حضرت مولانا مفتی محمد فاران رضا خان  

علم کا فضل کا تھا وہ کوہ گراں آبروئے سنن مفتئ جاورہ

علم کا فضل کا تھا وہ کوہ گراں آبروئے سنن مفتئ جاورہ
اہلسنت کا تھا ایک روح رواں آبروئے سنن مفتئ جاورہ

صحبت شیر سنت میں ہوکر مگن ترک تونے کیا بیچنے میں وطن
قابل دید تھیں تیری سر گرمیاں آبروئے سنن مفتئ جاورہ

لمحہ لمحہ تیری زندگی دیکھ لی بس نظر آئی تبلیغِ عشق نبی
خود بھی مٹ کر اسی پر ہوئے جاوداں آبروئے سنن مفتئ جاورہ

حاسدوں سے کہو کہ حسد چھوڑ دیں ورنہ آرام کی وہ طلب چھوڑ دیں
تجھ سے ہو کرخفا بس کرینگے فغاں آبروئے سنن مفتئ جاورہ

میرے نانا بھی ہیں میرے رہبر بھی ہیں اور علم و حکم کے سمندر بھی ہیں
آہ ایسا ملیگا کہاں پاسباں آبروئے سنن مفتئ جاورہ

داغ عشق نبی پر وہ پہرہ دیا کفر پر شرک پر بن کے بجلی گرا
دشمن دین پرکوہ آتش فشاں آبروئے سنن مفتئ جاورہ

مسند علم پر تو غزالی رہا ممبروں پر دیکھا مثل شیرِرضا
خود میں تو تھا مکمل ہی اک کارواں آبروئے سنن مفتئ جاورہ

اعلیٰ حضرت کے فتوے پہ عامل رہاہوگی بیرون مسجد اذن ہی ادا
حفظِ سنت میں بھی تیری قربانیاں آبروئے سنن مفتئ جاورہ

یہ جو پٹیالہ لندن ہے اور جاورہ تیرے جلؤں سے شاداب سیرا ہوا
ایک بادل تھا برسا کہاں اور کہاں آبروئے سنن مفتئ جاورہ

تیری فاراں آواز دل نے کہا خوب مدحت کری مرحبا مرحبا
ہاں مگر فکرِ من تیرا رتبہ کہاں آبروئے سنن مفتئ جاورہ

...

چلو دیکھ لیں وہ حقیقتیں جنہیں دیکھنا بھی مثال ہے

چلو دیکھ لیں وہ حقیقتیں جنہیں دیکھنا بھی مثال ہے
سوئے منتھیٰ جو چلے نبی ابھی امتی کا خیال ہے

لبِ مصطفےٰ وہاں ہل گئے تو گنہگار مچل گئے
میرے امتی کو بچا خدا یہ نبی کا وقتِ وصال ہے

عطا جن کو حسنِ نبی ہوا تو زنانِ مصر پہ کرگئیں
کٹیں سائے حسن میں انگلیاں یہ نبی کا عکسِ جمال ہے

اے اُمیہ تجھ کو خبر کہاں رگِ تن میں ہے نہیں خوں رواں
یہاں دوڑتی ہیں محبتیں یہی کہتا عشقِ بلال ہے

یہ جو شمع و گل پہ بہار ہے یہ کرم ہے ان کے ہی خار کا
یہ ہیں خارِ شہرِ حبیبِ جاں جنہیں چومنا بھی کمال ہے

جو نبی نے پوچھا کہ اے امیں کہیں دیکھا ہم سا روئے حسیں
کہا طائرِ سدرہ نے برملا نہیں ان کی کوئی مثال ہے

در مصطفےٰ پہ پہونچ گئے ہوا زندگی کا حصول یوں
پسِ دید عشق بھی بڑھ گیا ابھی واپسی کا ملال ہے

کریں مصطفےٰ کی اہانتیں سر بزم اس پہ ہمتیں
کہا مجھ کو کیوں ہے جہنمی ارے وہ تو تیرا وبال ہے

کیا زروں نے دعوئے شمس جب ہوا ان کا گزر ابھی راہ سے
تمہیں صدقۂ پا جو ملے فاراں کہیں لوگ یہ بھی ہلال ہے

...

