہار سلاسلِ فقر (چشتیہ، قادریہ، نقشبندیہ، سہروردیہ) میں بیعت فرمانے کے مجاز تھے تا ہم آپ نے اپنے مشائخِ عظام علیہم الرضوان موافقت میں بیعتِ عام کے لئے بہشت کے طریقہ کو اختیار فرمایا اور اسی سلسلہ عالیہ ہی کی ترویج و اشاعت میں کوشاں رہے۔
’’مرأۃ العاشقین‘‘ میں ہے کہ حضرتِ شمس العارفین، خواجہ شمس الدین سیالوی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ (مرشدِ گرامی حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ) کی بارگاہ میں کسی نے عرض کی کہ: خاندانِ نقشبندیہ میں سلوک کی بنیاد لطائف پر ہے اور آپ کے خاندانِ چشتیہ میں کیا معمول ہے؟ اس پر حضرت خواجہ سیالوی علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ:
’’ایک زاہد شخص حضورِ اعلیٰ حضرت مولوی عبید اللہ صاحب ملتانی (معلوم رہے کہ اس وقت آپ بقید حیات تھے) کی خدمت میں گیا اور خواہش ظاہر کی کہ حضور! مجھے لطائف والا طریقہ ارشاد فرما دیں تو حضرت مولوی صاحب (حضورِ اعلیٰ، فانی فی اللہ، باقی باللہ، خواجہ عبید اللہ) ملتانی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ نے فرمایا:
’’من طالبِ لَطِیفَم نہ طالبِ لطائف‘‘
یعنی میں لطیف (ذات باری تعالیٰ) کا طالب ہوں نہ کہ لطائف کا۔
ملتان جنت نشان میں آمد:
بارہ سال کا دراز عرصہ آستانِ ناز پر جبینِ نیاز ملنے کے بعد مقام ولایت کے حصول پر جب آپ خرقۂ خلافت سے ممتاز ہوئے تو ایک عرصہ تک خیر پور شریف ہی میں مقیم رہے کیوں کہ حضرت محبوب اللہ خیر پوری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ کی بارگاہ میں حاضر ہونے والوں کو تلقین و ارشاد کی مکمل ذمہ داری آپ ہی پر عائد تھی۔
ترویج و اشاعتِ سلسلہ کے لئے حضرت محبوب اللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ نے مناسب سمجھا کہ حضور اعلیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ اپنے وطن میں قیام پذیر ہونے کے علاوہ سفر کے ذریعہ اس کام کو رونق بخشیں اور جو فیض ان کو پہنچا ہے اسے دوسروں تک پہنچائیں، چنانچہ حضرتِ اقدس (حضرتِ خواجہ خدا بخش صاحب ملتانی ثم الخیر پوری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ) کی طرف سے جہاں ملتان آنے کی اجازت ملی وہاں اپنے محبوب خلیفہ کو یہ بھی تلقین کی گئی کہ جھنگ کا علاقہ ان دنوں خالی ہے یعنی کوئی صاحبِ ولایت وہاں اپنے روحانی تصرف سے فریضہ تبلیغ ادا نہیں کر رہا لہٰذا آپ ملتان کے علاوہ جھنگ میں بھی آمد و رفت رکھیں تا کہ محروم باشندگان مستفید ہوں۔
مرشدِ کریم کا اشارہ پانے کے بعد اگرچہ سب سے پہلے آپ نے اپنے آبائی وطن ملتان دارلامان کو اپنے قدوم میمنت لزوم سے نوازا تا ہم جھنگ میں بھی آمد و رفت رکھی۔
معمولاتِ مبارکہ:
آپ کے معمولات میں سے تھا کہ آپ اپنی اوقات کی بڑی حفاظت فرماتے تھے، فضول کاموں فارغ رہنے اور فارغ رہنے والوں کو بالکل پسند نہ فرماتے۔
آپ نے اپنے اوقات کو تقسیم کیا ہوا تھا، مثلاً درس و تدریس کا وقت، وردو و ظائف، تلاوتِ کلام اللہ شریف، تلقین و ارشاد اور تصنیف و تالیف کا وقت، ایک کام کے وقت میں دوسرا کام نہ فرماتے۔
مغرب اور عشاء کی نماز کا درمیانی وقت آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ نے وظیفہ اسمِ ذات کے لئے مختص کیا ہوا تھا مکمل توجہ انتہائی یکسوئی، فراغ دلی اور تلفظ کی صحیح ادائیگی کے ساتھ ’’یااللہ‘‘ تین ہزار گیارہ مرتبہ پڑھتے۔
خاندان عبیدیہ کی آن حضور سراپا نور حضرت مولانا مفتی محمد عبدالشکور صاحب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ اپنے جد امجد مفتی اعظم حضرت مولانا محمد عبدالعلیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ کو اس وظیفہ کو وقت کی پابندی کے ساتھ بڑی پابندی سے ادا فرماتے دیکھا اور یہ بھی ارشاد فرماتے سنا کہ اگرچہ حضرت محبوب اللہ خیر پوری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ نے وظیفہ اسمِ ذات ’’یااللہ‘‘ کی مقدار چوبیس ہزار گیارہ مقرر کی ہوئی تھی مگر میں اس کی طاقت نہیں رکھتا، اگر تلفظ کی صحیح ادائیگی کے ساتھ فراغ دلی سے پڑھوں تو میرے لئے یہی مقدار یعنی تین ہزار گیارہ مرتبہ ہی کافی ہے۔۔۔
قرآنِ پاک کی تلاوت کے علاوہ حدیث شریف کی کتاب ’’مشارق الانوار‘‘ کو بطورِ ہفت منزل یا تیس پارہ تقسیم فرما کر روزانہ پڑھنے کا معمول تھا۔
اس کے علاوہ ختم سرِّی، ختم خواجگان، سلاسلِ اربعہ، دلائل الخیرات، ابوع شریف، اسمِ ذات، اسما حسنیٰ و اسما گرامی حضور پر نور علیہ الصلوٰۃ السلام و دیگر و ظائف معمول بہ مشائخِ چشت اہلِ بہشت پر ہمیشگی فرمانے کے ساتھ ساتھ کلمہ شریف درود شریف، استغفار کلمہ تمجید و ادعیہ ماثورہ سے آپ رطب اللسان رہتے۔۔۔
ان وظائف کے علاوہ پاسِ انفاس، نفی و اثبات اور مراقبہ جیسے اشغال میں بھی ہر دم مشغول رہتے، گویا شب و روز کا ہر حصہ بے ریا خالصتہ اللہ اطاعتِ الہٰی میں گزارتے۔۔۔
مخصوص ایام اور مہینوں میں مخصوص اور اد و ظائف کی بھی پابندی فرماتے مثلاً رمضان المبارک میں تلاوتِ کلام اللہ شریف، ربیع الاول شریف میں درود شریف، رجب المرجب میں استغفار کی کثرت فرماتے اور ان سب کی ادائیگی میں اخفائے حال کی مکمل کوشش فرماتے۔۔۔
آپ وضو اور غسل کے لیے نہری یا جاری کنویں کا پانی استعمال فرماتے، اسی طرح پینے کے لیے دریائی پانی استعمال فرماتے آپ کا یہ معمول ازاراہِ تقویٰ تھا کہ دریائی پانی بالاتفاق پاک و طاہر ہوتا ہے۔
تقویٰ ہی کو بنا پر آپ ہر کسی کی دعوت قبول نہ فرماتے۔
آپ دن میں صرف ایک بار اور صرف ایک قسم کا کھانا تناول فرماتے اور لکھ لیتے کہ آج میں نے اتنا کھایا پھر چند دنوں یا ہفتوں کے بعد نفس کو تنبیہ کی خاطر وہ لکھاہوا سامنے رکھتے اور فرماتے اتنا اتنا سامان تو کھا گیا ہے روزِ محشر کیسے حساب دے گا۔ سبحان اللہ! اسی طرح سے تقویٰ کی زندگی گزارنے والے اور یہ خوفِ آخرت!
