سہرے  

شمیم خلد برکت ہے اُدھر گھونگھٹ اِدھر سہرا

گھونگھٹ کے تار سہرے کے پھول بہ تقریب عروسی حافظ محمد رمضان خاں برکاتی زید حبہ

۱۷ء رجب المرجب ۱۴۰۱ھ ۲۲ مئی ۱۹۸۱ء

 

شمیم خلد برکت ہے اُدھر گھونگھٹ اِدھر سہرا
پیام نور و نکہت ہے اُدھر گھونگھٹ اِدھر سہرا
نشانِ اوجِ قسمت ہے اُدھر گھونگھٹ اِدھر سہرا
بلندی کی علامت ہے اُدھر گھونگھٹ اِدھر سہرا
سکوں پرور بشارت ہے اُدھر گھونگھٹ اِدھر سہرا
نوید جشن راحت ہے اُدھر گھونگھٹ اِدھر سہرا
جبیں پر ظِلِّ رافت ہے اُدھر گھونگھٹ اِدھر سہرا
یہ دیکھو کیسی رحمت ہے اُدھر گھونگھٹ اِدھر سہرا
حبیؔبہ کی حسیں سیرت بہار گلشن رمضؔاں
ظہؔور حسن فطرت ہے اُدھر گھونگھٹ اِدھر سہرا
ملے فردوس میں ہیں امتؔیاز و عیؔد باہم یوں
بہار عید عشرت ہے اُدھر گھونگھٹ اِدھر سہرا
ادھر انوار رحمت اور ادھر مُرشد(۱)  کی بر کت سے
پیام لطف و راحت ہے اُدھر گھونگھٹ اِدھر سہرا
وہ خوشبو دے رہے ہیں پھول سہرے کے حسیں گویا
جوابِ عطرِ جنت ہے اُدھر گھونگھٹ اِدھر سہرا
وہ ظِلِّ چادرِ مریم یہ بوئے دامنِ یوسف
حسیں تصویر عصمت ہے اُدھر گھونگھٹ اِدھر سہرا
یہ کس بزم مسرت میں ہوا نغمہ سرا حاؔفظ
﷫ یہ کیسی عام شہرت ہے اُدھر گھونگھٹ اِدھر سہرا
دولہا کے مرشد گرامی ‘ خلیل ملت حضرت علامہ مفتی محمد خلیل خاں قادری برکاتی 

...

ہے جو محبوب سجا تیری جبیں پر سہرا

سہرا  بہ تقریب شادی برادرم محبوب عالم خاں نظامی زید حبہ ۔ کراچی

 

ہے جو محبوب سجا تیری جبیں پر سہرا
باعث نگہت و عشرت ہے منور سہرا
رشک سے کیوں نہ تکیں یہ مہ و اختر سہرا
سب کا محبوب نظر ہے یہ مطہر سہرا
آرزو بہنوں کی ارمان برادر سہرا
راحت جان و سکونِ دلِ مادر سہرا
چومتا ہے ترے رخسار و جبیں کو پیہم
در حقیقت ہے مقدر کا سکندر کا سہرا
فیض مرشد سے یہ لایا ہے بہاروں کا پیام
ہو مبارک تجھے محبوب معطر سہرا
انکساری سے جو جھکتا ہے کہیں پر نوشہ
چوم لیتا ہے قدم بڑھ کے وہیں پر سہرا
آج تکمیل تمنا ہے مبارک ہو تمہیں
دوست کہتے ہیں یہی رخ سے ہٹا کر سہرا
جس طرح آج ہے مہکا یا مشام جاں کو
زیست مہکاتا رہے یوں ہی برابر سہرا
راحت قلب و نظر آج ہوا ہے جیسے
پیش کرتا رہے تا عمر یہ منظر سہرا
ہم کو دعوائے سخن سازی نہیں ہے حاؔفظ
رنگ غالب میں مگر لائے ہیں لکھ کر سہرا
(۱۹۷۱ء)

...

