ڈاکٹر کیفؔی بکسری شاہ ابادی  

سلام اس پر کہ جس نے خدمت تجدیدِ ملت کی

تحفۂ سلام

برامام اہل سنت مجدد دین و ملت اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب فاضل بریلوی قدس سرہ

از: جناب ڈاکٹر کیفؔی صاحب بکسری شاہ ابادی

سلام اس پر کہ جس نے خدمت تجدیدِ ملت کی
سلام اس پر کہ جس نے خدمتِ تبلیغ سیرت کی
سلام اُس پر کہ جس نے راہ دکھلائی شریعت کی
سلام اُس پر کہ جس نے راہ بتلائی طریقت کی
سلام اُس پر کہ جس نے عزت شانِ نبوتﷺ کی
سلام اُس پر کہ جس نے حرمت جانِ رسالتﷺ کی
سلام اُس پر کہ جس نے رہبری کی اہل سنت کی
سلام اُس پر کہ جس نے شرم رکھ لی دین و ملت کی
سلام اُس پر کہ جس نے رمز قرآنی کو بتلایا
سلام اُس پر کہ جس نے معنی مستور سمجھایا
سلام اُس پر کہ جس نے حل کئے عقدے مسائل کے
سلام اُس پر طریقے جس نے بتلائے دلائل کے
سلام اُس پر کہ جس نے رد کئے باطل عقائد کو
سلام اُس پر کہ کچلا جس نے ان حشود و زوائد کو
سلام اُس ذات پر جو واقف سر حقیقت تھی
سلام اُس ذات پر جو ہادئ راہِ طریقت تھی
سلام اُس ذات پر جو بزم آرائے شریعت تھی
سلام اُس ذات پر جو پاسبان دینِ فطرت تھی
سلام اُس ذات پر جو صاحب عشق نبوت تھی
سلام اُس ذات پر جو شارح حسن و محبت تھی
سلام اُس ذات پر جو چشمۂ جان عقیدت تھی
سلام اُس ذات پر جو صاحب حسنِ بصیرت تھی
سلام اُس پر کہ جس کے روبرو خم یہ زمانہ ہے
اور اس کیفؔی کو بھی جس سے عقیدت والہانہ ہے
﷫﷫﷫﷫﷫﷫﷫﷫﷫﷫﷫

...

امام اہل سنن وہ امام اہل ہدیٰ

مجدد اعظم امام اہل سنن

از: عندلیب اہل سنت حضرت مولانا مفتی محمد رجب علی صاحب مفتی نانپارہ مدظلہ العالی

امام اہل سنن وہ امام اہل ہدیٰ
فقیہ ایسا کہ واللہ مرجع الفقہا
وہ آفتاب سپہر علوم دین حسن
وہ ماہتاب معارف و نجم رشد و تقی
وہ جس کے ناخن ادراک کا اشارہ اک
برائے خلق بفضل الہ عقدہ کشا
فہیم ایسا کہ فہم جہاں ہو جس پر نثار
عقیل وہ کہ ہیں جس کے گدا سبھی عقلا
جلال علم عیاں جس کے روئے زیبا سے
جمال عشق کی زلفوں پہ جسکے چھائی گھٹا
نعیم و امجد برہان حق ہیں جس پہ نثار
ضیاء عبد عزیز و سلام جس پر فدا
وہ جس کے آئینۂ رخ میں حجتہ الاسلام
ہوئے جو حامد و محمود مجلس علما
ہیں جس کے مظہر انوار مفتئ اعظم
کہ جن کے دم سے منور ہے محفل نقبا
بسا ہے کون تخیل میں دل بتا تو سہی
وہ کون ہے کہ یہ جس کے لیے ہے قصد ثناء
تری مجال زبان ثنا! کہ واہو کر
کرے تو مدحت الطاف بارگاہ رضا
وہ ہیں مجدد دوراں ضیاء دین مبیں
جنید عصر ہیں وہ شبلی زماں بخدا
برائے تزکیۂ نفس ان کے در پہ جو آئے
خدا کے فضل سے پاجائے بے مثال
ہے اُن کی خاک در فیض کیمیائے غریب
ہے نام اُن کا عجب حرز بہر دفع کا
قضا اگر ہو معلق تو کیا عجب اے دل
بفیض خاص لپٹ جائے روئے تیر قضا
ہے آزمودہ کہ اعداء میں پڑگئی ہلچل
غلام در کی زباں پر جو آیا نام رضاؔ
بقصد دفع بلیات ان کا نام کریم
عمل انوکھا ہے اہل سنن کا لکھا پڑھا
کرم ہے مجھ پہ مدیر تجلیات کا یہ
لکھا جو مجھ کو کروں عرض مدح شان رضا
کہاں میں ذرۂ ناچیز اور کہاں وہ جناب
زمین عجز کہاں اور کہاں وہ عرش ہدیٰ
وہ بادشاہ سخاوت ہیں اُن کے در پہ مرا
عریضہ ایسا ہے جیسے فقیر کی ہو صدا
قبول ہے کہ نہیں اس کی فکر لاحاصل
نگاہ فیض کا محتاج ہوں میں ان کی سدا
غلام حضرت عبد العزیز ہادئ دیں
رجب منہم ز دعائے زبان پاک رضا
فیض مرشد برحق چناں شدہ کہ شدم
گدائے مفتی اعظم فقیہ اہل ہدیٰ

...