لن ترانی
لَنْ تَرَانِیْ نصیبِ موسیٰ تھی
اُن ﷺ کو جلوے دکھائے جاتے ہیں
لَنْ تَرَانِیْ نصیبِ موسیٰ تھی
اُن ﷺ کو جلوے دکھائے جاتے ہیں
ان کی یادوں کا ہے یہ فیض برابر دیکھو
میں فقیری میں بھی ہوں کتنا تو نگر دیکھو
...
ہرایک ذرے میں رقصاں ہے وہ ضیائے قدیم
کہیں ہیں اوّل و آخر کہیں روف ٌ رّحیم
ہے جیسے پھول کی آغوش میں مہک پنہاں
اسی طرح سے ہر اک شے میں ہیں رسولِ کریم
مدینے میں دل کا نشاں چھوڑ آئے
فضاؤں میں آہ و فغاں چھوڑ آئے
جدھر سے بھی گزرے جہاں سے بھی گزرے
محبت کی اک داستاں چھوڑ آئے
روز آئے مدینے سے بادِ صبا ہجر میں دل ہمارا بہلتا رہے
...
چراغِ طیبہ کی روشنی میں جو ایک شب بھی گزار آئے
...
علامت عشق کی آخر کو ظاہر ہو کے رہتی ہے
...
آبگینوں میں شہیدوں کا لہو بھرتے ہیں
...
مدینے کا مسافر ہند سے پہنچا مدینے میں
قدم رکھنے کی نوبت بھی نہ آئی تھی سفینے میں
...ان موتیوں کی تابشیں دنیا کو ہیں محیط
سی پی میں گرچہ ان کو نہاں دیکھتا ہوں میں
...