دست زہرا پہ جو بشریٰ نے لگائی مہندی

مہندی

چھوٹی ہمشیرہ زھرا خانم برکاتی کی شادی پر کہی

 

دست زہرا پہ جو بشریٰ نے لگائی مہندی
باغ فردوس میں حوروں نے بھی گائی مہندی
نانی منؔعم  نے یہ پھولوں سے سجائی مہندی
اسلئے آج ہر اک شخص کو بھائی مہندی
لب میموؔنہ و صفؔیہ نے کہا ‘ بسم اللہ !
جب کف دست پہ دولہن کے لگائی مہندی
پھوٹی پڑتی ہے محبت تو ٹپکتا ہے خلوص
طشت میں پیار سے یہ کس نے سجائی مہندی
اللہ اللہ یہ انعام نعؔیم رحمت
باغ برکات میں کیا رنگ ہے لائی مہندی
آگئی چہرہ رنگین پر حیا سے سرخی
چومنے کو جو بڑھی دست حنائی مہندی
شرم و غیرت سے ہوئی جاتی ہے پانی پانی
دیکھ کر تیری ہتھیلی کی صفائی مہندی
آج اس بزم میں ہر اک نے کہا ہے سن کر
واہ کیا خوب ہے بھائی نے سُنائی مہندی
باادب خم ہے سر شاخ حنا اے حاؔفظ
گلشن خلد سے شاید ہے یہ آئی مہندی

...

میرے نوشاہ کی دل ربائی

سِہرا بانداز غزل

میرے نوشاہ کی دل ربائی
چاندنی دیکھ کر مسکرائی
بزم کی بزم ہے عطر آگیں
ایسی سہرے میں خوشبو سمائی
بس لچکنا تھا سہرے کا رخ پر
دو دلوں کی کلی مسکرائی
آج خوش خوش نسیمِ سحر بھی
مژدۂ جانفزا لے کے آئی
وجد میں سن کے ہر اک کلی ہے
اہل محفل کی نغمہ سرائی
میرے نوشہ کی دلکش ادائیں
جس کو دیکھو وہی ہے فدائی
دولہا دولہن کو ہوئے مبارک
ان کی ساکت تمنا برآئی
اس طرف تاب دست محبت
اور اس سمت دست حنائی
کہہ اٹھے اہل محفل بھی اخؔتر
خوب تو نے غزل گنگنائی

...

اے خوشا باران ابر رحمت رب جلیل

سہرا

اے خوشا باران ابر رحمت رب جلیل
بہہ رہی ہے ہرطرف کیف و طرب کی سلسبیل
دیدۂ مشتاق میں کحل مسرت کی لکیر
ہے کسی زہرہ جبیں کی رونمائی کی دلیل
بے ربانئ لب غنچہ پہ قربان جائیے
راز الفت آشکارا کردئیے بے قال و قیل
اس طرف ہے دجلۂ عشق و محبت موجزن
اور اس جانب حیا و شرم کی پاکیزہ نیل

 

دلربا و دلنواز و دل نشیں سہرے میں ہے
باغ احمد کا گل ناز آفریں سہرے میں ہے
ہر طرف چھٹکی نظر آتی ہے کیسی چاندنی
ہو نہ ہو ماہِ درخشندہ جبیں سہرے میں ہے
ہے یہ تیری ہی عنایت اے نصیر کائنات
حافظ سنت بصد حسن یقیں سہرے میں ہے
غسل لبہائے حسیں صہبائے چشم نازنین
قاؔسم فیض شراب و انگبیں سہرے میں ہے

 

 

تجھ میں اے دوشیزۂ الفت بڑا اعجاز ہے
ساز گل سوز عنادل آج ہم آواز ہے
ایک ہی در اصل مرکز ہے نیاز و ناز کا
یوں تو کہنے کیلئے ایک سوز ہے ایک ساز ہے
روکش حسن قمر رشک جمال کہکشاں
یہ مرا نوشاہ جیتا جاگتا اعجاز ہے
دو دلوں کے درمیاں کوئی دوئی حائل نہیں
یہ کشش ہے حسن کی یا عشق کی پرواز ہے



ہر رگ گل سے نمایاں ہے ادائے شاکری
اللہ اللہ رے ترے سہرے کی روشن اختری
عارض انور کی نور افشانیاں مت پوچھئے
ہے عرق آلود سیمائے جمال خووری
غنچہ غنچہ عارف اسرارما طالب لکم
ڈالی ڈالی آسیہ ہائے قصور دلبری
زیب فرق ناز ہے حسن احسن الاقبال ہے
کس قدر حیرت فزا ہے عشق کی جادوگری

 

ساغر گل میں تلاطم خیز ہے موج نشاط
پتی پتی شبنم افشائے شراب انبساط
رفعت آفاق حسن دلربا ممکن نہیں
بچھ نہ جائے جب تک اختر عشق کی رنگیں بساط
حسن گر ہے چاند تو ہے عشق اس کی چاندنی
چاندنی سے چاند ہوتا ہے کہیں بے ارتباط
کہہ رہی ہے کونپلیں بن جادہ پیمائے مجاز
گرحقیقت سے تجھے ہونا ہے سرشار نشاط

...

