مثنوی  

ساقی مجھے جامِ مَے عطا کر

مثنوی انوار العرفان

ساقی مجھے جامِ مَے عطا کر
لِلّٰہ پِلا نظر مِلا کر
لب تشنہ ہوں، تشنگی بجھا دے
لا جام، تجھے خدا جزا دے
دل کو نہیں میرے تاب ساقی
لا جلد، پِلا شراب ساقی
جِیلان سے کِشید کی ہوئی لا
میخانۂ غوثِ پاک﷜ کی لا
بغداد کی ہو بہار جس میں
ہو نگہتِ چار یار﷠ جس میں
ہو فاطمی﷞ انبساط جس میں
اور پنجتنی﷠ نشاط جس میں
بُو چشتی ہو، رنگ نقشبندی
ہو کیف و سرور سہروردی
نوری[1]؎ مئے معرفت پلا دے
جو قلب و دماغ کو جِلا دے
ہر جُرعہ میں کیف و سرمدی ہو
وہ لا کہ جو آج تک نہ پی ہو
پاکیزہ سرور بھی ہو جس میں
اللہ کا نور بھی ہو جس میں
دارین کی لذتیں ہوں جس میں
کونین کی فرحتیں ہوں جس میں
فردوس کی نکہتیں ہوں جس میں
جنت کی لطافتیں ہوں جس میں
اے حامدِ[2]؎ نور بار ساقی
یہ رِند تیرے نثار ساقی
ہے عیدِ نویدِ موسمِ گل
کر آج شکستِ ساغرِ مُل
آنکھوں سے پِلا کے مست کر دے
مدہوش شرابِ ہست کر دے
آج ایسی پِلا، کبھی نہ پی ہو
ہر جرعہ میں غسلِ روح بھی ہو
اس طرح ہو روح پاک ساقی
ہر سانس ہو تابناک ساقی
ہے غسلِ مئے طہور کا دن
ہے آج ظہورِ نور کا دن
دن آگئے پھر مسرّتوں کے
پھر بدلے نصیب قسمتوں کے
گلشن سے خزاں کا زور ٹوٹا
وہ غنچۂ نَو چمن میں پھوٹا
تاریکئ کفر ہٹ رہی ہے
ظلمت کی گھٹا سمٹ رہی ہے
لو دُور ہوئے مصیبت و غم
لہرایا وہ رحمتوں کا پرچم
اَکْملتُ لَکُم کا دَور آیا
رحمت نے کرم کا دن دکھایا
دن گیارہواں ‘ شب ہے بارہویں آج
ہے بارہ ربیعِ اوّلیں آج
محبوبِ خداﷺ ہیں آنے والے
سلطانِ دنیٰ ہیں آنے والے
کونین کے شاہﷺ آرہے ہیں
تشریف حضورﷺ لا رہے ہیں
ہے آمدِ تاجدارِ عالمﷺ
ہے آمدِ نو بہارِ عالَمﷺ
کل مملکتِ خدا کے مالکﷺ
ہر شاہ کے ہر گدا کے مالکﷺ
ہے عرش پہ اقتدار جن کا
ہے فرش پہ اختیار جن کا
ہے چودہ طبق پہ جن کی شاہی
ہیں جن کے ملائکہ سپاہی
جو قاسمِ رزقِ کبریا ہیں
محبوبِ خدائے دوسرا ہیں
تابع ہیں انہیں کے انس اور جن
مومن ہیں کرم سے جن کے مومن
جو دو جہاں کے تاجورﷺ ہیں
محبوبِ خدائے بحروبَر ہیں
وہ بیکسوں، بے بسوں کا حامی
جن کے بشر و ملک سلامی
ہر کور و ضعیف کا سہارا
وہ آمنہ بی﷝ کا ماہ پارا
فریادِ غریب سننے والے
وہ دُور و قریب سننے والے
بیکس کرے غرب میں جو نالے
یہ شرق سے ہیں پہنچنے والے
آیا وہ سرِ یتیم کا ظِل
جو ٹوٹے ہوئے دلوں کا ہے دِل
مظلوم پہ ظلم اب نہ ہوگا
اندھیر یہ روز و شب نہ ہوگا
بیماروں کو مژدۂ شفا ہے
وہ جانِ مسیح آرہا ہے
