حضرت سیّدۃ النّسا فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالٰی عنہا
نام ونسب:اسمِ گرامی: سیّدہ فاطمہ۔ کنیت: اُمّ الحسنین۔اَلقاب: زہرا، بتول،سیّدۃ النساء،خاتونِ جنّت،مخدومۂ کائنات،طیّبہ، طاہرہ ،عابدہ،زاہدہ،وغیرہ ۔سلسلۂ نسب اس طرح ہے:سیّدۃ النساء فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا بنتِ سیّدالانبیا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ بن عبد اللہ بن ہاشم بن عبدِ مناف (علیہم الرحمۃ والرضوان)۔آپ سیّدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کےبطن سے پیدا ہوئیں،اور رسولِ اکرم ﷺکی سب سے چھوٹی صاحبزادی ہیں۔
فاطمہ کی وجہِ تسمیہ: سرورِ عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: انما سمیت فاطمۃ لان اللہ تعالٰی فطمھاومحبیھا عن النار: (ترجمہ: یعنی میری بیٹی کا نام ’’فاطمہ‘‘ اس لیے رکھا گیا ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اور اس کے محبین کو دوزخ سے سے آزاد کردیا ہے۔) (کَنْزُ الْعُمَّال،ج12،حدیث34222)
تاریخِ ولادت: اِعلانِ نبوّت سے پانچ سال یا ایک سال قبل مکۃ المکرمہ میں آپ کی ولادت ہوئی۔ بقولِ بعض آپ کی ولادتِ باسعادت20؍ جمادی الثانی بروز جمعۃ المبارک ہوئی۔
فضائل ومناقب:تصویرِ مصطفیٰ ﷺ: اُمّ المومنین سیّدہ عائشہ صدّیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے چال ڈھال، شکل وصورت اور بات چیت میں سیّدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کسی کو حضور ﷺ سے مشابہ نہیں دیکھا۔ (سننِ ابو داؤد)
رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: الا ترضین ان تکونی سیدۃ نسآء اھل الجنۃ او نسآء العالمین (ترجمہ: کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تم سارے جہاں اور جنّت کی عورتوں کی سردار ہو؟) (بخاری،1:532، مسلم جلد دوم:290)
سیّدہ کی خوشی و ناراضگی اللہ تعالیٰ کی خوشی و ناراضگی: حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: فاطمۃ بِضعۃ منی فمن اغضبہا اغضبنی و فی روایۃٍ یرینی ما اراھا و یو ذینی ما اذا ھا فاطمہ میرے گوشت کا ٹکڑا ہے، جس نے اس کو ناراض کیا اس نے مجھ کو ناراض کیا اور اضطراب میں ڈالے گی مجھے وہ چیز جو اس کو اضطراب میں ڈالے اور دوسری روایت میں ہے کہ مجھے تکلیف دیتی ہے وہ چیز جو اس کو تکلیف دے۔(بخاری ، 1:532)
قیامت کے دن ندا ہوگی اہلِ محشر اپنی نگاہوں کو جھکالیں: حضور سیّدِ عالم ﷺ نے فرمایا ہے کہ روزِ قیامت ایک ندا ہوگی: اذا کان یوم القیامۃ نادٰی منا دیا من وّراء الحجاب یا اھل الجمع غضوا ابصارکم و نکّسوا رؤسکم حتی تمّر فاطمۃ بنت محمد صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فتمر و معہا سبعون الف جاریۃ من حورالعین کمر البرق (ترجمہ: قیامت کے دن ایک ندا کرنے والا ندا کرے گا پردہ میں سے اے محشر والو! اپنی نگاہوں کو جھکا لو اور اپنے سروں کو جھکا لو یہاں تک کہ سیّدہ فاطمہ بنتِ محمدﷺ گذر جائیں، چناں چہ سیّدہ ستر ہزار حوروں کے ساتھ برق کی طرح گزر جائیں گی۔) (المستدرک ، 3:161)
سیّدہ کا نکاح: سن 2 ہجری میں غزوۂ بدر سے واپسی کے بعدماہِ رمضان میں مولائے کائنات سے آپ کا نکاح ہوا۔اس وقت آپ کی عمر15 سال ، اور مولا علی کی عمر 21 سال تھی۔ رخصتی ذوالحجہ میں ہوئی۔
سیّدہ کا جہیز: ایک چادر، ایک تکیہ، چمڑے کا گدّا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی، دو چکیاں اور پانی کے لیے دو مشکیزے، یہ ہے دونوں جہانوں کے سردار ﷺکی لاڈلی بیٹی کا جہیز کہ صرف وہ اشیا دیں جو روز مرہ استعمال میں آتی ہیں۔
وصال: حضورِ اکرم ﷺ کے وصال کے6 ماہ بعد 3؍رمضان المبارک 11ھ منگل کی رات میں آپ کی وفات ہوئی اور جنّت البقیع میں مدفون ہوئیں ۔نمازِ جنازہ سیّدنا صدّیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پڑھائی۔(کنز العمّال۔حدیث،42856؛ شرح العلامۃ الزرقانی،الفصل الثانی فی ذکر اولادہ الکرام علیہ وعلیہم الصلاۃوالسلام، ج4،ص342)۔