حضرت سید صفی الدین صوفی گیلانی
حضرت سید صفی الدین صوفی گیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
اوصاف جمیلہ
آپ قدوۃ الفقہا و المحدثین، زبدۃ العلما و المفسرین فخر المشائخ والاصفیا، برر الاولیا و الاتقیا، سید الاقطاب، فرد الاحباب صاحبِ مقاماتِ بلند و کراماتِ ارجمند تھے۔ حضرت سید سیف الدین عبد الوہاب گیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند اکبر و مرید و خلیفہ اعظم و سجادہ نشین تھے۔
نام و لقب
آپ کا نام نامی قلاند الجواہر وغیرہ میں مع کنیت و لقب اِس طرح لکھا ہے ’’ابو المنصور صفی الدین عبد السلام صوفی‘‘ اور شجرۃ الانوار میں ہے۔ ’’ابو المنصور فضل اللہ عبد السلام صوفی صفی الدین‘‘ نواقب المناقب میں ہے۔ ’’ابی نصر فضل اللہ‘‘ [۱] [۱۔ ثواقب المناقب خطی نسخہ الف ص ۱۳ نسخہ ب ق ۹] اسرار المعرفت میں ’’ابو الفرح صوفی‘‘ لکھا ہے۔ [۱] [۱۔ بیاض خزینۃ العلوم خطی ص ۱۷۵]
بعض کتابوں میں نام حسن، محمد اور عبد الرحیم [۱] [۱۔ حقیقت گلزار صابری] اور کنیت ابو نصر بھی لکھی ہے۔ میرے نزدیک پہلی روایت زیادہ صحیح اور مشہور ہے۔
آپ کے القاب جمال انفقہا، زین الصلحا اور زَین المحدثین تھے۔ [۱] [۱۔ بحر السرائر خطی۔ غوث اعظم ص ۳۰۳]
تاریخ ولادت
آپ کی ولادت با سعادت آٹھویں ذی الحجہ وقت آخر شب ۵۴۸ھ مطابق چوبیسویں (۲۴) فروری ۱۱۵۴ء ایک ہزار ایک سو چَون عیسوی بمقام بغداد شریف ہوئی۔ [۱] [۱۔ تحفۃ القادریہ۔ انیس القادریہ۔ تاج المکلل]
جب تک آپ والدہ ماجدہ کے شکم میں رہے حضرت سید عبد الوہاب رحمۃ اللہ علیہ آپ کی طرف پشت نہ کرتے تھے۔ [۱] [۱۔ حقیقت گلزار صابری ص ۶۲ شرافت]
تربیت
آپ کو حضرت جد بزرگوار غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے کنارِ عاطفت میں پرورش کیا۔ آپ کو گود میں لے کر آپ کی پشت کو بوسے دیا کرتے۔ اکثر اوقات حضور غوثیہ کو وجد ہوجایا کرتا اور بے اختیار فرمایا کرتے الحمد للہ۔ [۱] [۱۔ حقیقتِ گلزارِ صابری ص ۶۲]
تحصیل علوم
آپ نے اپنے جد امجد حضرت غوث الثقلین رحمۃ اللہ علیہ اور اپنے والد بزرگوار سے تفقہ کیا اور حدیث سُنی۔ نیز شیخ ابی الحسن محمد بن اسحاق بن العتابی رحمۃ اللہ علیہ اور ابو الفتح محمد بن عبد الباقی احمد وغیرہ سے بھی استماعِ حدیث کیا۔ [۱] [۱۔ بحر السرائر خطی] اپنے زمانہ کے فقہا و محدثین کے سردار اور علمائے زمان کے سالار ہوئے۔ [۱] [۱۔ قلائد الجواہر ص ۴۵] آپ نے اپنے چچا سید ابو اسحاق ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ سے۔ اور شیخ ابو طالب عبد الرحمٰن بن محمد ہاشمی واسطی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کی ہے۔ [۱] [۱۔ الدر المنظم ص ۲۹۵]
افتا
آپ نے حدیث کا بکثرت مطالعہ کیا اور اپنے قلم سے لکھیں۔ اور حدیث بیان کی اور فتوے دئیے۔ اہل بغداد کی ایک جماعت آپ کے علوم سے مستفید ہوئی۔ [۱] [۱۔ بحر السرائر]
