مہرِ طریقت حضرت شاہ غلام محی الدّین
مہرِ طریقت حضرت شاہ غلام محی الدّین قدس سّرہ
سجادہ نشین گولڑہ شریف اسلام آباد
حضرت شاہ غلام محی الدین ابن علیٰ حضرت سید پیر مہر علی شاہ مجدد ابن سید نذیر الدین شاہ ابن سید غلام شاہ ابن سید روشن دین شاہ ۱۳۰۹ھ؍ ۱۸۹۱ء میں گولڑا شریف میں پیدا ہوئے۔ علاقائی دستور کے مطابق اعلیٰ حضرت مجدّد گولڑوی کو آپ کی ولادت کی اطلاع لفظ ‘‘مبارک’’ سے دی گئی۔ آپ نے اظہار مسرت کرتے ہوئے فرمایا مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ ہمارے گھر میں اللہ اللہ کرنے والی ایک روح آگئی ہے۔
حضرت مجدّد گولڑوی قدس سرہ نے آپ کی تعلیم و تربیت پر بڑی توجہ دی۔ آپ نے حضرت مولانا مفتی عبدالرحمٰن جونپوری، استاذ العلماء حضرت مولانا محمد غازی اور حضرت مجدّد گولڑوی رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے درسِ نظامی کی تکمیل کے ساتھ فصوص الحکم، فتوحاتِ مکیہ اور مثنوی م عنوی کی تحصیل کی۔ آپ اپنی محافل میں کبھی کبھی حضرت جونپوری کے طریقہ تعلیم و تربیت کے واقعات سناتے تھے۔ ایک دفعہ فرمایا کہ ‘‘اب بھی جب استاذ مرحوم حضرت جونپوری کا نام آتا ہے تو خوف سے میرے بدن پر بال کھڑے ہوجاتے ہیں۔ شفیق اساتذہ کے ساتھ ساتھ اعلیٰ حضرت قدس سرہ کے فیضانِ نظر کی دولت بھی حاصل تھی۔ اس لیے علوم و معارف کا بیش بہاخزانہ حاصل کیا۔ اور اپنے دور میں فرد کامل ہوئے۔ ایک دفعہ اعلیٰ حضرت قدس سرہ نے فرمایا۔ غلام محی الدین ابھی چھوٹی عمر میں تھا کہ ایک روز یہ میرے پیچھے پیچھے میرے نشاناتِ قدم پر اپنے قدم رکھتا ہوا چلا آرہا تھا۔ میں نے مڑ کر اس کی یہ کیفیت دیکھی تو کہا کہ اگر میری راہ پر چلنا ہے تو ان باتوں پر مستقل کار بند رہنا ہوگا۔
۱۔ہر وقت باوضو رہنا
۲۔اپنی خودی کو مٹاکر مخلوقِ خدا کی خدمت میں مشغول اور احد من الناس ہوکر رہنا۔
اور فرمایا آج تک تو یہ ان باتوں پر کار بند چلا آرہا ہے۔ آپ کے کمالات کے خود اعلیٰ حضرت قدس سرہے معترف تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ آپ اپنے بالاخانہ پر تشریف فرما تھے کہ دور سے راولپنڈی کی طرف سے حضرت شاہ غلام محی الدین قدس سرہ کو آتے دیکھا اور فرمایا غلام محی الدین ہے پھر تبسم کرتے ہوئے فرمایا دیکھو گھوڑا دوڑ رہا ہے مگر اپنے کام (یاد حق) میں برابر مشغول چلا آرہا ہے۔
آپ بچپن میں ریلوے انجن کو پسند کرتے تھے اور اپنی نشست گاہ پر سگنل نصب کر رکھا تھا۔ انجن کے ساتھ آپ کے اس لگاؤ کے باعث حضرت شاہ عبدالوالی گوالیاری نے انجن کا ایک ماڈل تحفۃً آپ کو پیش کیا تھا جو ہنوز خانقاہ میں موجود ہے اسی مناسبت سے حضرت مجدد گولڑوی آپ کو ‘‘بابو’’ کہتے تھے جو بعد میں زبان زد عام ہوگیا اور آپ ‘‘بابوجی’’ پکارے جانے لگے۔ آپ نے ایک دفعہ انجن کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے فرمایا
۱۔ایک تو اس کا حوصلہ کہ جتنی زیادہ آگ ڈالو اتنا ہی زیادہ تیز چلتا ہے۔
۲۔اس کی وفا کہ اس کے ساتھ خواہ فرسٹ کلاس کا ڈبہ لگادو یا مال گاڑی کا چھکڑا جہاں خود جائے گا اپنے ساتھیوں کو بھی لے جائے گا۔
۳۔ایثار کہ خود جلتا ہے ، مگر دوسروں کو نفع پہنچاتا ہے۔ یعنی منزل مقصود پر لے جاتا ہے
۴۔استقامت کہ اپنی متعینہ راہ پر چلتا ہے، بے راہ وروی نہیں کرتا۔
۱۹۱۰ء؍۱۳۲۸ھ آپ کی شادی ہوئی جس میں حضرت سید محمد دیوان پاکپتن شریف، حضرت خواجہ محمود تونسہ شریف، حضرت خواجہ ضیاء الدین سیالوی، حضرت میاں شیر محمد شرق پوری، حضرت پیر جماعت علی شاہ محدّث علی پوری، حضرت پیر جماعت علی شاہ ثانی علی پوری اور دوسرے بے شمار علماء وفضلا اور اکابر ملک و ملّت شریک ہوئے۔ حضرت پیر نذر الدین قدس سرہے کے مزار پر انوار کے پاس خطبۂ نکاح ہوا اور اس کے بعد محفل سماع ہوئی کھانے کا بھی خصوصی انتظام تھ۔ مگر اعلیٰ حضرت قدس سرہ کا اس وسیع انتظام کے سلسلہ میں اپنا بیان جو ملفوظاتِ مہریہ میں ہے۔ درج ذیل ہے۔
