جناب جمیل احمد نظر  

جلوہ ہے نور ہے کہ سراپا رضا کا ہے

منقبت

درمدح اعلیحضرت مولانا احمد رضا خانصاحب قدس سرہٗ

(جو کہ احمد رضا کانفرنس میں ۱۸ دسمبر ۱۹۸۲؁ ء کو پڑھی گئی)

جلوہ ہے نور ہے کہ سراپا رضا کا ہے
تصویرِ سنّیت ہے کہ چہرہ رضا کا ہے
وادی رضا کی، کوہ ہمالہ رضا کا ہے
جس سمت دیکھئیے وہ علاقہ رضا کا ہے
دستار آرہی ہے زمیں پر جو سر اُٹھے
اتنا بلند آج پھریرا رضا کا ہے
کس کی مجال ہے کہ نظر بھی مِلا سکے
دربارِ مصطفیٰﷺ میں ٹھکانا رضا کا ہے
الفاظ بہہ رہے ہیں دلیلوں کی دھار پر
چلتا ہوا قلم ہے کہ دھارا رضا کا ہے
چھوتا ہے آسمان کو مینار عزم کا
یعنی اٹل پہاڑ ارادہ رضا کا ہے
نکتے عبارتوں سے ابھرتے ہیں خودبخود
نقد و نظر پہ ایسا اجارہ رضا کا ہے
دریا فصاحتوں کے رواں شاعری میں ہیں
یہ سہل ممتنع ہے کہ لہجہ رضا کا ہے
جو لکھ دیا ہے اس نے سند ہے وہ دین میں
اہلِ قلم کی آبرو نکتہ رضا کا ہے
اگلوں نے بھی لکھا ہے بہت علم دین پر
جو کچھ ہے اس صدی میں وہ تنہا رضا کا ہے
اس دورِ پُر فتن میں نظر خوش عقدیگی
سرکار کا کرم ہے بہاتا رضا کا ہے

...