دنیا میں ہے ان کی آمد آمد
ہے اسمِ شریف جن کا احمدﷺ
ہے نورِ خدا کی عِید کا دِن
دراصل ہے آج عید کا دن
کچھ اور ہے آج شانِ عالم
ہے یومِ ظہورِ جانِ عالم
پہنے ہے زمیں قبائے نوری
ہے طُور بکف ضیائے نوری
ذرّات کا یہ حِسیں تبسّم
جس پر ہیں نثار ماہ وانجم
غنچے ہیں کہ مسکرا رہے ہیں
 تارے ہیں کہ جگمگا رہے ہیں
برسا ہے کرم کا عطر ہر سُو
مٹی میں بھی مشک کی ہے خوشبو
ہیں جنّ و بَشَر، مَلَک معطّر
خوشبو سے ہیں نُہ فلک معطّر
ہر غنچہ و گل ہے خلد بَرکف
ہر شاخِ شجر بہار درکف
تھا جن کا نہ باغباں نہ مالی
سر سبز ہے اُن کی ڈالی ڈالی
ہر شاخِ جناں پہ خندہ زن ہے
ہر خار شگوفۂ چمن ہے
باغوں میں پرے طیور کے ہیں
نغمات زباں پہ نور کے ہیں
غنچوں کو مِلا ہے لحنِ داؤد
ہے وردِ زباں درودِ مسعود
پُر کیف ہیں سرمدی ترانے
گلشن زرِگل کے ہیں خزانے
یہ دشت نہیں ہے گلستاں ہے
فردوس ہے یہ چمن کہاں ہے
شاخوں پہ بہار کا ہے عالم
مستی کا، خمار کا ہے عالم
پھولوں سے لدی ہیں ‘ جھومتی ہیں
سوسن کے لبوں کو چومتی ہیں
پتے کفِ دستِ حوریاں ہیں
مرأتِ جمالِ نوریاں ہیں
ایک ایک کلی بہ حسن و خوبی
ہے خلد کی نگہتوں میں ڈوبی
ہر غنچہ بکف بہارِ جنت
ہر گل پہ فدا ہزار جنت
رقصاں ہیں فلک پہ چاند تارے
آپس میں ہیں نور زا اشارے
حوروں نے لباسِ نور پہنا
قدرت سے ملا حسِین گہنا
پہنے ہوئے نور کی قبائیں
پھر اس پہ وہ نازنیں ادائیں
شاغِل بہ درود ہیں فرشتے
مائل بہ سجود ہیں فرشتے
پہنے ہوئے حلّہائے زرّیں
مشکیزے لئے بہ دوش مشکیں
ہر سمت قریب و دُور غلماں
برساتے ہیں آبِ نور غِلماں
ہے عالَمِ وجد و کیف میں عرش
سجدے میں جھکا ہے جانبِ فرش
ہے وحش و طیور میں مچی دھوم
آنے کو ہیں وہ نبئﷺ معصوم
خوں اب نہیں کفر کی رگوں میں
بت اوندھے پڑے ہیں مندروں میں
نزدیک ہے آمدِ شہِ دیں
زنجیروں میں قید ہیں شیاطیں
ہے معجزۂ ظہورِ والا
دریا تو ہے خاک، خاک دریا
وہ دیکھئے اُڑ رہا ہے کیسا
کعبے پہ محمّدیﷺ پھریرا
ابوابِ نظر کُھلے ہوئے ہیں
فردوس کے دَر کُھلے ہوئے ہیں
دو رویہ فرشتگانِ افلاک
استادہ ہیں تا بہ مولدِ پاک
ہے نور زمیں سے آسماں تک
جلوے ہیں مکاں سے لامکاں تک
پُر نور مکاں ہے آمنہ﷞ کا
گھر رشکِ جناں ہے آمنہ﷞ کا
صدقے ہے بہار آمنہ﷞ پر
انجم ہیں نثار آمنہ﷞ پر
پَردوں میں جو نور، ؟؟؟ ہے
سب پیشِ نگاہِ آمنہ﷞ ہے

 

[1] حضرت ابو الحسن نوری قدس سرہ العزیز ۱۲

حضرت حجتہ الاسلام آقائے نعمت بریلوی ﷫ ۱۲ (اختر الحامدی)[2]

...

