حضرت ام المومنین سیدہ خدیجہ
حضرت ام المؤمنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
خدیجہ دختر خویلد بن اسد بن عبد العزیٰ بن قصی قرشیہ اسدیہ ام المومنین،اس خاتون سے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے نکاح کیا،اور یہی خاتون سب سے پہلے آپ پر ایمان لائیں،جاہلیت میں ان کا لقب طاہرہ تھا، اور ان کی والدہ فاطمہ دختر زائدہ بن اصم تھیں،جناب خدیجہ حضور سے پہلے ابو ہالہ بن زرارہ بن نباش کی بیوی تھیں ، علی بن عبداللہ جرجانی لکھتے ہیں کہ ان کے خاوند کانام ابو ہالہ ہند بن نباش بن زرارہ تھا ،ابو ہالہ کے بعد ان کی شادی عتیق بن عائد بن عبداللہ بن عمر بن مخزوم مخزومی سے ہوئی،عتیق کے بعد جناب خدیجہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کیا،قتادہ کہتے ہیں،کہ جناب خدیجہ پہلے عتیق کے نکاح میں تھیں،اس کے بعدان کا نکاح ابو ہالہ سے ہوا،پہلی روایت درست ہے،اسی طرح یونس بن بکیر نے ابن اسحاق سے روایت کی کہ جناب خدیجہ نے جب وہ کنواری تھیں،عتیق سے شادی کی اور اس کی موت کے ابو ہالہ سے جس سے ایک لڑکی ہندہ نامی پیدا ہوئی تھی، عتیق کی موت کے بعد ابوہالہ سے نکاح ہوا،اور اس سے دو لڑکے ہالہ اور ہندہ پیدا ہوئے،یہ سب اولاد ِ رسول کریم کے اخیانی بھائی تھے،یہ زبیر کا بیان ہے،لیکن ابوعمر نے اس کا تتبع نہیں کیا،وہ اس کے خلاف لکھتے ہیں،یعنی ابوہالہ کانمبر پہلا ہے اور عتیق کا نمبر دوسرا ہے،ہاں ابو نعیم زبیر کا ہم نوا ہے۔
جب حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جناب خدیجہ سے نکاح کیا،تو اس وقت آپ کی عمر پچیس(۲۵) برس تھی،اور ام المؤ نین چالیس(۴۰)برس کی تھیں،ایک روایت میں حضورِ اکرم کی عمر اکیس(۲۱) سال بتائی گئی ہے،یہ نزول وحی سے پہلے کا واقعہ ہے،جناب خدیجہ کے وکیل نکاح ان چچا عمرو بن اسد تھے،انہوں نے کہا کہ محمد بن عبداللہ،خدیجہ بیت خویلد سے نکاح کا خواہش مند ہے،اور وہ ایک کریم انفس نوجوان ہے،جناب خدیجہ نے حضور کے ساتھ زندگی کے چودہ سال گزارے اس نکاح کی ابتدا یوں ہوئی،ابو جعفر نے باسنادہ یونس سے انہوں نے ابن اسحاق سے روایت کی،کہ جناب خدیجہ ایک تجارت پیشہ اور معزز خاتون تھیں،وہ اپنے مالِ تجارت کی خریدو فروخت کے لئے مردوں کو اجرت پر ملازم رکھ لیتی تھیں،جناب خدیجہ کو آپ کے اوصافِ حمیدہ کا عِلم ہوا،تو انہوں نے حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلُا بھیجا،اور آپ کو جو معاوضہ پیش کیا،وہ اس معاوضہ سے زیادہ تھا،جو اور لوگوں کو دیاجاتاتھا،نیز اپنا ایک غلام بھی جس کانام میسرہ تھا،ساتھ کردیا،چنانچہ آپ نے یہ پیش کش قبول کرلی،اور سامان تجارت لے کر شام کو روانہ ہو گئے،راستے