نواب سید صدیق حسن خاں بخاری بھو پالوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ آپ حدیث اپنے جد امجد سے سُنی اور پڑھی اور اپنے ہاتھ سے لکھی اور تفقہ اپنے والد ماجد سے کیا۔ اور درس دیا۔ آپ بڑے ادیب، متین، سنجیدہ تھے۔ منطق، فلسفہ وغیرہ علوم میں کامل تھے۔ [۱] [۱۔ تاج المکلل ص ۱۴۵]
اخلاقِ عالیہ
آپ زیادہ تر خاموش رہنے والے، علم کو دوست رکھنے والے، کثیر الحلم، پسندیدہ اخلاق والے، اہلِ علم کا احترام کرنے والے اور صلحا کی عزت کرنے والے۔ اپنے قول و فعل میں ثقہ تھے۔ [۱] [۱۔ بحر السرائر۔ شرافت]
آثار جذب
ابتدا سے ہی آپ کی طبیعت میں آثارِ جذب و ولایت پائے جاتے تھے۔ حضرت جد بزرگوار کبھی کبھی آپ کو پیار سے فرمایا کرتے ’’میرے مست مجنون جلالی‘‘ آپ اکثر غیبی احوال بیان فرمایا کرتے جس طرح زبان مبارک پر آتا اُسی طرح ظہور میں آجاتا تھا۔
بیعت و خلافت
آپ نے بعمر اٹھارہ سال اپنے والد مکرم حضرت سیّد السادات شیخ ابو عبد اللہ سیف الدین عبد الوہاب گیلانی بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ مبارک پر بیعتِ توبہ و امامت و ارشاد کی۔ اُنہوں نے آپ کو ایک ہی نگاہ سے فائز المرام کر کے خلافتِ کبرٰے سے نوازا۔ اپنی کُلاہ آپ کے سَر پر رکھ کر اس پر عمامہ سبز رنگ اپنے ہاتھ سے باندھا۔ اور خرقہ پہنادیا اور ایک پَٹکہ سُرخ رنگ کمر سے باندھ کر مثالِ خلافت اہلِ مجلس کو سُنا کر عطا فرمائی۔ [۱] [۱۔ حقیقتِ گلزار صابری ص ۶۳]
فیضانِ غوثیہ
صاحبِ تاریخ الاولیا نے لکھا ہے کہ آپ کو خرقہ ولایت و ارشاد بلا واسطہ بھی اپنے جد امجد حضرت غوثیت مآب پیر دستگیر رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل ہوا۔
بیعتِ روحی
آپ کو روحی بیعت حضرت امام حسین شہیدِ کربلا رضی اللہ عنہ اور حضرت محبوبِ سُبحانی قطب ربانی رحمۃ اللہ علیہ سے تھی۔ [۱] [۱۔ آئینہ تصوف]
مشائخ صحبت
آپ نے اپنے ابن العم حضرت سید عماد الدین ابو نصر صالح بن سید عبد الرزاق رحمۃ اللہ علیہ سے بھی فیض حاصل کیا۔ نیز دوسرے مشائخ کبار شیخ ابو الحسن محمد رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ ابو الفتح محمد رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ رحمت اللہ قادری رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت سے بہرہ وافر عطا ہوا۔ [۱] [۱۔ تاریخ الاولیا۔ شرافت]
جوشِ جذب
آپ جب ترقی باطن کی طرف متوجہ ہوئے تو جذب حقیقی دامنگیر ہوا اور ہوش و حواس نے مفارقت کی۔ آپ یَا ھُوَ یَا مَنْ ھُوَ یَا مَنْ لَّیُسَ لَہٗ اِلَّا ھُوَ زبان سے کہتے ہوئے اور گریبان چاک کرتے ہوئے ایک طرف کو نکل گئے۔ اور شطحیات آپ کی زبان سے بے اختیار صادر ہوتے تھے۔
معیتِ ابدال
حضرت والد بزرگوار رحمۃ اللہ علیہ نے سید علیم اللہ ابدال رحمۃ اللہ علیہ کو نگرانی احوال کے واسطے آپ کے ہمراہ بھیج دیا۔ گیارہ مہینے تک اسی حالت میں سیر و سیاحت کرتے رہے۔