کیا طاقتِ رفعتِ نظر ہے

ستاعِر

کیا طاقتِ رفعتِ نظر ہے
رفعت کا دماغ عرش پر ہے
لختِ دلِ آمنہ﷞ کے صدقے
علمِ شہِ دوسرا کے صدقے
کیوں سامنے غیب ہوں نہ دم میں
دانائے غیوب ہیں شِکم میں
سن لو یہ بشارتِ الہٰی
کہتی ہے نگاہ آمنہ﷞ کی
جو رب نے کرم کئے، کئے ہیں
محبوب کو غیب بھی وئے ہیں

 

 

لکھتے ہیں یہ حضرتِ[1]؎ محقق
علّامۂ محدّث و مدقق
فرماتی ہیں اُمِّ پاک حضرت﷝وﷺ
تنہا تھی میں بس شبِ ولادت
اور صرفِ طواف مُطّلِب تھے
یوں دل میں لگا خیال آنے
یہ وقت ہے اور میں ہوں اکیلی
ہوتی کوئی رازداں سہیلی
ہُوں عالمِ دردِ زِہ میں تنہا
ہوتا کوئی فرد خانداں کا
میں محو اِسی خیال میں تھی
آواز سُنی مہیب ایسی
جس سے کہ لرز گیا مِرا دِل
پتّے کی طرح مِرا اُڑا دل
لرزاں تھی ابھی کہ میں نے دیکھا
اِک مرغ سفید بال و پَر کا
اس نے مِرے قلب پر مَلے پَر
دل سے ہوا دُور خوف یکسر

 

 مدارج النبوۃ، جلد دوم، ص ۲۰، تفریح الاذکیاء مصنفہ ابو الحسن والدِ ماجد حضرت محسن کاکو، دی، جلد دوم، ص۱۴۔[1]

...

اِک اور بھی قول معتبر ہے

اِک اور بھی قول معتبر ہے
وَلیوں کی نظر بھی کیا نظر ہے
لکھتے ہیں حضور شیخ[1]؎ الاعظم
مولائے انام، قطبِ عالَم
تھا مخزنِ علم جن کا سینہ
وہ عاشقِ یوسفِ مدینہ
مفتی و امیرِ شرع و ملّت
یعنی کہ امامِ اہلِ سنّت
وہ مِرے حضور، میرے مرشد
وہ نائبِ غوث، وہ مجدِّد
وہ رکنِ رکینِ دینِ سرمد
الحاج رضؔا، رضائے احمد
فرماتے ہیں یہ بصدقۂ عشق
ارشاد ہے یوں بجذبۂ عِشق
وہ مرغ سفید بال و پَر کا
شربت جو بہشت سے تھا لایا
جبریلِ امیں بہ شکلِ طائر
تھے خانۂ آمنہ﷞ میں حاضر

 

 اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں بریلوی قدس سرہ ۱۲ [1]

...

کرتے ہیں عبدِ حق روایت

کرتے ہیں عبدِ حق روایت
فرماتی ہیں امِ پاک حضرت﷝ و ﷺ
اک نور کا میں نے جام دیکھا
شربت سے بَھرا ہوا تھا سارا
میں نے کیا نوشِ جاں وہ شربت
آنے لگی جسم و جاں میں قوت
آنکھوں میں ہجومِ نور دیکھا
گھر میں مِرے ہوگیا اُجالا
اُٹھا جو تجلّیوں کا پردہ
کچھ اور نظر کے سامنے تھا
عوراتِ حسین و پاک صورت
سیمیں تن و تابناک صورت
اِستادہ ہیں سب قریب میرے
ہر ایک ادب سے سر جھکائے
حیراں تھی میں، حیرتوں میں گم تھی
اِک آگے بڑھی ادب سے بولی
میں آسیہ ہوں، حضور بی بی
مریم ہوں میں، دوسری یہ بولی
میں، اور آسیہ، یہ حوریں
ہم سب ہیں حضورﷺ کی کنیزیں
آئے ہیں یہاں بحکمِ رب ہم
اے والدۂ﷞ رسولِ اکرمﷺ

...