میں حضورِ اکرم نے ایک درخت کے نیچے جو ایک گرجے کے پاس تھا،رختِ اقامت ڈالا،اتنے میں ایک راہب گرجے سے نکل کرمیسرہ کے پاس آیا،اور پوچھا،کہ جو شخص اس درخت کے سائے میں اترا ہے،کون ہے،میسرہ نے کہا ،کہ یہ صاحب قومِ قریش کے ایک معزز فرد ہیں،راہب نے کہا،کہ اس درخت کے سائے میں نبی کے سوا اور کوئی نہیں ٹھہر سکتا،اس بنا پر تمہا رے رفیقِ سفر لازماً ۱نبی ہیں، حضورِ سرور کائنات نے چند دنوں میں ہی اپنا سامانِ تجارت فروخت کردیا،اور پھر واپس ہولئے،جب مکے پہنچے،تو میسرہ نے راہب کی پیش گوئی کے علاوہ حضورِ اکرم کی معاملات خرید و فروخت میں سوجھ بوجھ اور دیانت و امانت کا ذکر کیا، اس سے جناب خدیجہ نے آپ کو دوسروں کے مقابلے میں بہت زیادہ معاوضہ ادا کیا۔
۱یہ قطعاً فرضی روایت ہے،مترجم
جناب خدیجہ بیوہ تھیں اور تجارت کے معاملے انہیں کسی ایسے مخلص اور دیانت دار آدمی کی شدیدضرورت تھی،جو اِن کے کاروبار کو سنبھال لے، اور انہیں اس دردِ سر سے چھٹکارا مِل جائے، چنانچہ انہوں نے حضورِ اکرم کوپیغام بھجوایا، میں اس قرابتداری کی وجہ سے جو ہم میں پائی جاتی ہے،نیز آپ کی شرافت،امانت حُسن خلق اور راست بازی کی بنأ پر چاہتی ہوں،کہ ہمارے درمیان سلسلہ مناکحت قائم ہو جائے،جب حضور پُرنور کو یہ پیغام موصول ہوا،تو آپ نے اپنے اعمام سے ذکر کیا،چنانچہ حمزہ بن عبدالمطلب ان لوگوں کے پاس گئے،بات طے ہو گئی اور رسمِ نکاح ادا کردی گئی،حضورِ اکرم کی ساری اولاد (سوائے صاحبزادہ ابراہیم کے) اسی خاتون کے بطن سے ہوئی،زینب،ام کلثوم،رقیہ،فاطمہ،قاسم،طاہر اور طیب آخر الذکر تینوں صاحبزادے قبل از بعثت فوت ہو گئے تھے،حضورِ اکرم کی کنیت ابوالقاسم اول الذکر صاحبزادے کے نام پر تھی،آپ کی تمام صاحبزادیوں نے ہجرت کی اور بعد ازاں بعثت سب نے اسلام قبول کرلیا تھا۔
حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اولاد کے بارے میں علمأ میں اختلاف ہے،بعض کا خیال ہے کہ جناب خدیجہ کے بطن سے صرف جناب قاسم اور چار صاحبزادیاں پیدا ہوئیں،عقیل نے ابن شہاب سے چار صاحبزادیوں اور قاسم و طاہر کا ذکر کیاہے،قتادہ بھی اسی تعداد یعنی چار لڑکیوں اور دو لڑکوں کا قائل ہے،قاسم جب فوت ہوئے تو چل پھر لیتے تھے،دوسرے صاحبزادے کا نام عبداللہ تھا،جو بچپن ہی میں فوت ہو گئے تھے،زبیر کی رائے کے مطابق پیشتراز ہمہ قاسم پید ا ہوئے،پھر زینب،پھر عبداللہ جنہیں طیب اور طاہر بھی کہتے تھے،کچھ عرصے کے بعد قاسم مکّے ہی میں فوت ہوگئے،ان کے بعد عبداللہ فوت ہوئے،زبیر ہی سے مروی ہے کہ انہیں ابراہیم بن منذر نے،انہوں نے ابن وہب سے،انہوں نے ابن لہیعہ سے،انہوں نے ابوالاسود محمد بن عبدالرحمٰن سے روایت کی،کہ جناب