میری خوشی پاک پتن شریف سے حضرت دیوان صاحب اور حضرت خواجہ محمود تونسوی کے قدم رنجہ فرمانے سے ہے۔ آج ہمارا یہ مسکن کتنا خوش نصیب ہے کہ جناب بابا صاحب فرید الحق والدین اور حضرت خواجہ سلیمان تونسوی کی اولاد ذی الاحترام یہاں تشریف فرما ہیں۔ اکثر سجادہ ہائے ہندوستان جناب بابا صاحب گنج شکر کی ذات بابرکات سے مستفید ہیں۔ ان بزرگوں کا یہاں تشریف لانا ہم سب پر ان کی بڑی نوازش اور مہربانی ہے جس کے بیان سے زبان عاجز ہے۔ میرے خیال میں تو وہ شخص بڑا ہی احمق ہے جو ایسے کام کرنے میں اپنی عزت سمجھے جس سے شریعت نے منع فرمایا ہے۔ میں تو یہی کہوں گا کہ سب مہمانوں کی عمدہ کھانے سے تواضع کرو۔ میرے والد بزرگوار نے وصیّت کی تھی کہ غلام محی الدین کی شادی خوب فراخ دلی سے کرنا۔ سو یہ انتظام صرف اس وصیّت کے ایفا کی بناء پر کیا گیا ہے۔ ورنہ مجھے ان بکھیڑوں سے کوئی سروکار نہیں بلکہ دل پر بوجھ ہوتا ہے۔ ہمارا فخر بس اسی میں ہونا چاہیے کہ ہمارا کام جادۂ مستقیم شریعت محمدی کے مطابق ہو۔ لہذا جو لوگوں کی رسومات مروجّہ مثلاً ڈھول وغیرہ وتنبول، ونیند رہ لینے سے ہمیں کچھ تعلق نہیں۔ اور نہ کوئی شخص نیند رہ وغیرہ دینے کی تکلیف کرے۔ میں نے پہلے بھی مخلفین کو اس بات سے منع کردیا تھا۔ میرے لیے یہی خوشی کافی ہے کہ چند مخلص و محب اس کارخیر میں جمع ہوگئے ہیں اور یہ مقصد ہرگز نہیں کہ اس کام میں دنیا داروں کی تقلید میں مساکین کو تکلیف مالا یطاق دی جائے۔ بہتر یہ ہے کہ ایسی رسموں کو موقوف کیا جائے جملہ حاضرین جن کا مجھ سے کچھ بھی تعلق ہے میں انہیں یہی نصیحت کرتا ہوں کہ ہر گز رسومِ جہالت میں تضیع مال واوقات نہ کریں۔
حضرت شاہ غلام محی الدین قدس سرہ جب علوم و معارف میں کامل ہوچکے تو اعلیٰ حضرت قدس سرہ نے آپ کو اجازت بیعت مرحمت فرمائی مگر آپ اس کام کے لیے آمادہ نہ تھے۔ تاہم اعلیٰ حضرت قدس سر کے ارشاد اور پھر تاکید مزید کے بعد بیعت لینا شروع کردی تھی اور آپ قدس سرہ کی حیاتِ بابرکات میں ہی آپ کا حلقہ ارشاد وسیع ہوچکا تھا۔ اور بعد میں اعلیٰ حضرت قدس سرہ کے متوسلین نے بھی آپ سے تجدید بیعت کی۔ پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، افغانستان اور دیگر ممالک میں آپ کے مریدین اور متوسلین کی تعداد آپ کے اپنے قول کے مطابق لاکھوں تک جا پہنچی ہے۔
حضرت شاہ غلام محی الدین عالم ہونے کے باوجود عارف کی حیثیت سے معروف تھے۔ وہ خاموش مزاج، نام و نمود سے دور، خودی تعلی سے بے گانہ، تسلیم و رضا اور صبر و استقلال کے پیکر تھے۔ ۳۷ سال مسند ارشاد پر جلوۂ افروز رہے۔ اس پورے عرصہ میں صدور ،وزراء اور دوسرے اربابِ اقتدار سے دور رہے۔ وہ مشائخ چشت کی راہ کا عملی نمونہ تھے۔ ان کی بارگاہ میں شاہ وگدا دونوں حاضر ہوتے اور وہ سب سے مشایخ چشت جیسا سلوک کرتے۔ ارباب اقتدار کی طرف جھکاؤ اور میلان ان کے ہاں بالکل نہ تھا۔ اور وہ اپنی اس روش پر جواں مردی کے ساتھ ثابت قدم رہے۔ بادِ مخالف کے جھونکے اور طوفانِ عداوت کے تھپیڑے ان کے پ ائے استقامت کو متنزلزل نہ کر سکے۔ آپ نے اعلیٰ حضرت مجدّد گولڑوی قدس سرہ کے معتقدات و تعلیمات کو بڑا فروغ دیا۔ سلسلہ مہر کو غیر معمولی مقبولیت و وسعت سے ہمکنار کیا۔ اور ایک عالم آپ کی قربتوں اور صحبتوں سے فیض یاب ہوا۔ جو ایک دفعہ آپ سے ملا اور چند ساعتیں آپ کی صحبت میں گزاریں۔ اس نے ان لمحات کو ہمیشہ یاد رکھا اور جب ان کا ذکر کیا آبدیدہ ہوکر کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑی محبت کے آدمی تھے۔ اور ہر ملنے والے سے دل کھول کر محبت کرتے۔ جہاں ہوتے خلقِ خدا مقناطیسی کشش کی طرح جمع ہوتی اور پروانہ وار ٹوٹ پڑتی۔
