مسجد میں جوتے پہن کر نماز کا حکم

07/19/2017 AZT-24471

مسجد میں جوتے پہن کر نماز کا حکم


مسجد میں جوتے پہن کر نماز پڑھنا کیسا؟ (محمد فرخ شان القادری، کراچی پاکستان)

الجواب بعون الملك الوهاب

سخت اور تنگ پنجے کاجوتا جوسجدہ میں انگلیوں کاپیٹ زمین پررکھنےاوران پر زوردینے سے مانع ہو ایسا جوتا پہن کرنماز پڑھنامذہب مشہورہ و مفتی بہ قول کے مطابق سرے سے نماز کو فاسد کر دیتا ہے کیونکہ جب پاؤں کی انگلیوں کا پیٹ زمین پرنہ لگاسجدہ نہ ہوا اور جب سجدہ نہ ہوا نماز نہ ہوئی۔اوراگر اسی طرح کے جوتے ہوں کہ سنت سجدہ  میں بھی خلل نہ ڈالیں تو اگر وہ نئے بالکل غیراستعمال شدہ ہوں تو انہیں پہن کر نمازپڑھنے میں کوئی  حرج نہیں بلکہ افضل ہے اگرچہ مسجد میں ہو۔ اور عند التحقیق استعمال شدہ جوتے پہن کرنمازپڑھنی مکروہ ہے اور اگرمعاذاﷲ نماز کو ہلکا جان کر استعمال شدہ جوتا پہنے ہوئے نماز کوکھڑاہوگیا تویہ صریح کفرہے پھراستخفاف کی نیت  کےبغیرمکروہ اس صورت میں ہےجب کہ غیرمسجد میں ایساکرے اور مسجد میں تو استعمال شدہ  جوتے پہن کر جاناہی ممنوع وناجائز ہے۔ ایساجوتا پہن کر نماز پڑھنا  تو  اس سے بھی زیادہ سخت ممنوع وناجائز ہو گا۔

اس طرح کے ایک سوال کے جواب میں اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضاخان قادری بریلوی رحمۃ اللہ القوی لکھتے ہیں ۔

اللھم ھدایۃ الحق والصواب اقول وباﷲ التوفیق وبہ الحصول الی ذری التحقیق (اے اﷲ! حق اور صواب کی ہدایت دے اقول اور اﷲ ہی توفیق دینے والا اور وہ ہے جو تحقیق کی منزل پرپہنچانے والا ہے۔ت) سخت اور تنگ پنجے کاجوتا جوسجدہ میں انگلیوں کاپیٹ زمین پربچھانے اور اس پر اعتماد کرنے زوردینے سے مانع ہو ایسا جوتا پہن کرنماز پڑھنی صرف کراہت و اساءت درکنارمذہب مشہورہ و مفتی بہ کی روسے راساً مفسد نماز ہے کہ جب پاؤں کی انگلی پراعتماد نہ ہوا سجدہ نہ ہوا اور جب سجدہ نہ ہوا نماز نہ ہوئی، امام ابوبکرجصاص و امام کرخی و امام قدوری و امام برہان الدین صاحبِ ہدایہ وغیرہم اجلہ ائمہ نے اس کی تصریح فرمائی، محیطو خلاصہ و بزازیہ و کافی و فتح القدیر و سراج و کفایہ و مجتبٰی و شرح المجمع للمصنف و منیہ و غنیہ شرح منیہ و فیض المولی الکریم و جوہرئہ نیرہ و نورالایضاح و مراقی الفلاح و درمنتقی و درمختار و علمگیریہ و فتح المعین علامہ ابوالسعود ازہری و حواشی علامہ نوح آفندی وغیرہا کتب معتمدہ میں اسی پرجزم فرمایا زاہدی نے کہا یہی ظاہرالروایۃ ہے علامہ ابراہیم کرکی نے فرمایا اسی پرفتوٰی ہے، جامع الرموز میں قنیہ سے نقل کیا یہی صحیح ہے، ردالمحتار میں لکھا کتب مذہب میں یہی مشہور ہے،

 

