بچایا دین و ایماں تلف ہونے سے مسلماں کا
بچایا دین و ایماں تلف ہونے سے مسلماں کا
عظیم احساں ہے امّت پر امام احمد رضا خان کا
رہا رُخ موڑ کے تو جھوٹ کے ہر ایک طُوفاں کا
زمانہ آج بھی ممنون ہے تیرے لُطف و احساں کا
محدّث بھی مفسر بھی مجدّد بھی تُو برحق ہے
ترے ہی سر پہ سجتا تاج ہے شاہِ فقیہاں کا
جو پایا تُو نے اعزازِ فضیلت وہ مثالی ہے
احاطہ کر نہیں سکتیں نگاہیں عظمت و شاں کا
فصاحت میں بلاغت میں فقاہت اور امامت میں
ہے جاری آج بھی سکّہ ترے ہی علم و عرفاں کا
نشانِ راہ ہے اب تک تری طرزِ جُداگانہ
لقب زیبا ہے تجھ ہی کو امامِ نعت گویاں کا
کھلے ہیں پُھول ہر جانب گلستانِ شفاعت کے
کُھلا ہے جب بھی کوئی باب تیرے نعت ایواں کا
تُجھے فائنہ کیا فطرت نے دیں کی ترجمانی پر
نبھایا خُوب ہے تُو نے فریضہ شرحِ قرآں کا
ترے ہر لفظ سے اُلفت کے سوتے پُھوٹے پڑتے ہیں
مطالعہ کر کے دیکھے بھی تو کوئی ’’کنزِ ایماں‘‘ کا
نبیﷺ کی آن کو رکھّا مُقَدّم ہر گھڑی یارو
عیاں تیرے عمل سے ہوگیا یہ راز ایماں کا
نہیں کوئی سوائے مصطفیٰﷺ کے اپنا کہنے کو
یہی پیغام دیتا ہے ترا ہر شعر دیواں کا
کیا ہے دُودھ سے پانی جُدا بےشک رضؔا تُو نے
تعلّق ہے ترا اسلام سے جاں سے رگِ جاں کا
مقابل کب ترے ٹھہرا ہے کوئی ’’دیو کا بندہ‘‘
ہؤا کب ہے کسی سے سامنا اس تیغِ برآں کا
بدل کر رکھ دیا مطلق مزاجِ گُمرہاں تُو نے
ہدایت کی سند ہت بس تعلق تیرے داماں کا
عرب اور عجم میں الغرض ساری ہی دُنیا میں
ترا ہی نام لیوا ہے مخالف حزبِ شیطاں کا
ترے صدقے ترے قُرباں مِرے آقا مِرے شاہا؛
نمایاں کر دیا سب فرق تُو نے کُفر و ایماں کا
نشانِ اہلِ سُنّت بن گئی نسبت بریلی کی
عجب بخشا تُجھے حق نے صلہ خدماتِ ذی شاں کا
زمانہ لاکھ کروٹ لے ہزاروں انقلاب آئیں
سدا جاری رہے گا تذکرہ اس زیبِ عنواں کا
ہو چاہے نقشبندی قادری چشتی سُہرورَدی
ہر اِک پر مُشترک سایہ ہے اس مہرِ درخشاں کا
مدد اے اعلیٰ حضرت اے مجدّد دین و ملّت کے
عدُو ہے چار سُو پھر سے شکاری دین و ایماں کا
ہے تیرے نام کی نسبت سے یہ مہجوؔر بھی رضوؔی
جہاں میں آج بھی جاری ہے تیرا بحر فیضاں کا