حضرت شاہ غلام محی الدین بڑے سخی اور جواد تھے۔ زمانہ طفولیت ہی سے آپ کی فیاضی اور شانِ کریمی عوام میں مشہور تھی۔ بیواؤں، یتیموں، فقراء، مساکین اور دوستوں کی امدداد و اعانت آپ کا شیوہ تھا۔ جوں جوں عمر بڑھتی گئی اس میں اضافہ ہوتا گیا دینی مدارس، مذہبی و دینی اداروں، انجمنوں، پریشان حال لوگوں کے کام آنا آپ کا دستورِ حیات تھا اور یہ تمام کام راز دارانہ اور خفیہ طریقوں سے کرتے، تحریک ختم نبوت کے کارکنوں کا آخر وقت تک دائے درے تعاون کرتے رہے۔ اسی طرح جنگ عظیم ددم کے بعد جب حرمین شریفین حاضر ہوئے تو اہلِ مکہ و مدینہ کے باسیوں کی ایسی اعانت کی جو اس وقت ایک شاہ مملکت سے بھی متصور نہیں ہوسکتی تھی۔ میں نے ‘‘تجلیات مہرِ انور’’ کی تالیف کے دوران محسوس کیا کہ آپ اہل علم کا تعاون فراخدلی سے کرتے رہے۔ اور ان کے انتقال کے بعد خاندانوں کی کفالت اپنے فرائض میں شامل کرلیتے خود خانقاہ میں سینکڑوں افراد روزانہ حاضر ہوتے۔ جمعہ کو ان کی تعداد ہزاروں تک پہنچ جاتی اور اعراس کے مواقع پر یہ تعداد لاکھوں میں تبدیل ہوجاتی۔ ان تمام افراد کو خوراک اور رہائش فراہم کی جاتی ہے۔ اس انتظام وانصرام میں ذرہ برابر فرق نہیں آتا اس اژدہام خلائق میں دکھی انسانوں کی داستان درد سننا، دم کرنا، دعا دینا اور پھر کندھوں پر تھپکی دینا، ان ہی کا کام تھا۔ اور علم کی آبیاری کے لیے جامعہ غوثیہ کے نام سے ایک باقاعدہ درس گاہ قائم کی۔ جس میں طلبہ کی ایک بڑی تعداد حصول علم کی جدو جہد میں مصروفِ عمل رہی ہے۔ جو آج کل ملک کے مختلف شہروں میں دینی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
آپ کے شب و روز یاد الٰہی اور ذکر میں گزرتے۔ ہر وقت باوضو رہتے۔ تمام نمازیں باجماعت اور اول وقت میں پڑھتے ۔ اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے ذکر و تسبیح کا شغل جاری رہتا۔ باطن کا معاملہ تو اللہ ہی جانتا ہے۔ تاہم آپ کا اپنا قول ہے کہ ‘‘یاد الٰہی سے ایک لمحہ بھی غافل رہنے سےبہتر ہے کہ انسان مرجائے’’۔ آپ کی طبیعت میں انکساری و تواضع کوٹ کوٹ بھری تھی۔ بے پناہ شہرت، مقبولیت اور عزت و عظمت کے باوجود ‘‘احدمن الناس’’ ہوکر رہتے۔ آپ اولیاء مستورین میں سے تھے اور حتی الوسع خود کو مخلوق سے مخفی رکھتے۔ بظاہر ایسے لباس میں ہوتے کہ کوئی انہیں اھل اللہ کے گر وہ میں شامل نہ سمجھے۔ آپ کسی سے ایسی بات سننا گوارہ نہ کرتے جس سے اپنے متعلق کرامت یا مافوق الفطرت چیز کا ترشح ہورہا ہو۔ جب کبھی کوئی مزاج نا آشنا ایسی بات کہتا تو سخت غصّے میں آجاتے، اور پھر آئندہ کوئی بھی ایسی چیز کے ذکر اور بیان کی ہمّت و جرات نہ کرتا۔ گولڑا شریف میں ایسی کسی محفل کا تصوّر بھی نہیں کیا جاسکتا۔ جہاں ‘‘تومرا حامی بگومن ترا حاجی بگویم’’ جیسی قیل وقال ہوتی ہو اور ایک دوسرے کی خوب تعریف و توصیف کی جاتی ہو۔ آپ ۱۹۷۰ء میں سنی کانفرنس راولپنڈی میں جلوہ افروز تھے۔ ہر مقرر آپ کا نام بڑے اہتمام سے لیتا اور تعریفی کلمات کہتا۔ اس پر کبیدہ خاطر ہوکر چلے آئے اور بعد میں فرمایا۔ صاحبزادہ فیض الحسن کی تقریر سننے کا شوق تھا مگر شجرہ خوانوں کی و جہ سے رُک نہ سکا۔ آپ سیاح صوفیہ کرام میں سے تھے سال کا ایک حصہ صفر میں گزارتے۔ حرمین شریفین تو تقریباً ہر سال حاضری دیتے۔ اس کے علاوہ اھل اللہ کے مزارات متبرکہ پر حاضری کے لیے لمبے لمبے سفر اختیار کیے نجفِ اشرف، کربلا اور بغداد تو کئی بار گئے۔ حضرت مولانا جلال الدین رومی سے والہانہ عشق رکھتے تھے۔ ان کے مزار شریف واقعہ قونیہ ترکی میں متعدد دفعہ حاضری دی۔ اسی طرح افغانستان اور دوسرے بے شمار اھل اللہ کے مزارات پر فیض و برکت کے لیے حاضر ہوئے۔ اس کے علاوہ پاک وہند کے مشاہیر اہل اللہ کے مزارات پر حاضری کے لیے اجمیر، دہلی، پاکپتن، ملتان، لاہور، چشتیاں، تونسہ اور سیال شریف میں بار بار حاضر ہوئے۔
