حضرت پیر سید غلام محی الدین بابوجی گولڑہ شریف
حضرت پیر سید غلام محی الدین گولڑہ شریف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت خواجہ سید غلا م محی الدین ابن حضرت پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی قدس سرہما (۹۔۱۳۰۸ھ؍۱۸۹۱ئ) کو گولڑہ شریف ( ضلع راولپنڈ ی ) میں پیدا ہوئے ۔ جب یہ اطلاع مبارکباد کے ساتھ حضرت قبلۂ عالم کو دی گئی تو آپ نے فرمایا ’’مبارکباد سے تو میں نے سمجھا تھا کہ شائد مجھے خدا مل گیا ہے ۔ ’’پھر فرمایا نزینہ اولاد کی پیدائش سے ہرشخص کو خوشی ہوتی ہے لیکن مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ ہ مارے گھر میں اللہ اللہ کرنے والی اک روح کا درود ہواہے ۔ آپ کی یہ پیش گوئی حرف بحرف صحیح ثابت ہوئی ۔ حضرت خواجہ سید غلام محی الدین گولڑوی کی تعلیم و تربیت کے لئے نادر نوزگار اساتذہ مقرر ہو گئے ، تجوید و قرائت میں مولانا قاری عبد الرحمن جونپوری سے استفادہ کیا اور علوم دینیہ کی تحصیل حضرت مولانا علامہ محمد غازی رحمہ اللہ تعالیٰ سے کی ،والد ماجد حضرت پیر سید مہر علی شاہ قدس سرہ کے فیض توجہ نے آپ کو جلد ہی پایہ تکمیل تک پہنچا دیا [1] تربیت او نگرانی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت اعلیٰ گولڑوی قدم قدم پر ہدیایا جاری فرماتے جن کی تعمیل کمال سعادت مندی سے کی جاتی۔ یہیوجہتھی کہ حضرت خواجہ سید غلام محی الدین قدس سرہ علم وعمل، نظم و ضبط ، صبر و تحمل، فراست وبے نفسی، اور ادو اشغال کی پابندی اور ارباب اقتدار سے بے نیازی میںیکتائے روزگار تھے ۔ آپ کے نام حضرت اعلیٰ گولڑوی کے ایک مکتوب کا اقتباس ملاحظہ ہو ، فرماتے ہیں :۔
’’سب گھروں اور مہمانوں کی خبر گیری رکھنا ، جمعہ و جماعت کا التزام رہے ،اپنے استاد صاحب کا حسب ہدایت خیا ررکھنا ، ان کی ضروریات کو قبل از وقت مہیار کھنا، ان کی صحت کا خیال رہے،نہ صرف اپنے سبق اور مطلب کا ، ایسا ہی جناب قاری صاحب کی خبر گیری رکھو یعنی کوئی وطنی ناتر اشیدہ حسب عادت اہل وطن پیش آنے ن پا وے ، ایسا حلیم ہونا چاہئے کہ ضروریات میں نقصان ہو اور نہ ایسا درشت کہ خلق اللہ بیزار ہو[2]۔‘‘
آپ کو بچپن ہی سے گاڑی کے انجن سے دلچسپی تھی،اسی لئے حضرت اعلیٰ قدس سرہ نے آپ کو بابو جی کا خطاب دیا جو اتنا مقبول ہوا کہ پیر جواں آپ کو اسی لقب سے یاد کرتے تھے۔ شاہ ولی ؒؒہ گو الیاری نے آپ کو انجن کا ایک ماڈل پیش کیا جس میں کوئلے کی جگہ مٹھائی اور پانی کی جگہ شربت بھرا ہوا تھا جو تا حیات آپ کے کمرے کی زنیت بنا رہا ۔ ایک مرتبہ کسی دوست نے انجن سے دلچسپی کا سبب پوچھا تو آ پ نے فرمایا، مجھے اس کی چارادائیں پسند ہیں:۔
