منظومات  

یا نبی یاد تری دل سے مرے کیوں جائے

یا نبی یاد تِری دل سے مرے کیوں جائے بختِ بیدار مِرا جاگ کے کیوں سو جائے لاکھ عشاقِ مدینہ ہیں الم سے گھائل تم جو آ جاؤ تو پیارے کوئی کیوں گھبرائے جب نظر ہی میں نہیں لاتے دو عالم کا جمال ان کے دیوانوں کو فردوس بھی کیوں بہلائے صبح کا وقت ہے آقا مِری جھولی بھر دو کٹ گئی رات یوں ہی دستِ طلب پھیلائے ٹوٹ جائے غم و کلفت کی چٹانوں کا غرور سبز گنبد سے اگر دل کی صدا ٹکرائے آگئے والیِ بطحا کی اماں میں اؔرشد کہہ دو آنا ہے تو اب پیکِ اجل آ...

بہر دیدار مشتاق ہے ہر نظر دونوں عالم کے سرکار آجائیے

بہرِ دیدارِ مشتاق ہے ہر نظر دونوں عالم کے سرکار آجائیے چاندنی رات ہے اورپچھلا پہر دونوں عالم کے سرکار آجائیے سدرۃ المنتہیٰ عرش و باغِ ارم ہر جگہ پڑ چکے ہیں نشانِ قدم اب تو اک بار اپنے غلاموں کے گھر دونوں عالم کے سرکارآجائیے شامِ امید کا اب سویرا ہوا سوئے طیبہ نگاہوں کا ڈیرا ہوا بچھ گئے راہ میں فرشِ قلب و نظر دونو ں عالم کے سرکار آجائیے سامنے جلوہ گر پیکرِ نور ہو منکروں کا بھی سرکار شک دور ہو کرکے تبدیل اک دن لباسِ بشر دونوں عالم کے سرک...

زمیں تا چرخ بریں فرشتے ہر اک نفس کو پکار آئے

زمیں تا چرخِ بریں فرشتے ہر اک نفس کو پکار آئے گناہگارو! مناؤ خوشیاں شفیعِ روزِ شمار آئے وہ نورِ اوّل سراپا رحمت عطا کے پیکر خدا کی نعمت وہ مونس و غم گسار بن کر دکھی دلوں کے قرار آئے چمن نے کی آبرو نچھاور گلوں نے سجدے کیے قدم پر نقاب الٹے گہر لٹاتے وہ جب سوئے لالہ زار آئے بشر کی تشہیر کرنے والو! نہ اٹھ سکا تم سے بارِ احساں کہ خاکیوں کی اس انجمن میں وہ عرش کے تاج دار آئے جہانِ خاکی کے تیرہ بختو تباہ کارو خطا شعارو کچھ اس طرح جاؤ آبدیدہ ک...

جمال نور کی محفل سے پروانہ نہ جائے گا

جمالِ نور کی محفل سے پروانہ نہ جائے گا مدینہ چھوڑ کر اب ان کا دیوانہ نہ جائے گا بڑی مشکل سے آیا ہے پلٹ کر اپنے مرکز پر مدینہ چھوڑ کر اب ان کا دیوانہ نہ جائے گا یہ مانا خلد بھی ہے دل بہلنے کی جگہ لیکن مدینہ چھوڑ کر اب ان کا دیوانہ نہ جائے گا نشیمن باندھنا ہے شاخِ طوبیٰ پر مقدر کا مدینہ چھوڑ کر اب ان کا دیوانہ نہ جائے گا جو آنا ہے تو خود آئے اجل عمرِ ابد لے کر مدینہ چھوڑ کر اب ان کا دیوانہ نہ جائے گا ٹھکانا مل گیا ہے فاتحِ محشر کے دامن...

ہے جبیں شوق کا بھی دنیا میں اک ٹھکانہ

ہے جبیںِ شوق کا بھی دنیا میں اک ٹھکانہ رہے حشر تک سلامت تِرا سنگِ آستانہ دو جہاں کی نعمتوں کو جسے چاہے بخش دے تو تِری ملک ہے خدائی تِرے بس میں ہے زمانہ تو ہی چارہ ساز میرا تو ہی غم گسار میرا کسے جا کے میں سناؤں غم و درد کا فسانہ کبھی وہ سحر بھی آتی کہ چراغ بجھتے بجھتے تِرے سنگِ در پہ بنتا مِرے غم کا آشیانہ مری آہِ نارسا پر رہی طعنہ زن یہ دنیا مِرے دردِ دل کا عالم نہ سمجھ سکا زمانہ ترے غم سے زندگی ہے تری یاد بندگی ہے کہ ہے دینِ عاشقی ...

روز آئے مدینے سے باد صبا ہجر میں دل ہمارا بہلتا رہے

روز آئے مدینے سے بادِ صبا ہجر میں دل ہمارا بہلتا رہے   ہر گھڑی تم مجھے یاد آتے رہو عالمِ شوق میں دل مچلتا رہے   وقت آجائے ارؔشد کا جب آخری رنگ لائے مِری نسبتِ قادری   گوشۂ دامنِ پاک ہو ہاتھ میں سامنے تم رہو دم نکلتا رہے...

صل علی محمد

ماہِ مبین و خوش ادا صلِ علیٰ محمد پردۂ کن کے مہ لقا صلِ علیٰ محمد شاخِ نہالِ آرزو پھولے پھلے گی چار سو دل سے نکلتی ہے صدا صلِ علیٰ محمد اس کی بلائیں رد ہوئیں اس کے گناہ دھل گئے جس نے بَہ صدقِ دل پڑھا صلِ علیٰ محمد اتنا جنوں کا جوش ہو تن کا نہ اپنے ہوش ہو کہتا پھروں میں بر ملا صلِ علیٰ محمد جتنے مرض ہیں لا دوا ان کے لیے تو پڑھ سداصلِ علیٰ نبینا صلِ علیٰ محمد...

ہو چشم عنایت شہ جیلاں مرے لیے

ہو چشم ِ عنایت شہِ جیلاں مِرے لیے ہو چارہ ساز رحمتِ یزداں مِرے لیے آواز دی ہے جب سے انہیں کہہ کے دستگیر شامِ الم ہے صبح ِ بہاراں مِرے لیے میں ہوں دیارِ غوث میں پھر آج شب گزار رک جائے کہہ د و گردشِ دوراں مِرے لئے مرہم ہو یا کہ نشترِ غم سب ہے خوش گوار جب تم ہی خود ہو درد کا درماں مِرے لیے داغِ دل ِ غریب ہے ہم رنگ ِ لالہ زار ہے شامِ آرزو کا چراغاں مِرے لیے شامِ نشاط و صبحِ طرب بہر دیگراں صد مرحبا کہ ہے غمِ جاناں مِرے لیے اے کاش پوچھیں ...

چراغ طیبہ کی روشنی میں جو ایک شب بھی گزار آئے

چراغِ طیبہ کی روشنی میں جو ایک شب بھی گزار آئے   وہ دل کو روشن بنا کے اٹھے وہ اپنی قسمت سنوار آئے   کچھ ایسی پی ہے شرابِ الفت وہیں کھڑے ہیں خبر نہیں ہے   نہ در ہُوا بند مَے کدے کا نہ ہوش میں بادہ خوار آئے...