درمختارمیں ہے: فیہ (ای فی شرح الملتقی) یفترض وضع اصابع القدم ولوواحدۃ نحوالقبلۃ والا لم تجز والناس عنہ غافلون وشرط طھارۃ المکان وان یجد حجم الارض والناس عنہ غافلون۱؎اھ  ملخصاً اس (شراح الملتقی) میں ہے قدم کی انگلیوں کا زمین پرجانب قبلہ رکھنا فرض ہے خواہ وہ ایک ہی کیوں نہ ہو ورنہ جائز نہیں اور لوگ اس سے غافل ہیں اور مکان کاپاک ہونا بھی شرط ہے اور حجم زمین کوپانا اور لوگ اس سے بھی غافل ہیں اھ  تلخیصاً(ت)

 

(۱؎ درمختار    فصل واذا اراد الشروع فی الصلٰوۃ کبّر    مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی بھارت    ۱ /۷۲)

 

اسی میں ہے : منھا(ای من الفرائض) السجود بجبھتہ وقدمیہ ووضع اصبع واحدۃ منھما شرط۱؎۔ ان میں سے (یعنی فرائض میں سے) پیشانی اور قدمین پرسجدہ کرناہے اور ان دونوں پاؤں میں سے ایک انگلی کالگنا شرط ہے۔(ت)

 

(۱؎ درمختار       باب صفۃ الصلٰوۃ     مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی بھارت    ۱ /۷۰)

منیہ میں ہے : لوسجد ولم یضع قدمیہ علی الارض لایجوز ولووضع احدھما جاز۲؎۔ اگرسجدہ کیا لیکن قدم زمین پرنہ لگے تووہ جائز نہ ہوگا اور اگران سے ایک قدم لگ گیا توجائزہوگا(ت)

 

 (۲؎ منیۃ المصلی  باب فرائض صلٰوۃ مبحث السجود  مطبوعہ مکتبہ قادریہ جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور    ص۲۶۱)

 

غننہ میں ہے: المراد من وضع القدم وضع اصابعھا قال الزاھ دی ووضع رؤس القدمین حالۃ السجود فرض، وفی مختصر الکرخی سجد ورفع اصابع رجلیہ عن الارض لاتجوز، وکذا فی الخلاصۃ والبزازی وضع القدم بوضع اصابعہ وان وضع اصبعا واحدۃ اووضع ظھرالقدم بلااصابع ان وجع مع ذٰلک احدی قدمیہ صح والافلا، فھم من ھذا ان المراد بوضع الاصابع توجیھھا نھو القبلۃ لیکون الاعتماد علیھا والافھووضع ظھرالقدم وقدجعلہ غیرمعتبر وھذا ممایجب التنبیہ لہ فان اکثرالناس عنہ غافلون۳؎۔

 

قدم رکھنے سے مراد اس کی انگلیوں کورکھنا ہے، زاہدی نے کہا حالت سجدہ میں دونوں قدموں کی انگلیوں کے سروں کازمین پررکھنا فرض ہے۔ مختصرکرخی میں ہے اگرکسی نے سجدہ کیا مگرپاؤں کی انگلیان زمین سے اٹھی رہیں تو سجدہ نہ ہوگا۔ اسی طرح خلاصہ میں ہے۔ بزازیہ میں قدم رکھنے سے مراد انگلیوں کارکھناہے اور اگرقدم کی پشت انگلیوں کے بغیر لگائی تو اگراس کے ساتھ کسی ایک قدم کوبھی لگایاتوصحیح ورنہ نہیں، اس سے یہ بھی سمجھ آرہاہے کہ انگلیوں کے رکھنے سے مراد انہیں قبلہ کی طرف کرنا ہے تاکہ ان پرٹیک ہو ورنہ قدم کی پشت پر ہوگا اور اسے توغیر معتبر قرار دیا گیا ہے اور اس پرمتنبہ ہونانہایت ضروری ہے کیونکہ اکثرلوگ اس سے غافل ہیں۔(ت)

 

 (۳؎ غنیہ المستملی شرح منیۃ المصلی    فرائض صلٰوۃ        مطبوعہ سہیل اکیڈمی لاہور        ص۲۸۵)

 