یہ بھی منقول ہے کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ اگر دو چار مختلف قسموں کے کھانے دیکھتے تو نفس کی گوشمالی کے لیے انہیں ایک ہی برتن میں جمع فرما کر استعمال فرماتے تا کہ نفس علیحدہ علیحدہ ذائقہ چکھنے کی لذت سے محروم ہے اور سرکش نہ ہو۔
نقل ہے کہ دورانِ سفر آپ اپنا طعام اپنے ہمراہ رکھتے تا کہ ہر کس و ناکس کے گھر کا پکا ہوا کھانا کھانے سے محفوظ رہا جائے۔
دورانِ سفر اور اخیر عمر پیرانہ سالی میں آپ کو بھت یا کھیرنی یعنی نرم نرم چاول دودھ میں پکے ہوئے بہت پسند تھے، سفر میں آپ یومیہ تقریباً ایک چھٹا نک چاول اور اتنی مقدار دال گھی میں پکا کر تناول فرماتے۔
اکثر اوقات دودھ بغیر چینی ملائے استعمال فرما لیتے اور ارشاد فرماتے چینی، ملا دودھ پینا گویا، شربت نوشی کرنا ہے نہ کہ دودھ پینا، یہ بھی فرماتے اگر چینی والے دودھ کو پینے کے دوران سوال کیا جائے کہ کیاپی رہے ہو؟ او رکہہ دوں کہ ’’دودھ‘‘ تو ممکن ہے جھوٹ شمار ہو کیوں کہ دودھ چینی استعمال ہو رہا تھا نہ کہ فقط دودھ۔ سبحان اللہ! یہ احتیاطیں خواص ہی کو زیبا ہیں۔
لباس و خوارک میں آپ کی سادگی ضرب المثل ہے، اپنے لیے خصوصی قسم کا وغیرہ ہر گز نہ بنواتے۔
آپ عموماً سفید لمبا کرتہ بغیر جیب کے، چھوٹے عرض کی نیلی چادر اور چہار ترکی ٹوپی زیبِ تن فرماتے۔
گرمیوں میں بعض اوقات کرتہ کی بجائے صرف سفید رومال سر سے گزار کر شانوں پر ڈال لینے کا معمول تھا۔ لباس کو پیوند بھی خود ہی لگا لیتے۔
چمڑے کی سادہ نعلین زیبِ پا فرماتے اور دستِ مبارک میں عصا رکھتے۔
آپ جس چار پائی پر آرام فرماتے وہ اس قدر مختصر ہوتی کہ آپ پاؤں مبارک پوری طرح پھیلا بھی نہیں سکتے تھے۔ اور ارشاد فرماتے کہ پاؤں پھیلا کر سونا غفلت میں ڈالتا ہے۔
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ رات کو ایک نیند سوتے یعنی پہلی نیند کے بعد جب بھی بیدار ہوتے یادِ الہٰی میں مشغول ہوجاتے اور فرمایا کرتے ضرورت کی نیند وہی ہے جو پہلی مرتبہ آجائے آنکھ کھلنے کے بعد پھر سوجانا غافلین کا طریقہ ہے۔
آپ کا معمول تھا کہ امرا و فقرا کسی کی آمد پر قیام نہ فرماتے۔ آپ کبھی امرا سے مرعوب نہ ہوتے اور نہ ہی حق گوئی سے آپ کو کوئی چیز مانع تھی۔
آپ کبھی کبھی شرائط کی پابندی کے ساتھ پیرانِ سلسلہ عالیہ کی اتباع میں سماعِ محض اور غنا یعنی سماع بالمزا میر سے بہرہ مند ہوتے۔
نوافل میں نمازِ تہجد، اوابین اور حفظ الایمان پر دوام حاصل تھا، نوافل کی ادائیگی میں اخفا فرمایا کرتے۔
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ کا معمول تھا کہ ہر جمعرات آپ مجلسِ وعظ قائم فرماتے طلبہ اور شاگردوں کے علاوہ سالکینِ طریقت بھی دور و قریب سے جمع ہوجاتے، اور آپ کے پر حکمت کلام سے محظوظ ہوتے۔
پیر ان کبار سلسلہ عالیہ کے اعراسِ مبارکہ پر آپ دل و جان سے حاضر ہوتے، محافِلِ سماع میں شرکت فرماتے اور انتظامی امور میں حصہ لیتے۔
حضرت محبوب اللہ خیر پوری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ کے عرسِ پاک پرتا حیات بڑی پابندی سے حاضری دیتے رہے۔
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ اکثر اسفار بذریعہ پالکی فرمایا کرتے یہی وجہ ہے کہ آپ ’’پیر خاصے والے‘‘ کے نام سے مشہور ہیں۔
آپ نے سواری کے لیے گھوڑا اونٹ یا دودھ کے لیے گائے بھینس کبھی بھی اپنے گھر میں نہیں رکھی کیوں کہ جانوروں کے حقوق کا سخت خیال رہتا تھا۔
ایک مرتبہ آپ نے اپنے صاحبزادے حضور خواجہ عبدالرحمٰن عربی غریب نواز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ کے دولت خانے پر ایک جانور بندھا ہوا دیکھا تو ارشاد فرمایا:
بیٹا عبدالرحمٰن اگردن میں ستر مرتبہ پانی دکھانے کی قدرت رکھتے ہو تو بیشک اسے باندھے رکھو ورنہ اس کی بددعا سے تمہیں نقصان کا خدشہ ہے۔
ناموں میں وہ اسما گرامی جن میں عبودیت کا اظہار مثلاً عبداللہ عبدالرحمٰن جو مطابق حدیثِ شریف بہترین اسما ہیں آپ کو پسند تھے اس لئے آپ نے اپنی اولاد امجاد کے نام اسی طرز پر تجویز فرمائے آپ کے خلیفہ مجاز مولانا عبدالرحمٰن خیر پوری کےہاں جب بیٹا پیدا ہوا تو وہ نام پوچھنے کے لیے حاضر ہوئے آپ نے فرمایا عبدالرحمٰن کا لڑکا عبدالرحیم ’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم‘‘ گویا سند بھی ساتھ پیش فرما دی۔
سونے سے پہلے آپ کے معمولات شریفہ میں سورۃ ’’الم سجدہ‘‘ سورۃ ’’الدخان‘‘ اور سورۃ ’’ملک‘‘ کی تلاوت کرنا بھی نقل کیا گیا ہے۔
تقبیلِ ابہامین:
