2015-11-13
علمائے اسلام
متفرق
6300
| سال | مہینہ | تاریخ |
یوم پیدائش | 0522 | شعبان المعظم | |
یوم وصال | 0593 | شوال المکرم | 25 |
حضرت سید عبدالوہاب گیلانی بن حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ تعالٰی
نام ونسب: اسمِ گرامی:سید عبدالوہاب گیلانی۔کنیت: ابو عبداللہ۔لقب: سیف الدین،جمال الاسلام،قدوۃ العلماء،اورفخرالمتکلمین تھا۔آپ محبوبِ سبحانی قطبِ ربانی شہبازِ لامکانی غوث الاعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کے فرزندِ ارجمند اور جانشین تھے۔
تاریخِ ولادت: جس دن سے آپ نے والدہ کے شکم مبارک میں قرار پکڑا اس دن سے جناب غوث الاعظم اس طرف پشت نہ کرتے تھے۔ آپ کی ولادت باسعادت ماہِ شعبان المعظم/522ھ بمطابق اگست/1128ء کوبغدادمعلی ٰمیں ہوئی۔
تحصیلِ علم: آپ نے اپنے والد ماجد سے علم الفقہ اورعلم الحدیث کی تحصیل فرمائی۔ اِس کے بعد ابو غالب احمدبن علی بن احمد المعروف بہ ابن البَنا اور ابو القاسم سعید بن الحسین ، اور ابو بکر محمد بن الزاغوانی وغیرہ سے بھی استماعِ حدیث کیا۔ نیز طلبِ علم کے لیے بلادِ عجم کے دُور دراز شہروں کا سفر کیا اور جید علماءِکرام سے استفادےکیے اور فاضلِ متجر ہوئے۔ سید سعد اللہ الموسوی الرضوی القادری نے کتاب بحر السرائر میں آپ کے اساتذہ میں ابی منصور عبد الرحمٰن بن محمد بن الواحد اتفراز اور ابی الحسن محمد بن احمد بن حرفا اور ابی الفضل محمد بن عمر الارموی اور ابی الوقت عبد الاول بن عیسیٰ السبخری کے نام بھی تحریر کیے ہیں۔ آپ اپنے وقت کے جمیع ائمہ حدیث کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے حدیث سماعت فرمائی۔(رحمۃ اللہ علیہم اجمعین) آپ نے تحصیلِ علوم و فنون کے بعد 543ھ میں اپنے والد بزرگوار کے سامنے اُن کی نیابت میں مدرسہ سعیدیہ غوثیہ باب الازج میں درس و تدریس میں مصروف ہوگئے۔آپ کے درس سے بہت علماء وفضلاء ہوئے۔ایک وقت ایسا آیا کہ زمانہ آپکو فخرالاسلام،قدوۃ العلماء،اورفخرالمتکلمین کےالقابات سےیادکرتا تھا۔کیونکہ یہ حقیقت ہے! ؎ بےعلم نتواں راخداشناخت!فی زمانہ مشائخ ِ عظام کے سجادہ نشین علمِ شریعت توپڑھ نہ سکے ،اس لئے"علمِ لدنی"سےگزارہ کررہے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ غوث الاعظم اور انکے صاحبزادگان ساری زندگی "علومِ مصطفیٰﷺ" پڑھتے اورپڑھاتے رہے۔
بیعت وخلافت: انیس سال کی عمر میں 541ھ ،کو حضرت غوث الثقلین رضی اللہ عنہ نے آپکو خلافت سے مشرف فرمایا۔آپ کی باطنی بیعت سرورِ عالم ﷺسےتھی۔
سیرت وخصائص: آپ شیخ الاسلام والمسلمین، فخر المتکلمین، سلطان المشائخ و الاصفیا، قدوۃ العلماء،مخزنِ مشاہداتِ ربانی، مَوردِ تجلیاتِ سُبحانی، صاحبِ علومِ ظاہری و باطنی تھے۔ حضرت غوث الثقلین شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے فرزندِ اکبر اور مرید و خلیفہ اعظم و سجادہ نشین تھے۔ آپ علیہ الرحمہ ظاہری علوم کی تحصیل وتکمیل کے بعد چار سال تک وظائف واواراد میں مشغول رہے۔حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کی توجہ سے قلیل عرصے میں مراتبِ عالیہ پر فائز ہوئے۔ آپ اعلیٰ درجہ کے فقیہ، محدث، فاضل، زاہد، عابد ،شیریں کلام،مفتی اور واعظ تھے۔ آپ کے برادر ان میں سے کوئی ایسا نہیں تھا جس کو آپ پر ترجیح دی جا سکے۔آپ نہایت با مروّت،کریم النفس۔حلیم الطبع،منکسر المزاج،صاف گو،صاحبِ جودوسخا،اورادیبِ کامل تھے۔آپ اہل علم و خیر کی تعظیم کرنے والے تھے۔ بڑے عقل مند، متقی اور عزت و فضیلت کے مالک تھے۔ واضح کرامات، قابلِ فخر مقامات، شگفتہ اسرار، روشن بصیرت، عظیم حالات، گرانقدر احوال، خرق عادات افعال، سچی باتوں، بلند ہمتوں اور قیمتی رتبوں کے مالک تھے۔آپ کو معارف میں کمال عروج، حقائق میں بہترین راستہ، بلندیوں میں بہت عالی طریقہ سابقین کے مراتب میں پیشقدمی، اہم منازل کی طرف سبقت، انتہائی نامساعد حالات میں ثابت قدمی، علومِ شریعت میں وسیع سینہ حاصل تھا۔ آپ حقائق آیات کو بے نقاب کرنے والے وسیع کشف اور مشاہدات کے معانی کو کھولنے کی زبردست قدرت رکھتے تھے۔
آپ ان لوگوں میں سے ایک تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی طرف ظاہر کیا،اوران کے سینوں میں آپ کی ہیبت اور ان کے دلوں میں آپ کی محبت بھردی، اور آپ کو خواص و عوام کے نزدیک قبولیتِ عامہ عطا فرمائی۔ آپ کو عالم میں تصرف عطا فرمایا، احکامِ ولایت میں آپ کو قدرت دی، حقائق اشیاء کو آپ کے لیے تبدیل کر دیا۔ عادتوں کو بدل دیا، آپ کی زبان پر غیب کی باتین جاری کیں۔ آپ کے ہاتھوں پر امور عجیب ظاہر کیے۔ آپ کی زبان پر حکمتیں جاری کیں۔ آپ کو قدوۃ السالکین، حجۃ علی الصادقین اور امام اہل طریق واہلِ حق کا لقب دیا۔ آپ پہلے بزرگ ہیں جنہوں نے حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے وصال کے بعد ان کی اولاد میں سلسلہ ٔرشد و ہدایت کی بنیاد رکھی، اورسلف کا طریقہ واضح کیا۔
وصال: آپ کا وصال 25/شوال المکرم 593ھ،بمطابق11/ستمبر 1197ء کو ہوا۔آپ کامزار پرانوار بغداد معلیٰ "مقبرہ حلبیہ "میں ہے۔
ماخذومراجع: شریف التواریخ
//php } ?>