بحرالرائق و شرنبلالیہ میں ہے : السجود فی الشریعۃ وضع بعض الوجہ ممالاسخریۃ فیہ وخرج بقولنا لاسخریۃ فیہ ما اذا رفع قدمیہ فی السجود فانہ لایصح لان السجود مع رفعھما بالتلاعب اشبہ منہ بالتعظیم والاجلال ویکفیہ وضع اصبع واحدۃ فلو لم یضع الاصابع اصلا ووضع ظاھر القدم فانہ لایجوز لان وضع القدم بوضع الاصبع  اھ  ملتقطا۱؎۔ شریعت میں سجدہ یہ ہے چہرہ کازمین پررکھنا اور اس میں سخریت نہ ہو ''لاسخریۃ فیہ'' سے وہ صورت خارج ہوجاتی ہے جس میں دونوں قدم حالت سجدہ میں زمین پر نہ ہوں کیونکہ حالت سجدہ میں ان کازمین سے اٹھاہواہونا تعظیم وعزت کے بجائے مذاق پردالالت کرتاہے اور اس میں ایک انگلی کازمین پرلگ جانا کافی ہوتاہے۔ پس اگرکسی نے انگلیاں بالکل نہیں لگائیں مگر پشت قدم کولگایا تویہ جائز نہیں کیونکہ قدم کے رکھنے سے مرادانگلی کالگانا ہے اھ  تلخیصاً(ت)

 

 (۱؎ بحرالرائق        باب صفۃ الصلٰوۃ     مطبوعہ ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی     ۱ /۲۹۳)

اس تمام گفتگو سے آشکار ہوگیا کہ حالت سجدہ میں قدم کی دس انگلیوں میں سے ایک کے باطن پراعتماد مذہب معتمد اور مفتی بہ میں فرض ہے اور دونوں پاؤں کی تمام یااکثر انگلیوں پراعتماد بعیدنہیں کہ واجب ہو اس بناپر جو حلیہ میں ہے اور قبلہ کی طرف متوجہ کرنا بغیرکسی انحراف کے سنت ہے اس یکتا، منفرد اور روشن گفتگو کوغنیمت جانوشاید اس فقیر کے علاوہ کسی اور کے ہاں تم کو نہ ملے، اﷲ تعالٰی کے لئے ہی حمدواحسان ہے۔(ت)

 

اور شک نہیں کہ ان بلاد میں اکثر جوتے سلیم شاہی پنجابی خوردنوکے منڈے گرگابی وغیرہا خصوصاً جبکہ نئے ہوں ایسے ہی ہوتے ہیں کہ انگلیوں کاپیٹ زمین پرباعتماد تمام بچھنے نہ دیں گے گو ان جوتوں کوپہن کر مذہب مفتی بہ پرنماز ہوگی ہی نہیں اور گناہ وناجوازی توضرور نقد وقت ہے عرب شریف کے جوتوں میں صرف پاؤں کے نیچے چمڑا ہوتاتھا اور اوپر بندش کے لئے تسمہ جسے شراکت کہتے تھے پھر عرب میں نعل کی تعریف یہ تھی کہ نرم ورقیق ہو یہان تک کہ صرف اکہرے پَرت کی زیادہ پسند رکھتے،

مجمع بحارالانوار میں زیرحدیث : ان رجلا شکا الیہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم رجلا من الانصار فقال یاخیر من یمشی بنعل فرد، والفرد ھی التی تخصف ولم تطارق وانما ھی طارق واحد والعرب یمدح برقۃ النعال ویجعلھا من لباس الملوک۱؎۔ ایک آدمی نے رسالت مآب صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی خدمت میں ایک انصاری کی شکایت کرتے ہوئے کہا: اے ایک پرت والے جوتے پہننے والوں میں افضل ترین ذات۔ فرد اس نعل کوکہتے ہیں جس کاایک پرت ہو، اور عرب جوتے کی نرمی کوپسند کرتے ہیں اور یہ ملوک کالباس ہے(ت)

 

 (۱؎ مجمع بحارالانوار     لفظ فعل کے تحت مذکور ہے        مطبوعہ نولکشور لکھنؤ    ۳ /۳۷۳)

 

تو وہ کیسے ہی نئے ہوتے سجدہ میں فرض وواجب کیاکسی طریقہ مسنونہ کوبھی مانع نہ ہوتے اُن نعال پریہاں کی جوتیوں کاقیاس صحیح نہیں، پھر اگر اسی طرح کے جوتے ہوں کہ سنت سجدہ  میں بھی خلل نہ ڈالیں تو اگر وہ نئے بالکل غیراستعمالی ہیں تو انہیں پہن کر نمازپڑھنے میں حرج نہیں بلکہ افضل ہے اگرچہ مسجد میں ہو۔

درمختارمیں ہے: صلاتہ فیھما افضل۱؎  (ان میں نماز افضل ہے۔ت)

 

 (۱؎ درمختار        باب مایفسد الصلٰوۃ ومایکرہ فیہا    مطبوعہ مجتبائی دہلی    ۱ /۹۱)