خدیجہ کے بطن سے قاسم،طاہر،طیب،عبداللہ،زینب،رقیہ،ام کلثوم اور فاطمہ پیدا ہوئیں،علی بن عبدالعزیز جرجانی کاقول ہے،کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے یہاں پہلے قاسم،پھر زینب(کلبی کے مطابق پہلے زینب اور پھر قاسم) پھر ام کلثوم،پھر فاطمہ،پھر رقیہ اور عبداللہ پیدا ہوئے،اور عبداللہ ہی کو طاہر اور طیب کہتے تھے،زبیر کے مطابق تمام بچے قبل از نزولِ اسلام پیدا ہوئے تھے۔
ام المونین کے اسلام کے بارے میں محمد بن سرایا بن علی وغیرہ باسنادہم تا محمد بن اسماعیل،انہوں نے یحییٰ بن بکیر سے، انہوں نے لیث سے انہوں نے عقیل سے ،انہوں نے ابن شہاب سے،انہوں نے عروہ سے،انہوں نے حضرت عائشہ سے روایت کی،کہ وحی کے شروع ہونے سے پیشتر حضورِ اکرم کو سچے خواب آنا شروع ہوئے،چنانچہ آپ جو خواب بھی دیکھتے،دوسرے دن طلوعِ صبح کی طرح واقع ہوجاتے،کلبی یہ پور ی حدیث بیان کی ہے آخر ایک دن جبریل علیہ السّلام نے حضورِ اکرم سے غارِ حرا میں کہا۔
اِقراء بِاِسمِ رَبِّکَ الَّذِی خَلَقَ۔آپ اس غیر متوقع وقوعہ سے سخت پریشان ہوئے،گھر تشریف لے آئے، اور ام المونین سے فرمایا،کہ مجھے چادر اوڑھادو،کہ میری جان خطرے میں ہے،ام المونین نےآپ کو تسلّی دی کہ اللہ آپ کو ہرگز رسوانہیں کرے گا،آپ صلہ رحمی کرتے ہیں،لوگوں کو نفع پہنچاتے ہیں،یتیموں اور ناداروں کی کفالت فرماتے ہیں،مہمان نوازی کرتے اور مصیبت زدہ لوگوں کی امداد کرتے ہیں،اس لئے کو ئی وجہ نہیں کہ اللہ آپ کا حامی اور ناصر نہ ہو۔
جب آپ کی طبیعت بحال ہوئی ،تو ام المومنین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے عمزاد ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو توریت و انجیل کا عالم تھا،اور عیسائیت قبول کرلی تھی،ورقہ نے حضورِ اکرم سے پوچھا،کہ آپ نے کیا دیکھا،جب حضور اکرم نے بتایا ،تو ورقہ نے بتایا،کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا جب آپ کی قوم آپ کو جلا وطن کردے گی، تو میں ضرور آپ کی مدد کرتا۔
ابو جعفر نے باسنادہ تا یونس ،ابن اسحاق سے روایت کی،کہ جناب خدیجہ اول از ہمہ خدا و رسول پر ایمان لائیں،اور آپ کےمِشن کی تصدیق کی،جو شخص آپ کی تکذیب کرتا تھا،آپ کو تکلیف ہوتی،ام المومنین کے اسلام سے آپ کو فی الجملہ تسکین ہوئی۔
ابن اسحاق نے اسماعیل بن ابو حکیم مولی زبیر سے روایت کی کہ انہوں نے مجھے جناب خدیجہ کے بارے میں بتایا کہ جناب خدیجہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی،کہ کیا یہ ممکن ہے کہ جب جبریل امین آپ پر نازل ہوں تو مجھے اطلاع دیں،تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ جبریل آگئے،حضور سرورِ کائنات نے فرمایا، جبریل