حضرت شاہ غلام محی الدین قدس سرہ کو سماع سے رغبت زیادہ تھی۔ روزانہ محفل سماع جمتی اور حاضرین مستفید ہوتے۔ عرس کے اجتماعات میں لاکھوں افراد شامل ہوتے جن میں اگر ہزاروں نہیں تو سینکڑوں علماء ضرور ہوتے۔ سب ان محافل میں شریک ہوتے اور ویل بھی دیتے۔ محفل میں ایک خاص رنگ ہوتا۔ اہلِ دل وجد و کیف میں مست ہوتے۔ رومی و جامی کے نظریہ عشق کا ایک سماں ہوتا۔ محفل پر انوارِ رحمت کی بوندیں برستی ہوئی محسوس ہوتیں۔ دلوں کے سبزہ زاروں میں بادِ محبت کے روح پرور جھونکے چلتے اور اس طرح مسلمانوں میں روح مسلم بیدار ہوتی۔ محبوب حقیقی کی محبت کے روح پرور جھونکے چلتے اور اس طرح مسلمانوں میں روح مسلم بیدار ہوتی۔ محبوب حقیقی کی محبت و اطاعت کا جذبہ فروزاں ہوتا۔ خود سے خدا کی شناخت ہوتی۔ عرفانِ حق سے دلوں کو زندگی ملیت، روح کو درخشندگی نصیب ہوتی۔ وفی انفسکم افلا تبصرون کی تفسیر ہر سو جلوہ گر ہوتی اور لاموجود الا اللہ کا نقشہ آئینے کی طرح سامنے ہوتا۔ جو زنجیر زلف کا اسیر ہوجاتا۔ ویسے حضرت شاہ غلام محی الدین قدس سرہ کی ذاتِ گرامی گرہ گیر قسم کی تھی۔ جسے ایک دفعہ گرہ لگ گئی سو وہ ان کا ہی ہوکے رہ گیا۔ ان کے اخلاقِ شاہنشاہی اور آدابِ خانقاہی کی وج ہ سے کافر دل بھی روزنِ عقیدت کھلی رکھتے تھے۔
آپ اگر چہ پاک وہند کی کسی سیاسی تحریک میں باقاعدہ شامل نہیں ہوے تاہم جس تحریک کا اسلام سے جتنا رشتہ تھا اس سے آپ کا اتنا رشتہ رہا۔ قیام پاکستان کے لیے مسلم لیگ کا بھر پور تعاون کیا۔ ہندوستان کے بعض مسلم رہنماؤں کی مخالفت کے باوجود تحریک پاکستان میں کام کیا اور قیام پاکستان کی راہ ہموار کی اپنے متعلقین و متوسلین کو مسلم لیگ کی حمایت و طرفداری کا حکم دیا۔ جس سے نہ صرف پنجاب و سرحد میں مسلم لیگ مستحکم ہوئی۔ بلکہ دوسرے صوبوں میں بھی اس کا اثر ہوا۔
شیخ القرآن مولانا عبدالغفور ہزاروی کو آل انڈیا سنی کانفرنس بنارس میں شرکت کا حکم فرمایا۔ آپ نے یہ سارا کام دینی و مذہبی نقطۂ نظر کے تحت از خود کیا۔ اس سلسلہ میں دورے کیے ۔ خواص و عوام سے ملاقاتیں کیں اور اس طرح قیام پاکستان کی منزل کو آسان کیا۔ ایسے ہی بزرگانِ دین کی کی کوششوں اور دعاؤں سے ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو مملکتِ پاکستان معرضِ وجود میں آئی۔ قیام پاکستان کے بعد مسلمان حکمرانوں کے دور میں نفاد اسلام کی ہر تحریک کا حتی المقدر تعاون کیا۔ چنانچہ ۱۹۷۰ء میں جب اہلِ سنّت و جماعت کی نمائندہ تنظیم ‘‘جمعیت علماءِ پاکستان’’ حضرت خواجہ قمر الدین سیالوی کی قیادت میں نفادِ اسلام کے لیے میدانِ عمل میں آئی تو آپ نے سنی کانفرنس ملتان اور سنی کانفرنس راولپنڈی میں شرکت فرماکر گولڑوی مکتبہ فکر کے علماء وعوام کو عام انتخابات میں اس کے حق میں اپناووٹ اور رائے دینے کا حکم فرمایا جس کے مناسب نتائج بر آمد ہوئے۔