 

مگرعندالتحقیق استعمالی جوتے پہن کرنمازپڑھنی مکروہ ہے اور اگرمعاذاﷲ نماز کو کہ حاضری بارگاہ شہنشاہ حقیقی ملک الملوک رب العرش عزجلالہ ہے ہلکا جان کر استعمالی جوتا پہنے ہوئے نماز کوکھڑاہوگیا توصریح کفرہے پھر بے نیت استخفاف نری کراہت بھی اس حالت میں ہے کہ غیرمسجد میں ایساکرے اور مسجد میں تو استعمالی جوتے پہنے جاناہی ممنوع وناجائز ہے نہ کہ مسجد میں یہ جوتا پہنے، شرکت جماعت نمازودخول مسجد کے یہ احکام بحمداﷲ تعالٰی دلائل کثیرہ سے روشن ہیں تفصیل موجوب تطویل ہوگی لہٰذا چند کلمات نافع وسودمند باذن اﷲ تعالٰی سے القا کرے کہ بعونہ تعالٰی احکام کا ایضاح اور اوہام کا ازالہ کریں ۔ت)

 

فاقول و باللہ استعین  ( پس میں اللہ تعالٰی سے مدد طلب کرتے ہوئے کہتا ہوں )

افادئہ اول متون وشروح وفتاوٰی تمام کتب مذہب میں بلاخلاف تصریف صاف ہے کہ ثیاب بذلت و مَہنت یعنی وہ کپڑے جن کو آدمی اپنے گھر میں کام کاج کے وقت پہنے رہتاہے جنہیں میل کچیل سے بچایا نہیں جاتا انہیں پہن کرنماز پڑھنی مکروہ ہے،

 

تنویرالابصار و درمختار میں ہے : کرہ صلوتہ فی ثیاب بذلۃ (یلبسھا فی بیتہ) (ومھنۃ) ای خدمۃ ان لہ غیرھا۲؎۔ کام کے کپڑوں میں نماز مکروہ ہے(وہ کپڑے جوگھر میں پہنتاہے) (اور صنعت کے کپڑوں میں) یعنی خدمت والے اگر اس کے پاس دوسرے کپڑے ہوں (ت)

 

 (۲؎ درمختار        باب مایفسد الصلٰوۃ ومایکرہ فیہا    مطبوعہ مجتبائی دہلی    ۱ /۹۱)

 

درر و غرر و شرح وقایہ و مجمع الانہر و بحرالرائق و ردالمحتار میں ان کی تفسیر کی: مایلبسہ فی بیتہ ولایذھب بہ الی الاکابر۳؎۔ جوکپڑے صرف گھرمیں پہنتاہو وہ پہن کراکابر کے ہاں نہ جاتاہو۔(ت)

 

 (۳؎ ردالمحتار        مطلب مکروہات الصلٰوۃ        مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱ /۴۷۴)

 

غنیہ میں اُن کی تفسیرکی: مالایصان ولایحفظ من الدنس ونحوہ۴؎  (جن کپڑوں کووہ میل کچیل سے محفوظ نہ رکھتا ہو۔ت)

 

 (۴؎ غنیہ المستملی    فصل کراہتیہ الصلٰوۃ        مطبوعہ سہیل اکیڈمی لاہور    س۳۴۹)

 

اُسی میں ہے : یکرہ تکمیلا لرعایۃ الادب فی الوقوف بین یدیہ تعالٰی بما امکن من تجمیل الظاھر  والباطن وفی قولہ تعالٰی خذوا زینتکم عند کل مسجد اشارۃ الٰی ذلک وان کان المراد بھا سترالعورۃ علی ماذکرہ اھل التفسیر کما تقدم۱؎۔ اﷲ تعالٰی کی بارگاہ اقدس میں ظاہری وباطنی جمال کا حصول اس بارگاہ کے آداب میں سے ہے اور اﷲ تعالٰی کے ارشادِ گرامی ''تم ہرمسجد میں جانے کے وقت زینت اختیار کرو'' میں اسی طرف اشارہ ہے اگرچہ اس سے مراد سترِعورت ہے جیسا کہ مفسرین نے بیان کیا(ت)

 

 (۱؎ غنیہ المستملی     فصل کراہیۃ الصلٰوۃ    مطبوعہ     سہیل اکیڈمی لاہور        ص۳۴۹)

 