آگئے ہیں جناب خدیجہ پوچھا،کیا آپ انہیں دیکھ رہے ہیں،حضورِ اکرم نے فرمایا،ہاں،خدیجہ بلا شبہ میں انہیں دیکھ رہا ہوں، پھر ام المومنین نے آپ کو اپنے بائیں جانب ،اور پھر دائیں جانب پھر اپنی گود میں بیٹھنے کو کہا اور ہر دفعہ وہی سوال کیا ، جس کا جواب آپ نے ہاں میں دیا،اس کے بعد ام المونین نے اپنے سر سے اوڑھنی اتار پھینکی اور پوچھا،کیا اب بھی آپ کو جبریل دکھائی دے رہے ہیں،حضورِ اکرم نے فرمایا،نہیں،ام المونین نے کہا،بلا شبہ یہ شیطان نہیں تھا،فرشتہ تھا،پھر حضورِ اکرم سے کہا،اپنے مشن پر ثابت قدم رہئیے،اور آپ کو مبارک ہو،پھر ام المومنین حضور پر ایمان لے آئیں،چنانچہ اوّل از ہمہ ایمان لانے کا فخر ام المومنین کو حاصل ہے،(روایت کا یہ حصہ راوی کے دماغ کی تخلیق ہے، ام المونین کو اس تماشے کی کیا ضرورت تھی،کیا حضورِ اکرم کا فرمانا کافی نہیں تھا،(مترجم)۔
ابو محمد عبداللہ بن علی ابوالفضل بن ناصر سے ،انہوں نے ابو صالح احمد بن عبدالملک الموذن سے ، انہوں نے حسین بن فاذشاہ سے،انہوں نے ابوالقاسم طبرانی سے،انہوں ے قاسم زکریا المطرز سے،انہوں نے یوسف بن موسٰی القطان سے،انہوں نے تمیم بن جعد سے، انہوں نے ابو جعفر الرازی سے،انہوں نے ثابت سے،انہوں نےانس سے روایت کی،حضور ِاکرم نے فرمایا ،دنیا کی تمام خواتین میں بلند درجہ،مریم والدۂ عیسیٰ علیہ السّلام،آسیہ زوجہ فرعون، خدیجتہ الکبرٰی اور فاطمہ سیّد ہ ہیں۔
اسی طرح ابو صالح نے ابوعلی حسن بن علی الواعظہ سے،انہوں نے احمد بن جعفر سے،انہوں نے عبداللہ بن احمد سے، انہوں نے اپنے والد سے،انہوں نے ابو عبدالرحمٰن سے،انہوں نے داؤد سے انہوں نے علباء سے،انہوں نے عکرمہ سے،انہوں نے ابن عباس سے روایت کی،کہ ایک بار آپ نےزمین پر چار لکیریں کھینچ کر صحابہ سے دریافت کیا کیا تم جانتے ہو،کہ یہ کیا ہے،صحابہ نے جواب دیا کہ اللہ اور اللہ کے رسول بہتر جانتے ہیں،حضور ِاکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا،اللہ کی نگاہ میں چار خواتین(خدیجتہ الکبریٰ،فاطمتہ الزہرأ،مریم اور آسیہ) کامقام اور درجہ دنیا کی تمام خواتین سے بلند تر ہے،شیخ کی اصل کتاب میں تصحیح شدہ نام دوّاد ہے۔
عارم بن داؤد بن ابوالرات نے علباء بن احمر سے ،انہوں نے ابراہیم اور اسماعیل سے،انہوں نے محمد بن عیسیٰ سے، انہوں نے حسن بن حریث سے، انہوں نے فضل بن موسیٰ سے،انہوں نے ہشام بن عروہ سے،انہوں نے اپنےوالد سے،انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی کہ حضور ِ اکرم نے ام المونین کو بہشت میں نرسل کے ایک گھر کی خوش خبری دی تھی،جس میں نہ شور ہوگا،اور نہ کوئی اور تکلیف ہوگی(کاش راوی کو معلوم ہوتا کہ بہشت میں جھونپڑیاں نہیں ہوں گی،بلکہ سونے چاندی کے محلّا ت ہوں گے)(مترجم)۔