ھرات میں ورود
اس کے بعد آپ شہر برات میں وارد ہوئے۔ شیخ محمد بن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ نے نہایت تعظیم و تکریم سے آپ کو اپنے مکان پر ٹھہرایا۔ آپ دس سال تک وہیں سکونت گزین رہے۔ اِس عرصہ میں سید علیم اللہ ابدال رحمۃ اللہ علیہ گاہ بگاہ بغداد شریف میں آپ کے حالات پہنچاتے رہتے تھے۔
ترقی سلوک
حضرت والد بزرگوار رحمۃ اللہ علیہ غائبانہ توجہ سے آپ کو مستفیض اور کیفیاتِ باطن سے سرفراز فرماتے رہے۔ چنانچہ رفتہ رفتہ آپ کی حالت مبدل بہ سلوک ہوگئی۔ اور ہر طرح کے فضائل و کمالات نقدِ وقت ہوئے۔
سَیر ہند
تیس سال کی عمر میں آپ ملکِ ہند کی سیاحت کے لیے روانہ ہوئے اور ملتان کے مضافات میں تشریف لے گئے۔ اور اٹھارہ (۱۸) مہینے تک اس علاقہ کو اپنے یمن و برکات سے سیراب کیا۔
معاد دتِ بغداد
اس کے بعد آپ پھر اپنے وطنِ مالوف میں تشریف لائے۔ اور اپنے والد بزرگوار رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں بشانِ سترگی حاضر ہوکر آداب بجالائے انہوں نے اپنے بلند اقبال بیٹے کے کمالات دیکھ کر درگاہِ الٰہی میں شکریہ ادا کیا۔ [۱] [۱۔ حقیقت گلزار صابری۔ شرافت]
اوراد و وظائف
آپ نماز فجر سے پہلے ہمیشہ یہ وظیفہ پڑھا کرتے۔ الٰھی بحرمۃ قطب ربانی غوث الصمدانی شیخ محیی الدین ابو محمد سید عبد القادر جیلانی محبوب سبحانی امد دنی یا مصوّر۔ نیز آپ سجدہ شکر بھی کیا کرتے اور چار رکعت نماز صلوٰۃ الصلوٰۃ بھی پڑھا کرتے۔ [۱] [۱۔ حقیقتِ گلزار صابری ص ۹۵]
مذہب
آپ اپنے آبا و اجداد کی طرح حنبلی مذہب کے پابند تھے۔ اور اسی مذہب کے مطابق فتویٰ دیا کرتے تھے۔ بہت مدت تک بغداد شریف کے مفتی رہے۔
نیابتِ غوثیہ
آپ اپنے والدِ اکرم رحمۃ اللہ علیہ کے بعد سجادہ نشینِ درگاہِ عالیہ غوثیہ ہوئے اور مسند ارشاد پر متمکن ہوکر طالبانِ خدا کو منزل مقصود پر پہنچاتے رہے۔ [۱] [۱۔ قلائد الجواہر ص ۴۵]
وجہ لقبِ صوفی
چونکہ آپ ہمیشہ خدا کی طرف دھیان رکھتے اور دِل کو بُری باتوں یعنی ماسوی اللہ سے پاک رکھتے تھے اس لیے آپ کا لقب صوفی پڑگیا تھا۔ [۱] [۱۔ بحر الجمان فی مناقب و حالاتِ آل سیّد الانس و الجان]
تدریس
آپ مدت دراز تک مدرسہ عالیہ غوثیہ میں درس و تدریس کرتے رہے اور خدمتِ وعظ و نصیحت کو انجام دیا اور کمالاتِ صوری و معنوی سے مالا مال ہوئے۔
حج حرمین الشریفین
آپ متعدد امور مذہبی کے متولی رہے۔ منجملہ اُن کے کسوت بیت اللہ شریف کی تولیت بھی آپ کے متعلق تھی۔ اسی اثنا میں حرمین الشریفین زادھما اللہ شرفًا وتعظیمًا کا حج بھی ادا کیا۔ [۱] [۱۔ قلائد الجواہر ص ۴۵۔ بحر السرائر۔ شجرۃ الانوار۔ ]
کرامات
آپ کثیر الخوارق و الکرامات تھے۔
طبّی ارض
منقول ہے کہ آپ جب ھرات سے علاقہ ملتان میں تشریف لے گئے تو بزور ولایت تیسرے ہی دن وہاں پہنچ گئے۔ سید علیم اللہ ابدال آپ کے ہمراہ تھے۔ [۱] [۱۔ حقیقتِ گلزار صابری ص ۸۷۔ شرافت]