بدلی رخ ہوا وہ نظارے بدل گئے

بدلی رخ ہوا وہ نظارے بدل گئے
احباب کی نظر کے شرارے بدل گئے

کہتے تھے ہر قدم پہ پکارو ملینگے ہم
دردالم کے اب تو سہارے بدل گئے

رہبر ہی اپنا رہزنِ دینِ نبی ہوا
کتنے بڑے بڑے تھے منارے بدل گئے

علمائے حق ہی ہوتے ہیں مطعون ہرجگہ
تحریکِ سنیت کے شمارے بدل گئے

جنگل ہے سون سان بیابان دل بھی ہے
بازو و دست اب تو ہمارے بدل گئے

جو حاشیۂ ذہن پہ آہی نہیں سکا
لعل و گُھر صدف وہی ہیرے بدل گئے

حزن و ملال عالمِ حسرت و یاس میں
اعداء سے کیا گلا کہ ہمارے بدل گئے

جن پر پہونچ کر دھوتے تھے داغِ غم و الم
بحرِ کرم کے اب وہ کنارے بدل گئے

دوشِ اُفق پہ آہ کو رکھتے ہو تم فراں
نازو نگاہ و طرز کہ سارے بدل گئے

...

شاہ کون و مکاں مرتے دم آپ ہاں مجھ کو کلمہ پڑھائیں ، دعا کیجئے

شاہ کون و مکاں مرتے دم آپ ہاں مجھ کو کلمہ پڑھائیں ، دعا کیجئے
لے کے آغوش میں روح کو پھر ملک نظمِ بخشش سنائیں ، دعا کیجئے

آل و اصحاب سے بھی محبت کریں ،شمعِ عشقِ نبی میں یہ روغن بھریں ،
روح ِایمان کو اور روشن کریں ، قبر میں جگمگائیں دعا کیجئے

ایک کثرت ہے ہم پر بھروسہ کئے راہ میں خار ہیں اور پتھر پڑے
یا نبی آپ کا آسرا چاہئے  اب نہ ہم لڑکھڑائیں دعا کیجئے

جلنے والے جلیں مرنے والے مٹیں جشنِ میلاد کی خوب دھومیں مچیں
آگئے آگئے مصطفے آگئے اپنا تن دھن لُٹائیں دعا کیجئے

نعت انکی کہوں کیسے میں یا خدا، تیرا قرآن ہے ان کا مدح سرا
ابن ثابت ہیں جامی ، رضا غوطہ زن ، ہم بھی کچھ چھینٹ پائیں دعا کیجئے

مشغلہ نعت گوئی عطا کیجئے یا نبی اپنا عاشق بنا لیجئے
فکر دنیا سے آزاد ہوں ذہن و دل گیت مدحت کے گائیں دعا کیجئے

نعت انکی لکھوں جب بھی میں یا خدا میری تصحیح کریں حضرتِ شاہ رضا
پھر یہ فرمائیں عشّاق میں جا پڑھو اُن سے ہم داد پائیں دعا کیجئے

گرد قلب و جگر سے ہٹا لیجئے پھر تمنائے دل اس طرح کیجئے
خاک طیبہ کو چہرے پہ مل لوں ذرا حسن والے لجائیں دعا کیجئے

کس پہ تنبیہ کریں فتنیں ہیں برملا کس کا ہم رد کریں گمرہی جابجا
گوشِ تنہائی میں اب ہے یہ التجا حضرت مہدی آئیں دعا کیجئے

دامنِ مصطفے اور پھر کم کذا کیا ہیں قیدیں یہ سب او جی چھوڑو ذرا
بے حساب ان کی رحمت ہے ہم پر سُنو بے تُلے بخش جائیں دعا کیجئے

یہ دعا کیجئے عاشقانِ نبی ہوں مدد کے لئے ہر قدم ہر گھڑی
ڈوبتوں کو سہارا ملے گا کہاں دست رحمت بڑھائیں دعا کیجئے

شدتِ پیاس میں جب نظر پڑگئی ، فکرِ کوثر گئی ٹک ٹکی بن گئی
مُسکرا کر وہ فاران پاس آئیں پھر ورقِ بخشش تھمائیں دعا کیجئے

...

دیدار رب تجھے ہوا تیری الگ ہی شان ہے

تضمین برکلام امام   اہلسنت اعلی حضرت قدس سرہ

دیدار رب تجھے ہوا تیری الگ ہی شان ہے
پہونچے مکاں سے لامکاں اور لگا اک آن ہے
نکلی تھی دیکھنے کو حد حیران اب یہ جان ہے

عرش کی عقل دنگ ہے چرخ میں آسمان ہے
جان مراد اب کدھر ہائے تیرا مکان ہے

کب سے طلب میں گشت ہے کب تک کرنگے انتظار
عاصی ہیں، ہیں تو تیرے ہی گرچہ ہیں ہم گناہگار
ان کا کرم جو ہو کبھی ہم بھی لگائیں یہ پکار

پیشِ نظر وہ نو بہار سجدے کو دل ہے بے قرار
روکئے سرکو روکئے ہاں یہی امتحان ہے

رفعت میں ان کی حد ہے کیا ہم کو بتاؤ تو رضا
حیراں ہوں میں تو خود رضا کیا کیا کہوں تجھے شہا
یہ تو ہے صیغِ راز ہی ضد ہے تجھے تو سن ذرا