امیرالمومنین فاروق اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے ایک شخص کو ایسے ہی کپڑوں میں نماز پڑھتے دیکھا، فرمایا: بھلا بتاؤ تو اگرمیں کسی آدمی کے پاس تجھے بھیجوں تو انہیں کپڑوں سے چلاجائے گا؟ کہانہ۔ فرمایا: تو اﷲ تعالٰی زیادہ مستحق ہے کہ اس کے دربار میں زینت وادب کے ساتھ حاضر ہو۔

 

حلیہ پھر بحرالرائق میں ہے : احتج لہ فی الذخیرۃ بانہ روی ان عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ رأی رجلا فعل ذلک فقال رأیت لوارسلتک الی بعض الناس اکنت تمرفی ثیابک ھذہ فقال لافقال عمرفاﷲ احق ان یتزین لہ۲؎۔ ذخیرہ میں اس پریوں استدلال ہے کہ حضرت عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے ایک شخص کو ایسے کرتے ہوئے دیکھا توفرمایا کیا خیال ہے اگرتجھے میں کسی آدمی کے پاس بھیجوں توتوانہیں کپڑوں میں چلاجائے گا؟ عرض کیا: نہیں۔ فرمایا: اﷲ تعالٰی سب سے زیادہ حقدار ہے کہ اس کے ہاں حاضری کے لئے زینت اختیار کی جائے۔(ت)

 

 (۲؎ بحرالرائق        آخر مکروہات الصلٰوۃ    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی        ۲ /۳)

 

سبحان اﷲ کام خدمت کے کپڑے کہ گھر میں پہنے جاتے ہیں انہیں پہن کرنماز مکروہ ہو اور استعمالی جوتے کہ پاخانے میں پہنے جاتے ہیں انہیں پہن کرنماز مکروہ نہ ہو، معمولی کپڑے کہ میل سے محفوظ نہیں رکھے جاتے اُن سے نماز میں کراہت ہو اور مستعمل جوتے کہ نجاست سے بچائے نہیں جاتے اُن سے نماز میں کراہت نہ ہو یہ بداہت عقل کے خلاف اور صریح خون انصاف ہے ولیس ھذا من باب القیاس بل کماتری استدلال بفحوی الخطاب لایحوم حولہ شک ولاارتیاب  (یہ مسئلہ قیاسی نہیں بلکہ انداز وخطاب سے آپ استدلال دیکھ رہے ہیں اس میں نہ کوئی شک ہے نہ ریب۔ت)

 

افادہ دوم: متون وشروح وفتاوٰی تمام کتب مذہب میں بلاخلاف تصریح صاف ہے کہ اندھے کے پیچھے نماز مکروہ ہے کہ اسے نجاست کامل احتیاط دشوار ہے۔ہدایہ میں ہے : یکرہ تقدیم الاعمی لانہ لایتوقی النجاسۃ۱؎۔ نابینا کاامام بنانامکروہ ہے کیونکہ وہ نجاست سے نہیں بچ سکتا۔(ت)

 

 (۱؎ الہدایہ       باب الامامۃ        مطبوعہ المکتبۃ العربیۃ کراچی        ۱ /۱۰۱)

 

کافی امام نسفی میں ہے : الاعمی لایصون ثیابہ عن النجاسات فالبصیر اولی بالامامۃ۲؎۔ نابینا اپنے کپڑوں کونجاست سے محفوظ نہیں رکھ سکتا لہٰذا امامت کے لئے بیناہونا بہترہے(ت)

 

 (۲؎ کافی شرح وافی)

 

درمختارمیں ہے : ونحوہ الاعشی، نھر۳؎  (اس کی مثل اعشی ہے، نہر۔ت)

 

 (۳؎ الدرالمختار     باب الاحق بالامامۃ    مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی        ۱ /۸۳)

 

ردالمتارمیں ہے : الاعشی ھوسیئ البصر لیلاونھارا قاموس و ھذا ذکرہ فی النھر بحثا اخذا من تعلیل الاعمی بانہ لایتوقی النجاسۃ۴؎۔ اعشی سے مراد وہ شخص ہے جس کی دن  یا رات کو نظرکم ہوجائے، قاموس، نہر میں نابینا کی علت یہی بیان ہوئی ہے کہ وہ نجاست سے نہیں بچ سکتا۔(ت)

 

 (۴؎ ردالمحتار            باب الامامۃ        مطبوعہ مصطفی البابی مصر        ۱ /۴۱۴)

 