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ حضورِ پر نور سیّدِ یومُ النشور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام نامی واسم گرامی سنتے وقت عموماً اور خصوصاً اذان و اقامت میں نامِ اقدس کے سننے پر سیّدنا حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ کی سنّت پر عمل فرماتے ہوئے انگوٹھے چومتے۔ چنانچہ حضرتِ فانی فی اللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ نے کسی مجلس میں (دورانِ اذان) انگوٹھے چومے تو کسی شخص نے آپ سے سوال کیا کہ پہلی شہادت (اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ) پر کوئی اظہارِ محبت نہیں کیا جاتا مگر دوسری شہادت (اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہ) مؤذن سے سنتے ہی ساری مجلس حرکت میں آجاتی ہے آخر کیا سبب ہے؟
آپ نے اس شخص کو بتقا ضائے ’’کَلِّمُوا النَّاسَ عَلٰی قَدْرِ عُقُوْلِھِمْ‘‘ (کہ لوگوں سے ان کے عقل کے مطابق گفتگو کرو) بجائے نقلی دلائل پیش فرماتے کے صرف اتنا فرمایا کہ:
’’میاں! ربِ ذوالجلال کی ذاتِ گرامی کو تو ہر کوئی حتٰی کہ کافر بھی تسلیم کرتے ہیں اور کسی نہ کسی نام سے یاد کرتے ہی ہیں اسی لئے شہادتِ اولیٰ پر کوئی تغیر عوام میں رونما نہیں ہوتا لیکن کسی مجلس میں ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ایمان بالرسالت کے ساتھ کون کون متصف ہے تو جو بھی نامِ نامی سن کر لذت پائے سر جھکاتے ہیں اور سنّتِ صدیقی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ پر عمل پیرا ہو کر انگوٹھے چومتے ہیں تو ہم سمجھ لیتے ہیں کہ یہ ایمان بالرسالت کے قائل ہیں، یعنی محبت رسولِ معظم شفیعِ مکرم ﷺ میں سرشار ہونے کے سبب گایا ایمان کامل رکھتے ہیں۔
دنیا سے بے نیازی:
جو معتقد ہر ہر ملاقات پر کچھ نذر پیش کرنے کی کوشش کرتا آپ اُسے فرماتے:
’’میاں ٹُھک نہ بنڑا، ٹُھک نہ بنڑا،‘‘
ٹھک بزبانِ ملتانی بمعنی عادت استعمال ہوتا ہے یعنی اس کام کی عادت نہ بنا۔
مزید ارشاد فرماتے کہ ہر بارکچھ نہ کچھ لینے سے توکل میں کمی واقع ہوتی ہے کہ دیکھتے ہی خیال آتا ہے فلاں آیا ہے تو فلاں چیز دے گا اور اس طرح تماہرے لئے بار بار آنے میں رکاوٹ بھی ہوگی کہ سوچوگے اب ملاقات کو جاؤں تو پہلے اتنی رقم کا بندوبست کروں، بہر حال دونوں کے لئے یہ عادت مناسب نہیں نہ تمہارے لئے ہر بار دینا میرے لئے ہر بار لینا۔۔۔
یہ بھی آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ کی مستقل عادت تھی کہ نذر گزارنے والے سے اس کا ذریعۂ معاش دریافت فرماتے، اگر اس کی آمد وجہِ حلال سے ہوتی، بد مذہب اور سود خورنہ ہوتا تو پھر قرض کی بابت سوال فرماتے اگر وہ مقروض ہوتا تو اس کی بھی نذر قبول نہ فرماتے بلکہ بعض دفعہ ازگرہ خود اس کی امداد فرماتے اور دعائے خیر فرما کر اسے ادئیگی قرض کی سخت تنبیہ فرماتے کہ مجھے دینے سے بہتر ہے کہ قرض کا بوجھ اپنے سر سے اتارو، اسی طرح جس مال میں یتیم کا حق ہوتا وہ بھی قبول نہ فرماتے۔۔۔
اسی طرح ہمسایوں اور رشتہ داروں کے حقوق کے بارے میں بھی سوال فرماتے اگر ان میں کوئی مستحقِ امداد و حاجت مند ہوتا تو پہلے اس کی امداد کا حکم فرما کر ارشاد فرماتے
’’تو نے اس بوجھ سے خود کو آزاد کر کے مجھے زیر بار کر دیا ہے کہ اس رقم کا سوال روزِ قیامت تجھ سے ہوتا اب مجھ سے اس کی پرسش ہوگی‘‘ گویا آمد پر اظہار ملال فرماتے۔
ایک مرتبہ ملتان کے ایک مشہور نواب ایک ھمیانی میں رقم حضور اعلیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ کی خدمت میں لائے۔ آپ اس وقت چار پائی پر آرام فرما تھے، انہوں نے وہ ھمیانی آپ کی پائنتی کی طرف رکھ کر نذر قبول کرنے کی درخواست کی۔
آپ نے بلا تأمل اس ھمیانی کو پاؤں مبارک سے ٹھو کر مار کر نیچے گرا دیا اور فرمایا ’’غریبوں پر ظلم اور انگریز حکام کی خوشامد سے جو مال تمہیں حاصل ہوا وہ تمہارے لئے بھی حرام اور میرے لئے بھی حرام ہے، خود بھی حرام کھاتے ہو اور مجھے بھی حرام کھلاتے ہو، میں اس میں سے ذرہ بھر بھی قبول نہ کروں گا‘‘ چنانچہ یہ کلماتِ حقہ سن کر وہ شرمندہ واپس چلے گئے۔
ایک دفعہ کوئی رئیسِ کبیر کثیر رقم لے کر خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور نذرانہ پیش کر کے کہنے لگا ’’نذرانہ لے لیں اور میرے لئے دعا فرما دیں کہ میرے ہاں لڑکا پیدا ہو‘‘ آپ نے رقم واپس فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’میں نے خدا سے ٹھیکہ تو نہیں کیا کہ نذرانہ لوں اور لڑکا کا دلواؤں‘‘
کسی نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ سے حج نہ فرمانے کا سبب دریافت کیا تو فرمایا: ربِّ ذوالجلال نے مجھ پر فرض ہی نہیں فرمایا، باقی رہا زیارتِ حرمین شریفین زادھما اللہ تعالٰی تعظیماً و تشریفاً کہ ہر مسلمان کو ان کی زیارت کا دلی شوق ہوتا ہے تو (دستِ مبارک سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ) یہ ہے حرمِ مدینہ علیٰ صاحبھا الصلوٰۃ و السلام۔