۱۔ حوصلہ : کہ جتنی زیادہ آگ ڈالو ، اتناہی تیز چلتا ہے۔
۲۔ وفا : جہاں خود جائیگا وہیں تمام ڈبوں کو بلا تمیز ساتھ لے جائے گا۔
۳۔ ایثار : خود جلتا ہے اور دوسروں کو منزل مقصود تک پہنچا دیتا ہے۔
۴۔ استقامت : ہمیشہ معیّن راستہ ( لائن) پر چلتا ہے[3]
گویا آپ نے بڑے عالم فہم انداز میں مرشد کی خصوصیات بیان فرمادیں ۔
علمی و روحانی تکمیل کے بعد حضرت اعلیٰ قدس سرہ نے آپ کو اجازت و خلافت سے نوازا لیکن آپ کسی کو بیعت کرنے پر تیار ہوئے تا آنکہ حضرت پیر سید مہر عی شاہ قدس سرہ نے ارشاد فرمایا:۔
’’ جوشخص تمہارے سے ہاتھ پر بیعت کریگا اس کائیں ذمہ دار ہوں[4] ‘‘
۱۹۱۰ء میں آپ کی شادی ہوئی جس میں دیگر علماء و مشائخ کے علاوہ حضرت سید محمد دیوان پاکپتن شریف ،حضرت صاحبزادہ خواجہ ضیاء الدین سیال شریف ، حضرت میاں شیر محمد شر قپوری ، حضرت پیر سید جماعت علی شاہ محدثعلی پوری اور حضرت پیر سید جماعت علی شاہ لاثانی علی پوری (قدست اسراہم ) شریک ہوئے [5]
آپ متعدد فعہ حج و زیارت کی سعادت سے مشرف ہوئے اور ہر دفعہ بیسوں افراد آپ کے ساتھ ہوتے ۔ ۱۹۴۴ء میں حرمین طییبین کی زیارت سے مشرف ہوئے اور زر کثیر حجاز مقدس کے غرباء فقراء اور علماء میں تقسیم کیا ۔ حضور غوث اعظم اور مولانا رومی قدس سرہما سے عشق کی حد تک عقیدت و محبت تھی چنانچہ متعدد فعہ بغداد شریف اور قونیہ شریف (ترکیہ ) کا سفر کیا ۔ ۱۹۴۸ء میں ایک سو آٹھ افراد کے ہمراہ بغداد شریف کا سفر کیا اور گردو نواح کے قریباً قریباً تمام مزارات مقدسہ پر حاضری دی [6] ہندوستان ، افغانستان ، عراق ، شام مصر ، ترکی ، ایران اور حجاز مقدس میں شاید ہی کسی بزرگ کا مزار ہو جہاں آپ نے حاضری نہ دی ہو [7]ہر سفر میں آپ کے منطور نظر قوال جناب محبوب صاحب ہمیشہ آپ کے ساتھ رہے جنہیں آپ کی تربیت نے اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ بڑے بڑے اہل علم کا پڑھا ہوا کلام سنکر محو حیرت ہو جاتے ہیں۔
حضرت خواجہ غلما محی الدین قدس سہر نے جامعہ غوثیہ(گولڑہ شریف) کی تعمیر و ترقی پر خاطر خواہ توجہ دی ، کتب خانہ کی توسیع فرمائی ، حضرت پیر مہر علی شاہ قدس سرہ کی تصانیف عالیہ کی اشاعت کا اہتمام فرمایا،دیگر تقریبات کے علاوہ آپ کے زیر اہتمام حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عرس ماہ ربیع الثانی میں برے تزک و احتشام سے ہوتا ،لاکھوں کے اجتماع کے باوجود نظم و نسق ایسا شاندار ہوتا تھا کہ کسی کو شکایت نہ ہوتی تھی ۔