ابوالسعود علی الکنز میں ہے : والاعمی لانہ لایتوقی النجاسۃ وھذا یقتضی کراھۃ  امامۃ الاعشی۵؎۔ نابینا کیونکہ وہ نجاست سے نہیں بچ سکتا اور یہ تقاضاکرتاہے کہ اعشی کی امامت بھی مکروہ ہو۔(ت)

 

 (۵؎ فتح المعین حاشیہ علی شرح الکنز    باب الامامۃ        مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۲۰۸)

 

طحطاوی علی المراقی میں اس کے بعد ہے: وھوالذی لایبصرلیلا۱؎  (وہ شخص جسے رات کودکھائی نہ دے۔ت)

 

 (۱؎ طحطاوی علی مراقی الفلاح   فصل فی ابیان الاحق بالامامۃ  مطبوعہ نورمحمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ص۱۶۵)

 

محل انصاف ہے کہ نمازی پرہیزگار نابینا بلکہ ضعیف البصر کے کپڑوں یابدن پراندیشہ ومظنہ نجاست زیادہ ہے یاان استعمالی جوتوں پرجنہیں پہن کرپاخانے تک میں جانا ہوتاہے پھروہاں کراہت ہونایہاں نہ ہونا صریح عکس مدعا ہے بلکہ وہان ایک حصہ کراہت ہو تو یہاں کئی حصے ہوناہے۔

افادہ سوم :علمائے حدیث مذکورسوال کی شرح میں تصریح فرمائی کہ عام لوگوں کو رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم پرقیاس صحیح نہیں حضورپرنورصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے برابرکون احیتاط کرسکتاہے!

اقول اور اگرنادراً کوئی شئے واقع ہو تو جبریل امین علیہ الصلٰوۃ والتسلیم حاضرہوکر عرض کردیتے ہیں جیسا کہ حدیث خلع نعال فی الصلٰوۃ سے ثابت ہے۔

 

مجمع بحارالانوار میں برمز''ن'' فرمایا: یصلی فی النعلین لایوخذ منہ لغیرہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم لان حفظ غیرہ لایلحق بہ۲؎۔ حضورعلیہ السلام نے نعلین میں نماز ادا کی اس سے کوئی دوسرا استدلال نہیں کرسکتا کیونکہ کوئی دوسرا آپ کی طرح حفاظت نہیں کرسکتا۔(ت)

 

 (۲؎ مجمع بحارالانوار        تحت لفظ نعل            مطبوعہ منشی نولکشور لکھنؤ        ۳ /۳۷۳)

 

افادہ چہارم : بے جرم نجاست مثل بول وغیرہ کامطلقاً صرف زمین پررگڑدینے سے پاک ہوجانا جیسا کہ سوال میں بیان کیا حسب تصریح صریح کتب معتمدہ تمام ائمہ مذہب کے خلاف ہے، امام محمد کے نزدیک تونعل وخف بھی مطلقاً بے دھوئے پاک نہیں ہوسکتے جیسے کپڑے کاحکم ہے اور امام اعظم کے نزدیک نجاست جومردار اور خشک ہوگئی ہو ا س کے بعد اس قدررگڑیں کہ اس کااثرزائل ہوجائے اس وقت طہارت ہوگی اور ترنجاست یابے جرم جیسے پیشاب وغیرہ بے دھوئے پاک نہ ہوں گے، اور امام ابی یوسف کی روایت میں اگرچہ خشک ہوجانا شرط نہیں تر بھی ملنے ولنے اثرزائل کردینے سے پاک ہوسکتی ہے مگرجرم دار نجاست کی ضرور قید ہے، اکثر مشائخ نے قول امام ابی یوسف ہی اختیارکیا اور یہی مختار للفتوی ہے تو بے جرم نجاست کی بے دھوئے تطہیر ائمہ ثلثہ مذہب کے بھی خلاف اور جمہور مشائخ مذہب کے بھی خلاف اور قول مختارللفتوی کے بھی خلاف ہے وقدصرحواان لاعبرۃ بالبحث علی خلاف المنقول  (اس کی تصریح کی ہے کہ خلاف منقول بحث کااعتبارنہیں۔ت)

 

