حضرت ام المؤمنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
نام ونسب:اسمِ گرامی:ام المؤمنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰ۔کنیت:امِ ہند ۔لقب:طاہرہ۔سلسلہ نسب اسطرح ہے:خدیجہ بنتِ خویلد بن اسد بن عبدالعزیٰ بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی ۔ سیدہ کا نسب حضور ﷺ سے قصی پرمل جاتا ہے۔ آپکی والدہ فاطمہ بنتِ زائدہ بن الاصم بنی عامر بن لوی سے تھیں ۔
تاریخِ ولادت: آپ رضی اللہ عنہاشرافت ،امانت ،ایفائے عہد ،سخاوت،غریب پروری ، فراخ دلی اورعفت و حیاجیسی اعلیٰ صفات اور خوبیوں کے ساتھ واقعہ فیل سے 15 سال پہلے بمطابق 555ءاس دنیا میں تشریف لائیں اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ خوبیاں آپ کی طبیعت کا لازمی جز بن گئیں اور پورے عرب میں آپ کی اعلیٰ خوبیوں کا چرچا ہونے لگا۔
اسلام کی خاتونِ اول اورنبی اکرم ﷺ کی زوجہٴ اول:حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا عورتوں،بلکہ سب سے پہلے ایمان لانے والی اورنبی مکرم صلی الله علیہ وسلم کی پہلی بیوی تھیں ۔دوسرے الفاظ میں آپ اسلام کی بھی خاتونِ اول تھیں اور نبی مکرم ﷺ کی بھی۔شادی کے بعدحضرت خدیجہ رسول اللہ ﷺکے ساتھ پچیس سال رہیں ان کی زندگی میں آپ ﷺ نے کسی عورت سے شادی نہیں کی۔ حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں:"لَمْ یَتَزَوج النبِیُ صلی الله علیہ وسلم عَلٰی خَدِیْجَةَ حَتٰی مَاتَتْ" نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ کی زندگی میں دوسری شادی نہیں کی، یہاں تک کہ آپ فوت ہوگئیں۔
سیرت وخصائص: حضور سرکارِ دو عالم ﷺ کی بارگاہ اقدس میں جن عورتوں کو زوجیت کا شرف حاصل ہو احق سبحانہٗ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کی نسبت کی بنا پر ان کو "امہات المؤمنین" فرمایا ہے۔ یعنی مومنوں کی مائیں ۔ اَلنبِیُ اَوْ لیٰ بِالْمُؤْمِنِیْنِ مِنْ اَنْفُسِہِمْ وَ اَزْوَا جُہٗ اُمھٰتُھُمَ ط(پ 21، احزاب :4) ترجمۂ کنز الایمان: یہ نبی کریم ﷺ ایمان والوں کی جانوں سے بھی زیادہ نزدیک ہیں اور ان کی ازواج مومنوں کی مائیں ہیں۔
آپ رسول اﷲﷺکی سب سے پہلی بیوی اور رفیقہ حیات ہیں یہ خاندان قریش کی بہت ہی باوقار و ممتاز خاتون ہیں ۔ان کی شرافت اور پاک دامنی کی بنا پر تمام مکہ والے ان کو ""طاہرہ"" کے لقب سے پکارا کرتے تھے انہوں نے حضور علیہ الصلوۃ و السلام کے اخلاق و عادات اور جمال صورت و کمال سیرت کو دیکھ کر خود ہی آپ سے نکاح کی رغبت ظاہر کی چنانچہ اشراف قریش کے مجمع میں باقاعدہ نکاح ہوا یہ رسول ﷺ کی بہت ہی جاں نثار اور وفا شعار بیوی ہیں اور حضور اقدس ﷺ کو ان سے بہت ہی بے پناہ محبت تھی چنانچہ جب تک یہ زندہ رہیں آپ ﷺ نے کسی دوسری عورت سے نکاح نہیں فرمایا اور یہ مسلسل پچیس سال تک محبوب خدا کی جاں نثاری و خدمت گزاری کے شرف سے سرفراز رہیں حضور علیہ الصلوۃ و السلام کو بھی ان سے اس قدر محبت تھی کہ ان کی وفات کے بعد ﷺ اپنی محبوب ترین بیوی حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے فرمایا کرتے تھے کہ خدا کی قسم! خدیجہ سے بہتر مجھے کوئی بیوی نہیں ملی جب سب لوگوں نے میرے ساتھ کفر کیا اس وقت وہ مجھ پر ایمان لائیں اور جب سب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اس وقت انہوں نے میری تصدیق کی اور جس وقت کوئی شخص مجھے کوئی چیز دینے کے لئے تیار نہ تھا اس وقت خدیجہ نے مجھے اپنا سارا سامان دے دیا اور انہیں کے شکم سے اﷲ تعالیٰ نے مجھے اولاد عطا فرمائی۔ (شرح العلامۃ الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ،حضرت خدیجہ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا، ج۴،ص۳۶۳ والاستیعاب ،کتاب النساء ۳۳۴۷،خدیجہ بنت خویلد،ج۴،ص۳۷۹)۔