تحریک ختمِ نبوت سے آپ کا موروثی تعلق تھا۔ ختمِ نبوت کا نام لینے اور کام کرنے والوں سے بڑی محبت تھی۔ ان پر توجہ فرماتے اور مالی تعاون بھی کرتے۔ ۱۹۵۲ء میں جب تحریکِ ختمِ نبوت کا آغاز ہوا تو آپ نے اپنی روائت اور افتاد طبع کے برعکس کئی اجلاسوں اور جلسوں میں شرکت کی۔ تمام مکاتیب فکر کو متحد کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ گولڑوی مکتبۂ فکر کے علماء و مشایخ اور عوام کو بھر پور شرکت کی تاکید کی چنانچہ گولڑوی مکتبۂ فکر کے علماء نے اس تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا۔ آپ کی قیادت میں جلسے کیے، جلوس نکالے گرفتاریاں پیش کیں۔ وہ گولڑوی علماء کرام جو گوشہ نشینی اور تدریسی زندگی گزار رہے تھے۔ خلوت خانوں اور درس گاہوں سے نکل کر رسمِ یوسفی و شبیری ادا کرنے کے لیے میدان میں آموجود ہوئے اور مسلمانوں میں ناموسِ ختمِ نبوت پر کٹ مرنے کا جوش جذبہ موجزن کیا۔ ۱۹۷۴ء میں دوبارہ جب تحریک ختم نبوّت شروع ہوئی تو آ پ اسپتال میں موت وزیست کی کش مکش میں مبتلا تھے۔ مگر اس نزع کے عالم میں بھی ہر آنے والے سے تحریک اور تحریک کے کارکنوں کے بارے میں دریافت فرماتے رہے۔
آپ کی صحت میں ہمیشہ قابل رشک رہی اور معمولات زندگی میں ذرہ برابر فرق نہ آیا تھا حتی کہ ۸۱ برس کی عمر میں افغانستان مزارات متبرکہ پر حاضری کے لیے گئے۔ وہیں درد دل کی ابتدا ہوئی۔ علاج ہوتا رہا مگر مرض، بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ اسی دوران جج کے لیے حرمین شریفین حاضری دی۔ عراق کے مقامات مقدسہ پر حاضری دی۔ پھر زبان پر فالج کا حملہ ہوا۔ آپ کی اس تکلیف کی اطلاع ملک اور بیرون ملک تمام متعلقین کو ہوگئی۔ عوام و خواص عیادت کے لیے حاضر ہوتے رہے۔ مدینہ منورہ سے سیّد احمد محضارالعطاس بغداد سے حضرت نقیب الاشراف عبداللہ یوسف گیلانی اور ملک و بیرون ملک سے علماء و مشائخ اور ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ حاضر ہوکر آپ کا دیدار کرتے رہے اور آنے والے وقت کو محسوس کرنے لگے تاہم آپ کی صحت روز بروز گرتی گئی۔ احباب کے شدید اصرار پر کمپائنڈ ملٹری اسپتال راولپنڈی میں داخل ہوئے۔ چنانچہ ۲ جمادی الثانی ۱۳۹۴ھ ۲۲؍جون ۱۹۷۴ء کو رات گیارہ بجے دارالبقا گیارہ بجے دارالبقاء میں منتقل ہوگئے۔
اگر تیگی سراسر بادگیر
چراغ مقبلاں ہر گز نمیرد
ذرائع ابلاغ نے آپ کی خبر انتقال کو غیر معمولی اہمیت دی۔ نشریاتی اداروں نے۔۔۔۔ بر وقت نشر کیا۔جب حرم سرا سے آپ کا جنازہ بر آمد ہوا تو پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ تابوت پر پرواز کر رہے تھے اور مخصوص آوازوں میں چہچہارہے تھے۔ ایک کھلی جگہ پر نماز جنازہ کا اہتمام تھا۔ کوئی تین لاکھ افراد جنازہ میں شریک ہوئے۔ حضرت غوثِ اعظم کے نبیرہ اور خانقاہ عالیہ بغداد کے موجودہ نقیب الاشراف حضرت عبداللہ یوسف گیلانی کے بھائی حضرت سید عبدالقادر گیلانی نے نماز جنازہ پڑھائی اور اپنے والد ماجد کے پہلو میں دفن ہوئے۔
آپ کے انتقال پر ملال پر اخبارات نے مضامین اور اداریے لکھے۔ شعراء نے مرثیے کہے۔ ریڈیو پاکستان اور آل انڈیا ریڈیو نے خصوصی پروگرام نشر کیے سلاسل طریقت کے مشائخِ عظام اور مختلف مکاتیب فکر کے علماء کرام، وزراء، سفرا ۔ اور سیاسی رہنماؤں نے گولڑا شریف آکر تعزیت کی۔
حضرت شاہ غلام نصیر الدین نصیر مدظلہ العالی نے اس موقع پر جوہر مرثیہ کہا اس کا ایک شعریہ ہے۔
وہی بزم ہے وہی دھوم وہی عاشوقوں کا ہجوم ہے
ہے کمی تو بس اسی چاند کی جو تہہ مزار چلا گیا
اور خواجہ رضی حیدر نبیرہ حضرت مولانا وصی احمد محدث سورتی نے مندرجہ ذیل مرثیہ کہا۔
مہر علی کے فیض کا فیضان چلا گیا
یعنی کہ میرا بزم چراغاں چلا گیا
مسلک تھا جن کا خلقِ محمد کی پیروی
اخلاقِ مصطفیٰ کا ثناء خواں چلا گیا
اس اضطراب قلب کا کیجیے بیان کہاں
دل کا سکون درد کا درماں چلا گیا
تفسیر حرف حرف تھی جس کی زبان پر
قرآن فہم وہ قاری قرآں چلا گیا
ہر دم یہاں زمیں پکارے گی العطش!
