اے دوست میری فطرت شدت پسند کو

اختر کیراپی کے نام

 

اے دوست میری فطرت شدت پسند کو
آیا نہ راس ماتم آشفتہ خاطری
یہ نالہ و فغاں کا نہیں وقت بے خبر
دیکھ ہر طرف ہے شعلہ فشاں جنگ زرگری
جمہوریت کے نام پہ شخصی ضم کدے
اللہ رے فریب ترافن آزری
لیکن اٹھے گا ہے یہ یقیں اک خلیلِ خو
کھا کے رہے گی زنگ کسی دن یہ ساحری
مت فکر کر ہے دیر قدومِ کلیم کی
کب تک رہے گی شعبدہ بازئ سامری
مستانہ وارمایۂ ہستی لٹا کے دیکھ
ممکن نہیں پھر آنکھ کو بھائے سکندری
ہوتے ہیں اشک بھی کہیں مژدہ بہار کا
خون جگر سے ہوگی یہ کھیتی ہری بھری
کتنے ستارے موت کے دھارے میں بہہ گئے
تب جاکے بے حجاب ہوا حسن خاوری
ٹھوکر میں تخت و تاج ہے پتھر شکم یہ ہے
دیکھی نہیں ہے تو نے یہ شانِ قلندری
منت کشئ ساغر و مینا سے بازآ
ننگِ خودی ہے دوست یہ تیری گدا گری
للّٰلہ دیکھ چشم حقیقت شناس سے
پیارے اگر ہے کچھ تو اسی میں ہے بہتری
گر آرزو ہے تیری ملے زیست کا مزہ
طوفاں کی دیویوں کے گلے سے گلے ملا
مت توڑ فکر دور سے تو پشت حوصلہ
آلام کے پہاڑ سے اٹھ جوئے شیرلا

تجویزوآراء