اثرِ جلالیت
جن ایّام میں آپ ہرات میں تھے۔ مولوی حاجی بُرہان بن منعم تاجر وہاں آیا، اثنائے کلام میں آپ کی اور آپ کے آبا و اجداد کی مذمت کرنے لگا۔ اُسی رات قدرتِ الٰہی سے اُس پر بجلی گری اور فورًا ہلاک ہوگیا۔ [۱] [۱۔ حقیقتِ گلزار صابری ص ۸۹]
عملیات
برائے خلاصی از مصائب
آپ نے فرمایا ہے کہ جو شخص ہر پانچ نمازوں کے بعد یہ وظیفہ پڑھا کرے وہ ہر قسم کی سختیوں اور مصیبتوں سے خلاصی پاوے گا، بعد نماز فجر کے ھو الحیّ القیوم سو بار، اور بعد نماز ظہر کے ھو العلی العظیم سو بار، اور بعد نماز عصر کے ھو الرحمٰن الرحیم سو بار اور بعد نماز مغرب کے ھو الغنی الحمید سو بار، اور بعد نماز عشا کے ھو اللطیف الخبیر سو بار پڑھے۔ [۱] [۱۔ مرقع کلیمی]
کلمات طیّبات
نصائح
آپ نے طالبانِ حق کو فرمایا ہے۔ ظاہر شریعت پر عمل کرو، اور کتاب اللہ و سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے تمسک رکھو، سلفِ صالحین کے طریق پر چلنا اپنا شِعار بناؤ، اعتقاد اہل سنت جماعت رکھو، نفس کو ریاضت سے مطیع کرو۔ طلبِ مولٰے میں صبر جمیل اختیار کرو، بلاؤں پر تحمل کرو، خدا تعالیٰ کی قضا و قدر پر راضی رہو، اللہ تعالیٰ کے افعال میں فنا حاصل کرو، سنت کا اتباع کرو، بدعت سے اجتناب رکھو، اللہ تعالیٰ پر ہر کام میں توکل رکھو، اُسی سے مدد مانگو اور ہر حال و ہر وقت اُسی سے نصرت طلب کرو۔ [۱] [۱۔ تکملہ مفتاح الفتوح قلمی مکتوبہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ موجودہ کتب خانہ گیلانیہ اوچ متبرکہ۔ شرافت]
اولادِ کرام
بقول صاحب بحر السرائر آپ کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ بیٹوں کے نام یہ ہیں۔
۱۔ حضرت شیخ سید ابو المسعود علم الدین احمد رحمۃ اللہ علیہ اِن کا ذکر آگے آئے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
۲۔ حضرت سید ابو الجبار بدر الدین حسن رحمۃ اللہ علیہ
یہ بلا تزویج فوت ہوئے، بحر السرائر میں ہے دوازوے خلفے نماندہ
بیٹی کا نام سیدہ فاطمہ تھا۔ جوانی میں میں بے اولاد فوت ہوئیں بحر السرائر میں ہے۔ ’’اما فاطمہ ازوے عقبے نمائد‘‘ نیز اس میں لکھا ہے کہ جو شخص ان کی اولاد ہونے کا دعوٰے کرے وہ جھوٹھا ہے۔
ف
آپ کے دو بیٹوں اور ایک بیٹی کا جو ذکر کیا جا چکا ہے مستند و صحیح ہے۔ مگر بعض تحریروں اور شجروں میں سید صفی الدین صوفی رحمۃ اللہ علیہ کے تین عدد اہلیہ اور آٹھ اور بیٹوں کے نام بھی پائے جاتے ہیں، بیویوں کے نام یہ ہیں۔
۱۔ سیدہ نور بی بی بنت شاہ کبیر حسن لاہوری رحمۃ اللہ علیہ۔
۲۔ سیدہ فاطمہ بنت شاہ عبد اللہ رحمۃ اللہ علیہ۔ [۱] [۱۔ باغِ سادات قلمی]
۳۔ بی بی ہاجرہ الملقب بہ خاتون جمیلہ بنت شیخ جمال الدین محمود سلیمان بن شعیب فاروقی رحمۃ اللہ علیہ۔ [۱] [۱۔ حقیقت گلزار صابری۔ شرافت]
اور اِن بیٹوں کے نام بھی پائے جاتے ہیں۔