حضرت قبلہ عام و عالمیان خواجہ نور محمد مہاروی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ کے فرزندِ ثانی امامُ الصلحا حضرت خواجہ نور احمد مہاروی علیہ الرحمۃ کا زمانہ سجادگی حضورِ اعلیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ نے پایا۔ حضرت صاحبِ سجادہ رحمۃ اللہ علیہ اپنے شاہزادگان کے ساتھ ملتان جنت نشان برموقع عرسِ مبارک حضرت محبّ اللہ المتعال، خواجہ حافظ محمد جمال ملتانی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ تشریف لاتے تو حضورِ اعلیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ ان حضرات کی اپنے دولت خانہ پر دعوت نصف روپیہ نذر گزارتے۔
ایک مرتبہ حضرات مہاروی نے نذر قبول فرماتے ہوئے آپ کو ارشاد فرمایا کہ ’’مولانا صاحب!‘‘ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ آپ کی آمد کس قدر روجہِ حلال سے ہوتی ہے اور آپ کس قدر تحقیق کے بعد ہدایا قبول فرماتے ہیں اس لئے ہم آپ کی نذر علیحدہ رکھ کر شمار کرتے رہتے ہیں، ہم میں سے کوئی کہتا ہے کہ اب میرے پاس حضرت مولانا صاحب ملتانی کی نذر کے چار نصف روپے ہیں، کوئی کہتا ہے کہ پانچ ہیں الغرض ہم آپ کی طرف سے ہدیہ بطورِ فخر قبول کر کے علیحدہ رکھ لیتے ہیں اور ہم نے وصیت کر رکھی ہے کہ ہمارے کفن دفن پر اس حلال رقم سے خرچ کیا جائے‘‘ چنانچہ آپ یہ سن کر آداب بجا لائے۔
حضور خواجہ شمس الدین سیالوی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ اپنی اولاد کو تاکید فرمایا کرتے تھے کہ ’’جب کبھی آپ کے علاقہ سے حضورِ اعلیٰ، حضرت فانی فی اللہ مولانا عبید اللہ ملتانی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ کی پالکی مبارک گزرے یا قرب و جوار میں تمہیں ان کے قیام کا پتہ چلے تو تم ضرور ان کی صحبت و زیارت سے مستفیض ہوا کرو‘‘ پھر آپ کے فضائل بھی ارشاد فرمایا کرتے سچ ہے۔
’’ولی راولی می شناسد‘‘
یعنی ولی کو ولی ہی پہچانتا ہے
سبحان اللہ! شمس العارفین ہی کیا، ان کے پیر و مرشد خواجہ، خواجگان قبلہ شاہ محمد سلیمان تونسوی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ کی جناب میں بھی آپ کو خصوصی مقام حاصل تھا، جیسا کہ ’’فوزالمقال فی خلفائے پیر سیال‘‘ کی اس عبارت سے ظاہر ہے۔
’’حضرت خواجہ خواجگان قبلہ شاہ محمد سلیمان تونسوی قدس سرہٗ ملتان شریف میں خواجہ عبید اللہ ملتانی قدس سرہٗ کے ہاں تشریف فرما تھے، حضرت قبلہ شمس العارفین بھی اس سفر میں ہمراہ تھے، مسجد کے ایک جانب حضرت قبلہ تونسوی اور دوسری جانب حضرت شمس العارفین بیٹھے تھے۔
خواجہ عبید اللہ ملتانی نے حضرت خواجہ شمس العارفین سیالوی کو فرمایا: ’’آپ درود کبریتِ احمر بھی پڑھا کریں‘‘۔ حضرت خواجہ شمس العارفین نے جواباً فرمایا: ’’ میں تو وہی کچھ پڑھوں گا جو میرے پیر و مرشد فرمائیں گے‘‘۔ حضرت قبلہ ملتانی نے فرمایا ان سے عرض کر دیتے ہیں۔ چنانچہ ان کی خدمت میں عرض کیا گیا تو آپ نے درود کبریتِ احمر پڑھنے کی اجازت عطا فرمائی، یہی وجہ ہے کہ حضرت خواجہ شمس العارفین کے تمام خلفا میں درود کبریتِ احمر شامل و ظائف ہے۔
نقل ہے کہ کسی نے آپ سے پاک پتن شریف میں موجود ’’بہشتی دروازہ‘‘ کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا:
’’میری نظر میں حضرت بابا فرید الدین محمد مسعود گنج شکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ کے آستانہ بہشتی دروازہ ہوتا ہے۔‘‘
ایک دوسری روایت میں ہے کہ فرمایا ’’اگر پاک پتن شریف کو کوئی اس فقیر عبید اللہ کی نگاہ سے دیکھے تو وہاں کا ہرٹیلہ بہشتی ٹیلہ ہے‘‘۔
مذاہبِ باطلہ کے خلاف قلمی جہاد:
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ چوں کہ بلحاظِ مسلک صحیح العقیدہ اہلِ سنّت والجماعت حنفی المذہب تھے اس لئے جہاں اپنے متوسلین کو سود خوروں، نے نمازیوں، مشرکوں، جاہل صوفیوں اور دنیا دوست علما کی صحبت سے دور رکھنے کی کوشش فرماتے وہاں فرقہ وہابیہ ضالَّہ، باطلہ، نجدیہ وغیرہ کی صحبت سے بھی بچنے کی سخت تاکید فرماتے۔
اس ضمن میں یہ بھی ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ:
’’اگر میں کسی وہابی کو دیکھ بھی لوں تو چالیس دن تک اس کی نحوست کی وجہ سے درود و ظائف میں ذوق نہیں رہتا‘‘
چنانچہ ’’مثنوی تذکرۃ عبیدیہ‘‘ میں ہے
نیر فرمودہ کہ ایں وہَّابیاں اہلِ ضلال
دشمن حق اندھم پیغمبراں بے قیل وقال
بس رسائل کردردِّ مفسداں نظم و نثر
ازحضورش چوں خراں برونداز شیرانِ نر
ایں چنیں فرمود آں قطبِ زماں باہر کسے
تقویۃ ایمان شان تخریبِ ایمان بیشکے
زینت الاسلام شاں ریبۃ اسلام دان
