نوافل کی جماعت کا حکم
نوافل کی جماعت کا حکم
حضرت یہ فرمائیے گا کہ اس وقت تقریبا ہر جگہ مساجد میں علمائے اہلسنت صلوات التسبیح باجماعت ادا فرما رہے ہیں، اس کا جواز کیا ہے؟اسکی نیت کیا کی جائے گی اور اسکو کس طرح ادا کیا جائے گا؟ سری نماز ہوگی یا جہری؟مقتدی خاموش رہیں گے یا تیسرا کلمہ پڑھتے رہیں گے؟ درمیان میں شامل ہونے والے مقتدی کتنی تعداد میں اور کس طرح تیسرا کلمہ پڑہیں گے؟ ہم آج تک عدم جواز بیان کرتے آئے ہیں مگر اب اشتھاروں کے ساتھ اسکا اہتمام ہوتا ہے. لوگ ہم کو بھی پڑھانے کے لئے دبائو ڈال رہے ہیں.؟؟(سید مبشر قادری)
الجواب بعون الملك الوهاب
فقہاء کرام نے نوافل مثلاً صلوۃ التسبیح کی جماعت کو مکروہ لکھا ہے۔یہاں کراہت سے مراد کراہت تنزیہی یعنی خلافِ اولی ہے۔ اب جبکہ مسلمانوں کا عرف اس پر ہوچکا ہے تو کراہت بھی ختم ہوگئی۔ عدم جواز کے قائلین کا اس سے منع کرنا حکمتِ شرع اور قواعدِ فقہیہ کے خلاف ہے۔ [ فتاوی رضویہ، ج:7، ص:465، رضا فاؤنڈیشن لاہور]۔
بلکہ عوام کے سامنے خلاف اولی بھی نہ کہاجائے کیونکہ عوام الناس پہلے ہی نیکیوں میں کم رغبت رکھتے ہیں، خلاف اولی کا سنکر نوافل بالکل ہی چھوڑدیں گے اور سستی کی وجہ سے بغیر جماعت بھی نہ پڑھیں گے، لہذ۱ عوام کو اللہ عزوجل اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لینے سے نہ روکا جائے بلکہ انہیں سہولت کے ساتھ ذکر خدا و رسول عزوجل وصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لایا جائے۔ عوام کو اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنے اور نیکیوں کی طرف رغبت دلانے کے لئے اس طرح مقدس اور بڑی راتوں میں نوافل کی جماعتیں کرنا جائز ہے اور عموماً دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ اگر جماعت نہ کرائی جائے تو بہت سارے لوگ نوافل پڑھے بغیر لوٹ جاتے ہیں۔
صلوۃ التسبیح کا طریقہ اور تمام تفصیل جاننے کیلئے بہار شریعت، جلد 1، حصہ 4، بعنوان"صلاۃ التسبیح"، صفحہ 483، مکتبۃ المدینہ کراچی۔۔۔۔۔ کا مطالعہ کیجئے۔ یہ کتاب مکتبوں اور نیٹ پر بھی عام دستیاب ہے۔