۱۔ سید ابو سلیمان احمد رحمۃ اللہ علیہ صاحب شجرۃ الانوار نے لکھا ہے کہ شیخ سلیم چشتی رحمۃ اللہ علیہ کا قادریہ شجرہ اِن سے ملتا ہے۔
۲۔ سید عیسیٰ رحمۃ اللہ علیہ۔ کتاب نسب نامہ سادات میں ہے کہ شاہ قمیص قادری ساڈھوردی رحمۃ اللہ علیہ کا نسب اس طرح ہے۔ ان کے والد کا نام سید تاج الدین تھا۔ ابنِ حیات الدین بن بہاء الدین بن داؤد بن سید عیسیٰ بن سید صفی الدین صوفی رحمۃ اللہ علیہ [۱] [۱۔ نسب نامہ ساداتِ پیر کوٹ سدھانہ ضلع جھنگ مکتوبہ ۱۳۰۴ھ]
لیکن شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اخبار الاخیار میں لکھا ہے کہ شاہ قمیص رحمۃ اللہ علیہ ابن سید ابی الحیٰوۃ، ایشاں نیز سلسلہ نسبِ خود بحضرت سیّد عبد الرزاق میر سانند‘‘[۱] [۱۔ اخبار الاخیار ص ۳۰۸] مفتی غلام سرور لاہوری رحمۃ اللہ علیہ بھی ان کو سید عبد الرزاق بن غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد لکھتے ہیں۔ [۱] [۱۔ خزینۃ الاصفیا جلد اول ص ۲۰۸] شاہ قمیص کی وفات ۳؍ ذیقعدہ ۹۹۲ھ میں ہوئی۔ مزار ساڈھورہ خضر آباد میں ہے۔
اِن کا سید صفی الدین صوفی کی اولاد سے ہونا قطعًا صحیح نہیں۔
۳۔ سید محمد فاروق رحمۃ اللہ علیہ ملک محمد ظفر الدین قادری نے اپنا شجرہ نسب اِن سے اس طرح ملایا ہے۔ ظفر الدین بن منشی عبد الرزاق بن کرامت علی بن احمد علی بن غلام قادر بن سعادت یار بن حمید بن رضا بن محمد علی بن فتح اللہ بن غلام نبی بن محمد معصوم بن مَلک محمد سعید الدین عُرف مَلک سَدّن بن احمد اللہ بن تاتار بن بہاو الدین بن محمد اسمٰعیل بن آلہ داد بن غلام محی الدین عُرف ملک گدّن بن خطاب الملک بن مَلک عطاء الملک بن مَلک داوٗد بن ابراہیم ملک ببا غازی متوفی ۱۳؍ ذی الحجہ ۷۵۳ھ (مدفون مبار) بن ابو بکر (مدفون بُت نگر مضافاتِ غزنی بن ابو القاسم عبد اللہ بن سید محمد فاروق بن سید صفی الدین صوفی۔ [۱] [۱۔ حیاتِ اعلیٰ حضرت حاشیہ ص ہ ص و]
۴۔ سید عبد الوہاب رحمۃ اللہ علیہ متوفی ۱۲؍ شعبان ۵۹۹ھ۔ [۱] [۱۔ آئینہ تصوف ص ۶۴]
۵۔ سید علاو الدین بن علی احمد صابر کلیری رحمۃ اللہ علیہ حقیقتِ گلزار صابری والے نے ان کو سید صوفی گیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا بیٹا لکھا ہے لیکن یہ صریح غلط ہے۔ حالانکہ حکیم واجد علی خاں دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب مطلع العلوم میں صابر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو بنی اسرائیل میں سے لکھا ہے۔ یہ حضرت خواجہ فرید الدین گنج شکر چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے خواہر زادہ اور مرید تھے۔ ۶۹۰ھ میں فوت ہوئے۔
۶۔ سید میراں تاج الدین رحمۃ اللہ علیہ
۷۔ سید علی اصغر رحمۃ اللہ علیہ ۸۔ سید حسین علی رحمۃ اللہ علیہ [۱] [۱۔ باغِ سادات قلمی۔ شرافت]
