رباعیات
جانِ گلزارِ مصطفائی تم ہو
مختار ہو مالکِ خدائی تم ہو
جلوہ سے تمہارے ہے عیاں شانِ خدا
آئینۂ ذاتِ کبریائی تم ہو
جانِ گلزارِ مصطفائی تم ہو
مختار ہو مالکِ خدائی تم ہو
جلوہ سے تمہارے ہے عیاں شانِ خدا
آئینۂ ذاتِ کبریائی تم ہو
رباعیات نعتیہ
پیشہ مِرا شاعری نہ دعویٰ مجھ کو
ہاں شرع کا البتہ ہے جنبہ مجھ کو
مولیٰ کی ثنا میں حکم مولیٰ کا خلاف
لوزینہ میں سیر تو نہ بھایا مجھ کو
آتے رہے انبیا کَمَا قِیْلَ لَھُمْ
وَالْخَاتَمُ حَقُّکُمْ کہ خاتم ہوئے تم
یعنی جو ہو دفترِ تنزیل تمام
آخر میں ہوئی مہر کہ اَکْمَلْتُ لَکُمْ
ہیں مظہر ذات حق رسول اکرم
مختار و خلیفۂ خدائے عالم
صرف ان کے سبب اُلو العزم ہوئے
عیسیٰ موسیٰ خلیل و نوح و آدم
کفش پا ان کی رکھوں سر پہ تو پاؤں عزت
خاک پا ان کی ملوں منہ پہ تو پاؤں طلعت
...
امیر سنگدل سے یہ ہر اک مزدور کہتا ہے
مِرے خون جگر ہی کی ترے ہونٹوں پہ لالی ہے
...
اِس روایت کے واسطے، کاؔفی!
سعد کا قول ہے ہمیں کافی
یعنی نازل ہُوئی یہ جب آیت
نَدْعُ اَبْنَآءَنَا کی سب آیت
شاہِ لَوْلَاک نے کیا ایسا
فاطمہ و علی کو بُلوایا
اور حسنین کو بھی اُن کے ساتھ
جمع یک جا کیا اُسی اوقات
پھر یہ کہتے نبی وہ ماہِ عربﷺ
یہ مِرے اہلِ بیت ہیں، یا رب!
فاطمہ و حسن، حسین و علی
ہیں بلا شک یہ اہلِ بیتِ نبی
جو محبِّ نبیﷺ ہے، اے کاؔفی!
اُس کو واجب ہے دوستی اُن کی
کاؔفی! بگزیں تو حُبِّ اولادِ رسول
نورِ نظرِ رسول حسنین و بتول
ہم الفتِ حیدر بدل و جاں بگزیں
تا ثمرۂ ایمانِ تو کردد مقبول