قدرت کے یہ قدرتی اشارے

شاعِر

قدرت کے یہ قدرتی اشارے
ہیں کیسے حسین، کتنے پیارے
ہے مریم[1]؎ و آسیہ کا آنا
اِک زمِ حسین و عاشقانہ
یہ دونوں کہ بخت کی رسا ہیں
منسوبۂ شاہِ دوسراﷺ ہیں
دونوں کا نکاح روزِ محشر
سرکار سے ہوگا پیشِ دوار
تھا تحتِ مشیّتِ الہٰی
ہوں آج شریکِ جشن یہ بھی
دیدارِ شہِ حجاز کرلیں
نظّارۂ سروِناز کرلیں
محبوبِ حسیں کو دیکھ لیں یہ
اس ماہِ مبیں کو دیکھ لیں یہ
قدرت کا تھا یہ حسیں اشارہ
اِک حُسنِ وفا کا اِستعارا
یہ دیکھ لیں انتخاب میرا
محبوب ہے لاجواب میرا
دنیا میں جو تم رہیں عفیفہ
اے حاملِ عصمتِ شریفہ
انعام ہے اس کا یہ چمکتا
’’بے مثل حسیں، حبیبِ یکتا‘‘
ہو میرے حبیب کی حبیبہ
تابندہ ہے کس قدر نصیبہ
عفّت میں جو نام ہے تمہارا
محبوب بھی کم نہیں ہمارا
ہیں راز میں راز کے خزانے
مولیٰ تِرے بھید تو ہی جانے

 

 [1] خاتم المحققین شاہ عبد الحق محدث دہلوی قدس سرہ ۱۲ ۲؎ حضرت شیخ عبد الوہاب بخاری ﷫ تحت قولہ تعالیٰ واذکر فی الکتاب مریم، فرماتے ہیں وازکر یا زوج مریم نے الجنتہ یا محمد خوبصورت یا احمد خوبروئے فی کتابک مریم زوجتک (اغبار الاخیاد ص۲۱۶) ۲؎ حفظ اللہ آسیّہ بنت مرّاحم رضی اللہ  عنہا من فرعون لا نہامن زوجات النبیﷺ فے الجنتہ ۱۲ نزہتہ المجالس، جلد چہارم، ص۴

...

پیغامِ حسیں نسیم لائی

شبِ ولادت

پیغامِ حسیں نسیم لائی
لو صبحِ شبِ ظہور آئی
منظر ہے سرور و کیف افزا
روشن ہیں چراغِ طُور ہر جا
ہر لمحہ پہ شانِ لیلۃ القدر
یہ رات ہے جانِ لیلۃ القدر
یہ رات، یہ حسن و ادائی حسن
در اصل ہے شاہزادئ حُسن
یہ رات ہے جُود کی، نِعَم کی
یہ رات ہے بارشِ کرم کی
یہ رات ہے روشنی مجسّم
یہ رات ہے ماہتابِ عالم
یہ رات ہے کیفِ جانِ عالم
یہ رات ہے حُسنِ شانِ عالم
یہ رات ہے جشنِ عید کی رات
یہ رات ہے صبحِ دید کی رات
واللہ عجب ہے آج کی شب
اکرام پہ رب ہے آج کی رات
ہے نور سرشت آج کی شب
ہے حُسنِ بہشت آج کی شب
باعزّ و شرف ہے آج کی شب
ہے گل بہ کنار آج کی شب
سر تا پا حسیں ہے آج کی شب
خورشید مبیں ہے آج کی شب
ہے جانِ جمال آج کی شب
ہے بدرِکمال آج کی شب
ہے مشعلِ طور آج کی شب
ہے نور ہی نور آج کی شب
ہے آج کی شب، شبِ ہلالی
ہے آج کی شب، شبِ جمالی
ہے آج کی شب، شبِ گلستاں
ہے آج کی شب، شبِ چراغاں
ہے آج کی شب، شبِ مطّہر
ہے آج کی شب، شبِ منوّر
انوار کی شب ہے آج کی شب
اذکار کی شب ہے آج کی شب
برکات کی شب ہے آج کی شب
صدقات کی شب ہے آج کی شب
انعام کی شب ہے آج کی شب
اکرام کی شب ہے آج کی شب

...

