نظم  

سفید رخ پہ جو ان کے سیاہ خال بھی تھا

حال و خال

 

سفید رخ پہ جو ان کے سیاہ خال بھی تھا
نہ صرف یہ کہ وہ نایاب ‘ بے مثال بھی تھا
خزاں کے بعد بہار آئی تو ہوا معلوم
فراق تلخ سہی ‘ موجب وصال بھی تھا
یہ بے خودی تھی کہ فرزانگی خدا جانے؟
زباں پہ نام تو دل میں ترا خیال بھی تھا
جو آئے میرے جنازے پہ سرخ جوڑے میں
گلے میں ان کے پڑا ریشمی رومال بھی تھا
وہ اب کہیں گے کہ ہم ’’جارہے ہیں ‘‘ اے حاؔفظ
جب آئے گھر میں ہمارے تو یہ ملال بھی تھا
(نومبر ۱۹۸۱ء)

...

اب نہ وہ استاد ہوں گےاور نہ وہ ہمدردیاں

متفرق

 

اب نہ وہ استاد ہوں گےاور نہ وہ ہمدردیاں
اب نہ وہ ساتھی رہیں گے اور نہ وہ خوش فعلیاں
خواب سی ہوجایئں گی وہ دوستوں کی محفلیں
اب کہاں ہم پائیں گے استاد کی وہ شفقتیں
یاد جس دم ان حسیں لمحات کی تڑپائے گی
ہم کو ’’امجدیہ‘‘ کی ہائے یاد بے حد آئے گی
آہ حاؔفظ! جب کبھی آتا ہے فرقت کا خیال
دفعتاً آنکھیں بہا دیتی ہیں اشک پر ملال
(۲۵ صفر ۱۳۹۵ھ ‘ دستار بندی کے موقع پر پڑھی )

...

جلال الدین نے جب سے جلالہ کا لقب پایا

ہائے جلالہ

 

 درج ذیل نظم دار العلوم امجدیہ کراچی میں ۱۹۷۱ء ‘  میں دوران تعلیم کہی جب ‘ بزم امجدی رضوی کے صدر محترم جناب ڈاکٹر جلال الدین احمد نوری (کراچی یونیورسٹی)تھے۔ جو بعد میں حصول تعلیم کی مزید تزئین کیلئے بغداد شریف چلے گئے تھے۔ مدرسہ کے ایک استاد حضرت مولانا ابوالفتح محمد نصر اللہ خاں افغانی صاحب ‘ موصوف کو جلالہ کہہ کر پکارتے تھے ۔ اس نظم میں ‘ ان کے دور صدارت کی عکا سی کی گئی ہے۔


جلال الدین نے جب سے جلالہ کا لقب پایا
بوجہ ایں انہیں غصے میں ہم نے روز وشب پایا
مگر کس بات پر غصہ ؟ہے اپنے نام کے جز پر
فقط تاثیر اسمی ہے کہ تم نے یہ غضب پایا
اسے ’’پکڑو اسے مارو‘‘(۱) ! عجب طوفان برپا ہے
بنے ہیں یہ صدر جب سے یہی شور و شغب پایا
رسائل اور اخبارات (۲) آتے ہیں بلا ناغہ
کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ ڈھونڈا ہم نے تب پایا
مگر اک آس رہتی تھی کہ شاید اب یہ مل جائے
اور اب اس آس کو بھی سب نے ہی توجاں بلب پایا
ارے یارو ذرا ٹھہرو تو کیوں نشتر چھبوتے ہو؟
ملا ہو ان کو کچھ حصہ یہ تم نے حال کب پایا
زباں تیری ہے شیریں اور سخن تیرا کسیلا ہے
سخن گوئی کا حاؔفظ تو نے یہ کیسا ہے ڈھب پایا

(۱)مولانا بھاشانی کی سیاسی تحریک ’’پکڑومارو‘‘ کی جانب اشارہ ہے۔
(۲) دار المطالعہ میں آنے والے اخبارات۔

(۱۹۷۱ء)

...

سلام ’’اہل جنوں‘‘ خضر کاروان حیات

حیات

 

سلام ’’اہل جنوں‘‘ خضر کاروان حیات
تم اوج دار پہ لہرا گئے نشان حیات
ہر ایک حرف ہے تصویر خونچکان حیات
کہاں سے کیجئے آغاز داستان حیات
اسی کی راکھ سے کھلتے ہوئے چمن دیکھے
شرر بدوش رہا ہے جو گلستان حیات
ہیں ایک وہ کہ جو زندہ ہیں جان دے کر بھی
اور ایک ہم کہ ہیں جی کر بھی کشتگان حیات
ہوں جیسے جسم کی قبروں میں روح کے لاشے
وہ بے حسی کا سراپا ہیں داعیان حیات
چھپے گا حال نہ صیاد ہم اسیروں کا
 زباں کٹی ہے تو چہرے ہیں ترجمان حیات
تمام شب ہوئی تارے بھی سوگئے حاؔفظ
مگر نہ ختم ہوئی اپنی داستان حیات
(جنوری ۱۹۷۱ء)

...