یحییٰ بن محمود اور عبدالوہاب بن ابو جہہ نے باسنادہماتا مسلم،ابوکریب سے انہوں نے ابو اسامہ سے ، انہوں نے ہشام سے ، انہوں نے اپنے والد سے،انہوں نے عبداللہ بن جعفر سے روایت کی،اور انہوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت کی،کہ انہوں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سُنا،کہ خیر النساء جناب خدیجتہ الکبریٰ اور مریم دختر عمران ہیں،ابو کریب کہتے ہیں کہ وکیع نے زمین و آسمان کی طرف اشارہ کیا۔
ابوالفضل عبداللہ بن احمد بن محمد طوسی نے،جعفر ابن احمد السراج سے،انہوں نے ابوعلی بن شادان سے، انہوں نے ابوعمرو عثمان بن احمد ادقاق سے،انہوں نے ابن ابوالعوام سے،انہوں نے ولید بن قاسم سے ،انہوں نے اسماعیل بن ابو خالد سے،انہوں نے ابن ابواوفی سے روایت کی،کہ حضورِ اکرم نے جناب خدیجہ کو جنت میں نرسل کے مکان کی (جس میں نہ شور ہوگا اورنہ کوئی دقت ہوگی) بشارت دی تھی۔
عبداللہ بن احمد نے ابوبکر بن بدران حلوانی سے سُنا،کہ ابوالحسن محمد بن احمد بن محمد ابنوسی کے سامنے اور میں نے سنا، کہ ابوالحسین محمد بن عبدالرحمٰن بن جعفر الدنپوری نے بتایا،اور میں اس کا اقرار کرتا ہوں،کہ ہمیں ابوبکر محمد بن عبداللہ بن غیلان حراز نے ابو ہشام رفاعی سے،انہوں نے حفص بن غیاث سے،انہوں نے ہشام بن عروہ سے، انہوں نے اپنے والد سے،انہوں نے حضرت عائشہ سے روایت کی،وہ کہتی ہیں،کہ مجھے حضورِ اکرم کی ازواج میں سے کسی سے بھی اتنا جلاپہ نہ تھا،جتنا خدیجہ دختر خویلد کے خلاف تھا،حالانکہ وہ مجھ سے پہلے گزر چکی تھیں اس کی وجہ یہ تھی، کہ حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر و بیشتر ان کا ذکر نہایت عمدہ الفاظ سے کیا کرتے تھے،اور جب بھی کوئی جانور ذبح کرتے تو خدیجہ کی سہیلیوں کو ان کا حصہ بھجوایا کرتے تھے۔
یحییٰ بن محمود اور ابویاسر نے باسنادہما مسلم سے انہوں نے ابوبکر بن ابو شیبہ اور ابو کریب اور ابن نمیر سے انہوں نے ابنِ فضیل سے،انہوں نے عمارہ سے ،انہوں نے ابوزرعہ سے روایت کی،کہ انہوں نے ابوہریرہ سے سنا،رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا کہ جبریل آئے اور کہاکہ یہ خدیجہ ہیں جو آپ کے پاس آئی ہیں،ان کے پاس ایک برتن ہے،جس میں سالن ہےیاکھانا ہے یا شربت ہے،جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو انہیں خداکی طرف سے اور میری طرف سے سلام کہنا اور انہیں بشارت دینا کہ خدانے ان کے لیے جنت میں نرسل کا ایک مکان بنایا ہے،جس میں نہ شور ہوگااور نہ تکلیف ہوگی،ابوبکر نے اپنی حدیث میں جو ابو ہریرہ سے روایت کی ہے،نہ تو سمعت کا لفظ کہا اور منی کا۔