طاعن پیشینیاں ایں روبہا آخر زمان
گفت من ہستم برائے مومنانِ ایں زماں
چوں سپراز بد مذاہب خلق راکہف اماں
ترجمہ: حضرت فانی فی اللہ، باقی باللہ، مولانا عبید اللہ ملتانی چشتی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ نے فرمایا: یہ گمراہ وہابی بے شک اللہ تعالٰی اور پیغمبروں علیہم السلام کے دشمن ہیں۔
آپ نے ان کے ردّ میں نظم و نثر میں بہت رسالے تصنیف فرمائے، یہ وہابی آپ سے ایسے ڈرتے ہیں جیسے گدھے شیروں سے۔
قطبِ زماں ہر شخص سے (بلاخوف و خطر) یوں ہی فرماتے کہ ان کی کتاب ’’تقویۃُ الایمان‘‘ بے شک ’’تخریب الایمان‘‘ (ایمان کو قوت دینے کی بجائے خراب کرنے والی) ہے۔
اور کتاب ’’زینۃ الاسلام‘‘ ’’ریبۃ الاسلام‘‘ (اسلام میں شک ڈالنے والی ہے نہ کہ زینت بخشنے والی) ہے، یہ اس زمانہ کی لومڑیاں ہو کر اپنے سے پہلے ہونے والے بزرگوں پر طعنے مارتے ہیں۔
آپ نے (تحدیث بالنعمۃ کے طور پر) فرمایا میں اس زمانہ کے مؤمنوں کے لئے بد مذہبوں کے حملوں کا دفاع کرنے کے لئے ڈھال اور مخلوقِ خدا وندی کے لئے پناہ گاہ ہوں۔
کاٹھ دی کُنّی
حمد خدا دی آکھاں ہر دم، کیتس اسانوں سُنّی
رافضی خارجی ناں بنڑایا وہابی کاٹھ دی کُنّی
بھیڑے لوک وہابی ہن، اے دل دے ایہن بد
ظاہر شکلاں صاف ڈسیون، اندر انہاندے گند
پنچ وریہنہ فساد کیتو نے مکہ مدینہ طائف
سب کوں مشرک سڈدے او ہے نہوندے او خائف
فخر و ڈائی عجب ادہناہا موجب دشمنی نیکاں
نفس اپنے دے دوست اودائمِ رکھن نفس تے ٹیکا
اسماعیل دی ڈاڈا اس دا چنگیاں اتے طعن
رسم انہاندی ہائی ایہا نسبت کفرتے طعن
پڑ پوتا ودھیا ڈاڈے کولوں اپنا نام ودھایس
وچ عرب دے ’ملحد ہندی‘ اپنا نام دھرایس
تلوار زبان دی نال قلم دے خرم علی بھی ماری
کیندا کیندا ناں میں لیواں رسم ایہا ہے جاری
لَا یَتَّخِذُوْا سَبِیْلا پڑھ توں اِتَّخِذُوہُ سَبِیْلا
نفس اپنے نوں ٹھل زبان بھی ھجراً پڑھ جَمیلا
مہلت ڈے اونہاں نوں تھولی کَمَھّلھُمْ قَلِیْلا
اللہ ہے وکیل اساڈا اِتَّخِذُہُ وَکِیْلا
وَاصِبْر کما صَبَرَ قرآن اندر صبردا اجر جمیل
اے عبؔید توں کیا کر سگداسَٹ سب قال تے قیل
کرامات:
جامع کمالاتِ ظاہریہ و باطنیہ، عارفِ باللہ، محرمِ اسرار اللہ، حضرت فانی فی اللہ، باقی باللہ، مولانا عبید اللہ ملتانی چشتی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ سے باوجد اخفا کرامت کی کوشش کے متعدد کرامات کا ظہور ہوا۔
’’مثنوی تذکرہ عبیدیہ‘‘ کے مصنف اور حضورِ اعلیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ جو انتہائی نیک صورت و نیک سیرت اور خوش طبع آدمی تھے (نماز جمعہ تازیست بڑی پابندی) سے مسجد رحمانیہ میں خاندان عبیدیہ کی آن حضور قبلہ مولانا محمد عبدالشکور ملتانی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ جو ان کے پیر بھائی بھی تھے کی اقتدا میں ادا کرتے رہے) اکثریہ قصہ بیان کرتے تھے کہ:
’’میرے والدِ ماجد بزرگوار سنایا کرتے تھے کہ میرا ایک دوست ملتان چھاؤنی میں رہتا تھا، ایک روز ازراہِ دوستی دورانِ گفتگو میں نے اس سے پوچھ لیا کہ تمہاری بیعت کن بزرگوں سے ہے؟ تو اس نے کہا: ابھی تک کسی سے بیعت نہیں ہوا البتہ یہ ارادہ پختہ ہے کہ جس پیر صاحب نے حق تعالٰی جل شانہ کے جمالِ بے مثال کے دیدارِ فیض آثار سے مشرف کرایا اُنہی کا مرید ہو جاؤں گا۔
یعنی جس نے اللہ تعالیٰ کی زیارت کروادی اسی سے روحانی رشتہ قائم کروں گا، چنانچہ میں اسے اپنے پیر روشن ضمیر حضورِ اعلیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ کی بارگاہِ بیکس پناہ میں لے آیا۔
آپ چار پائی تشریف فرما تھے، میں بھی آکر ساتھ بیٹھ رہا اور عرض کی کہ میرا یہ دوست اس شرط پر مرید ہوتا ہے کہ آپ اسے اللہ تعالٰی جل شانہ کا دیدار کروادیں۔
یہ سنتے ہی آپ کا جمال جلال میں بدل گیا اور اس دوست کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ میاں! کیا تم نے یہ بات کہی ہے؟ اس نے عرض کی جی ہاں! چنانچہ آپ نے فوراً فرمایا:
’’مجھ فقیر عبید اللہ ہی کو پہلے آنکھ بھر کر دیکھ لے (اگر تسلی ہو جائے تو ٹھیک ورنہ بقیہ تشنگی بھی دور کر دیں گے) اور یہ فرماتے ہی آپ نے خود کو بے حجاب فرما دیا۔ یعنی وہ برقعہ اتار دیا جس کے متعلق کہا گیا ہے۔
برقعہ بر رخسار پوشیدہ عبیداللہ شدی
صد ہزاراں خفۃ دل رابخت بیدار آمدی
لہٰذا اس نے آنکھ بھر کر دیکھنے کی جسارت کی تو معاً دیکھتے ہی اوندھے منہ گر گیا اور کافی دیر بے ہوش رہا، جب ہوش میں آیا تو اپنی شر سے رجوع کرتا ہوا قدمبوس ہوا۔
آپ نے فرمایا میاں! جب فقیر کو (بے حجابی کی حالت میں) دیکھنے کی قدرت واہلیت نہیں تو رب تعالٰی جل مجدہ کو دیکھنے کی تمنا کیسے کی (جس نے اپنی ذاتِ پاک کے بارے میں خود قرآن مجید میں فرمایا:
لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصٰرُ وَ ہُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصٰر
ترجمہ:
آنکھیں اسے احاطہ نہیں کرتیں (ف۲۱۵) اور سب آنکھیں اس کے احاطہ میں ہیں (ترجمۂ کنزالایمان)
پھر اس نے بیعت کی، آپ نے قبول فرما کر مشرف بہ بیعت فرمایا۔
ایک دوسری روایت یوں ہے کہ کسی انگریز افسرکی بکھی چلانے والا ملازم آں حضور قبلہ فانی فی اللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ کا غلام تھا جو ایک دن پریشانی کے عالم میں بیٹھا آپ کی مٹھیاں بھر رہا تھا، آپ نے پوچھا میاں! آج پریشان کیوں ہو؟
عرض کی حضور! میرا افسر کہتا ہے جو مجھے اللہ تبارک و تعالٰی کی زیارت کرائے گا اسی کے ہاتھ پر اسلام قبول کروں گا۔
آپ نے فرمایا: اسے لے آؤ، چنانچہ وہ لے آیا تو حاضر ہونے پر آپ نے اس کی طرف انگلی مبارک سے اشارہ کرتے ہوئے پوچھا یہی شخص ہے جو اپنے اسلام کو حق تعالٰی جل شانہ کی زیارت سے مشروط کرتا ہے؟ تو آپ کے محض اشارہ فرمانے پر ہی وہ بے خود ہو کر لوٹ پوٹ ہونے لگا، کافی دیر بعد جب ہوش میں آیا تو مشرف بہ اسلام ہوا۔
قلبی خطرہ پر مطلع ہونا:
ساتھیوںو ال ضلع جھنگ کا ایک بافندہ (یعنی کپڑا بننے والا) محمد حامد نامی آپ کا معتقد تھا، ایک دفعہ عازم ملتان جنت نشان ہونے لگا تو ایک کپڑا اپنے ہمراہ لیا بہ ایں ارادہ ملتان میں تقریباً ایک روپیہ تک بہ آسانی فروخت ہوجائے گا تو آدھا روپیہ حضرت فانی فی اللہ باقی باللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ کی نذر گزاروں گا اور بقایا رقم سے گھریلو ضرورت کا سامان خرید کروں گا۔
چنانچہ جب وہ ملتان شریف پہنچا تو ان دنوں حسن اتفاق سے کپڑے کے نرخوں میں کافی اضافہ ہو چکا تھا لہٰذا وہ کپڑا ایک روپیہ کی بجائے دور روپے کے عوض فروخت ہوا۔ فرط مسرت سے اس نے بوقت قد مبوسی حضرت فانی فی اللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ کو آٹھ آنہ کی بجائے ایک روپیہ بطورِ نذر پیش کیا، آپ نے اپنے قلمدان سے آٹھ آنے نکال کر واپس عنایت فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: کہ جو ارادہ جھنگ میں کیا تھا اسی پر کار بندر ہو، اب میرا اس سے زائد حق نہیں بنتا بقایا رقم اپنی گھریلو ضرورت کی اشیا میں صرف کرو۔
دریا کا رُخ بدل جانا:
نقل ہے کہ بستی ماد آباد (ضلع مظفر گڑھ) کے متوسلین و معتقدین نے آپ کی دعوت کی تو آپ وہاں تشریف لے گئے پہنچنے پر تمام لوگ ستاروں کی مثل ماہِ کامل کے گرد جمع ہوگئے، پھر آپ کی پالکی شریف اٹھائی اور دریا کے کنارے لے جا کر رکھ دی پھر عرض کرنے لگے حضور! دریا کا رخ روز بروز ہماری زمینوں اور مکانات کی طرف پھرتا جا رہا ہے جس سے ہمیں کافی نقصان ہو رہا ہے اور مزید نقصان کا اندیشہ ہے، آپ دعا فرما دیں کہ اس کا رخ بدل جائے اور حسب سابق جیسے بہتا تھا ویسے بہنے لگے۔ اس پر آپ نے دستِ مبارک سے اشارہ فرماتے ہوئے فرمایا: کہ تمہارا خیال ہو گا کہ اس راستہ کی بجائے سابقہ راستہ پر چلے؟ اتنا فرما کر آپ نے دستِ مبارک اپنے چہرہ اقدس پر پھیرتے ہوئے فرمایا بِرَحْمَتِکَ یَآ اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ گویا دعا ختم فرما دی۔ رَبِّ ذوالجلال کی قدرتِ کاملہ چند ہی دنوں میں دریانے رخ بدل لیا اور مکمل طور پر سابقہ راستہ پر بہنے لگا۔
تصنیفات:
سید العلما حضرت فانی فی اللہ، باقی باللہ، مولانا عبید اللہ ملتانی چشتی رضی اللہ تعالٰی عنہ بحمدہٖ تعالٰی بحرموَّاج تھے۔
آپ نے مخلوق کی ہدایت کے لئے اپنے علم کی زکوٰۃ درس و تدریس اور وعظ و نصیحت کے علاوہ اس طرح بھی ادا فرمائی کہ مختلف فنون پر عربی، فارسی، پنجابی، ہندی اور سرائیکی میں نظم و نثر پر مشتمل بے حد مفید کتابیں اور رسائل تصنیف فرمائے جن کی تعداد کم بیش ایک سوتک پہنچتی ہے۔ جیسا کہ ’’مثنوی تذکرہ عبیدیہ‘‘ میں ہے۔
حضرت مولانا محمد عبدالحئ لکھنوی نے اپنی تصنیف لطیف ’’نزہۃ الخواطر‘‘ کی آٹھویں جلد میں آپ کا تعارف کراتے ہوئے خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔ مناسب ہے کہ اسے یہاں نقل کر دیا جائے۔
’’الشیخ الصالح عبید اللہ بن قدرۃ اللہ الحنفی الملتانی احد المشائخ الچشتیۃ ولد و نشاء بملتان و قراء العلم علی والدہ ثم اخذ عن المولوی گل محمد وقراء علیہ سائر الکتب الدرسیۃ و درس وافادۃً طویلۃ بمدینۃ ملتان، ثم اخذ الطریقۃ عن الشیخ خدا بخش الخیر بوری وتولی الشیاخۃ بعدہ، اخذ عنہ خلق کثیر من العلماء والمشائخ، وکان شیخا جلیلا مھا با رفیع القدر کبیر المنزلۃ عظیم الورع والعزیمۃ مصنفات عدیدۃ تو فی یوم الجمعۃ لست خلون من جمادی الاولی سنۃ خمس وثلاث مائۃ والف بمدینۃ ملتان۔