بزم گیتی کا ہر ایک ذرہ پُر انوار ہوا

سہرا

بزم گیتی کا ہر ایک ذرہ پُر انوار ہوا
حسن خود ناصیۂ عشق پہ ضوبار ہوا
اللہ اللہ رے سہرے کا جمال رنگیں
نکہت خلد بیاں نزہتِ افکار ہوا
از زمیں تابہ فلک ایک تعطر کاسماں
روکشِ باد بہاری ہے فضا آج کے دن
کس نے زلفوں کو بکھیرا ہے بصد ناز وادا
شوخ و چنچل ہوئی جاتی ہے ہوا آج کے دن
برق چشمان حسیں مہر عذار رنگیں
اپنے پردے میں چھپائے ہے قیامت سہرا
ساغر گل میں ہے صہبائے شریعت رقصاں
شرح ماطاب لکم حامل سنت سہرا
ہے یہ گلزار وصؔی شہ ابرار کا پھول
جس نے گیتی کو مہکنے کا سبق سکھلایا
فکر و جداں کی قنادیل فروزاں کرکے
تیرہ سامانئ ماحول کی پلٹی کایا
کوثری جام لئے ساغر تسنیم لئے
تیری آنکھوں نے سکھایا ہے محبت کیا ہے
بربط و عود و چراغ و دف و افسانہ و چنگ
آج معلوم ہوئی راہ حقیقت کیا ہے
نغمہ افشاں ہے لب نسترن دردو سمن
خامشی میں بھی بڑی شورش گویائی ہے
اس طرف سوز کے دریا میں تلاطم برپا
اس طرف ساز عروسانہ کی برنائی ہے
اپنے گہوارۂ الفت میں لئے رنگ حنا
تری چوکھٹ پہ شفق بن کے شفیق آئی ہے
کتنے گلہائے عقیدت کا بنا کے مالا
فرط اخلاص و محبت سے یہاں لائی ہے
مرے نو شاہ ضیائے رخ تاباں کی قسم
طلعت حسن ثرّیا تری پروانہ ہے
جذبہ عشق کی اللہ رے عشوہ سازی
رفعت برج سعادت تری دیوانہ ہے
ننھے تاروں کی امیدوں سے شعاعیں پھوٹیں
تو نمود آرا فقط پیکر انسان ہوا
اور انساں نے جب آغوش تمنا واکی
پھر کہیں جاکے کوئی سیّدذی شان ہوا
تابش روئے منور سے گماں ہوتا ہے
فرش گیتی پر اُتر آیا کوئی بدؔر منؔیر
باؔبر و طارقؔ و زہؔرہ کی یہ معصوم دعا
کھینچ دی جس نے نگاہوں میں مسرت کی لکیر
ہو ترا طالع بیدار مبارک تجھ کو
سروری تاج بنے زیب دہ بخت سعید
کیوں نہ سیمائے مسرت سے شعائیں پھوٹھیں
رات اخؔتر ہے شب قدر تو دن نازش عید

...

چھائیں رحمت کی گھٹائیں میں وہ سہرا کہدوں

کیا میں سہرا کہدوں

قطعہ

چھائیں رحمت کی گھٹائیں میں وہ سہرا کہدوں
بدلیاں جھومتی آئیں میں وہ سہرا کہدوں
عرش تک نعتِ محمدﷺ کے ترانے گونجیں
حوریں فردوس میں گائیں میں وہ سہرا کہدوں
عطر میں ڈوبی ہوئی آئے نسیم سحری
پھول برسائیں ہوائیں میں وہ سہرا کہدوں
عندلیبانِ چمن بھی مترنم ہوں خلیؔل
قمریاں جھوم کے گائیں میں وہ سہرا کہدوں

...

