حضرت سید صفی الدین صوفی گیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی:سید صفی الدین گیلانی۔کنیت:ابونصر۔لقب:جمال الفقہاء،زین الصلحا،سیدالاتقیاء۔سلسلہ نسب اسطرح ہے:حضرت شیخ سید صفی الدین گیلانی بن سیدسیف الدین عبدالوہاب گیلانی بن غوث الاعظم سیدناشیخ عبدالقادرجیلانی۔علیہم الرحمہ۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت بوقتِ صبح صادق 8/ذوالحج 548ھ،مطابق 22/فروری 1154ءکوبغدادمیں ہوئی۔
تحصیلِ علم: آپ نے اپنے جد امجد حضرت غوث الثقلین رحمۃ اللہ علیہ اور اپنے والد بزرگوار سے تفقہ کیا اور حدیث سُنی۔ نیز شیخ ابی الحسن محمد بن اسحاق بن العتابی رحمۃ اللہ علیہ اور ابو الفتح محمد بن عبد الباقی احمد وغیرہ سے بھی استماعِ حدیث کیا۔ اپنے زمانہ کے فقہاء و محدثین کے سردار اور علمائے زمان کے سالار ہوئے۔آپ نے اپنے چچا سید ابو اسحاق ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ ابو طالب عبد الرحمٰن بن محمد ہاشمی واسطی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کی ہے۔ آپ نے حدیث کا بکثرت مطالعہ کیا اور اپنے قلم سے احادیث لکھیں، اور بیان کیں اور فتوے دئیے۔ اہل بغداد کی ایک جماعت آپ کے علوم سے مستفید ہوئی۔آپ بڑے ادیب، متین، سنجیدہ اور منطق، فلسفہ وغیرہ علوم میں کامل تھے۔
بیعت وخلافت: اپنےوالدِ گرامی سید سیف الدین عبدالرزاق علیہ الرحمہ سےبیعت ہوئے اورانہوں نےتمام اسانیداورسلسلہ عالیہ قادریہ کی اجازت عطاءفرمائی۔
سیرت وخصائص: قدوۃ الفقہاء و المحدثین، زبدۃ العلما ءو المفسرین،فخر المشائخ والاصفیاء،ابرر الاولیاء و الاتقیاء، سید الاقطاب، فرد الاحباب صاحبِ مقاماتِ بلند و کرامات، حضرت سید سیف الدین عبد الوہاب گیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند اکبر و مرید و خلیفہ اعظم و سجادہ نشین سید صفی الدین صوفی گیلانی رحمۃ اللہ علیہ ۔آپ اپنےجدبزرگوارکی طرح مادرزادولی کامل تھے۔تحفہ قادریہ میں ہے:جب تک آپ والدہ ماجدہ کے شکم میں رہے حضرت سید عبد الوہاب رحمۃ اللہ علیہ آپ کی طرف پشت نہ کرتے تھے۔ اسی طرح آپ کی تعلیم و تربیت آپ کے حضرت جد بزرگوار غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے کنارِ عاطفت میں فرمائی۔ آپ کو گود میں لے کر آپ کی پشت کو بوسے دیا کرتے۔ اکثر اوقات حضور غوثیہ کو وجد ہوجایاکرتا اور بے اختیار فرمایا کرتے الحمد للہ۔ آپ اخلاق عالیہ سےمتصف تھے۔ زیادہ تر خاموش رہنے والے، علم کو دوست رکھنے والے، کثیر الحلم، پسندیدہ اخلاق والے، اہلِ علم کا احترام کرنے والے اور صلحا کی عزت کرنے والے۔ اپنے قول و فعل میں ثقہ تھے۔ آثار جذب ابتدا ءسے ہی آپ کی طبیعت میں آثارِ جذب و ولایت پائے جاتے تھے۔آپ اکثر غیبی احوال بیان فرمایا کرتے جس طرح زبان مبارک پر آتا اُسی طرح ظہور میں آجاتا تھا۔
آپ اپنے آبا و اجداد کی طرح حنبلی مذہب کے پیروکار تھے،اور اسی مذہب کے مطابق فتویٰ دیا کرتے تھے۔ بہت مدت تک بغداد شریف کے مفتی رہے۔ آپ اپنے والدِ اکرم رحمۃ اللہ علیہ کے بعد سجادہ نشینِ درگاہِ عالیہ غوثیہ ہوئے اور مسند ارشاد پر متمکن ہوکر طالبانِ خدا کو منزل مقصود پر پہنچاتے رہے۔ چونکہ آپ ہمیشہ خدا کی طرف دھیان رکھتے اور دِل کو بُری باتوں یعنی ماسوی اللہ سے پاک رکھتے تھے اس لیے آپ کا لقب صوفی پڑگیا تھا۔ آپ مدت دراز تک مدرسہ عالیہ غوثیہ میں درس و تدریس کرتے رہے اور خدمتِ وعظ و نصیحت کو انجام دیا اور کمالاتِ صوری و معنوی سے مالا مال ہوئے۔ اسی طرح سیاحت بھی خوب فرمائی،بلاد عرب،افغانستان،اورپھرہندمیں بمقام ملتان تشریف لائے،اوریہاں فیضِ غوثیہ تقسیم کرنےکےبعد واپس بغدادمعلیٰ تشریف لےگئے،اورپھروہیں انتقال ہوا۔
طالبانِ حق کونصیحت: آپ نصیحت فرماتےہوئےارشادفرماتےہیں: ظاہر شریعت پر عمل کرو، اور کتاب اللہ و سنت رسول اللہﷺسے تمسک رکھو، سلفِ صالحین کے طریق پر چلنا اپنا شِعار بناؤ، اعتقاد اہل سنت جماعت رکھو، نفس کو ریاضت سے مطیع کرو۔ طلبِ مولامیں صبر جمیل اختیار کرو، بلاؤں پر تحمل کرو، خدا تعالیٰ کی قضا و قدر پر راضی رہو، اللہ تعالیٰ کے افعال میں فنا حاصل کرو، سنت کا اتباع کرو، بدعت سے اجتناب رکھو، اللہ تعالیٰ پر ہر کام میں توکل رکھو، اُسی سے مدد مانگو اور ہر حال و ہر وقت اُسی سے نصرت طلب کرو۔
تاریخِ وصال: آپ کاوصال 3/رجب المرجب 611ھ،مطابق 8/نومبر1214ءبروزہفتہ کوہوا۔آپ کومقبرہ حلبیہ بغدادمعلی عراق میں دفن کیاگیا۔
ماخذومراجع: شریف التواریخ۔
//php } ?>