سہرا شادی
موسمِ گُل ہے بہاروں کی نگہبانی ہے
میرے گھر قافلۂ عیش کی مہمانی ہے
موسمِ گُل ہے بہاروں کی نگہبانی ہے
میرے گھر قافلۂ عیش کی مہمانی ہے
شمیم خلد برکت ہے اُدھر گھونگھٹ اِدھر سہرا
پیام نور و نکہت ہے اُدھر گھونگھٹ اِدھر سہرا
نشانِ اوجِ قسمت ہے اُدھر گھونگھٹ اِدھر سہرا
بلندی کی علامت ہے اُدھر گھونگھٹ اِدھر سہرا
سکوں پرور بشارت ہے اُدھر گھونگھٹ اِدھر سہرا
نوید جشن راحت ہے اُدھر گھونگھٹ اِدھر سہرا
جبیں پر ظِلِّ رافت ہے اُدھر گھونگھٹ اِدھر سہرا
یہ دیکھو کیسی رحمت ہے اُدھر گھونگھٹ اِدھر سہرا
حبیؔبہ کی حسیں سیرت بہار گلشن رمضؔاں
ظہؔور حسن فطرت ہے اُدھر گھونگھٹ اِدھر سہرا
ملے فردوس میں ہیں امتؔیاز و عیؔد باہم یوں
بہار عید عشرت ہے اُدھر گھونگھٹ اِدھر سہرا
ادھر انوار رحمت اور ادھر مُرشد(۱) کی بر کت سے
پیام لطف و راحت ہے اُدھر گھونگھٹ اِدھر سہرا
وہ خوشبو دے رہے ہیں پھول سہرے کے حسیں گویا
جوابِ عطرِ جنت ہے اُدھر گھونگھٹ اِدھر سہرا
وہ ظِلِّ چادرِ مریم یہ بوئے دامنِ یوسف
حسیں تصویر عصمت ہے اُدھر گھونگھٹ اِدھر سہرا
یہ کس بزم مسرت میں ہوا نغمہ سرا حاؔفظ
یہ کیسی عام شہرت ہے اُدھر گھونگھٹ اِدھر سہرادولہا کے مرشد گرامی ‘ خلیل ملت حضرت علامہ مفتی محمد خلیل خاں قادری برکاتی
ہے جو محبوب سجا تیری جبیں پر سہرا
باعث نگہت و عشرت ہے منور سہرا
رشک سے کیوں نہ تکیں یہ مہ و اختر سہرا
سب کا محبوب نظر ہے یہ مطہر سہرا
آرزو بہنوں کی ارمان برادر سہرا
راحت جان و سکونِ دلِ مادر سہرا
چومتا ہے ترے رخسار و جبیں کو پیہم
در حقیقت ہے مقدر کا سکندر کا سہرا
فیض مرشد سے یہ لایا ہے بہاروں کا پیام
ہو مبارک تجھے محبوب معطر سہرا
انکساری سے جو جھکتا ہے کہیں پر نوشہ
چوم لیتا ہے قدم بڑھ کے وہیں پر سہرا
آج تکمیل تمنا ہے مبارک ہو تمہیں
دوست کہتے ہیں یہی رخ سے ہٹا کر سہرا
جس طرح آج ہے مہکا یا مشام جاں کو
زیست مہکاتا رہے یوں ہی برابر سہرا
راحت قلب و نظر آج ہوا ہے جیسے
پیش کرتا رہے تا عمر یہ منظر سہرا
ہم کو دعوائے سخن سازی نہیں ہے حاؔفظ
رنگ غالب میں مگر لائے ہیں لکھ کر سہرا
(۱۹۷۱ء)
دست زہرا پہ جو بشریٰ نے لگائی مہندی
باغ فردوس میں حوروں نے بھی گائی مہندی
نانی منؔعم نے یہ پھولوں سے سجائی مہندی
اسلئے آج ہر اک شخص کو بھائی مہندی
لب میموؔنہ و صفؔیہ نے کہا ‘ بسم اللہ !
