تضمین سلام رضا  

بحر نور و ہدایت پہ لاکھوں سلام

 (﷜سلام (تضمین بہ سلام رضا

 

بحر نور و ہدایت پہ لاکھوں سلام
کان لطف و کرامت پہ لاکھوں سلام
کنز اخلاق و حکمت پہ لاکھوں سلام
مصطفےٰ جان رحمت پہ لاکھوں سلام
شمع بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام

وہ گھڑی جبکہ نکلا ہے طیبہ کا چاند
جبکہ روشن ہوا خوب بطحا کا چاند
عرش پر چھاگیا نور اَسْرایٰ کا چاند
جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام

ظلمتیں چھٹ گیئں نور سا چھاگیا
زندگی کا قرینہ اسے آگیا
جس پہ بھی پڑگئی وہ سکوں پاگیا
جس طرف اٹھ گئی دم میں دم آگیا
اس نگاہ عنایت پہ لاکھوں سلام

کوئی کیا کرسکے گا بیاں ان کی شان
ہر گھڑی جو سنیں مقصد انس و جان
جن کو آواز دیں سارے بے چارگان
دور و نزدیک کے سننے والے وہ کان
کان لعل کرامت پہ لاکھوں سلام

کیجئے اپنے حاؔفظ پہ احساں ‘ رضا
ہو یہ مدحت سرا مثل حَسّاؔں ‘ رضؔا
آپ کا بھی ہو پورا یہ ارماں ‘ رضؔا
’’مجھ سے خدمت کے قدسی کہیں ہاں رضؔا‘‘
مصطفےٰﷺ جان  رحمت پہ لاکھوں سلام
شمع بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام

...

اِک پل بھی نہیں قرار آقاﷺ

تضمین برنعتِ اعلٰحضرت، مجدّدِ مأتہ حاضرہ، امام احمد رضا خاں بریلوی قدس سرہ

اِک پل بھی نہیں قرار آقاﷺ
آفات سے ہوں دو چار آقاﷺ
کب تک یہ اٹھاؤں بار آقاﷺ
غم ہوگئے بے شمار آقاﷺ
بندہ تیرے نثار آقاﷺ
عصیاں کی ہے تیرگی نے گھیرا
تاحدِّ نظر ہے گُھپ اندھیرا
آمہرِ عرب کہ ہو سویرا
بگڑا جاتا ہے کھیل میرا
آقا آقا سنوار آقاﷺ
دل کی بستی غمون نے لُوٹی
تدبیر کی نبض آہ چُھوٹی
تقدیر کہاں پہ لا کے پُھوٹی
منجدھار پہ آکے ناؤ ٹُوٹی
دے ہاتھ کہ ہُوں میں پار آقاﷺ
یہ دشت یہ جھاڑیاں گھنیری
دشوار ہے راہ شب اندھیری
دیتا ہوں تجھے دہائی تیری
ٹوٹی جاتی ہے پیٹھ میری
لِلہ یہ بوجھ اتار آقاﷺ
رکھتا ہے بڑا سہارا پلّہ
یعنی وزنی ہے سارا پلّہ
رکھ دے کملی کا پیارا پلّہ
ہلکا ہے اگرچہ ہمارا پلّہ
بھاری ہے ترا وقار آقاﷺ
ہے بارِ اَلَم تو فکر کیا ہے؟
گو پشت ہے خم تو فکر کیا ہے؟
لرزاں ہیں قدم تو فکر کیا ہے؟
مجبور ہیں ہم تو فکر کیا ہے؟
تم کو تو ہے اختیار آقاﷺ
مجھ کو کسی دُور میں نہیں یاس
کیوں ہو مجھے رنج و غم کا احساس
تم مِری امید، تم مِری آس
میں دُور ہوں تو تم ہو مِرے پاس
سُن لو میری پکار آقاﷺ
اس طرح ستم زدہ نہ ہوگا
مجبور و اَلم زدہ نہ ہوگا
حالات سے سَم زدہ نہ ہوگا
مجھ سا کوئی غم زدہ نہ ہوگا
تم سا نہیں غمگسار آقاﷺ
اَمواج سے لَڑ گئی ہے کشتی
ٹکرا کے بگڑ گئی ہے کشتی
طوفان میں اَڑگئی ہے کشتی
گرداب میں پڑگئی ہے کشتی
ڈُوبا، ڈُوبا، اُتار آقاﷺ
بخشش کا ہے باب باز تم سے
رحمت کا ظل دراز تم سے
ہر لطف ہے سرفراز تم سے
تم وہ کہ کرم کو ناز تم سے
میں دہ کہ بَدی کو عار آقاﷺ
ڈر ہو نہ بلائے آسماں کا
تِنکا بھی جَلے نہ آشیاں کا
بِیکا نہ ہو بال گلستاں کا
پھر منہ نہ پڑے کبھی خزاں کا
دے دے ایسی بہار آقاﷺ
انداز ہیں جس کے ناز والے
جس کو رحمت گلے لگا لے
خالِق سے جو تاجِ قَدْنَریٰ لے
جس کی مرضی خدا نہ ٹالے
میرا ہے وُہ نامدار آقاﷺ
ہے عرشِ عُلیٰ پہ جس کا قبضہ
ہے قصرِ دَنیٰ پہ جس کا قبضہ
ہے ارض و سما پہ جس کا قبضہ
ہے مُلکِ خدا پہ جس کا قبضہ
میرا ہے وہ کامگار آقاﷺ
مجھ سے عصیاں شعار بندے
ان پہ قرباں ہزار بندے
ہر اشک پر سونثار بندے
سویا کئے نابکار بندے
رویا کئے زار زار آقاﷺ
کچھ ہوش و خرد کو کام میں لائیں
انصاف تو اہلِ عشق فرمائیں
ان پہ صدقے نثار ہوجائیں
کیا بھُول ہے ان کے ہوتے کہلائیں
دنیا کے یہ تاجدار آقاﷺ
سرکار کے بے نوا پہ مِٹ جائیں
شانِ سائل نما پہ مٹ جائیں
اس کی اِک اِک ادا پہ مٹ جائیں
ان کے ادنیٰ گدا پہ مٹ جائیں
ایسے ایسے ھزار آقاﷺ
گہرے ہیں یہ کتنے میرے دھبّے
جائیں گے یہ کیسے میرے دھبّے
کس طرح مٹیں گے میرے دھبّے
بے ابرِ کرم کے میرے دھبّے
لَا تَغْسِلُہاَ الْبِحَار آقاﷺ
مِلتا ہے تمہارے دَر سے سب کو
اختؔر کی بھی مراد بھر دو
طیبہ کی نصیب حاضری ہو
اتنی رحمت رضؔا پر کرلو
لَا یَقْرِ بُہاِ الْبَواَر آقاﷺ