دو صاحبزادے آپ کی یادگار ہیں،حضرت شاہ غلام معین الدین مدظلہ (متولد ۱۹۲۰ء) اور حضرت شاہ عبد الحق مدظلہ ، اول الذکر فرزند اکبر آپ کے جانشین ہیں۔ اہل نظر کا کہنا ہے کہ ان کی ذات سے سلسلۂ عالیہ کو مزید ترقی و عروج حاصل ہوگا انشاء اللہ تعالیٰ ، حضرت شاہ غلام معین الدین مدظلہ کے فرزند اجمند حضرت صاحبزادہ سید غلام نصیر الدین مدظلہ (متولد ۱۹۴۹ء) عبقری صلاحیتوں کے مالک ہیں، و ہبیک وقت عالم دین اور بلند پایہ قاری ہیں اردو ، فارسی ، عربی اور پوربی زبان میں مشق سخن فرماتے ہیں۔ ان کے کلام کی پختگی اور ندرت تخیل میں اساتذہ کا رنگ جھلکتا ہے، نا واقف یہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتا کہ یہ ان کا کلام ہے ہے لیکن چند لمحے ان کی مجلس میں بیٹھنے کے بعد تسلیم کے سوا چارئہ کار نہیں رہتا۔ مولانا حافظ مظہر الدین مدظلہ فرماتے ہیں:۔
’’شاہ نصیر الدین کی نعتیہ شاعری رومی،جامی،سعدی کی صدائے بازگشت معلوم ہوتی ہے، کلام سے ہر گز یہ انداز ہ نہیں ہوتا کہ یہ کسی جواں سال شاعر کا کلا ہے[8] ۔‘‘
۲۲ جون (۱۳۹۴ھ؍۱۹۷۴ء) بروز اتوار لاکھوں دلوں کے مرکز عقیدت حضرت خواجہ سید غلہام محی الدین قدس سرہ کمبائنڈ ملٹری ہسپتال،راولپنڈی میں وصال فرما گئے[9] دو لاکھ سے زیادہ افراد نے نماز جنازہ میں شرکت کی اور حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی کے جوار میں آخری آرامگاہ بنی ، جناب ابو الطاہر فدا حسین فداؔ مدیر مہر و ماہ ، لاہور نے قطعۂ تاریخ کہا ؎
ہوئے عازم سوئے جنت ہیں آج
فدا! حضرت محی دیں ، دیں پناہ
وہ شیدائی حسن محبوب خالق
وہ مخمور و مست مئے لا الہ
سراپا تھے اک شرع دین نبی کا
نشانات سر حقیقت کی راہ
چمکتے نہ چرخ ولایت پہ کیوں وہ
رہی ان پہ مہر علی کی نگاہ
سن وصل ان کا فداؔ بر محل
کہو ’’رحلت ہادیٔ خلق آہ[10]‘‘
[1] فیض احمد ،مولانا : مہر منیر : ص ۳۶۱۔۳۶۲
[2] فیض احمد ، مولانا : م ہر منیر ، ص ۲۶۳۔
[3] ایضاً : ص ۳۲۷
[4] ایضاً : ص ۳۲۸
[5] فیض احمد ، مولانا : مہر منیر ، ص۳۷۰۔
[6] اس سفر کی مکمل روئید روز نامچہ کی صور میں ملک المدرسین ، استاذ العلماء حضرت مولانا عطا محمد بند یا لوی دامت بر کاتہم العالیہ نے قلم بند فرمائی تھی ، خدا کرے کہ یہ اہم یادداشت طبع ہو کر محفوظ ہوجائے۔
[7] فیض احمد ، مولانا : مہر منیر ، ص ۳۵۷۔
[8] روز نامہ نوائے وقت، لاہر : ۲۶ ستمبر ۱۹۷۴ء
[9] احسان بٹالوی : ماہ مہر (نور پبلشر ز ، انار کلی ، لاہور ، مارش ۱۹۷۵ء) ص ، ۸۰۔
[10] ماہنامہ فیض رضا ، لائل پور ، شمارہ اکتوبر ، نومبر ۱۹۷۴ء ص۱۳
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)