اُمّ المؤمنین سیدہ خدیجۃالکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا

۱۰رمضان المبارک، یوم وصال

اُمّہات المؤ منین:

اہل اسلام کی مادران شفیق

بانوان طہارت پہ لاکھوں سلام

حضور سرکارِ دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں جن عورتوں کو زوجیت کا شرف حاصل ہو احق سبحانہٗ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی نسبت کی بنا پر ان کو امہات المؤمنین فرمایا ہے۔ یہ مومنوں کی مائیں ہیں۔

اَلنَّبِیُ اَوْ لیٰ بِالْمُؤْمِنِیْنِ مِنْ اَنْفُسِہِمْ وَ اَزْوَا جُہٗ اُمَّھٰتُھُمَ ط(پ ۲۱، احزاب :۴)

(ترجمہ) یہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ایمان والوں کی جانوں سے بھی زیادہ نزدیک ہیں اور ان کی ازواج مومنوں کی مائیں ہیں۔(کنز الایمان)

یہ ارشاد حرمتِ نکاح اور وجوب احترام میں ہے نہ کہ دیکھنے اور تنہا رہنے میں اس کے باوجود ان کی بیٹیاں مسلمانوں کی بہنوں کے حکم میں نہیں ہیں اور نہ ان کی مائیں ، آباء و اجداد اور دادیاں اور نہ ان کی بہنیں اور بھائی ماموں اور خالاؤں کے حکم میں ہیں اور نہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم مرد و عورت کے لیے باپ کے حکم میں ہیں بس ازواجِ مطہرات کو خصوصی فضیلت حاصل ہے۔

(مدارج النبوۃ /دوم /۷۹۶)

حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی ازواجِ مطہرات کی تعداد اور ان کی ترتیب میں علماء اختلاف رکھتے ہیں ان میں سے متفق علیہ گیارہ ازواجِ مطہرات ہیں چھ قریش میں سے یعنی حضرت خدیجۃ الکبریٰ، سیدۃ عائشہ بنتِ ابو بکر صدیق، سیدہ حفصہ بنتِ عمر فاروق، سیدہ ام حبیبہ بنتِ ابو سفیان، سیدہ اُمِّ سلمہ بنت ِ ابی امیہ، سیدہ سودہ بنت زمعہ، سیدہ زینب بنت حجش، سیدہ میمونہ بنت الحارث ہلالیہ، سیدہ زینب بنت خزیمہ ہلالیہ امّ المساکین، سیدہ جویریہ بنت الحارث رضی اللہ تعالیٰ عنہن اور ایک غیر عربیہ بنی اسرائیل سے ہیں وہ سیدہ صفیہ بنت حی بنی نضیرسے ہیں اور وہ ازواج جو حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے سامنے انتقال کر گئیں وہ دو ہیں۔ ایک سیدہ خدیجۃ الکبریٰ اور دوسری سیدہ زینب اُم المساکین رضی اللہ تعالیٰ عنہمااور حضور اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وصال اقدس کے وقت ۹ ازواجِ مطہرات بلا اختلاف موجود تھیں۔( مدارج النبوۃ /دوم /۷۹۶)

رمضان المبارک کی دس تاریخ کو اُم المؤمنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور ۱۷رمضان المبارک کو ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا وصال ہوا۔ ہم انہی دونوں مقدس ماؤں کا تذکرہ اپنے قارئین کے استفادہ کیلئے پیش کر رہے ہیں۔

تذکرۂ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا:

سب سے پہلے جن سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نکاح فرمایا وہ سیدہ خدیجۃالکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہیں اور جب تک وہ حیات رہیں ان کی موجودگی میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کسی عورت سے نکاح نہ کیا۔ سیدہ ام المؤ منین کا نسب نامہ یہ ہے۔ خدیجہ بنتِ خویلد بن اسد بن عبدالعزیٰ بن قصیٰ بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی ۔ سیدہ کا نسب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم سے قصیٰ میں مل جاتا ہے۔ ان کی کنیت ام ہند ہے اور ان کی والدہ فاطمہ بنتِ زائدہ بن الاصم ، بنی عامر بن لوی سے تھیں وہ پہلے ابو ہالہ بن نیاس بن زرادہ کی زوجیت میں تھیں اور اس سے ان کے دو فرزند ہوئے ایک ہند دوسرے ہالہ اور ابو ہالہ کا نام مالک تھا اور ایک قول سے زرارہ اور دوسرے قول سے ہند تھا ۔ اس کے بعد انہوں نے عتیق بن عایز مخزومی سے نکاح کیا اس سے ان کی ایک لڑکی ہوئی جس کا نام ہند تھا روضہ الاحباب میں کہا گیا ہے کہ ایک لڑکا اور ایک لڑکی ہے اور ہند ایسا نام ہے جو مرد عورت دونوں کیلئے رکھے جاتے ہیں۔ بعض نے عتیق کو ابو ہالہ پر مقدم بیان کیا ہے اس کے بعد انہوں نے حضور سید عالم علیہ الصلوٰۃ والسلام سے نکاح کیا اس وقت حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عمر مبارک چالیس برس کی تھی اور حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی عمر مبارک پچیس سال تھی۔

سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا عاقلہ، فاضلہ اور پارسا عورت تھیں ۔ زمانہ جاہلیت میں ان کو طاہرہ کہتے تھے عالی نسب اور بڑی مالدار تھیں۔ ابو ہالہ عتیق کے بعد اشراف قریش خواستگاری رکھتے تھے کہ وہ ان سے نکاح کر لیں مگر انہوں نے قبول نہ کیا اور انہوں نے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے لئے خود اپنے آپ کو پیش کیا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کا تذکرہ اپنے چچائوں سے فرمایا اس کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت حمزہ رضی اللہ عنہٗ کے ساتھ خویلد بن اسد کے پا س تشریف لائے اور ان کو پیام دیا پھر ولادت کے پچیسویں سال میں جب کہ شام کے سفر سے واپس تشریف لائے تھے اور سیدہ سے نکاح فرمایا تھا اور سیدنا خدیجۃ الکبریٰ کا مہر انتیس جوان اونٹ اور ایک روایت میں ہے کہ بارہ اوقیہ سونا طے ہوا۔

(مدارج النبوۃ /دوم /۷۹۶)

اہلِ سیر کا بیان ہے کہ سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے خواب میں دیکھا تھا کہ آسمانی آفتاب ان کے گھر اتر آیا ہے اور اس کا نور ان کے گھر سے پھیل رہا ہے یہاں تک کہ مکہ مکرمہ کا کوئی گھر ایسا نہیں ہے جو اس نور سے روشن نہ ہوا ہو جب وہ بیدار ہوئیں تو یہ خواب اپنے چچا کے لڑکے ورقہ بن نوفل سے بیان کیا اس نے اس خواب کی تعبیر بیان کی نبی آخر الزماں صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے ساتھ نکاح کروگی۔ سیدہ خدیجہ الکبریٰ وہ پہلی عورت ہیں جن پر اسلام کی حقیقت سب سے پہلے روشن ہوئی اور انہوں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رضا میں خرچ کیا اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی تمام اولاد خواہ فرزند ہوں یا دخترسب انہیں سے پیداہوئے بجز حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے جو سیدہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پیدا ہوئے تھے اور یہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی پچیس یا چوبیس سال شریکِ حیات رہیں ان کا انتقال ہجرت سے تین سال پہلے ہوا۔ اس وقت ان کی عمر مبارک پینسٹھ سال تھی۔ ان کا انتقال بعثت کے دسویں سال ماہِ رمضان میں ہوا اور مقبرہ حجون میں مدفون ہوئیں۔ حضور اقدس علیہ السلام خود ان کی قبر میں داخل ہوئے اور دعائے خیر فرمائی نماز جنازہ اس وقت تک شروع نہیں ہوئی تھی ۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ان کے انتقال کے بعد بہت ملول و محزون ہوئے تھے ان کے انتقال پر ملال کے سال کا نام ’’عام الحزن‘‘ یعنی غم کا سال قرار دیا۔ ان کے فضائل و مناقب بہت ہیں سیدہ خدیجہ کو سب سے بڑی فضیلت یہ بھی ہے کہ سیدہ فاطمہ الزہرا جیسی شہزادی ان ہی کے بطن سے پیدا ہوئیں اہلِ تفسیر بیان کرتے ہیں کہ کفار قریش کی تکذیب سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جو غم و اندوہ اور تکلیفیں اٹھاتے تھے وہ سب حضرت خدیجہ کو دیکھتے ہی جاتی رہتیں اور آپ خوش ہو جاتے جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم سیدہ کے پاس تشریف لاتے تو وہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی خاطر کرتیں جس سے آپ کی ہر مشکل آسان ہو جاتی ۔

صحیحین میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے مروی ہے کہ بارگاہِ رسالت مآب میں جبریل علیہ السلام نے حاضرہو کر عرض کیا:

فقال یا رسول اللّٰہ! ھذہ خدیجۃ قد اٰتت معھا انا فیہ ادام وطعام فاذا اتتک فا قرء علیہا السلام من ربّھا ومنی و بشر ھا ببیت فی الجنۃ من قصب لاصخب فیہ ولا نصب

(متفق علیہ حوالہ بخاری اول:۵۳۸، مسلم دوم :۲۸۴)

یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ! یہ خدیجہ آرہی ہیں ان کے ساتھ برتن ہے جس میں سالن اور کھانا ہے تو جب وہ آپ کے پاس آئیں تو انہیں ان کے رب کی طرف سے سلام اور میرا سلام فرمائیں اور انہیں جنت کے اس گھر کی بشارت دے دیں جو ایک موتی کا ہے نہ اس میں شوروغل ہے اور نہ کوئی رنج و تکلیف۔

اس حدیث میں سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اسوقت کھانے لانے کا ذکر فرمایا گیا ہے جب آپ غارِ حرا میں تشریف فرما تھے تو سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ کیلئے کھانا لا رہی تھیں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو سلام دیا گیا۔