...

دیدار رب تجھے ہوا تیری الگ ہی شان ہے

تضمین برکلام امام   اہلسنت اعلی حضرت قدس سرہ

دیدار رب تجھے ہوا تیری الگ ہی شان ہے
پہونچے مکاں سے لامکاں اور لگا اک آن ہے
نکلی تھی دیکھنے کو حد حیران اب یہ جان ہے

عرش کی عقل دنگ ہے چرخ میں آسمان ہے
جان مراد اب کدھر ہائے تیرا مکان ہے

کب سے طلب میں گشت ہے کب تک کرنگے انتظار
عاصی ہیں، ہیں تو تیرے ہی گرچہ ہیں ہم گناہگار
ان کا کرم جو ہو کبھی ہم بھی لگائیں یہ پکار

پیشِ نظر وہ نو بہار سجدے کو دل ہے بے قرار
روکئے سرکو روکئے ہاں یہی امتحان ہے

رفعت میں ان کی حد ہے کیا ہم کو بتاؤ تو رضا
حیراں ہوں میں تو خود رضا کیا کیا کہوں تجھے شہا
یہ تو ہے صیغِ راز ہی ضد ہے تجھے تو سن ذرا

فرش پہ جاکے مرغ عقل تھک کے گرا غش آگیا
اور ابھی منزلوں پر ے پہلا ہی آستان ہے

پھرتی نسیم سحر ہے کس کی طلب ہیں گام گام
دریا کو جستجو ہے کیا کیوں پھر رہا ہےصبح و شام
تیری ہی فکر میں ہیں گم تیرا ہی ذکر اور نام

عرش پہ تازہ چھیڑ چھاڑ فرش پہ طرفہ دھوم دھام
کان جدھر لگائے تیری ہی داستاں ہے

دنیا کا حشر کا تجھے کیا کیا فاران خوف تھا
قبر ہے پل صراط بھی اعمال سے بھی ڈر ہوا
پھر جو اَنَا لَھَا سنا دل جھوم کر یہ بول اٹھا

خوف نہ رکھ رضا ذرا تو تو ہے عبدِ مصطفےٰ
تیرے لئے امان ہے تیرے لئے امان ہے

...

مظہرِ سرِ وحدت پہ لاکھوں سلام

تضمین برسلام اعلیٰ حضرت﷫

 

