رباعیات
جانِ گلزارِ مصطفائی تم ہو
مختار ہو مالکِ خدائی تم ہو
جلوہ سے تمہارے ہے عیاں شانِ خدا
آئینۂ ذاتِ کبریائی تم ہو
جانِ گلزارِ مصطفائی تم ہو
مختار ہو مالکِ خدائی تم ہو
جلوہ سے تمہارے ہے عیاں شانِ خدا
آئینۂ ذاتِ کبریائی تم ہو
السلام اے خسروِ دنیا و دیں
السلام اے راحتِ جانِ حزیں
ہوا ہوں دادِ ستم کو میں حاضرِ دربار
گواہ ہیں دلِ محزون و چشمِ دریا بار
طرح طرح سے ستاتا ہے زمرۂ اشرار
بدیع بہر خدا حرمتِ شہِ ابرار
مدار چشمِ عنایت زمن دریغ مدار
نگاہِ لطف و کرم از حسنؔ دریغ مدار
ساقی کچھ اپنے بادہ کشوں کی خبر بھی ہے
ہم بے کسوں کے حال پہ تجھ کو نظر بھی ہے
نجدیا سخت ہی گندی ہے طبیعت تیری
کفر کیا شرک کا فضلہ ہے نجاست تیری
ہے پاک رُتبہ فکر سے اُس بے نیاز کا
کچھ دخل عقل کا ہے نہ کام اِمتیاز کا
فکر اَسفل ہے مری مرتبہ اعلیٰ تیرا
وصف کیا خاک لکھے خاک کا پُتلا تیرا
جن و اِنسان و ملک کو ہے بھروسا تیرا
سرورا مرجعِ کل ہے درِ والا تیرا
خواجۂ ہند وہ دربار ہے اعلیٰ تیرا
کبھی محروم نہیں مانگنے والا تیرا