طلاق

04/17/2019 AZT-27415

طلاق


کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اور مفتیاں شرع متیں اس مسئلے کے بارے میں کہ: میری شادی 22 اکتوبر 2010 میں ہوئی تھی۔ ان سے میری دو بیٹیاں بھی ہیں جن کی عمریں سوا سات سال اور دوسری کی ساڑے چار سال ہیں۔ میں دبئی میں رہتا تھا اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ لیکں کچھ وجوہات کی بناء پر ہمارے درمیان ناچاکی ہوگئ تھی پھر میری نوکری چلی گئ اور مجھے پاکستان واپس جانا پڑا لیکن میرے اصرار پر بھی وہ میرے ساتھ نہیں آئی اور بچے بھی رکھ لئے۔ میں نے بہت رجوع کرنے کی کوشش کی پر وہ نہیں آئی۔ لہٰذا میں نے 28 جون 2018 کو اپنی بیوی کو پاکستانی عدالت سے ایک طلاق بھیجوادی تھی دبئی۔ اس پہلی طلاق کے بعد سے آج تک ہم دونوں نے ایک دوسرے سے رجوع نہیں کیا۔ اب میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا ہماری طلاق ہوگئی ہے؟ کیا اب بھی ہم میاں بیوی ہیں یا نہیں؟ تحریری فتویٰ عنایت فرمائینگے تو نوازش ہوگی۔

الجواب بعون الملك الوهاب

جب آپ نے28 جون 2018 کو عدالت کے ذریعےاپنی بیوی کو ایک طلاق بھیجوادی اورآج تک  کوئی رجوع بھی نہیں کیا،تو اگر عورت کی عدت پوری  ماہوچکی ہو توایک طلاق ِ بائنہ واقع ہو گئی  ہےاور نکاح ختم ہوچکاہے،اب عورت جہاں چاہے دوسرا نکاح کرسکتی ہے۔ہاں اگر آپ ایک دبارہ ایک ساتھ رہنا چاہیں تو حلالہ کے بغیر دوبارہ نکاح کر کے ایک ساتھ رہ سکتے ہیں اور عدت سے مراد وہ مدت ہے جو عورت کو طلاق واقع ہونے بعد گزارنی ہوتی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلاَثَةَ قُرُوءٍ وَلاَ يَحِلُّ لَهُنَّ أَن يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ إِن كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُواْ إِصْلاَحًا وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ وَاللّهُ عَزِيزٌ حَكُيمٌ۔

اور طلاق یافتہ عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں، اور ان کے لئے جائز نہیں کہ وہ اسے چھپائیں جو اﷲ نے ان کے رحموں میں پیدا فرما دیا ہو، اگر وہ اﷲ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہیں، اور اس مدت کے اندر ان کے شوہروں کو انہیں (پھر) اپنی زوجیت میں لوٹا لینے کا حق زیادہ ہے اگر وہ اصلاح کا ارادہ کر لیں، اور دستور کے مطابق عورتوں کے بھی مردوں پر اسی طرح حقوق ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر، البتہ مردوں کو ان پر فضیلت ہے، اور اﷲ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے۔

(البقرة، 2: 228)

مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ میں حائضہ مطلقہ کی عدت تین حیض بیان کی گئی ہے یعنی جس عورت کو حیض آتا ہو اس کو طلاق دی جائے تو اس کی عدت تین بار حیض آنے کے بعد ختم ہو جائے گی۔ جس عورت کو بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے حیض نہ آتا ہو اس کی عدت تین مہینے ہے اور حاملہ عورت کی عدت وضع حمل ہے۔ جب کوئی بھی عورت طلاق کے بعد یہ مدت گزار لے وہ نیا نکاح کرنے کے لیے آزاد ہوتی ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے قرآنِ مجید فرماتا ہے:

وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ وَأُوْلَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا

اور تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں اگر تمہیں شک ہو (کہ اُن کی عدّت کیا ہوگی) تو اُن کی عدّت تین مہینے ہے اور وہ عورتیں جنہیں (ابھی) حیض نہیں آیا (ان کی بھی یہی عدّت ہے)، اور حاملہ عورتیں (تو) اُن کی عدّت اُن کا وضعِ حمل ہے، اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے (تو) وہ اس کے کام میں آسانی فرما دیتا ہے۔

(الطَّلاَق، 65: 4) واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ اعلم۔

  • مفتی محمد سیف اللہ باروی
  • رئیس دارالافتاء مفتی محمد اکرام المحسن فیضی

متعلقہ

تجویزوآراء