مظہرِ سرِ وحدت پہ لاکھوں سلام
منبع ہر فضیلت پہ لاکھوں سلام
صدرِ بدرِ نبوت پہ لاکھوں سلام
مصطفیٰﷺ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمع بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام
تاج دارِ شفاعت پہ روشن درود
اس سراپا ہدایت پہ روشن درود
بحرِ جود و سخاوت پہ روشن درود
مہرِ چرخِ نبوت پہ روشن درود
گلِ باغِ رسالت پہ لاکھوں سلام
باعثِ خلق کا سرورِ محترم
مرکزِ علم و اخلاق و حلم و حکم
سیدِ انبیا سرورِ باغِ کرم
شہر یار اِرم تاج دارِ حرم
نو بہارِ شفاعت پہ لاکھوں سلام
دونوں عالم کے آقاﷺ پہ دائم درود
بے پناہوں کے ماویٰ پہ دائم درود
شافع روزِ عقبیٰ پہ دائم درود
شبِ اسریٰ کے دولھا پہ دائم درود
نوشہ بزمِ جنت پہ لاکھوں سلام
جانِ صدیق﷜ ہے مار سے بے خطر
عصرِ حیدر﷜ ادا ہوگئی وقت پر
چاند کٹ کر ہوا اِک اِدھر اِک اُدھر
صاحبِ رجعت شمس و شق القمر
نائبِ دستِ قدرت پہ لاکھوں سلام
جھک گئے جس کے قدموں پہ شاہوں کے سر
جس کی خاطر کھلے آسمانوں کے در
عرش پر جو ہوئے شان سے جلوہ گر
صاحبِ رجعت شمس و شق القمر
نائبِ دست قدرت پہ لاکھوں سلام
نور سے جس کے ہے خلق کی ابتدا
ذات پر جس کی عالم کی ہے انتہا
رحمتِ عالمین وصف جس کا ہوا
جس کے زیرِ لوا آدم و من سوا
اس سزائے سیادت پہ لاکھوں سلام
نور جس کا ہوا پہلے جلوہ نما
عرش پر جس کا اسمِ مبارک لکھا
عہد جس کے لیے انبیا سے لیا
جس کے زیرِ لوا آدم و من سوا
اس سزائے سیادت پہ لاکھوں سلام
سید اولیں، سید آخریں
صادق وعد محبوبِ حق و امیں
سرورِ انبیاء، خاتم المرسلیںﷺ
عرش تا فرش ہے جس کے زیر نگیں
اس کی قاہر ریاست پہ لاکھوں سلام
حشر میں ہے فقط آپ کو دسترس
بے بسی پر کسی کا نہیں آج بس
بے کسوں کے لیے ذاتِ والا ہے کس
خلق کے داد رس سب کے فریاد رس
کہف روزِ مصیبت پہ لاکھوں سلام
جس کا روئے مبارک ہوا والضحٰی
جس کے دنداں سے والشّمس کی جلا
جن کے گیسو پہ واللیل صادق ہوا
وصف جس کا ہے آئینہ حق نما
اس خدا ساز طلعت پہ لاکھوں سلام
جس کی ہیبت سے بت اوندھے منھ گر پڑے
جس کے فرمان پر پیڑ کلمہ پڑھیں
جانور جس کے قدموں پہ سجدہ کریں
جس کے آگے سرِ سروراں خم رہیں
اس سر تاج رفعت پہ لاکھوں سلام
جس کے سر نورِ حق کا عمامہ بندھا
انبیا کے جلوے میں جو دولھا بنا
روز محشر جو مختارِ مطلق ہوا
جس کے ماتھے شفاعت کا سہرا رہا
اس جبین سعادت پہ لاکھوں سلام
روز محشر عجب کشمکش ہے بپا
اپنی بخشش کا جویا ہے ہر مبتلا
نفسی نفسی کہیں انبیاء اولیاء
جس کے ماتھے شفاعت کا سہرا رہا
اس جبین سعادت پہ لاکھوں سلام
بےطلب ہم غلاموں کو اکثر دیا
جو بھی مانگا گیا اس سے بہتر دیا
چشم رحمت جدھر اُٹھ گئیں بھر دیا
ہاتھ جس سمت اُٹھا غنی کر دیا
موج بحر سماحت پہ لاکھوں سلام
صدر اجلاس اقصیٰ پہ روشن درود
ساکن عرش اعلیٰ پہ روشن درود
واقف راز اوحیٰ پہ روشن درود
شبِ اسریٰ کے دولہا پہ دائم درود
نوشۂ بزم جنت پہ لاکھوں سلام
ہم پہ لطف و کرم کی در افشانیاں
نور و رحمت کی عالم پہ ضو ریزیاں
بھینی بھینی ہدایت کی گل پاشیاں
پتلی پتلی گلِ قدس کی پتیاں
ان لبوں کی نزاکت پہ لاکھوں سلام
ہلکی ہلکی تبسم کی گل ریزیاں
میٹھی میٹھی وہ رحمت کی گل پاشیاں
بھینی بھینی وہ خوشبوئے جسم و دہاں
پتلی پتلی گل قدس کی پتیاں
ان لبوں کی نزاکت پہ لاکھوں سلام
نفسی نفسی کا جس دم ہو ہر سمت دور
بے بسی پر ہر اک اپنی کرتا ہو غور
دستِ رحمت میں لے کر شفاعت کا طور
کاش محشر میں جب ان کی آمد ہو اور
بھیجیں سب ان کی شوکت پہ لاکھوں سلام
تو بھی بُرہاؔن ہو شیخ کے ہم نوا
عید الاسلامؔ کے ساتھ اس جا کھڑا
جس کی نسبت مرے شیخ نے یہ کہا
مجھ سے خدمت کے قدسی کہیں ہاں رضؔا
مصطفیٰﷺ جان رحمت پہ لاکھوں سلام
ﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺ

...