اس بات پر ساری امت کا اتفاق ہے کہ سب سے پہلے حضورﷺکی نبوت پر یہی ایمان لائیں اور ابتداءِ اسلام میں جب کہ ہر طرف آپ ﷺ کی مخالفت کا طوفان اٹھا ہوا تھا ایسے خوف ناک اور کٹھن وقت میں صرف ایک حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکی ہی ذات تھی جو پروانوں کی طرح حضور ﷺ پر قربان ہورہی تھیں اور اتنے خطرناک اوقات میں جس استقلال و استقامت کے ساتھ انہوں نے خطرات و مصائب کا مقابلہ کیا اس خصوصیت میں تمام ازواج مطہرات پر ان کو ایک ممتاز فضیلت حاصل ہے۔
ان کے فضائل میں بہت سی حدیثیں بھی آئی ہیں چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا کہ تمام دنیا کی عورتوں میں سب سے زیادہ اچھی اور باکمال چار بیبیاں ہیں ایک حضرت مریم دوسری آسیہ فرعون کی بیوی تیسری حضرت خدیجہ چوتھی حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہن۔
ایک مرتبہ حضرت جبرئیل علیہ السلام دربار نبوت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اے محمد ﷺ یہ خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا ہیں جو آپ ﷺ وسلم کے پاس ایک برتن میں کھانا لے کر آرہی ہیں جب یہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پاس آجائیں تو ان سے ان کے رب عزوجل کا اور میرا سلام کہہ دیجئے اور ان کو یہ خوشخبری سنا دیجئے کہ جنت میں ان کے لئے موتی کا ایک گھر بنا ہے جس میں نہ کوئی شور ہوگا نہ کوئی تکلیف ہوگی۔(صحیح البخاری،کتاب مناقب الانصار،باب تزویج النبی صلی اللہ علیہ وسلم خدیجۃ،رقم ۳۸۲۰،ج۲،ص۵۶۵)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا : وما رایتہا ولٰکن کان النبی صلی اللٰہ علیہ و الہ وسلم یکثر ذکرھا وربماذبح الشاۃ ثم یقطعہا اعضآء ثم یبعثھا فی صدائق خدیجۃ فربما قلت لہٗ کا نہٗ لم یکن فی الدنیا امرأۃ الا خدیجۃ فیقول انھا کانت وکانت وکان لی منھا ولد (بخاری جلد اول : ۵۳۹،و مسلم جلد دوم : ۲۸۴، ترمذی،۲:۴۶۵)
ترجمہ: کہ رسول اللہ ﷺ اکثر سیدۃ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ذکر فرماتے تھے بہت دفعہ بکری ذبح کرتے پھر اس کے اعضاء کاٹتے پھر وہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سہیلیوں میں بھیج دیتے تھے تو وہ کبھی آپ سے کہہ دیتی تھیں گویا خدیجہ کے سوا دنیا میں اور کوئی عورت ہی نہیں تھیں تو آپ فرماتے وہ ایسی تھیں اور ان سے میری اولاد ہوئی۔
سرکار دو جہاں ﷺ نے ان کی وفات کے بعد بہت سی عورتوں سے نکاح فرمایا لیکن حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی محبت آخرِ عمر تک ﷺکے قلب مبارک میں رچی بسی رہی یہاں تک کہ ان کی وفات کے بعد جب بھی حضورﷺکے گھر میں کوئی بکری ذبح ہوتی تو آپ ﷺ حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی سہیلیوں کے یہاں بھی ضرور گوشت بھیجا کرتے تھے اور ہمیشہ آپ ﷺ باربار حضرت بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا ذکر فرماتے رہتے تھے ہجرت سے تین برس قبل پینسٹھ برس کی عمر پا کر ماہ رمضان میں مکہ مکرمہ کے اندر انہوں نے وفات پائی اور مکہ مکرمہ کے مشہور قبرستان حجون (جنت المعلی) میں خود حضور اقدس ﷺ نے ان کی قبر انور میں اتر کر اپنے مقدس ہاتھوں سے ان کو سپرد خاک فرمایا اس وقت تک نماز جنازہ کا حکم نازل نہیں ہوا تھا اس لئے ﷺ نے انکی نماز نہیں پڑھائی حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی وفات سے تین یا پانچ دن پہلے حضورﷺکے چچا ابو طالب کا انتقال ہوگیا تھا ابھی چچا کی وفات کے صدمہ سے حضورﷺگزرے ہی تھے کہ حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا انتقال ہوگیا اس سانحہ کا قلب مبارک پر اتنا زبردست صدمہ گزرا کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس سال کا نام ""عام الحزن"" (غم کا سال) رکھ دیا۔
وصال: آپ کی وفات 10رمضان المبارک 10 نبوی ،65برس کی عمر میں مکۃ المکرہ میں ہوئی،اور "جنت المعلیٰ "کے مقبرہ حجون میں استراحت فرما ہیں۔
//php } ?>