میرے نزدیک صاحب بحر السرائر کی تحقیق صحیح ہے کہ سید صفی الدین صوفی کے صرف دو (۲) ہی بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ ان میں سے صرف فرزند اکبر سید ابو المسعود علم الدین احمد رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد باقی ہے۔ دوسرا بیٹا لا ولد رہا۔
باقی آٹھ بیٹے جو دوسری تحریرات میں آئے ہیں ان کی صحبت مشکوک ہے۔ بلکہ اُن کی اولاد کے اسماء سے اُن کے نسبلوں کی جعلسازی ثابت ہو رہی ہے۔ ایسا ہی تینوں (۳) بیویوں کے نام بھی غیر ثابت ہیں۔
تلامذہ عظام
صاحب کتاب غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ خلیفہ الظاہر بامر اللہ ابو النصر محمد بن الناصر بن المستضئی عباسی علوم ظاہر میں آپ کا شاگرد تھا۔
اور الدرالمنظم میں ہے کہ شیخ ابو الغنائم رزق اللہ بن محمد بن احمد نے آپ سے روایت کی ہے۔
خلفائے ذو الاحترام
صاحب آئینہ تصوف نے لکھا ہے کہ خلیفہ اکبر آپ کے ایک اور خلیفہ اصغر گیارہ (۱۱) اور صاحب مجاز سات (۷) تھے۔ از انجملہ
۱۔ حضرت سید ابو المسعود علم الدین احمد۔ فرزند اکبر آنجناب رحمۃ اللہ علیہ۔ ان کا نام بعض تذکروں میں ابو العباس حمید الدین احمد مذکور ہے۔
۲۔ حضرت سید ابو سلیمان احمد رحمۃ اللہ علیہ اِن کا سلسلہ جاری ہے۔
۳۔ سید عبد الوہاب رحمۃ اللہ علیہ شاہ محمد حسن صابری رامپوری رحمۃ اللہ علیہ کا شجرہ قادریہ اِن سے بھی ملتا ہے۔ وہ مرید شاہ محمد حسین کے، وہ مرید شاہ محمد امیر کے، وہ مرید میاں غلام شاہ کے، وہ مرید شاہ عبد الکریم قطب الدین کے، وہ مرید شاہ مصطفٰے کے، وہ مرید شاہ عثمان کے، وہ مرید شاہ عبد اللہ وحدت پوش کے، وہ مرید سید احمد یحییٰ الخلیفہ کے، وہ مرید سید صالح پاک کے، وہ مرید سید طٰہٰ کے، وہ مرید سید یٰسین کے، وہ مرید سید شرف الدین کے، وہ مرید سید تاج الدین کے، وہ مرید سید نور الدین کے، وہ مرید سید محمد یحییٰ کے، وہ مرید سید عبد الوہاب موصوف کے۔ [۱] [۱۔ آئینہ تصوف ص ۶۴]
۴۔ سید علی قادری رحمۃ اللہ علیہ صاحبِ فیضان جاریہ تھے۔ [۱] [۱۔ خزینۃ الاصفیا جلد اول ص ۱۱۸]
واقعۂ وفات
آپ کو ناف کے نیچے دَرد شروع ہوا اور ساعت بساعت بڑھتا گیا اُس وقت یہ کلمہ آپ کی زبان پر جاری تھا یا شیخ عبد القادر جیلانی شیئا للہ مدد باذن اللہ۔ آپ کے فرزندانِ عالی شان اور شیخ ابو القاسِم اور سید عبد اللہ احمد رحمۃ اللہ علیہ اور سید یٰسین بن شرف الدین رحمۃ اللہ علیہ اور سید ابو الفضل بن شمس الدین صحرائی رحمۃ اللہ علیہ تیمار داری میں مشغول رہے۔ [۱] [۱۔ حقیقتِ گلزار صابری، شرافت]
آخری لمحات
جب آپ کا وقت اخیر ہوا تو آپ کے صاحبزادۂ عالیحاہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اس وقت آسمانوں میں غل ہو رہا ہے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری آرہی ہے۔ ہمارے والد بزرگوار کو خلعتِ نور پہنا کر ساتھ لے جاویں گے چنانچہ اُسی وقت آپ کی رُوحِ مطہر جسم عنصری سے مفارقت کر کے اپنی حقیقت سے جا واصل ہوئی۔
خوشبو کا ظہور