فرش پہ جاکے مرغ عقل تھک کے گرا غش آگیا
اور ابھی منزلوں پر ے پہلا ہی آستان ہے

پھرتی نسیم سحر ہے کس کی طلب ہیں گام گام
دریا کو جستجو ہے کیا کیوں پھر رہا ہےصبح و شام
تیری ہی فکر میں ہیں گم تیرا ہی ذکر اور نام

عرش پہ تازہ چھیڑ چھاڑ فرش پہ طرفہ دھوم دھام
کان جدھر لگائے تیری ہی داستاں ہے

دنیا کا حشر کا تجھے کیا کیا فاران خوف تھا
قبر ہے پل صراط بھی اعمال سے بھی ڈر ہوا
پھر جو اَنَا لَھَا سنا دل جھوم کر یہ بول اٹھا

خوف نہ رکھ رضا ذرا تو تو ہے عبدِ مصطفےٰ
تیرے لئے امان ہے تیرے لئے امان ہے

...

محض رخصت کونہ دیکھو عزیمت خوب کرنے دو

محض رخصت کونہ دیکھو عزیمت خوب کرنے دو
سنو اب روح کو بھی تم ریاضت خوب کرنے دو

یہ لمحے زندگی کے اب تمہارے واسطے ہی ہیں
متاعِ زندگی سے اب تجارت خوب کرنے دو

انہیں کے واسطے ہی ہم بنے اور یہ جہاں آیا
فناوالوں بقا چاہو تو مدحت خوب کرنے دو

جو تعریفِ بقا چاہو، تو سن لو عشق والوں سے
رسولﷲ کی الفت ،محبت خوب کرنے دو

لٹا کر جان و دنیا ہم تمہارے واسطے آئے
نہ حائل ہو فرشتوں اب زیارت خوب کرنے دو

اشدّأ علی الکفار گر تم سے نہ ہو پائے
نہ روکو ظالموں ہم کو تو شدّت خوب کرنے دو

چلو مانا کہ ہم ہی ان کے اعداء سے الجھتے ہیں
ہمیں اپنے میں رہنے دو یہ فطرت خوب کرنے دو

امام احمد رضا کے مظہرِ کامل کا مصرع ہے
یہ شوقِ زندگی کیا ہے وہ رحلت خوب کرنے دو

بروز حشر وہ آئیں تو عاصی جھوم کر بولیں
ابھی جنت میں کیا جائیں زیارت خوب کرنےدو

چلو بخشیں شرف دل کو حرم کے خار مہماں ہوں
عجب صورت عجب معنیٰ میں دعوت خوب کرنے دو

ارے فاراں ذرا مقطع سے پہلے دل کو سن لیتے
نہ روکو مدحت آقا کی کثرت خوب کرنے دو

...

عشق والے ہیں ہم بس رضا چاہئے

عشق والے ہیں ہم بس رضا چاہئے
ہاں رضا چاہئے بس رضا چاہئے

خاکِ میّت میری تجھکو کیا چاہئے
خاکِ پائے نبی سے لقا چاہئے

ان کے لطف و کرم میں کٹے زندگی
اور محشر میں ظلِّ ردا چاہئے

زندگی ساتھ چھوڑے میرا جس گھڑی
آپ آجائیں بس اور کیا چاہئے

اس جگہ کے شہنشاہ حسنین ہیں
اک جہاں کو جہاں پر جگہ چاہئے

مومنوں دشمنانِ نبی سے بچو
روشنی قبر میں گر سدا چاہئے

قائلِ بے بسی کو ملیں بے بسی
ہم کو لطفِ حبیبِ خدا چاہئے

مانگ لو مانگ لو دو جہاں کی بقا
مسکِ شاہ احمد رضا چاہئے

اے طبیبوں ہٹو دور ہو تم ذرا
عشق ہے یہ میرا کیوں دوا چاہئے

حشر میں ہم پکاریں گے جب یا نبی
آپ آکر کہو کیا بتا چاہئے

اے فرشتوں ہٹو اُمتی ہے میرا
اس پہ حق ہے میرا تم کیا چاہئے

دیکھ کر یہ سماں متقی بول اُٹھیں
عاصیوں ہم کو بھی یہ خطا چاہئے

کیاریانِ جناں صبر ان میں کہاں
اس جہاں میں ہی پائے شہا چاہئے

تیری فاران بعدِ جناں التجا
مجھ کو کوئے نبی کا پتہ چاہئے

...