حضرت عبدالرحمن بن زید رضی اللہ عنہٗ سے مروی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا بلا شبہ میں نوعِ بشری کا روز قیامت میں سردار ہوں مگر انبیاء علیہم السلام سے میری نسل میں ایک وہ شخصیت ہیں جن کا نام اقدس احمد ہے اور ان کومجھ پر دو باتوں میں فضیلت ہے ایک یہ کہ ان کی بیوی بھلائی میں ان کی مددگار اور معاون ہوگی اور میری بیوی میرے لیے خطا بر انگیختہ کرنے میں معاون ہوئی یہ کہ درخت کا پھل کھالیا اور دوسرے یہ کہ حق تعالیٰ نے ان کے شیطان (ہمزاد) پر اعانت فرمائی کہ وہ مسلمان ہو گیا مگر میرا شیطان(ہمزاد) کافر ہوا اور ایسی حدیث خود رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم سے مروی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے پوچھا تو ایسے ہی فرمایا۔(واللہ اعلم) ۔ (نسیم الریاض،۴:۶۴، الوفاء :۳۸۱)

بہر تقدیر حال یہی ظاہرہوتا ہے کہ اس سے مراد زوجہ سیدۃ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہیں۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو دیکھا :

وما رایتہا ولٰکن کان النبی صلی اللّٰہ علیہ و الہ وسلم یکثر ذکرھا وربماذبح الشاۃ ثم یقطعہا اعضآء ثم یبعثھا فی صدائق خدیجۃ فربما قلت لہٗ کا نّہٗ لم یکن فی الدّنیا امرأۃ الّا خدیجۃ فیقول انّھا کانت وکانت وکان لی منھا ولد

(بخاری جلد اول : ۵۳۹،و مسلم جلد دوم : ۲۸۴، ترمذی،۲:۴۶۵)

(ترجمہ) کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اکثر سیدۃ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بہت ذکر فرماتے تھے بہت دفعہ بکری ذبح کرتے پھر اس کے اعضاء کاٹتے پھر وہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سہیلیوں میں بھیج دیتے تھے تو وہ کبھی آپ سے کہہ دیتی تھیں گویا خدیجہ کے سوا دنیا میں اور کوئی عورت ہی نہیں تھیں تو آپ فرماتے وہ ایسی تھیں اور ان سے میری اولاد ہوئی۔

اس حدیث مبارکہ سے واضح ہوا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اپنی سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے اس قدر محبت تھی کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ان کا اکثر ذکر مبارک کرتے رہتے تھے اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ان کے نام کی بکری ذبح کرتے اور اس کا گوشت کاٹ کر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سہیلیوں میں تقسیم فرماتے تھے اور سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں میں کہا کرتی تھی کہ کیا دنیا میں عورت کوئی نہیں یعنی بطور رشک کہ میں بھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی اسی طرح محبوبہ ہو جاؤں جس طرح یہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو محبوبہ سمجھتے ہیں تو پھر ان کی تعریف میں فرماتے وہ ایسی تھیں یعنی میری بہت زیادہ خدمت کرنے والی، بہت روزہ دار، عبادت گذار، تہجد گذار، میری غمگسارو مدد گار تھیں میری اکثر اولاد ان سے ہوئی اور وہ میری فاطمہ کی ماں ہے۔

مسند امام احمد سیدنا عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ جنتی عورتوں میں سب سے افضل حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہیں اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت سیدہ مریم علیہا السلام اور حضرت سیدہ آسیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہیں۔ ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے : کہ تمام جہان کی عورتوں میں سب بہتر اور افضل چار عورتیں ہیں۔ (۱) سیدہ خدیجۃ الکبریٰ (۲) سیدہ فاطمہ (۳) سیدہ مریم (۴) سیدہ آسیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہن۔(معجم الکبیر لطبرانی علیہ الرحمہ، ۱۱:۲۶۶)

حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے جو اولادِ رسول متولد ہوئی ان میں چار صاحبزادیاں (۱) حضرت زینب(۲)حضرت رقیہ (۳) حضرت ام کلثوم (۴) حضرت فاطمہ اور بہ اختلافِ روایت دو یا چار صاحبزادے (۱) قاسم (۲) عبداللہ (۳) طیب (۴) طاہر ۔تولد ہوئے۔ اگر دو صاحبزادے تھے تو طیب و طاہر ان کے القاب تھے۔ (مدارج النبوۃ /دوم/۷۹۹)

امہات المؤمنین میں سے سیدتنا خدیجۃ الکبریٰ کی امتیازی شان ہے جو ان کے سوا اور کسی کی نہیں ۔ حضرت سیدہ خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنی عمر شریف کے پچاس برس سے زائد کے باوجود سامان خوراک اور پانی کا مشکیزہ لے کر جبل نور کی اونچائی پر واقع غار حرا میں اپنے خاوند اور اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے پاس جایا کرتی تھیں۔

سیما پہلی ماں کہف امن و اماں

حق گذاران رفاقت پہ لاکھوں سلام

منزل من قصب لا نصب لا صخب

ایسے کوشک کی زینت پہ لاکھوں سلام

تجویزوآراء