اس وقت نہایت لطیف خوشبو سے مکان معطر ہوگیا، اور پھر چند لمحہ میں دُور دُور تک وہ خوشبو پھیل گئی۔ چنانچہ اُسی خوشبو سے اکثر لوگ جَوق در جَوق زیارتِ آخری کے لیے حاضر ہوئے۔
تجہیز و تکفین
شیخ ابو احمد بن اسحاق ھروی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو غسل دیا اور آپ کے پیچدار گیسوؤں کو شانہ کیا۔ آپ کے صاحبزادے بھی شریک کار ہوئے شیخ حُسام الدین حقبلی رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ رضی الدین رحمۃ اللہ علیہ نے قبر میں اُتارا۔
نمازِ جنازہ
صدہا مخلوق کے علاوہ بزرگان اولیاء اللہ مندرجہ ذیل بھی شریکِ جنازہ تھے۔ شیخ بہاؤ الدین رحمۃ اللہ علیہ، شیخ عثمان بن داوٗد رحمۃ اللہ علیہ شیخ صدر الدین رحمۃ اللہ علیہ خواجہ یعقوب بن ایوب رحمۃ اللہ علیہ، شیخ موسیٰ رحمۃ اللہ علیہ، شیخ ابو البرکات بن احمد رحمۃ اللہ علیہ، شیخ عبد المجید بن ابو العباس رحمۃ اللہ علیہ، شیخ عبد اللہ رحمۃ اللہ علیہ، شیخ ابو العلےٰ بن محمود رحمۃ اللہ علیہ، شیخ ابو مسعود بن احمد رحمۃ اللہ علیہ، شیخ شمس الدین بن شہاب الدین رحمۃ اللہ علیہ، شیخ قاسم بن عُثمان رحمۃ اللہ علیہ، شیخ نصیر الدین بن عبد القادر رحمۃ اللہ علیہ، شیخ ابو بکر بن احمد رحمۃ اللہ علیہ، شیخ عبد الکریم بن عمر بن ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ۔ [۱] [۱۔ حقیقتِ گلزار صابری۔ شرافت]
تاریخِ وفات
حضرت سید ابو المنصور صفی الدین عبد السلام صوفی گیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات بقولِ صاحبِ قلائد الجواھر و انیس القادریہ و بحر السرائر و شجرۃ الانوار و تاج المکلل بتاریخ سوم رجب ۶۱۱ھ چھ سو گیارہ ہجری۔ مطابق شنبہ آٹھویں نومبر ۱۲۱۴ء ایک ہزار دو سو چودہ عیسوی میں بعہد خلافت الناصر الدین اللہ احمد بن المستضیئی خلیفہ سی د چہارم (۳۴) عباسی کے ہوئی۔
مدفن پاک
آپ کا مزار پُر انوار بغداد شریف مقبرہ حلبہ میں اپنے والد بزرگوار کے پاس ہے۔
قطعہ تاریخ
از حضرت مولانا شاہ غلام مصطفٰے نوشاہی دام برکاتہ
صوفی الدین چو شد بدارِ قرار
رحلتِ پیر گفت نو شاھی
اہلِ جنت شد ند زو خوش حال
قادری پیر ہادیِ دیں سال
منہ
چو رحلت کرد سیّد صوفی پاک
ز ہاتف جُست نو شاھی وصالش
بجنات المعلّٰے گشت مالک
بگوشِ جال نداشد مستِ(۶۱۱) سالک
منہ
ز دنیا چو شہ رفت احسن لطیف
خرد رحلتش گفت طیّب شریف (۶۱۱)
منہ
ز دنیا سفر کرد حضرت عجب
بخواں رحلتِ پیر باشوقِ رب (۶۱۱)
منہ
بجنت چو شد پیر ما دلپذیر
وصال است اولی سراج(۶۱۱) منیر
منہ
درجناں آمد ولّی بالیقین
سالِ وصلش شمس قطبِ اہل(۶۱۱) دیں
دیگر از اسماء الحسنیٰ
باعث زاکی (۶۱۱)
رشید وافی (۶۱۱)
متین اعلٰے (۶۱۱)
متین عالی (۶۱۱)
متین کافی (۶۱۱)
ممیت سبحان (۶۱۱)
فتاح معبود (۶۱۱)
شفیع قائم (۶۱۱)
تواب رب (۶۱۱)
تواب برّ (۶۱۱)
شافی ظہور (۶۱۱)
نصیر اکرم (۶۱۱)
ناصر کریم (۶۱۱)
(شریف التواریخ)