کشتِ طلب سے ابر بہاراں چلا گیا
بخشش کی فکر مجھ کو رہے گی نہ حشر میں
میرا تو پیر جانب رضواں چلا گیا
رخصت ہوئی جو روح تو ہاتف نے یہ کہا
لو قصرِ صوفیہ کا سلیماں چلا گیا
پاکستان کے مشہور ادیب اور صحافی جناب شورش کاشمیری بھی آپ کی پر سحر شخصیت سے متاثر تھے۔ وہ اپنی وہابیت پسندی کے باوجود آپ کے عقیدت مندوں میں شامل تھے۔ اور اس عقیدت و اخلاص کا اظہار وہ آپ کی حیات اور حیات بعد الممات میں اپنی تحریروں اور تقریروں میں واضح اور دو ٹوک لفظوں میں کرتے رہے۔ آپ کے انتقال پر انہوں نے ہفت روزہ ‘‘چٹان’’ میں لکھا اور خوب لکھا۔ نظر اور نظم دونوں میں دادِ تحسین پیش کی۔ ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے۔
یاد اُن کی صرفِ جاں ہے آج تک
حضرت پیر سیّد غلام محی الدّین شاہ (گولڑا شریف) سیّدنا مہر علی شاہ نور اللہ مرقدہٗ کے لختِ جگر تھے اور معرفتِ الٰہی کے وہ تمام اوصاف آپ کی ذاتِ ستودہ صفات میں جمع تھے۔ جن کی بدولت آپ کے مایۂ ناز والد کا وجود گرامی عقیدت عوام کا مرجع تھا احقر نے آپ کو پہلی دفعہ ۱۹۵۸ء کے اواخر میں دیکھا۔ سب سے بڑی چیز جو دل پر نقش ہوئی وہ یہ تھی کہ اللہ والے کیا ہوتے ہیں۔ راقم کو اپنے مزاج کی افتاد کے باعث رزم و بزم سے تعلق رہا اور ہمیشہ اُن لوگوں کی رفاقت حاصل کی جن کی زندگی کے شب و روز سیاسی معرکہ آرئیوں میں گذرتے رہے۔ راقم کے لیے مشائخ کی صحبتیں اور اہل اللہ کی محفلیں بالکل اجنبی رہیں۔ بلکہ میں نے اپنی نگاہ کی نارسائی کے باعث ان حلقوں کے شب وروز کوگریز فرار کا نام دیا۔ لیکن سیّدنا غلام الدّین شاہ (بابوجی) کے فیض نےراقم کے تصورات کی اڑانیں بھی بدل دیں اور وہ خانقاہی سلسلے جو فہم سے مادریٰ تھے۔ کچھ اس طرح دل پر نقش ہوگئے کہ پرانی تصویریں مدّہم ہوگئیں اور نئی تصویریں پیدا ہوئیں۔ راقم اپنے رب کے اس کرم بے پایاں کا عمر بھر شکر ادا نہیں کر سکتا کہ اس کو بارگاایزدی سے قلم دزبان کی نُزہتیں عطا ہوئیں۔ اور کسی چیز کو تقریر و تحریر میں بیان کرنا وشوار نہیں رہا۔ لیکن جوتاثر، کیف، وجد اور سرور بابوجی کی صحبت میں حاضر ہوا اور ان کی نگاہ کو جس طرح مہربان پایا، حقیقت یہ ہے کہ نہ تو قلم میں بیان کی طاقت ہے اور نہ زبان اظہار پر قادر ہے۔ جس انسان پہ آپ نگاہ کرتے اس کایا پلٹ گئی۔ آپ کے رُد برد ہونے سے یہ نعمت حاصل ہوتی کہ عظیم انسانوں سے قربت کے فاصلے کیونکر طے کیے جاتے ہیں۔ اور عام انسان اہل اللہ کی صحبت میں کیونکر تاثر حاصل کرتا۔ پھر اس تاثر سے اُن س کا دروازہ کس طرح کھلتا۔ اس سے پہلے رغبت کیسے پیدا ہوتی۔ جب اُنس اپنے تشویش کو پہنچتی ہے تو محبت کے عنوان کیا ہوتے ہیں۔ اور محبت کی معراج کا نام عشق ہے۔ پھر عشق میں خود سپردگی جنون پیدا کرتی ہے۔ بابوجی اپنے اللہ کے تھے۔ حضور سرورِ کائنات کی ذاتِ اقدس سے آپ کا عشق اس معراج کو پہنچ چکا تھا کہ حجور کی صحبت میں ہوتے تو ہر لحظ اس تلاش میں رہتے کہ ان کے گرد و پیش رہ کر جان کیونکر دی جاسکتی ہے۔ بابوجی کو حضور سے ایک ایسا لگاؤ تھا کہ ان کے ذکر سے بے خود ہوکر اُن کے تصور میں تحلیل ہوجاتے۔ یہ عالم کیا ہوتا۔ راقم اس کا نقشہ کھینچنے سے قاصر ہے لیکن آنکھیں اس منظر کو دیکھ چکی ہیں۔
کئی الفاظ ذہن میں اپنے مطالب کے ساتھ نقش ہوجاتے ہیں لیکن الفاظ ان کی شرح وتفسیر نہیں کر سکتے۔ مثلاً فقرواستفتاء جو دو سخا، مہر و وفا، غیرت و حمیّت، عفّت و حیا، قناعت و شرافت، ایمان وعرفان، ایقان و احسان اور خودی و بے خودی ان الفاظ کی تصویریں انسانی وجود کے تجربے ہی سے معلوم ہوتی ہیں۔ بابوجی ان الفاظ ہی کی معنوی خصوصیتوں اور روحانی کیفیّتوں کا مجسمہ تھے۔ احقر نے زندگی میں جیّد علماء، نامور فضلاء، معروف فقراء اور بڑے بڑے صف آراء انسانوں کی ہم نشینی اور خوشہ چینی کا فیض حاصل کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ لوگ اپنے محاسن کا نادرۂ روزگار مجموعہ تھے۔ لیکن بابوجی قدس سرہٗ کا عالم ہی دوسرا تھا۔ اُن کی زبان میں کسی کے لیے آزار نہ تھا۔ وہ عیب بینی، عیب چینی، اور عیب گوئی سے خلقی طور پر آشنا تھے۔ سب سے بڑی بات کہ اُن میں کسی عنوان سے کوئی تمرّد نہ تھا۔ وہ ایک بہت برے باپ کے نورِ نظر اور خود بہت بڑے انسان تھے۔ لیکن دارد سکندر سے اولیٰ تھے۔ اُن کی فقیری میں بوئے اسد اللہی تھی۔ اُن میں صدیق کا عشق، فاروق کی سطوت، اور عثمان کی سخاوت تھی۔ اُن کی نگاہ بلند، سخن دلنواز اور جاں پُر سوز تھی۔ وہ قرنِ اوّل کے حجازی تھے۔ لیکن فی زمانہ پاکستان میں ولایت عشق کے سرخیل تھے۔ حضور سرورِ کائنات کی سخاوت سے متعلق جتنی حدیثیں ہیں۔ اُن کی چلتی پھرتی تصویر تھے۔ اُن کی دعا کا یہ انداز تھا کہ اللہ کریم اپنے بندوں کو اپنی رحمت سے نواز، تیرے در کے سوا اور کوئی دروازہ سائلوں کے لیے نہیں ہے۔ اُن کی مرادیں پوری کر جو تیری بارگاہ میں دعا کے ہاتھ اُٹھاکر حاضر ہیں۔ تیرے سوا کوئی دوسرا ستار وغفار نہیں۔
بابوجی علیہ الرحمۃ کی تصویر کھینچنا اپنے قلم کی تمام وسعتوں کے باجود نا ممکن ہے۔ وہ پاکستان کی طویل تر سیاہ رات میں قرنِ اوّل کا اجالا تھے وہ ایک عظیم روحانی چراغ تھے۔ جو گرد وپیش دور دور تک اپنی روشنی سے صُبحِ خنداں کوشہ مات دیتا تھا۔ وہ عظیم انسان ہونے کے بجوود دنیاوی معاملات کی مبادیات سے بھی نا آشنا تھے۔ انہیں سیاسی مسئلوں سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ فرماتے:
‘‘مسلمان سیرتِ محمّدی کا اِتباع کرلیں تو ان کی تمام مشکلیں آنِ واحد میں حل ہوسکتی ہیں۔’’
وہ دوسرے بزرگانِ کرام کی طرح مسندِ طریقت پر بیٹھ کر خدائی نہ کرتے تھے۔ وہ فنافی الرسول اھل اللہ تھے۔ اُن کا مسلک محبت تھا۔ عشق کی جوت جلاتے۔ اور شریعت کی چمن بندی پر زور دیتے۔ اُن کی روئیں روئیں میں محمد عربی کا عشق بھرا ہوا تھا۔ وہ سرورِ کائنات کے ہوا ہر چیز سے بے نیاز تھے۔ فرماتے:۔
‘‘اپنے اللہ سے تو لگاؤ اور یہ تو محمّد سے نسبت پیدا کیے بغیر نا ممکن ہے’’
ہم لوگ کبھی دعاؤں کے لیے عرض کرتے تو فرماتے:۔
‘‘میں بھی ہاتھ اٹھاتا ہوں، تم بھی ہاتھ اٹھاؤ۔ اللہ دیتا ہے اور ہم لیتے ہیں جس خلوص سے مانگو گے اسی نسبت سے پاؤ گے۔’’
حقیقت یہ ہے کہ وہ اللہ کی رضا میں کھوئے ہوئے انسان تھے۔ انہیں دیکھ کر اللہ یاد آتا اور قرنِ اوّل کے اسلام کی تصویر کھینچ جاتی۔ وہ عطیۂ الٰہی اور حجتِ ربّانی تھے۔ اُن کی رحلت پر ہندوستان، آکاش وانی کے ایک سٹیشن سے آپ کے سوانح پر جو نقشہ پیش کیا گیا اُس میں ایک بول تھا کہ ‘‘حضرت سیّدنا غلام محی الدین شاہ فی الواقعہ ایک ایسے بزرگ تھے جن سے ہندوستان میں شمع اسلام روشن ہوئی۔ بُت کدوں میں اذانیں گونجیں اور تعصبات فناہوکر انسانیت کا طغریٰ ہوگئے۔ اگر برّ عظیم ان، جیسے سپوت پیدا کرتا تو انسان کبھی تقسیم نہ ہوتے اور اسلام اس سُرعت سے پھیلتا کہ نصف آبادی دو تین دہائیوں ہی میں حلقہ بگوشِ اسلام ہوجاتی۔
قرنِ اوّل کا اُجالا
حضرت قبلہ سید غُلام محی الدّین شاہ گولڑا شریف کی وفات حسرت آیات
اس مملکت کا مردِ مسلماں چلا گیا
روتا ہوں میں کہ پیکر ایماں چلا گیا
بے دست وپا تھے سربازار لٹ گئے
ناموسِ مصطفیٰ کا نگہباں چلا گیا
اے مرگِ ناگہاں تِرا شکوےٰ کریں تو کیا
جائیں کہاں کہ درد کا درماں چلا گیا
رویا کروں گا اُں کی جدائی میں روز و شب
میرے لیے تو منبع عرفاں چلا گیا
اُن کا وجود آیۂ ربِّ و دود تھا
میر اُمم کے عشق کا عنواں چلا گیا
یہ سوچتا ہوں اُں سے اب ملاقات کہاں
رختِ سفر لپیٹ کے سلطاں چلا گیا
دینِ ہدیٰ کی جوت جگائی تمام عمر
طاعت گزارِ خواجہ گیہاں چلا گیا
ا ُس کی نظیر کرۂ ارضی پہ اب کہاں
ابھرا، اُبھر کے نیّر تاباں چلا گیا
دیکھے ہیں میں نےاُس کی لحد پر ملائکہ
خلدِ بریں میں یوسفِ کنعاں چلا گیا
آپ کے دو صاحبزادے حضرت شاہ غلام معین الدین مدظلہ اور حضرت شاہ عبدالحق مدظلہ اور ایک صاحبزادی تھیں جو عالم شباب میں ہی رحلت فرماگئیں۔