ترجمہ: مشائخِ چشت میں ایک نیک سیرت بزرگ عبید اللہ بن قدرۃ اللہ ملتانی حنفی ہیں جو ملتان میں تولد پذیر ہوئے اور یہیں پرورش پائی، اپنے والد سے تعلیم حاصل کی پھر بقایا درسی کتب مولوی گل محمد صاحب سے پڑھیں۔
ملتان میں کافی عرصہ درس و تدریس کے سلسلہ میں نفع پہنچاتے رہے، پھر طریقت میں حضرت الشیخ خواجہ خدا بخش خیر پوری سے فائدہ حاصل کر کے ان کے بعد بزرگی میں ان کے نائب اور دالی بنے، ان سے علما و مشائخ کی کثیر تعداد نے فائدہ حاصل کیا اور یہ جلیل القدر بزرگ، شوکت و عظمت، بلند شان اور بڑی عزت و مرتبہ والے، انتہائی متقی صاحبِ استقامت اور صاحبِ تصانیف تھے۔ آپ کی تصانیف سو کے قریب ہیں۔
یہاں آپ کی چند تصانیف کے صرف نام درج کئے جاتے ہیں مزید تفصیل کے لئے ’’عباد الرحمان‘‘ کا مطالعہ کیجئے۔
۱۔ تفسیر قرآن شریف سورۃ فاتحہ تا سُورۃ ناس
۲۔ دلائل الایمان فی الھدایۃ والایقان
۳۔ تفسیر قاب قوسین
۴۔ تلخیص البیان فی نبذۃ من علامات المھدی آخر الزمان
۵۔ سلسلہ نسب حضور پر نور سید یوم النشور ﷺ
۶۔ فتح العبید
۷۔ ردّ الضالین (جو کہ اہلِ تشیع و وہابی، نجدی لوگوں کے رد میں بے مثل کتاب ہے، انشاء اللہ تعالٰی عنقریب مع ترجمہ شائع کی جائے گی)
۸۔ رد الوھابیہ (کلاں)
۹۔ ردالوھابیہ (خورد)
۱۰۔ تحقیق مسائل مختلفہ بین الوھابیہ واھلِ سُنۃ
۱۱۔ فقیۃ التقلید و بطلان القول الجدید
۱۲۔ ردالانکار علی حلق الراس غیر مطبوعہ
۱۳۔ تعلیم الصبیان
۱۴۔ تعلیم النسا
۱۵۔ اور ادتمام سال ادعیہ
۱۶۔ قول فصل فی البیعۃ والسماع وشرح مفصل
۱۷۔ لزوم حسنِ ظن پر سخنھائے مقبولان ذی المنن
۱۸۔ اصول حافظیہ
۱۹۔ ذوقیہ شریف
۲۰۔ حکمۃ و فائدہ نسیان
۲۱۔ ھدایۃ الطلاب
۲۲۔ ضغث مضروب
۲۳۔ تعبین اوقاۃ الصلوۃ الخمس
۲۴۔ مسفار الحج
۲۵۔ رسالۃ الغنیٰ والفقر
۲۶۔ مذاھب الاولیا فی قبول الھدایا
۲۷۔ سرِ دلبراں (جو کہ آپ کے پیشِ نظر ہے)
۲۸۔ تحقیق الادب
۲۹۔ تحقیق اسماء شھور قمریہ
۳۰۔ وفیات الاعیان
۳۱۔ سیر السماء
۳۲۔ وفیقیہ شرح توفیقیہ
۳۳۔ رفیقیہ شرح توفیقیہ
۳۴۔ رسالہ در منطق
۳۵۔ ادعیہ قرآنی برائے خیریت دو جہانی
۳۶۔ رسالہ فی التصوف
۳۷۔ الھام الصواب
۳۸۔ اعانۃ المریدین فی ردّ الشیاطین والمعاندین
۳۹۔ وصایا عبیدیہ الموسومہ بہ دفع الفساد والجدال
۴۰۔ شرح اشعار حضرت الشیخ علی حیدر صاحب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ
۴۱۔ شرح اشعار حضرت خواجہ حافظ شیرازی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ
۴۲۔ شرابِ طہور
۴۳۔ آداب المریدین
۴۴۔ منظومہ سلسلہ عالیہ
۴۵۔ قصائدِ عبیدیہ
۴۶۔ ذکرِ لطائف
۴۷۔ مثنوی عبیدیہ (کلاں)
۴۸۔ مثنوی عبیدیہ (خورد)
۴۹۔ تہذیب و ترصیف ابیات علمِ میراث
۵۰۔ دیوان چراغ عبیدیہ المعروف داستان معرفت
۵۱۔ رسالۃ الخو
۵۲۔ رسالہ ملائیۃ
۵۳۔ توفیقیہ ہندی
۵۴۔ عیوب النفس
۵۵۔ تحفہ زناں
۵۶۔ سی حرفی اور معرفت
وصال:
حضور سراپا نور، مفتی محمد عبدالشکور صاحب رضی اللہ تعالٰی علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ مجھے مولوی خیر الدین صابر ملتانی نے بیان کیا کہ ایک دن ایک وکیل صاحب نے مجھے بتلایا کہ آج تمہارے پیر و مرشد حضرت فانی فی اللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ کو اپنی چار پائی سے نیچے اتر کر مٹی کے برتن میں سے کچھ رقم شمار کرتے دیکھا ہے، جس سے مجھے سخت تعجب ہوا کہ ساری زندگی جس زر سے مجتنب رہے اب کس غرض سے نامعلوم رقم شماری ہو رہی ہے، چنانچہ مجھ (صابر ملتانی) کو بھی خلافِ معمول یہ بات سن کر حیرت ہوئی۔
تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ آپ نے کچھ رقم سفرِ آخرت کی تیاری کے لئے مختص فرمائی تھی جو آپ نے اپنے فرزندِ دلبند حضور خواجہ عبدالرحمٰن صاحب عربی غریب نواز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ کے حوالے فرمائی۔ اس طرح اپنے کفن کا کپڑا بھی حینِ حیات میں تیار کرنے کے لئے کسی خاص معتقد کو باوضو ہو کر کپاس چننے، دھاگہ بنانے اور کپڑا بننے کا حکم فرمایا تھا، چنانچہ حسبِ ارشاد ایسا ہی کیا گیا، لہٰذا موٹے دھاگے کے اس کپڑا سمیت آپ نے وہ رقم اپنے فرزندِ اکبر حضور شیخ العرب والعجم عربی غریب نواز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ کو مرحمت فرما کر وصیت فرمائی کہ اس کپڑا میں مجھے کفن دیا جائے اور میرے دفن وغیرہ امور پر یہی رقم صرف کی جائے۔
اخیر عمر میں بوجہ ضعف و کمزوری آپ صرف فرضی نمازیں کھڑے ہوکر ادا فرماتے جب کہ سنن و نوافل بیٹھ کر ادا فرماتے اور اگر قعدہ قیام یعنی نماز میں اٹھنے بیٹھنے کی طاقت بھی نہ ہوتی اور آپ صاحب السریر ہوتے تو نماز رو بقبلہ ہو کر لیٹے لیٹے ہی صرف سر مبارک کے اشارہ سے ادا فرماتے جیسا کہ ’’مثنوی تذکرہ عبیدیہ‘‘ میں ہے۔