ہے آج کی صبح نور والی

صبحِ ظہور

ہے آج کی صبح نور والی
ہے آج کی صبح، صبحِ عالی
ہے آج کی صبح، صبحِ رحمت
ہے آج کی صبح، صبحِ جنّت
ہے آج کی صبح، صبحِ روشن
ہے آج کی صبح، صبحِ گلشن
ہے آج کی صبح، صبحِ تاباں
ہے آج کی صبح، نور افشاں
وہ صبح کہ جس پہ طُور قرباں
وہ صبح کہ جس پہ نور قرباں
وہ صبح، ہے ماہ جس پہ صدقے
وہ صبح، نگاہ جس پہ صدقے
پیغامِ بہار یہ سحر ہے
جنت بہ کنار یہ سحر ہے
سرمایۂ حُسن یہ سحر ہے
یا سایۂ حُسن یہ سحر ہے

...

بے مثل ہے رات بھی سحر بھی

بے مثل ہے رات بھی سحر بھی
حیران ہے حسن کی نظر بھی
دلہن کی طرح سجی ہوئی ہیں
دونوں ہی بنی ٹھنی ہوئی ہیں
ہیں پیکرِ لاجواب دونوں
ہر چھب میں ہیں کامیاب دونوں
دونوں کے یہ دل میں آرزو ہے
دونوں کو بس ایک جستجو ہے
ہوں مجھ میں حبیب جلوہ افگن
تقدیر ہو آفتابِ روشن

...

نوشہ کی کب آتی ہے سواری

ظہورِ قدسی

نوشہ کی کب آتی ہے سواری
ہے سب کی زبانِ دل پہ جاری
وا، سب کی ہیں بیقرار آنکھیں
دولہا پہ ہوں کب نثار آنکھیں
تارے ہیں جھکے زمیں کی جانب
دیدار کا ماہتاب طالب
اشجار بھی سرو قد کھڑے ہیں
خاموش، ادب سے سر جھکے ہیں
نرگس کی کھلی ہوئی ہیں آنکھیں
شبنم سے دُھلی ہوئی ہیں آنکھیں
ہیں چشم براہ غنچہ و گل
قمری ہے خموش، چپ ہے بُلبل
دولہا کی سواری کب ہے آتی
بیتاب کھڑا ہے ہر براتی
انگڑائیاں رات لے رہی ہے
کچھ شب ہے تو کچھ سحرا بھی ہے
دنیا پہ ہے اِک سکوت طاری
مائل ہوا لطفِ خاص باری
ہے اَوج پر کوکبِ دو شنبہ
آئی سحرِ شبِ دو شنبہ
وہ مرغ، وہ جبرئیل انور
پَر آمنہ﷝ کے شکم سے مَل کر
کرنے لگے با ادب گزارش
ہو ابرِ کرم، کرم کی بارش
کونین کی بزم سج چکی ہے
جلوے کو نظر ترس رہی ہے
یاسید المرسلینﷺ، اظہر
یارحمتِ عالمینﷺ، اظہر
پردے سے حضورﷺ باہر آئیں
بیتاب ہیں منتظر نگاہیں
باجاہ و حشم، باشان و شوکت
ظاہر ہوئے سرورِ رسالتﷺ

...

اللہ رے وہ حسین پیکر

سراپائے مبارک

اللہ رے وہ حسین پیکر
جس پہ ہو نثار ماہِ انور
کیا نورِ نگاہِ آمنہ﷝ کا
بے مثل ہے دلنشیں سراپا
رعنائیاں خلد کی سمٹ کر
انساں کی ہیں شکل میں زمیں پر
یہ منظر گلستانِ قدرت
ہے پیشِ نظر بشد کی صورت
ہے شکلِ بشر، سوا بشر سے
انسان، مگر جُدا بشر سے
واللہ ہے کیا حسیں سراپا
ہے ظلِّ خدا حسیں سراپا
صورت گرِ دوجہاں کا مظہر
ہے ذاتِ عیاں نہاں کا مظہر

...