مجالد نےشعبی سے،انہوں نے مسروق سے،انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی،کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم،جب بھی گھر سے کہیں باہر جانا چاہتے ،توجناب خدیجہ رضی اللہ عنہ کا ذکر کسی نہ کسی سلسلے میں ضرور فرماتے،اور ان کی تعریف کرتے۔
ایک دن کا واقعہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ذکر خیر فرمایا،تو مجھے غیرت نے خاموش نہ رہنے دیا،میں نے کہا،وہ ایک بڑھیا عورت ہی تو تھی،خدانے آپ کو اس کا کہیں بہتر بدل دیا ہے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنا غصہ آیا،کہ چہرہ مبارک سُرخ ہوگیا،بخدا،اس کا نعم البدل مجھ نہیں ملا،جب لوگوں نے میری تکذیب کی ،تو خدیجہ نے تصدیق کی،جب لوگوں سے مجھے مایوسی ہوئی،اس نے اپنا مال میں مجھے تصرّف کا حق دیااور اس کےبطن سے خدا نے مجھے اولاد دی،جب باقی تما م ازواج سے مجھے محرومی حاصل ہوئی،حضرت عائشہ نےدل میں عہد کرلیا کہ آیندہ کبھی ان کے بارے میں کوئی نا زیبا خیال دل میں بھی نہ لائیں گی۔
زبیر نے بکار سے،انھوں نے محمد بن حسن سے انہوں نے یعلی بن مغیرہ سے ، انہوں نے ابن ابی رواد سے روایت کی کہ جناب خدیجہ کے مرض موت کے دوران میں جب انہیں بہت تکلیف تھی،آپ نے فرمایا،خدیجہ! میں ہی ان تکالیف کو بہ طبیب خاطر برداشت کرنے کی ترغیب نہیں دے رہا ہوں،بلکہ خود اللہ نے تکالیف میں تمہارے لیے خیر کثیر رکھ دی ہے،کہ مجھے معلوم نہیں،کہ اللہ تعالیٰ نے جتنی زندگی کے لیے تمہیں،مریم دخترِ عمران،کلثوم ہمشیرہ موسیٰ علیہ السلام اور آسیہ زوجہ فرعون کے میرے نکاح میں دے دیا ہے،جناب خدیجہ نے کہا،یا رسول اللہ ،کیا سچ مچ؟ آپ نے فرمایا،ہاں ایسا ہی ہے،ام امومنین نے کہا،بال بچوں سمیت؟
عبیداللہ بن احمد نے باسنادہ یونس سے،انہوں نے ابن اسحاق سے روایت کی،کہ جناب ام المونین کی وفات حضرت ابو طالب کے بعد اسی سال کے دَوران میں ہوئی،اور اس سے حضورِاکرم حد درجہ متاثر ہوئے،ام المومنین کا وجود حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لئے از بس غنیمت تھا،وہ بڑی تجر بہ کار اور بارسوخ خاتون تھیں،ابو عبیدہ معمر بن مثنیٰ کا قول ہے،کہ جناب خدیجہ ہجرت سے پانچ برس اور بروایتے چار برس پہلے فوت ہوئیں،عروہ اور قتادہ کے مطابق ام المومنین کا انتقال ہجرت سے تین برس پہلے ہوا،اور یہی روایت درست ہے،حضرت عائشہ کا قول ہے کہ جناب خدیجہ کی وفات نماز کی فرضیت سے پہلے ہوئی،ایک روایت میں ہے کہ ام المومنین ابو طالب کی وفات کے تین دن بعد فوت ہوئی تھیں،ان کی وفات رمضان میں ہوئی،اور حجوں میں دفن ہوئیں۔
وفات کے وقت ام المومنین ۶۵ برس کی تھیں،تینوں نے ذکر کیا ہے۔