امام سے متعلق سوال؟

10/31/2017 AZT-25007

امام سے متعلق سوال؟


السلام علیکم، ایک امام جو گستاخ صحابہ کرام روافض کے ساتھ سنی لڑکے یا لڑکی کا نکاح پڑ ہائے، اور یہ عمل باربار کرتا ہو، اس کے پیچھے نماز ہو جائے گی یا نہیں؟ رہنمائی فرما دیں۔ (عبد اللہ ، چکوال)

الجواب بعون الملك الوهاب

بر تقدیرصدق سائل مذکور فی السوال  امام کو امامت کا منصب سوپنا اور اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں ۔کیونکہ شیعہ تین قسم  کےہیں،غالی ،سبّی اور تفضیلی۔ان میں سے غالی بالاتفاق کافر ہیں اور سبّی فقہاکے نزدیک کافر اورمتکلمیں کے نزدیک مسلمان مگر سخت گمراہ ہیں ،فتویٰ متکلمیں کے مذہب پر ہے اور تفضیلی بالاتفاق مسلمان مگرہ بدعتی ہیں ۔

لہٰذ اایسے بے دین ،گمراہ اور بدعتی لوگوں کے ساتھ سنی لڑکیوں  یا لڑکوں  کا نکاح پڑھانے والاخود بے دین  ہےیاسخت گمراہ اور بدعتی  ،اور بے دین یا گمراہ و بدعتی آدمی کو امام بنانا اور اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں

فتاوٰی رضویہ میں ہے :شیعہ تین قسم ہیں اول غالی کہ منکر ضروریات دین ہوں، مثلا قرآن مجید کوناقص بتائیں، بیاض عثمانی کہیں یا امیر المومنین مولاعلی کرم اللہ وجہہ خواہ دیگر ائمہ اطہار کوانبیائے سابقین علیہم الصلوٰۃ والتسلیم خواہ کسی ایک نبی سے افضل جانیں یار ب العزت جل وعلا پر بدع یعنی حکم دے کرپشیمان ہونا، پچتا کر بدل دینا، یا پہلے مصلحت کا علم  نہ ہونا بعد کو مطلع ہوکر تبدیل کرنا مانیں، یا حضور پر نور سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر تبلیغ دین متین میں تقیہ کی تہمت رکھیں الی غیر ذلک من الکفریات (ا س کے علاوہ دیگر کفریات ۔ ت) یہ لوگ یقینا قطعا اجماعا کافر مطلق ہیں اور ان کے احکام مثل مرتد، فتاوٰی ظہیریہ وفتاوٰی ہندیہ وحدیقہ ندیہ وغیرہا میں ہے: احکامھم احکام المرتدین ۱؎ (ان کے احکام مرتدین والے ہیں۔ ت) ( ۱؎ فتاوٰی ہندیہ        باب فی احکام المرتدین    نورانی کتب خانہ پشاور    ۲/۲۶۴)

آج کل کے اکثر بلکہ تمام رفاض تبرائی اسی قسم کے ہیں کہ وہ عقیدہ کفریہ سابقہ میں ان کے عالم جاہل مرد عورت سب شریک ہیں الا ماشاء اﷲ (مگر جو اللہ تعالٰی چاہے۔ ت) جوعورت ایسے عقیدہ کی ہو مرتدہ ہے کہ نکاح نہ کسی مسلم سے ہوسکتا ہے نہ کافر سے نہ مرتد سے نہ اس کے ہم مذہب سے۔ جس سے نکاح ہوگازنائے محض ہوگا اور اولاد ولدالزنا۔

 

دوم تبرائی کہ عقاید کفریہ اجماعیہ سے اجتناب اور صرف سَبّ صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم کا ارتکاب کرتاہو، ان میں سے منکران خلافت شیخین رضی اللہ تعالٰی عنہما اور انھیں برا کہنے والے فقہائے کرام کے نزدیک کافر و مرتد ہیں ۲؎ نص علیہ فی الخلاصۃ والھندیۃ وغیرھما (خلاصہ اور ہندیہ میں اس پر نص ہے۔ ت)

(۲؎ خلاصۃ الفتاوٰی    کتاب الفاظ الکفر    مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ    ۴/۳۸۱)

مگر مسلک محقق قول متکلمین ہے کہ یہ بدعتی ناری جہنمی کلاب النار ہیں مگر کافر نہیں، ایسی عورت سے نکاح اگرچہ صحیح ہے مگر  سخت کراہت شدیدہ سے مکروہ ہے۔

لما فی الحدیث عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم لاتناکحوھم ۱؎۔

کیونکہ حدیث شریف میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے کہ ان سے نکاح نہ کرو۔ (ت)

 (۱؎ کنز العمال    حدیث ۳۲۴۹۸ و ۳۲۵۴۲    موسسۃ الرسالۃ بیروت    ۱/۵۲۹ و ۵۴۲)

صحیح حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے اپنے ناقہ کو لعنت کی حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اسے چھڑوادیا کہ ملعونہ ناقہ پر ہمارے ساتھ نہ رہ۔ پھر کسی نے اس ناقہ کو نہ چھوا،0۲؂ حالانکہ ناقہ  فی نفسہا مستحق لعنت نہیں۔

 (۲؎صحیح مسلم    باب النہی عن لعن الدواب        قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲/۳۲۳)

حضرات شیخین رضی اللہ تعالٰی عنہماپر لعنت کرنے والے بلاشبہہ لعنت الہٰی کے مورد ہیں: اولئک یلعنھم اﷲ ویلعنھم اللاعنون ۳؎۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ ان پر اللہ تعالٰی لعنت فرماتا ہے اور سب لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں۔ (ت)

 (۳؎ القرآن     ۲/۱۵۹)

احادیث صحیحہ کثیرہ ا س معنی پر ناطق ہیں توایک ملعونہ سے صحبت رکھنا کیونکر شرع مطہر کو گوارا ہوگا واللہ الہادی۔

سوم تفضیلی کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کو خیرسے یادکرتاہو خلفائے اربعہ رضوان اللہ تعالٰی علیہم کی امامت بر حق جانتا ہو صرف امیرالمومنین مولٰی علی کو شیخین رضی اللہ تعالٰی عنہم سے افضل مانتا ہو، انھیں کفر سے کچھ علاقہ نہیں بد مذہب ضرورہیں ایسی عورت سے بالاتفاق نکاح جائز ہے ہاں کراہت سے خالی نہیں کہ مبتدعہ  ہے اگرچہ ہلکے درجہ کی بدعت ہے خصوصا اگرا س کی محبت میں اپنے مذہب پر اثر پڑنے کا احتمال ہو تو کراہت شدید ہوجائے گی اور ظن غالب تواشد بالغ بدرجہ تحریم ، واللہ سبحانہ و تعالٰی اعلم ۔(فتاوٰی رضویہ :ج اا،ص۹۰)

  • مفتی محمد سیف اللہ باروی
  • رئیس دارالافتاء مفتی محمد اکرام المحسن فیضی

متعلقہ

تجویزوآراء