ہم میانِ ضعف پیری فرض کر دی باقیام
جز نماز فرض بشتہ ادا کر دی مدام
گرنبا شددر نمازش قدرۃ قعدہ قیام
رو بقبلہ، خفتہ با ایمائے سر آرد تمام
اسی دوران آپ کو نصیب دشمناں موسمی بخار بھی لاحق ہوا جس کی وجہ سے آپ کی طبع مبارک جو پہلے ہی سے علیل تھی، زیادتی مرض کا شکار ہوگئی اور بالآخر مقبول ربانی، مقربِ یزدانی، قطب الواصلین، سند الکاملین، محبوبِ الہٰی حضرتِ فانی فی اللہ، باقی باللہ، مولانا المولوی عبید اللہ الملتانی الچشتی القادری ۶ / جمادی الاولیٰ ۱۳۰۵ھ بمطابق ۲۰ جنوری ۱۸۸۸ عیسوی بروز جمعۃ المبارک بوقتِ چاشت دورانِ ذکر
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ (جل جلالہٗ وصلی اللہ تعالٰی علیہ والہٖ وسلم)
دارِ فنان سے سوئے بقا روانہ ہو کر واصل باللہ ہوئے۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
ہم اللہ تعالٰی ہی کے لئے ہیں اور ہم اسی ذات پاک ہی کی طرف رجوع کرنے والے ہیں۔
اس وقت آپ کی عمر چھیاسی برس تھی۔ بعداز وفات حسرتِ آیات آپ کی وصیت کے مطابق آپ کے جسدِ اطہر کو آپ کے برادرِ کلاں جناب حضرت مولانا محمد عبداللہ صاحب اور فرزندِ کلاں جناب حضرت مولانا محمد عبدالرحمٰن صاحب نے غسل دیا۔
تجہیز و تکفین کے دوران ہی آپ کے وصال پر ملال کی خبر و حشت اثر سن کر دور دراز سے لوگ اس طرح در جوق جمع ہونے لگے کہ اہلِ زمانہ نے اس قدر ہجوم کسی جنازہ پر نہ دیکھا تھا۔
’’خاتمہ گلزارِ جمالیہ‘‘ میں ہے:
’’در جنازہ حضرتِ ایشاں علیہ الرحمہ چنداں خلق جمع شدہ بود کہ درعدد حصر ہیچکس نمے آمدوہمہ کسان از حاضرین متعجب بودندچہ موافقی چہ مخالفین قائلین ما رائینا مثل ھذا لا زدحام علی جنازۃ احد وکان قد شرع من الوقت الوصال الیٰ حصول الدفن السحاب الماطر قلیلاً قلیلاً‘‘۔
یعنی آپ کے وصال کے وقت سے لے کر حصولِ دفن تک بوندا باندی ہوتی رہی اور جنازہ کی نماز میں شرکت کے لیے ہجوم جو کسی کے شمار میں نہ آسکتا تھا کو دیکھ کر دوست دشمن سب حیران تھے۔ کہنے والے یوں بھی کہہ رہے تھے کہ ہم نے آج تک کسی کے جنازہ میں اتنا ہجوم نہیں دیکھا۔
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ چوں کہ طبعی علالت کے پیشِ نظر اس دفعہ حضرت محب اللہ المتعال خواجہ حافظ محمد جمال ملتانی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ کے عرس مبارک میں شمولیت نہ فرما رہے تھے اس لیے اپنے فرزندِ اکبر حضور خواجہ عربی غریب نواز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ کو وصیت فرمائی کہ ’’ساری زندگی مجھ سے حضور مظہر جمال الہٰی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ کا عرسِ مبارک قضا نہیں ہوا لہٰذا آج بھی قضانہ ہونے پائے‘‘۔
چانچہ تجہیز و تکفین کے بعد اسی ہجوم کی معیت میں حسب وصیت آپ کا جنازہ دربار عالیہ حضرت خواجہ حافظ جمال اللہ ملتانی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ کی طرف لے جایا گیا۔
چنانچہ مجلسِ سماع میں آپ کو شریک کیا گیا، آپ کے فرزند اکبر کٹہرے میں پڑی ہمیانی سے رقم اٹھا اٹھا کر آپ کی طرف سے قوالوں کو پیش فرماتے رہے، جب کہ ہزارہا عقیدت مند پر دانوں کی مثل چار پائی نچھاور ہو رہے تھے۔
بے شمار مخلوق خداوندی آپ کے فراق میں گریاں و غم کناں تھی۔ اس دن کے غم واندوہ کی کیفیت زبانِ قلم سے بیان نہیں کی جا سکتی۔
الغرض عرس شریف کی تقریبات ختم ہونے پر حاضرینِ مجلس وزائرینِ کرام اور مشائخ کبار خصوصاً حضراتِ سجادگانِ والا شان حضرت قبلہ عالم و عالمیان مہاروی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ وغیر ہم سب نے عام خاص باغ میں بعد ادائیگی نماز جمعۃ المبارک آپ کی نمازِ جنازہ پڑھی۔ فریضۂ امامت حسبِ وصیت آپ کے فرزندِ اکبر سرگر وہ حلیمان حضرت مولانا محمد عبدالرحمٰن عربی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عُنْہ نے ادا فرمایا کہ ’’مثنوی تذکرہ عبیدیہ‘‘ میں ہے۔
جمعہ را کردہ ادا خوند ند بروے نماز
شد امام خلق فرزند کبیرش اہلِ راز
بعداز ادائیگی نماز جنازہ اشکبار آنکھوں س آپ کے جسدِ اطہر کو محلّہ قدیر آباد کی طرف لایا گیا اور مسجدِ ’’عبیدیہ‘‘ و مسجدِ ’’رحمانیہ‘‘ کے درمیانی باغیچہ میں بوقت عصر محبوبِ خدا وسیدِ عالم ﷺ کے دیدارِ فیض آثار سے مشرف ہونے اوار سعادتِ وصل محبوبِ حقیقی حق تعالٰی جل شانہ کے حصول کے لیے بسترِ نَمْ کَنْومَۃِ الْعَرُوس۔ (دلہن کی سی ب فکری والی نیند سو جایئے) پر سلا دیا گیا۔
اگر کسی نے آپ کے تفصیلی حالات سے آگاہی حاصل کرنی ہو تو ’’عبادُ الرحمان‘‘ کا مطالعہ کرے، یہاں صرف تعارف ہی مقصود تھا۔
(حوالہ: سِرِّ د ل براں الموسوم محبوبانِ خدا کے راز، ص ۴۷ تا ۸۱)