اللہ غنی کیا خوب ہے یہ پاکیزہ طبیعت سہرے کی

جشن شادی راحت

۱۳۶۸؁ ھ

سہرا بر شادئ مبارک سید حسن میاں صاحب مدظلہٗ

اللہ غنی کیا خوب ہے یہ پاکیزہ طبیعت سہرے کی
تحمیدِ الہٰ تمجید بنی دیرینہ ہے عادت سہرے کی
کہتی ہے عقیدت سے جھک کر یہ فرق ارادت سہرے کی
اب آپ کے ہاتھوں عزّت ہے یا شاہِ رسالتﷺ سہرے کی
ہیں پھول یہ سارے صف بستہ گاتے ہیں جو مدحت سہرے کی
بیجا تو نہ ہوگا کہنا مجھے کلچیں کو رعّیت سہرے کی
یہ زینت و زیب اور یہ تزئیں، یہ ناز و ادا اور یہ تمکیں
برجستہ نکلتی ہے تحسیں، اللہ رے نزہت سہرے کی
گلزارِ مدینہ ہے مسکن، بغداد ہے ان پھولوں کا وطن
پھر فضل الہٰی پر تو فگن، ہے اوج پہ قسمت سہرے کی
ابھرا ہے گلستاں کا جوبن پھولا ہے محبت کا گلشن
شرما بھی رہا ہے مشکِ ختن پھیلی ہے جو نگہت سہرے کی
یہ لطف تبسم غنچوں کا یہ طرز تکلم کلیوں کا!
یہ غمزہ و عشوہ پھولوں کا ہے ساری کرامت سہرے کی
کس ناز و ادا سے اترا کر چمٹا ہے کلیجے سے جاکر
بندھتے ہی جبین نوشہ پر کیا کھل گئی قسمت سہرے کی
کچھ باد صبا اتراتی ہے اور جھومتی گاتی آتی ہے
فردوس بریں یاد آتی ہے دیکھی ہے جو رنگت سہرے کی
یہ بزم فلک کے سیارے یہ اختر و انجم مہ پارے
ٹوٹے ہیں عقیدت کے مارے کرنے کو زیارت سہرے کی
یہ ناز و نعم گو ناگوں ہو، یہ عیش و طرب دو نادوں ہو
اللہ کرے روز افزوں ہو یہ شوکت و رفعت سہرے کی
اے شاہ مدینہ شاہِ زمن از بہر حسیؔن از بہرِ حسؔن
شاداں رہیں دولہا اور دلہن دن دونی ہو عزّت سہرے کی
اے طبع خلیؔل فیض رقم یہ جوش بیاں یہ زور قلم
کھائے گی تری شوخی کی قسم تا عمر لطافت سہرے کی

...

ہے جو نعمان سجا تیری جبیں پر سہرا

سہرا

یہ تقریب شادی برادر انجنیئر نعمان رضا خاں برکاتی زید حبہ ولد مفتی احمد میاں برکاتی

(از: محمد حسّان رضا خاں نوری، برادر نوشاہ) اصلاح شدہ: مفتی احمد میاں حافؔظ البرکاتی

ہے جو نعمان سجا تیری جبیں پر سہرا
باعث نگہت و عشرت ہے منور سہرا
رشک سے کیوں نہ تکیں یہ مہ و اختر سہرا
سب کا محبوب نظر ہے یہ مطہر سہرا
آرزو بہن کی ارمانِ برادر سہرا
راحت جان و سکونِ دلِ مادر سہرا
چومتا ہے ترے رخسار و جبیں کو پیہم
در حقیقت ہے مقدر کا سکندر سہرا
فیض مرشد سے یہ لایا ہے بہاروں کا پیام
ہو مبارک تجھے محبوب و معطر سہرا
انکساری سے جو جھکتا ہے کہیں پر نوشہ
چوم لیتا ہے قدم بڑھ کے وہیں پر سہرا
آج تکمیل تمنا ہے مبارک ہو تمہیں
بھائی کہتے ہیں یہی رخ سے ہٹا کر سہرا
جس طرح آج ہے مہکا یا مشامِ جاں کو
زیست مہکاتا رہے یوں ہی برابر سہرا
راحت قلب و نظر آج ہوا ہے جیسے
پیش کرتا رہے تا عمر یہ منظر سہرا
گرچہ حسّان ہمیں کوئی بھی دعویٰ تو نہیں
رنگ غالب میں مگر لائے ہیں لکھ کر سہرا
(۱۷ جنوری ۲۰۱۸ء)

...