ہدایہ میں ہے: اذا اصاب الخف نجاسۃ لہا جرم کالروث والعذرۃ والدم فجفت فدلکہ بالارض جاز وھذا استحسان وقال محمد رحمہ اﷲ تعالٰی لایجوز وھوالقیاس وفی الرطب لایجوز حتی یغسلہ وعن ابی یوسف رحمہ اﷲ تعالٰی انہ اذا مسحہ بالارض حتی لم یبق اثرالنجاسۃ یطھر لعموم البلوی واطلاق مایروی و علیہ مشائخنا رحمھم اﷲ تعالٰی فان اصابہ بول فیبس لم یجز حتی یغسلہ وکذا کل مالاجرم لہ کالخمر۱؎۔ (مختصراً) جب موزے پر ایسی نجاست لگ جائے جس کا جسم ہو مثلاً لید، پاخانہ، خون اور خشک ہوجائے توزمین پررگڑ لیاجائے توجائز ہے اور یہ استحساناً ہے۔ امام محمد نے فرمایا یہ جائز نہیں قیاس کا تقاضا یہی ہے اور اگرنجاست ترہو تو دوھونے سے پہلے جائزنہیں۔ امام ابویوسف نے کہاجب زمین پررگڑا حتی کہ نجاست کا اثر باقی نہ رہا تو عمومی ضرورت کے پیش نظر یہ پاک ہوجائے گا اور مروی کا اطلاق یہی ہے اور ہمارے مشائخ رحمہم اﷲ تعالٰی اسی پر ہیں اور اگرپیشاب موزے پر لگ گیا اور خشک ہوگیا تو دھوئے بغیر جائزنہیں اور یہی حکم ہر اس نجاست کا ہے جس کا جسم نہیں مثلاً شراب۔(مختصراً)(ت)

 

 (۱؎ الہدایہ      باب الانجاس وتطہیرہا    مطبوعہ المکتبۃ العربیۃ کراچی        ۱ /۵۶)

 

فتح القدیر میں ہے : وعلی قول ابی یوسف اکثر المشائخ وھوالمختار۲؎۔ اکثر مشائخ قول ابویوسف پر ہیں اور یہی مختار ہے(ت)

 

 (۲؎ فتح القدیر     باب الانجاس وتطہیرہا    مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھر        ۱ /۱۷۲)

 

عنایہ میں ہے : علیہ اکثر مشائخنا قال شمس الائمۃ السرخسی وھو صحیح وعلیہ الفتوی۳؎۔ ہمارے اکثرمشائخ اسی پر ہیں۔ شمس الائمہ سرخسی نے فرمایا یہی صحیح ہے اور اسی پر فتوی ہے(ت)

 

 (۳؎ عنایۃ شرح علی حاشیۃ فتح القدیر    باب الانجاس وتطہیرہا    مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھر        ۱ /۱۷۲)

 

حلیہ میں ہے: فی الخلاصۃ وعلیہ عامۃ المشائخ و ھوالصحیح ونص فی الفتاوٰی الخانیۃ والکافی والحاویعلی ان الفتوی علیہ۱؎۔ خلاصہ میں ہے اسی پر عام مشائخ ہیں اور یہی صحیح ہے اور خانیہ، کافی اور حاوی میں تصریح ہے کہ فتوٰی اسی پر ہے۔(ت)

 

 (۱؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)

 

بحرالرائق میں ہے : علی قولہ اکثر المشائخ وفی النھایۃ والعنایۃ والخانیۃ والخلاصۃ وعلیہ الفتوی و فی فتح القدیر وھوالمختار۲؎۔ اکثرمشائخ اسی قول پرہیں نہایہ، عنایہ، خانیہ اور خلاصہ میں ہے کہ فتوی اسی پر ہے، فتح القدیر میں ہے یہی مختار ہے ۔ (ت)

 

(۲؎ بحرالرائق    باب الانجاس    مطبوعہ ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی    ۱ /۲۲۳)

 

تنویر الابصارمیں ہے : یطھر خف ونحوہ تنجس بذی جرم بدلک ولافیغسل۳؎۔ اگرموزہ یا اس کی مانند کوئی شئی صاحب جسم نجاست سے ناپاک ہوجائے تو وہ رگڑنے سے پاک ہوجائے گی ورنہ دھونا ضروری ہوگا۔(ت)

 

(۳؎ درمختار   باب الانجاس     مطبع مجتبائی دہلی   ۱ /۵۳)

 

طحطاوی علی المراقی الفلاح میں ہے : واحترز بہ عن غیر ذی الجرم فانہ یغسل اتفاقا ذکرہ العینی۴؎۔ اس سے اس نجاست سے احتراز ہے جو جسم والی نہ ہو کیونکہ اس صورت میں اسے بالاتفاق دھوناضروری ہے۔ اسے عینی نے ذکرکیا۔(ت)