حمد اور نعت کے گیت گائیں گے ہم

عزم محکم

 

حمد اور نعت کے گیت گائیں گے ہم
ملک کو باغ جنت بنائیں گے ہم
سو شلسٹوں کو مومن بنائیں گے ہم
راہ اسلام ان کو دکھائیں گے ہم
جب بنایا ہے ہم نے ہی دارالسلام
سب کو نَہْجُ السَّلاَمَہ دکھائیں گے ہم
دھوکہ دیتی ہے سب کو جو مودودیت
بڑھ کے آئینہ اس کو دکھائیں گے ہم
اب چہک جو رہی ہے یہ پی پی پی
اس کا پیپل ہی جڑ سے اڑائیں گے ہم
اس کی تعبیر میں ہے ہمارا لہو
سوشلسٹو یہاں سے نہ جائیں گے ہم
ہم بہادر ہیں مومن ہیں غازی بھی ہیں
اپنے دشمن کی ہستی مٹائیں گے ہم
بھاگی جاتی ہیں باطل کی تاریکیاں
جاَءَالْحَقْ کے دئے جگمگائیں گے ہم
اپنے پرچم کو رکھیں گے ہم سربلند
نام لیؔنن یہاں سے مٹائیں گے ہم
جیت اپنی یقیناً ہے اے سنیو!
باطل ہارے گا خوشیاں منائیں گے ہم
ہے قسم ہم کو ناموس اسلام کی
پھر شریعت کا قانون لائیں گے ہم
جو بھی اپنے وطن کا ہے دشمن اسے
موت کی نیند حاؔفظ سلائیں گے ہم
(جون ۱۹۷۰ء)

...

میں دے کے لہو رنگ چمن دیکھ رہا ہوں

آہ ! میرا وطن

 

میں دے کے لہو رنگ چمن دیکھ رہا ہوں
اجڑا ہوا گلزار وطن دیکھ رہا ہوں
کل تک جو مرے پاک وطن کے تھے فدائی
بگڑا ہوا اب ان کا چلن دیکھ رہا ہوں
محبوب جو رکھتے تھے کبھی ملک کی عزت
اب ختم ہوئی ان کی لگن دیکھ رہا ہوں
اب ہاتھ میں ہر ایک کے شمشیر قلم ہے
خون ادب و شعر سخن دیکھ رہا ہوں
یہ مرگ مسلسل ہے کہ ہے زیست سراپا
اک معرکئہ روح و بدن دیکھ رہا ہوں
ہر گام پہ اک رقص اجل شام وسحر ہے
ہر موڑ پہ میں دارورسن دیکھ رہا ہوں
اس رات سے حاؔفظ مجھے امید سحر ہے
میں گھور اندھیرے میں کرن دیکھ رہا ہوں
(۳۰ جولائی ۱۹۷۶ء)

...

ہم اہل سنن نے اک آواز اٹھائی ہے

سنی کے دل کی آواز

 

ہم اہل سنن نے اک آواز اٹھائی ہے
لَبَّیْکْ کہا جس نے اس کی ہی بڑائی ہے
پھر گنبد خضریٰ کی صورت نظر آئی ہے
معنی یہ ہوئے دل کی امید بر آئی ہے
پرچم یہ ہمارا ہے لَارَیْبْ نبی ﷺ والا
چابی ان ہی ہاتھوں میں اس واسطے آئی ہے
توحید کا کلمہ ہے اور چاند ہے جھنڈے میں
پھر گنبد خضریٰ سے رفعت نظر آئی ہے
توحید کے پرچم کے اوصاف بیاں کیا ہوں
اس سے تو کروڑوں کی امید بر آئی ہے
اس پاک وطن میں ہو قانون خدا نافذ
یہ بات مسلماں کے پھر دل میں سمائی ہے
اللہ کی رسی کو مضبوط ‘ پکڑ لیجے
قرآن یہ کہتا ہے صرف اس میں بھلائی ہے
مومن رَہِ ایماں میں جان اپنی فدا کردے
ایمان نے پھر تجھ کو آواز لگائی ہے
باطل کو مٹانا ہے اب فیصلہ کر لیجے
اک سمت ہے بے دینی اک سمت خدائی ہے
اک  ڈھونگ رچاتے ہیں اسلامی تساوی کا
باتوں میں بڑائی ہے فعلوں میں بُرائی ہے
کیوں روز بدلتے ہیں نعرہ یہ جماعت کا
شاید انہیں اب اپنی شامت نظر آئی ہے
سرتابئی خالق میں لَاطَاعَتَہ لِلْمَخْلوُقْ
فرمانِ نبی یہ ہے اور حکم خدائی ہے
نفرت کو جو بدلا ہے ہم نے ہی محبت سے
اک آگ بجھائی ہے اک آگ لگائی ہے
کرسی کیلئے سُنی ایماں سے نہیں پھرتا
غیروں سے نہیں ہم نے لَو حق سے لگائی ہے
میں جان اگر دیدوں حاؔفظ رہ مولا میں
دنیا میں بھلائی ہے عقبیٰ میں بھلائی ہے
(ماہنامہ فیض رضا ۔ لائل پور(فیصل آباد) اکتوبر ۱۹۷۰ء)

...

زندگی جب جنوں میں ڈھلتی ہے

انتہائے محبت

 

زندگی جب جنوں میں ڈھلتی ہے
میرے ہی مشوروں پر چلتی ہے
تلخ کا مان غم کی محفل میں
سَمْ کے بدلے شراب چلتی ہے
شمعِ تابانِ بزمِ حسن و جمال
دل جلوں کے لہو سے جلتی ہے
منزلِ دار پر جنوں پہنچا
عقل حسرت سے ہاتھ ملتی ہے
دونوں عالم کے دل دھڑکتے ہیں
جب نظر زاویہ بدلتی ہے
زندگی برق و رعد ہی تو نہیں
برف کی طرح بھی پگلتی ہے
کھیل سمجھو نہ تم اسے حاؔفظ
شاعری خونِ دل سے پلتی ہے
(ہفت روزہ اخبار جہاں کراچی نومبر ۱۹۷۶ء)

...