دامنِ آقا کی وسعت اور امانوں پر نثار

دامنِ آقا کی وسعت اور امانوں پر نثار
گیسوئے جاناں کی ٹھنڈی ٹھنڈی چھاؤں پر نثار

رحمۃ للعلمیں تیری عطاوں پر نثار
حسنِ مطلع جانِ عالم کی صفاتوں پر نثار

اے شفیعِ مرضِ عصیاں اے طبیبِ جسمِ ما
اے حبیبِ ہر جہاں تیری  شفاؤں پر نثار

قلبِ یثرب کو بنائیں آؤ ہم  طیبہ نگر
ذرّئے نعلین لے کر ہو کے تلوں پر نثار

خاکِ طیبہ میں شفا تو آبِ طیبہ ہے دوا
خطۂ سرکار کے رنگین جلووں پر نثار

گھومتی پھرتی بہاریں ہر طرف بہر عطا
دل ربا و دل فدا اُن ہواؤں پر نثار

اللہ اللہ چہرہ و الشمس میں ہیں دو قمر
عرش بھی طالب ہے جن کا ان نگاہوں پر نثار

چاند وہ تلوں سے جس کے جھڑتے ہیں ماہ و نجوم
ہے ہلالِ آسماں ایسے ستاروں پر نثار

جذبہ عشق نبی تم دکھ لو یرموک میں
خود شہادت دوڑ کر ہوتی ہے یاروں پرنثار

ان کے دشمن کا لہو مرغوب ہے ہم کو بہت
خالدِ سیفِ خدا تیرے جوابوں پر نثار

دشمنانِ مصطفے پر حملہ آور ہیں زبیر
حملۂ شیرِ خدا پر عشق والوں پر نثار

اُن کے آگے حضرتِ حمزہ کی وہ جانبازیاں
تیرے ہیں شیر ببر شیرانہ حملوں پر نثار

پاک جانیں بیچ کر جنت دلائی ہے ہمیں
دافعِ کرب و بلا حسنین زادوں پر نثار

مثلِ کشکولِ فقیراں پھر رہے تھے دربدر
مل گئی منزل ہوئے جب صحرا نشینوں پر نثار

سوئے جنت چل دئے فاراں سبب بتلا ذرا
ہوچلے ہم تو رضا کے پیارے نغموں پر نثار

...

دردماں درد کا کیا بنا کربلا

دردماں درد کا کیا بنا کربلا
سارے عالم پہ بس چھا گیا کربلا

مشکلیں ہو کے حل ساتھ دینے لگیں
میں نے جب دے دیا واسطہ کربلا

خونِ آلِ نبی سے وہ سینچا گیا
زندگی موت کو دے گیا کربلا

مشکلوں پر بھی میں نے تبسُّم کیا
جب نظر اشک میں آگیا کربلا

جبلِ غم مجھ کو سُرمے کے مانند لگے
عقل کے مرغ کو جب ملا کربلا

تیری آغوش میں سو گئے مہر و ماہ
مرحبا مرحبا واہ واہ کربلا

عشق کو صبر کا درس تجھ سے ملا
رہبرِراہِ اُلفت بنا کربلا

حشر میں پیرہن کا دِکھا دبدبہ
بخششیں یوں لُٹاتا گیا کربلا

صدقِ صدیق کو عدلِ فاروق کو
شارحینِ کُتب نے لکھا کربلا

خون شاہ شہیداں میں وہ جود تھا
دیکھ کر دیکھتا رہ گیا کربلا

ڈھونڈتا ہے ابھی تک نواسے کو وہ
حاصلِ دید کی التجا کربلا

تیری فاران بخشش ہوئی ذکر سے
کر گیا کربلا کربلا کربلا

...

اللہ کی رحمت کی ردا غوث پیا ہو

اللہ کی رحمت کی ردا غوث پیا ہو
تم گلشنِ نبوی کی عطا غوث پیا ہو

مغموم ہے دل اپنا لئےکس کی طرف جائیں
مغموم دلوں کی تو دوا غوث پیا ہو

ہاں بحرِ الم میں ہوا ہے غرق سفینہ
ڈوبی ہوئی کشتی کی بقا غوث پیا ہو

مردے کو جلایا تو شہا دل کو ہمارے
طالب ہوں وہی حکمِ جلا غوث پیا ہو

یوں وقتِ زیارت میں پکاروں یہ برابر
تم غوث پیا غوث پیا غوث پیا ہو

ہنگامئہ رخصت جو زیارت ہو تمہاری
آغوش میں ہی روح جدا غوث پیا ہو

لاتا ہوں شفیع اپنا رضا کو تیرے آگے
بخشش کے حدائق میں جگہ غوث پیا ہو

قدموں کو رکھا جس پہ ولایت رہی قائم
خاکِ قدمِ ناز عطا غوث پیا ہو

جب داد کے باغوں کی ہی مرہون ہے نعمت
پھر کون شہا تیرے سوا غوث پیا ہو

افگن ہے مشاہد کا کرم تجھ پہ اے فاراں
دائم میرے مرشد کی رضا غوث پیا ہو

...