آغاز عشق ہمدم انجام تک نہ پہونچے آجائے صبح ایسی پھر شام تک نہ پہونچے میدان عاشقی میں چلنا سنبھل سنبھل کر یہ دل لگی تمہاری الزام تک پہونچے ملنا تو اس حسیں سے اک وہم ہے جنوں کا لیکن یہ ظلم کیسا پیغام تک نہ پہونچے منت کشی سے بہتر محرومیاں ہیں میری اچھا ہوا جو بزمِ انعام تک نہ پہونچے کس طرح اس نظر کو اخؔتر نظر کہوں میں آغاز کو تو دیکھے انجام تک نہ پہونچے