جب کف دست پہ دولہن کے لگائی مہندی
پھوٹی پڑتی ہے محبت تو ٹپکتا ہے خلوص
طشت میں پیار سے یہ کس نے سجائی مہندی
اللہ اللہ یہ انعام نعؔیم رحمت
باغ برکات میں کیا رنگ ہے لائی مہندی
آگئی چہرہ رنگین پر حیا سے سرخی
چومنے کو جو بڑھی دست حنائی مہندی
شرم و غیرت سے ہوئی جاتی ہے پانی پانی
دیکھ کر تیری ہتھیلی کی صفائی مہندی
آج اس بزم میں ہر اک نے کہا ہے سن کر
واہ کیا خوب ہے بھائی نے سُنائی مہندی
باادب خم ہے سر شاخ حنا اے حاؔفظ
گلشن خلد سے شاید ہے یہ آئی مہندی
سہرا
چھائیں رحمت کی گھٹائیں میں وہ سہرا کہدوں
بدلیاں جھومتی آئیں میں وہ سہرا کہدوں
عرش تک نعتِ محمدﷺ کے ترانے گونجیں
حوریں فردوس میں گائیں میں وہ سہرا کہدوں
عطر میں ڈوبی ہوئی آئے نسیم سحری
پھول برسائیں ہوائیں میں وہ سہرا کہدوں
عندلیبانِ چمن بھی مترنم ہوں خلیؔل
قمریاں جھوم کے گائیں میں وہ سہرا کہدوں
اللہ غنی کیا خوب ہے یہ پاکیزہ طبیعت سہرے کی
تحمیدِ الہٰ تمجید بنی دیرینہ ہے عادت سہرے کی
کہتی ہے عقیدت سے جھک کر یہ فرق ارادت سہرے کی
اب آپ کے ہاتھوں عزّت ہے یا شاہِ رسالتﷺ سہرے کی
ہیں پھول یہ سارے صف بستہ گاتے ہیں جو مدحت سہرے کی
بیجا تو نہ ہوگا کہنا مجھے کلچیں کو رعّیت سہرے کی
یہ زینت و زیب اور یہ تزئیں، یہ ناز و ادا اور یہ تمکیں
برجستہ نکلتی ہے تحسیں، اللہ رے نزہت سہرے کی
گلزارِ مدینہ ہے مسکن، بغداد ہے ان پھولوں کا وطن
پھر فضل الہٰی پر تو فگن، ہے اوج پہ قسمت سہرے کی
ابھرا ہے گلستاں کا جوبن پھولا ہے محبت کا گلشن
شرما بھی رہا ہے مشکِ ختن پھیلی ہے جو نگہت سہرے کی
یہ لطف تبسم غنچوں کا یہ طرز تکلم کلیوں کا!
یہ غمزہ و عشوہ پھولوں کا ہے ساری کرامت سہرے کی
کس ناز و ادا سے اترا کر چمٹا ہے کلیجے سے جاکر
بندھتے ہی جبین نوشہ پر کیا کھل گئی قسمت سہرے کی
کچھ باد صبا اتراتی ہے اور جھومتی گاتی آتی ہے
فردوس بریں یاد آتی ہے دیکھی ہے جو رنگت سہرے کی
یہ بزم فلک کے سیارے یہ اختر و انجم مہ پارے
ٹوٹے ہیں عقیدت کے مارے کرنے کو زیارت سہرے کی
یہ ناز و نعم گو ناگوں ہو، یہ عیش و طرب دو نادوں ہو
اللہ کرے روز افزوں ہو یہ شوکت و رفعت سہرے کی
اے شاہ مدینہ شاہِ زمن از بہر حسیؔن از بہرِ حسؔن
شاداں رہیں دولہا اور دلہن دن دونی ہو عزّت سہرے کی
اے طبع خلیؔل فیض رقم یہ جوش بیاں یہ زور قلم
کھائے گی تری شوخی کی قسم تا عمر لطافت سہرے کی
ہے جو نعمان سجا تیری جبیں پر سہرا
باعث نگہت و عشرت ہے منور سہرا
رشک سے کیوں نہ تکیں یہ مہ و اختر سہرا
سب کا محبوب نظر ہے یہ مطہر سہرا
آرزو بہن کی ارمانِ برادر سہرا
راحت جان و سکونِ دلِ مادر سہرا
چومتا ہے ترے رخسار و جبیں کو پیہم
در حقیقت ہے مقدر کا سکندر سہرا
فیض مرشد سے یہ لایا ہے بہاروں کا پیام
ہو مبارک تجھے محبوب و معطر سہرا
انکساری سے جو جھکتا ہے کہیں پر نوشہ
چوم لیتا ہے قدم بڑھ کے وہیں پر سہرا
آج تکمیل تمنا ہے مبارک ہو تمہیں
بھائی کہتے ہیں یہی رخ سے ہٹا کر سہرا
جس طرح آج ہے مہکا یا مشامِ جاں کو
زیست مہکاتا رہے یوں ہی برابر سہرا
راحت قلب و نظر آج ہوا ہے جیسے
پیش کرتا رہے تا عمر یہ منظر سہرا
گرچہ حسّان ہمیں کوئی بھی دعویٰ تو نہیں
رنگ غالب میں مگر لائے ہیں لکھ کر سہرا
(۱۷ جنوری ۲۰۱۸ء)