آپ کے دونوں فرزنشانِ گرامی اپنے والد ماجد کے روشن کے مطابق دین و ملّت کی خدمت کر رہے ہیں۔ جس سے سلسلہ مہریہ کو روز افزوں ترقی ہورہی ہے۔ اللہ تعالیٰ دونوں کو عمر دراز عطا فرمائے اور متوسلین سلسلہ مہریہ کو خوب خوب استفادہ کی توفیق عطا فرمائے۔
راقم الحروف ٹیکسلا کے ایک اسکول میں چوتھی جماعت کا طالب علم تھا کہ ایک روز ایک دیوبندی استاد مولوی محمد صدیق کلاس میں آئے اور کہا کہ آج ٹیکسلا میں گولڑا شریف کے ایک پیر صاحب اپنے ارادت مند کے گھر میں آئے ہوئے ہیں۔ وہاں قوالی ہوگی۔ اس لیے کوئی طالب علم ان کے پاس نہ جائے۔ اگر کوئی گیا تو کل اسے سخت سزا کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ اتنی بات سنی تھی کہ دل میں ملاقات و زیارت کا ایسا جوش پیدا ہوا کہ ابھی بھاگ لوں۔ مگر مولوی صاحب ‘‘مولا بخش’’ کو فضا میں لہرا لہرا کر تنبیہہ پہ تنبیہہ کیے جارہے تھے خدا خدا کر کے آدھی چھٹی کا وقت ایا۔ بستہ گلے میں ڈالا اور مولوی صاحب کے نشان زدہ مقام پر پہونچ گیا۔ لوگ اُٹھ رہے تھے۔ ملاقاتیوں کا ہجوم تھا۔ قوالی ہوچکی تھی۔ وہیں والد صاحب بھی موجود تھے جو گاؤں سےحضرت کی ملاقات کے لیے آئے تھے۔ اور ان کے ساتھ ہمارے گاؤں کے ایک نہایت ہی نیک دل اور نیک خصلت انسان جناب مستری حسن دین بھی موجود تھے۔ مجھے دیکھ کر بڑے خوش ہوئے اور ملاقات کے لیے حضرت صاحب کے پاس لے گئے۔ اگر چہ حضرت مجدد گولڑوی قدس سرہ کا اسم گرامی نہ صرف ہمارے گھر اور گاؤں میں بلکہ علاقہ پنج کھٹہ کی ہر بستی میں کوئی غیر مانوس نہ تھا۔ لیکن راقم الحروف کی حضرت شاہ غلام محی الدین قدس سرہ سے یہ پہلی ملاقات تھی۔ دست بوسی کا شرف حاصل کیا۔ آپ نے پشت پر ہاتھ پھیر ااور دعا دی۔ راقم والد ماجد کے ہمراہ گھر آگیا۔
دوسرے روز مولوی صاحب کا مولا بخش حرکت میں نہ آیا۔ کیونکہ اس ہائی اسکول کا شاید ہی کوئی طالب علم ایساہو جو وہاں موجود نہ ہو۔ مولوی صاحب قہر آلود نظروں سے دیکھتے رہے مگر عملی مظاہرے گریز فرمایا۔ اس کے بعد راقم غالباً ۱۹۶۳ء میں جامعہ غوثیہ گولڑا شریف حصول ِ تعلیم کے لیے حاضر ہوا۔ اور پھر ہر روز کئی دفعہ زیارت ہوتی تھی۔ آپ کو قریب سے دیکھنے کا موقع نصیب ہوا۔ روز بروز عقیدت میں اضافہ ہوتا گیا۔ جب حفظِ قرآن حکیم کی تکمیل ہو چکی تو استاذ مکرم حضرت سید عبدالقادر شاہ بغدادی کی معیت میں اپ کی بارگاہ میں حاضر ہوا۔ میرے ساتھ میرے بڑے بھائی حافظ شمشیر علی شاہ بھی تھے۔ چنانچہ ہم دونوں آپ کے دستِ حق پرست پر بیعت کر کے سلسلۂ مہریہ میں داخل ہوگئے۔ یہ ۱۹۶۶ء کی کوئی تاریخ تھی۔ ویسے میرے والد ماجد حضرت مقبول شاہ کو حضرت مجدد گولڑوی کی ہم نشینی کا شرف حاصل ہے۔ راقم ۱۹۷۱ء تک جامعہ غوثیہ میں تعلیم حاصل کرتا رہا۔ اس دوران تقریباً ہر روز ہی آپ کی زیارت ہوتی۔ بعض اوقات ملاقات بھی ہوتی۔ تاہم جتنی قربت بڑھتی گئی عقیدت و محبت میں اضافہ ہوتا گیا جس دوران آپ کی زبان مبارک پر فالج کا اثر تھا میں دوبارہ بیعت ہوا۔ آپ کی شفقت و محبت ہر ملاقات میں پہلے سے زیادہ محسوس کرتا رہا۔ آپ سے میری آخری ملاقات ۹؍مارچ ۱۹۴۷ء کو کراچی ائیرپورٹ پر ہوئی۔ پاکستان میں اہلِ دل حضرات کی کوئی کمی نہیں۔ مگر حضرت شاہ غلام محی الدین اپنا ایک مخصوص رنگ رکھتے تھے۔ متوسلین کی تربیت بھی آپ سے والہانہ محبت کرتی۔ آپ کو دیکھ کر لوگ جذبات میں آجاتے۔ بہر کیف حضرت شاہ غلام محی الدین انسانوں میں ایک خوب صورت اور خوب سیرت انسان تھے۔ ایسے خوب کہ زمانہ میں اُن کی کوئی مثیل و نظیر نہ تھی بس وہ خود ہی تھے۔ اب ماضی کی طرف پلٹ کر جب دیکھتے ہیں تو وہی نظر آتے ہیں۔ ہم نے تو اب جُبّہ و دستار سے مرصّع اور تسبیح و سجادہ سے مسلح بہت سے لوگ دیکھ لیے مگر حضرت شاہ غلام محی الدین کبھی نہ بھولنے والی شخصیت ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے فیوض و برکات عام کرے اور ان کی الواد کو ان کے نقشِ راہ پر قائم رکھے آمین۔