 

 (۴؎ طحطاوی علی المرقی الفلاح        باب الانجاس        مطبوعہ نورمحمد کارخانہ تجارت کتب کراچی    ص۸۷)

 

بحر میں ہے : ان لم یکن لھا جرم فلابد من غسلہ واشتراط الجرم قول الکل لانہ لو اصابہ بول فیبس لم یجزہ حتی یغسلہ لان الاجزاء تتشرب فیہ فاتفق الکل علی ان المطلق مقید الخ۱؎ مختصرا۔ اگرجسم والی نجاست نہ ہو تو اس کا دھونا ضروری ہے اور جسم کاشرط ہوناتمام کاقول ہے اس لئے کہ اگر پیشاب لگ گیا اور خشک ہوگیا تودھونے کے سوا جواز نہ ہوگا کیونکہ اس کے اجزاء اس شئے میں داخل ہوچکے ہیں تو سب کااتفاق ہے اس بات پر کہ مطلق مقید ہے الخ تلخیصاً(ت)

 

 (۱؎ بحرالرائق       باب الانجاس   مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی     ۱ /۲۲۳ )

 

منحۃ الخالق میں ہے : الحاصل انھم اتفقوا علی التقیید بالجرم۲؎۔ خلاصہ یہ ہے کہ تمام فقہاء کا اس قید پراتفاق ہے کہ وہ نجاست جسم والی ہو۔(ت)

 

 (۲؎ منحۃ الخالق حاشیۃ علی البحرالرائق     باب الانجاس    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی     ۱ /۲۲۳)

 

غنیہ میں ہے : ان لم یکن لھا ای للنجاسۃ التی اصابت الخف جرم کالبول والخمر ونحوھما فلابد من الغسل بالاتفاق رطبا کان او یابسا۳؎۔ اگرنجاست کے لئے جسم نہیں جوموزے کو لگی مثلاً بول وشراب وغیرہ تووہ خشک ہوگی یاابھی ترہے اسے بالاتفاق دھونا ضروری ہے۔(ت)

 

 (۳؎ غنیہ المستملی     فصل فی آسار     مطبوعہ سہیل اکیڈمی لاہور        ص۱۷۸)

 

ردالمحتار میں علامہ مقدسی سے ہے: البحث لایقضی علی المذھب۴؎  (اختلاف، مذہب پرفائق نہیں۔ت)

 

 (۴؎ ردالمحتار      باب نکاح الرقیق      مطبوعہ مصطفی البابی مصر        ۲ /۴۱۰)

 

اُسی میں ہے : الفرض فی اشواط الطواف اکثر السبع لاکلھا وان قال المحقق ابن الھمام ان الذی ندین اﷲ تعالٰی بہ ان لایجزئ اقل من السبع ولایجبر بعضہ بشیئ فانہ من ابحاثہ المخالفۃ لاھل المذھب قاطبۃ کما فی البحر وقد قال تلمیذہ العلامۃ قاسم ان ابحاثہ المخالفۃ المذھب لاتعتبر۵؎۔ طواف میں فرض سات چکروں کااکثرہے نہ کہ تمام، اگرچہ محقق ابن ہمام نے فرمایا ہے کہ اﷲ تعالٰی ہمیں تب جزا دے گا جب سات سے کم نہ کریں اس کمی کا ازالہ کسی اور شئی سے نہیں کیاجاسکتا کیونکہ یہ ابحاث اہل مذھب کے مخالف ہیں جیسا کہ بحرمیں ہے ان کے شاگر علامہ قاسم نے کہا کہ مذہب کے مخالف ابحاث کاکوئی اعتبارنہیں۔(ت)

 

 (۵؎ ردالمحتار    باب الجنایات     مطبوعہ مصطفی البابی مصر        ۲ /۲۲۴)

 

اور شک نہیں کہ اکثرنجاست کہ عام لوگوں کے جوتوں کولگتی ہے یہی نجاست رقیقہ استنجے کے پانی اور پیشاب کی ہوتی ہے۔واﷲ اعلم(فتاوٰی رضویہ :ج۷،ص۶۵تا۷۰)

  • مفتی محمد سیف اللہ باروی
  • رئیس دارالافتاء مفتی محمد اکرام المحسن فیضی

متعلقہ

تجویزوآراء